نظامِ حکمرانی کے تضادات
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
یہ بات سوچنی ہوگی یا اس پر غور و فکر کیا جانا چاہیے، کیا وجہ ہے کہ ہم دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں سے سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں؟اجتماعی طور پر ہم کیوں بضد ہیں کہ وہی کام کریں گے جو ہمارے مسائل میں مزید اضافہ کرنے کا سبب بنے گا۔اس سوچ اور فکر کی وجہ سے سفید پوش لوگ حکومتی منصوبوں سے استفادہ حاصل کرنے کے لیے بھی تیارنہیں ہوتے۔بنیادی طور پر سیاسی جماعتوں کی قیادت کے پاس کوئی ایسا حکمرانی یا گورننس کا ماڈل نہیں ہے جس کو وہ عوام اور دنیا کے سامنے پیش کر سکیں۔
سیاسی جماعتوں کا کام اس پر بہت کمزور ہے بلکہ سول سوسائٹی کے بحث و مباحثہ میں بھی یہ موضوعات کم دیکھنے کو ملتے ہیں ۔میڈیا بھی مسائل کی نشاندہی تو ضرور کرتا ہے لیکن وہ اس بات کو نظر انداز کر رہا ہے کہ اصل وجوہات کیا ہیں۔ ہم گورننس کے نظام کوموثر نہیں بنا پارہے تو اس میں ہماری اپنی خامیاں کیا ہیں؟ انسانی ترقی یا انسانوں پر خرچ کرنے کی سوچ بہت کمزور نظر آتی ہے۔
عام آدمی کو ترقی کے نام پر خیراتی سوچ اور فکر کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے اور ایسے لگتا ہے جیسے ہم ان کی ترقی سے زیادہ ان کو بھکاری بنانا چاہتے ہیں۔ جب تک افرادکی ذاتی ترقی اور ریاست کے اختیارات کے درمیان توازن پیدا نہیں ہوگا ، اچھی حکمرانی کے تصور کو ممکن نہیں بنایا جاسکتا۔
یہ جو ہم نے عالمی سطح پر مختلف نوعیت کے معاہدے کیے ہوئے ہیں جس کا مقصد عام لوگوں کی ترقی ہے، وہ بھی اس وقت تک ممکن نہیں ہوگااگر ہم نے اپنی ترجیحات میں ایک مضبوط اور خود مختار مقامی حکومتوں کی اہمیت کو تسلیم نہیں کریں گے۔عورتیں، بچیاں، نوجوان، مزدور، کسان، اقلیتیں اور خواجہ سرا جو کمزور طبقات ہیں، ان کے مسائل پر توجہ نہ دینا بھی بری حکمرانی کے زمرے میں آتا ہے۔
اصل مسئلہ مرض کی درست تشخیص کا ہے، مرض کچھ اور ہے اور ہم اس کا علاج کچھ اور طریقے سے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔یہ بات سمجھنی ہوگی کہ صوبائی خود مختاری بھی اس وقت تک ممکن نہیں ہوتی جب تک اضلاع کو خود مختار نہیں کیا جاتا۔ہمارے جیسے ملکوں میں سیاسی اور سماجی سطح پر ایسی کوئی بھی تحریکیں نہیں ہیں جو حکمرانی کے نظام میں شفافیت کے سوالات اٹھائیں یا حکمرانوں کو مجبور کریں کہ وہ اپنی سمت درست کریں۔
ایک رد عمل کی سیاست ہے اور اسی رد عمل کے اندر ہی ہم حکمرانی کے نظام کو چلانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر ہماری ہر کوشش بے نتیجہ ثابت ہو رہی ہے۔
یہ جو ہم پاکستان میں سیاسی ،معاشی استحکام اور ادارہ جاتی توازن کی بات کر رہے ہیں، یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم حکمرانی سے جڑے مسائل کو اپنی سیاسی ترجیحات کا حصہ بنائیں۔ہمیں اپنی موجودہ ترجیحات کو بدلنا ہے اور اس میں بنیادی نوعیت کی تبد یلی کو تبدیلیوں کو لے کر آنا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کی سیاسی اشرافیہ یا طاقت کے مراکز اپنی طاقت اپنی طاقت چھوڑنے کے لیے تیار ہیں اور عام آدمی کو خود مختار بنانا چاہتے ہیں۔یہ وہ سوال ہے جو ہمارے ریاستی حکومتی اور سیاسی نظام کے دائرہ کار کے گرد گھوم رہاہے اور یہ عمل سنجیدگی کی بحث کا تقاضہ کرتا ہے۔
پراپیگنڈا مہم کی بنیاد پر ترقی کا ماڈل کچھ وقت کے لیے تو لوگوں پر اپنا اثر چھوڑتا ہے مگر طویل مدت کے لیے اس میں لوگوں کے لیے کوئی اچھائی کا پہلو نہیں ہے۔لوگوں کو لگتا ہے کہ ان کو بے وقوف بنایا گیا ہے اور سیاست کا نام ہی بے وقوف بنانا ہے۔
اچھی حکمرانی کا تصور سیاسی قیادت اور سیاسی جماعتوں کے اپنے اندر اصلاحات سے جڑا ہوا ہے۔محض حکمرانی کے نظام میں نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کے داخلی نظام میں جب تک اصلاحات نہیں ہوں گی اس وقت تک ہم بڑی تبدیلی کا عمل بھی نہیں دیکھ سکیں گے۔
اس وقت سیاسی جماعتوں کو یہ سمجھنا ہوگا اگر وہ اس نظام میں اپنی سیاسی بقا چاہتی ہیں تو ان کو گورننس کے نظام میں خودکو ایک بہتر ماڈل کے طور پر پیش کریں۔فرسودہ طور طریقے اور پرانے خیالات کے ساتھ وہ اب نئی نسل کو سیاست میں آپ نہ تو متاثر کرسکتے ہیں اور نہ ہی اپنے قریب لاسکتے ہیں۔
ماضی میں ہم نے حکومتی سطح پر گورننس کے نظام میں اصلاحات کے لیے کئی کمیشن بنائے اور ان کمیشنوں کی تجاویز پرمبنی کئی رپورٹس بھی منظر عام آئیںمگر کمزورسیاسی کمٹمنٹ، کمزور سیاسی نظام اور مخلوط حکومتیں اور درست سیاسی ترجیحات کا تعین سمیت مربوط منصوبہ بندی اوروسائل کی بہتر منصفانہ تقسیم،محاذآرائی یا سیاسی نظام کے عدم تسلسل نے وہ کچھ نہیں کیا جو اس ملک میں ہونا چاہیے تھا۔
پاکستان کو گورننس کے نظام میں بہتری کے لیے مضبوط سیاسی نظام اور ایسی حکومتیں درکار ہیںجوبڑے فیصلے کرسکیں کیونکہ کمزور اور اتحادیوں پرکھڑی حکومتیںبڑے فیصلے خود کرنے سے قاصر ہوتی ہیں اور آسانی سے سمجھوتوں کی سیاست کا شکار ہوتی ہیں۔
گورننس کے نظام میں ہماری ترجیحات میں بیوروکریسی اور پولیس،تعلیم، صحت ،انصاف،سماجی اور معاشی تحفظ،عام آدمی کی اداروں تک رسائی،شفافیت، جوابدہی ،احتساب اور کمزور طبقات کی ترقی کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا ہوگا۔گورننس کی خرابی کے ان غیر معمولی حالات میں غیرمعمولی اقدامات درکار ہیں۔
یہ جو شاہانہ اخراجات یاعیاشی پر مبنی نظام ہے، اس میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔پاکستان کا موجودہ انتظامی اور ادارہ جاتی ڈھانچہ کم ہونا چاہیے اور 18ویں ترمیم کے بعد وفاق میں وزارتوں کا بوجھ کم اورغیر ضروری وزارتوں کا خاتمہ،پہلے سے موجود اداروں کے مقابلے میں نئے اداروں کی تشکیل سمیت بڑے ترقیاتی منصوبوں کی پارلیمنٹ سے منظوری،چھوٹے اور دیہی ترقی کا جامع منصوبہ بندی،نئی نسل کے لیے روزگار پیدا کرنا اور بالخصوص ڈیجیٹل گورننس کے مسائل کا حل ہماری ترجیح ہونی چاہیے۔
آج کی گلوبل دنیا میں گورننس کی بنیاد پر ملکوں کی ترقی کی درجہ بندی کی جاتی ہے اور اسی بنیاد پر ہماری گورننس پربھی اعتراضات سامنے آتے ہیں یاہماری درجہ میں کمی دکھائی جاتی ہے۔یاد رکھیں گورننس سے مراد ایک ایسا نظام جو شفافیت کی بنیاد پر لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرے اور ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرے یا اس کی ریاستی نظام میں سیاسی،سماجی اور معاشی حیثیت کو مضبوط بنائے۔
یہ عمل ایک مکمل سیاسی اور جمہوری نظام کا پیکیج ہے جہاں سیاست،جمہوریت اور گورننس کے معاملات میں بہتری پیدا ہوتی ہے اور ترقی کے نئے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔گورننس کا بہتر نظام لوگوں کو مچھلیاں کھلانا نہیں بلکہ پکڑنا سکھاتا ہے تاکہ لوگ خود اپنے قدموں پر کھڑے ہوسکیں۔
اگر پاکستان میں سب ریاستی یا حکومتی ادارے اپنے اپنے سیاسی، قانونی اور انتظامی ڈھانچوں میں کام کرنا شروع کردیں تو ہم گورننس کے نظام میں بہتری کی طرف پیش رفت کو ممکن بناسکتے ہیں۔اگرچہ یہ کام مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔اصل مسئلہ جدید طرز کی حکمرانی اور دنیا کے بہتر تجربات سے خود کو جوڑنا ہے یا دنیا کے تجربات سے سیکھ کر اپنی اصلاح کرنا ہے۔گورننس کے موجودہ نظام کے مقابلے میںاب ایک نیا نظام ہماری ضرورت بن گیا ہے اور جتنی جلدی ہم اجتماعی طور پر یہ با ت سمجھ سکیں ہمارے حق میں بہتر ہوگا۔
لیکن اگر ہم یہ سب کچھ نہیں کرتے تو پرانے نظام کی سیاسی ضد گورننس کے نظام میں مزید خرابیوں کو جنم دے گی۔یہ سب کچھ اس لیے ہوگا کہ ہماری ریاست ، سیاسی اشرافیہ اور حکمران طبقات کسی بڑی تبدیلی کے لیے تیار نہیں اور اس کی بھاری قیمت ریاست عوام سمیت کمزور طبقات کو ادا کرنا پڑرہی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: گورننس کے نظام میں سیاسی جماعتوں حکمرانی کے سیاسی نظام ممکن نہیں بنیاد پر میں بہتر ہیں اور کی ترقی کے لیے ہے اور اور اس
پڑھیں:
کمالیت پسندی: خوبی، خامی یا ایک نفسیاتی مرض!
ہماری روزمرہ کی زندگی اور معاشرتی اقدار میں ’’کمالیت پسندی‘‘ یا "Perfectionism" کو اکثر ایک خوبی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ایک ایسا شخص جو اپنے ہر کام کو نہایت نفاست، محنت اور بے عیب طریقے سے انجام دینے کی کوشش کرتا ہے، اسے قابلِ تعریف اور کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ اسکول کے ذہین ترین طالب علم سے لے کر دفتر کے سب سے قابل ملازم تک، کمالیت پسندی کو کامیابی کا زینہ قرار دیا جاتا ہے۔
لیکن کیا ہو اگر کامیابی کی یہ بظاہر چمکتی ہوئی سیڑھی درحقیقت ایک پھسلن بھری ڈھلوان ہو جو انسان کو ذہنی اور نفسیاتی بیماریوں کی گہری کھائی میں دھکیل دے؟ جدید نفسیاتی تحقیقات اور عالمی ماہرین کی آراء اس سکے کا ایک دوسرا، تاریک رُخ پیش کرتی ہیں، جس کے مطابق کمالیت پسندی ایک خوبی سے بڑھ کر ایک سنگین نفسیاتی مرض بھی بن سکتی ہے۔
یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہر قسم کی کمالیت پسندی نقصان دہ نہیں۔ ماہرینِ نفسیات صحت مند (Adaptive) اور غیر صحت مند (Maladaptive) کمالیت پسندی میں واضح فرق کرتے ہیں۔ صحت مند کمالیت پسندی میں انسان اپنی ذات سے بہترین کارکردگی کی توقع رکھتا ہے، محنت کرتا ہے، اور ناکامی کو سیکھنے کا ایک موقع سمجھتا ہے۔ اس کے برعکس، غیر صحت مند کمالیت پسندی ایک جنون کی شکل اختیار کر لیتی ہے جہاں انسان خود سے غیر حقیقی اور ناقابلِ حصول معیار وابستہ کر لیتا ہے۔ یہاں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی، اور ہر چھوٹی سی خامی بھی ذاتی ناکامی اور بے وقعتی کے شدید احساسات کو جنم دیتی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں یہ خوبی ایک مرض کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔
نفسیات کے موضوع پر دنیا کی مقبول ترین ویب سائٹ ’’سائیکالوجی ٹوڈے‘‘ (Psychology Today) کا کہنا کہ غیر صحت مند کمالیت پسندی محض ایک بری عادت نہیں، بلکہ یہ کئی ذہنی بیماریوں کی جڑ ہے۔
’’سائیکالوجی ٹوڈے‘‘ کے ایک مضمون بعنوان "The Dangers of Perfectionism" میں بتایا گیا ہے کہ کمالیت پسند افراد اپنی زندگی کو ایک ایسی رپورٹ کارڈ کی طرح دیکھتے ہیں جس میں ہر حال میں ’’A+‘‘ گریڈ حاصل کرنا لازمی ہے۔ اس مضمون میں واضح کیا گیا ہے کہ ’’کمال‘‘ یا "Perfection" حقیقت میں ایک ناممکن الحصول تصور ہے۔ اس کے پیچھے بھاگنے والے افراد شدید ذہنی دباؤ، اضطراب (Anxiety)، ڈپریشن، اور Obsessive-Compulsive Disorder (OCD) جیسی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔
مضمون کے مطابق کمالیت پسندوں کی سب سے بڑی جنگ کامیابی حاصل کرنا نہیں، بلکہ ناکامی سے بچنا ہوتی ہے۔ ناکامی کا خوف ان پر اس قدر حاوی ہو جاتا ہے کہ وہ اکثر کام شروع ہی نہیں کر پاتے، اس کیفیت کو نفسیات میں "Procrastination" یا ٹال مٹول کی عادت کہا جاتا ہے۔ انہیں ڈر ہوتا ہے کہ اگر وہ کام شروع کریں گے اور اسے پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے تو یہ ان کی ذات پر ایک بدنما داغ ہوگا۔
ایک اور تجزیے میں، جو "What Is Maladaptive Perfectionism?" میں بتایا گیا ہے کہ اس مرض کی بنیاد اکثر بچپن کے تلخ تجربات، والدین کی بے جا توقعات اور احساسِ کمتری پر ہوتی ہے۔ ایسے افراد اپنی قدر و قیمت کا تعین اپنی کامیابیوں اور کارکردگی کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ وہ غیر مشروط محبت پر یقین نہیں رکھتے اور انہیں ہر وقت یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ اگر وہ کامل نہیں ہوں گے تو لوگ انہیں قبول نہیں کریں گے۔ اس مضمون میں کمالیت پسندی کی چند واضح علامات کا ذکر کیا گیا ہے، جیسے "All-or-None Thinking" یعنی ’’سب کچھ یا کچھ نہیں‘‘ کی سوچ۔ ان کے لیے کوئی بھی کام یا تو مکمل طور پر بہترین ہوتا ہے یا مکمل طور پر ناکارہ۔ درمیان کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔
عالمی ماہرینِ نفسیات کی مستند آرا
جب ہم کمالیت پسندی پر ہونے والی عالمی تحقیق پر نظر ڈالتے ہیں تو دو نام سب سے نمایاں نظر آتے ہیں: کینیڈا کے ماہرینِ نفسیات ڈاکٹر گورڈن فلیٹ (Dr. Gordon Flett) اور ڈاکٹر پال ہیوٹ (Dr. Paul Hewitt)۔ ان دونوں محققین نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ کمالیت پسندی کی نفسیات کو سمجھنے اور اس کے علاج کے طریقے وضع کرنے میں صرف کیا ہے۔
ڈاکٹر فلیٹ، جو کینیڈا کی یارک یونیورسٹی میں نفسیات کے پروفیسر ہیں، اور ڈاکٹر ہیوٹ، جو برٹش کولمبیا یونیورسٹی میں کلینیکل سائیکالوجی کے پروفیسر ہیں، نے اپنی دہائیوں پر محیط تحقیق کے بعد کمالیت پسندی کا ایک کثیر جہتی ماڈل (Multidimensional Model) پیش کیا۔ ان کی مشترکہ تصنیف "Perfectionism: A Relational Approach to Conceptualization, Assessment, and Treatment" کو اس میدان میں ایک سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ ان کے مطابق، کمالیت پسندی کی تین بڑی اقسام ہیں:
* ذات پر مبنی کمالیت پسندی (Self-Oriented Perfectionism): اس میں فرد خود اپنے لیے انتہائی بلند اور غیر حقیقی معیار مقرر کرتا ہے اور انہیں حاصل نہ کر پانے پر شدید خود تنقیدی کا شکار ہوتا ہے۔
* دوسروں پر مبنی کمالیت پسندی (Other-Oriented Perfectionism): اس قسم میں فرد اپنے اردگرد کے لوگوں، جیسے خاندان، دوستوں یا ساتھ کام کرنے والوں سے کامل ہونے کی غیر حقیقی توقعات وابستہ کرتا ہے۔ جب دوسرے اس کے معیار پر پورا نہیں اترتے تو وہ غصے، مایوسی اور رشتوں میں تناؤ کا شکار ہوتا ہے۔
* معاشرتی طور پر مسلط کردہ کمالیت پسندی (Socially Prescribed Perfectionism): ڈاکٹر فلیٹ اور ہیوٹ کے مطابق، یہ کمالیت پسندی کی سب سے خطرناک اور زہریلی قسم ہے۔ اس میں فرد یہ سمجھتا ہے کہ معاشرہ، یا اس کے اردگرد کے اہم لوگ اس سے کامل ہونے کی توقع رکھتے ہیں اور وہ ان توقعات کو پورا کرنے کے لیے شدید دباؤ محسوس کرتا ہے۔ اسے ہر وقت یہ خوف رہتا ہے کہ اگر اس سے کوئی غلطی ہوئی تو اسے شدید تنقید، مسترد کیے جانے یا سماجی بے وقعتی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اپنی تحقیق میں ڈاکٹر فلیٹ نے واضح طور پر کہا ہے کہ ’’معاشرتی طور پر مسلط کردہ کمالیت پسندی کا تعلق براہِ راست ناامیدی، ڈپریشن اور یہاں تک کہ خودکشی کے خیالات سے پایا گیا ہے۔‘‘
امریکن سائیکولوجیکل ایسوسی ایشن (APA) کے ایک پوڈکاسٹ انٹرویو میں، ڈاکٹر گورڈن فلیٹ نے اس بات پر زور دیا کہ ’’کمالیت پسند افراد کامیابی سے لطف اندوز نہیں ہوپاتے، کیونکہ جیسے ہی وہ ایک ہدف حاصل کرتے ہیں، وہ فوراً اگلے، اس سے بھی زیادہ مشکل ہدف کی طرف دیکھنے لگتے ہیں۔ وہ کبھی بھی اپنی کامیابی پر مطمئن نہیں ہوتے اور ایک مستقل بے چینی کی حالت میں رہتے ہیں۔‘‘
کمالیت پسندی کے جسمانی اور ذہنی اثرات
جب ذہن مسلسل ’’کامل‘‘ ہونے کی جنگ میں مبتلا ہو تو اس کے اثرات صرف نفسیات تک محدود نہیں رہتے بلکہ جسم پر بھی ظاہر ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔
* دائمی ذہنی دباؤ (Chronic Stress): ہر وقت بہترین کارکردگی دکھانے کا دباؤ جسم میں کورٹیسول (Cortisol) جیسے اسٹریس ہارمونز کی سطح کو بلند رکھتا ہے، جس سے بلڈ پریشر اور دل کی بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
* اضطراب اور ڈپریشن: ناکامی کا خوف اور مسلسل خود تنقیدی اضطراب کی کیفیات کو جنم دیتی ہے اور جب انسان اپنے غیر حقیقی معیار پر پورا نہیں اتر پاتا تو وہ شدید مایوسی اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے۔
* بے خوابی (Insomnia): کمالیت پسند افراد اکثر راتوں کو اپنی غلطیوں اور ناکامیوں کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی نیند بری طرح متاثر ہوتی ہے۔
* سماجی تنہائی: دوسروں سے غیر حقیقی توقعات اور اپنی ذات میں ہر وقت نقص نکالنے کی عادت انہیں سماجی طور پر الگ تھلگ کر دیتی ہے۔ وہ رشتوں میں بھی کمال تلاش کرتے ہیں جو کہ ناممکن ہے، اور نتیجتاً تنہا رہ جاتے ہیں۔
اس قید سے رہائی کیسے ممکن ہے؟
اگر آپ خود میں یا اپنے کسی پیارے میں غیر صحت مند کمالیت پسندی کی علامات پاتے ہیں تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ کوئی ناقابلِ علاج مرض نہیں۔ چند ٹھوس اقدامات اور سوچ میں تبدیلی سے اس کے شکنجے سے آزاد ہوا جا سکتا ہے:
* حقیقت پسندانہ اہداف مقرر کریں: اپنے لیے قابلِ حصول اہداف مقرر کریں۔ سمجھیں کہ انسان ہونے کے ناتے غلطیاں اور خامیاں زندگی کا حصہ ہیں۔
* خود پر رحم کریں (Self-Compassion): ناکامی پر خود کو کوسنے کے بجائے خود سے ہمدردی برتیں۔ اپنی کوشش کو سراہیں۔
* عمل پر توجہ دیں، نتیجے پر نہیں: اپنی توجہ صرف حتمی نتیجے کے بجائے کام کے عمل سے لطف اندوز ہونے پر مرکوز کریں۔
* غلطیوں کو سیکھنے کا موقع سمجھیں: ہر غلطی ایک سبق ہے۔ اسے اپنی بے وقعتی کا ثبوت سمجھنے کے بجائے مستقبل میں بہتر ہونے کا ایک ذریعہ سمجھیں۔
* ماہرانہ مدد حاصل کریں: اگر یہ کیفیت آپ کی روزمرہ زندگی، کام اور رشتوں کو بری طرح متاثر کر رہی ہے تو کسی ماہرِ نفسیات یا کاؤنسلر سے رابطہ کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔ کوگنیٹو بیہیویورل تھراپی (CBT) جیسی تکنیکس اس مرض پر قابو پانے میں انتہائی مؤثر ثابت ہوئی ہیں۔
بلاشبہ، بہتری کی جستجو اور اپنے کام میں نفاست پیدا کرنا ایک مثبت عمل ہے، لیکن جب ’’بہترین‘‘ کی تلاش ’’کامل‘‘ ہونے کے جنون میں بدل جائے اور انسان کی ذہنی سکون اور خوشی کو نگلنے لگے، تو یہ لمحہ فکریہ ہے۔ زندگی نام ہی نامکمل ہونے کا ہے اور اس کی خوبصورتی اسی میں ہے کہ ہم اپنی خامیوں کو قبول کر کے آگے بڑھیں۔ کامل ہونے کی کوشش میں ایک بے چین اور ناخوش انسان بننے سے کہیں بہتر ہے کہ ایک خوش اور مطمئن ’’نامکمل‘‘ انسان بن کر جیا جائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔