Express News:
2025-06-09@19:15:58 GMT

فلسفیانہ سوچ کی حامل شاعرہ… ڈاکٹر صغریٰ صدف

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

ڈاکٹر صغریٰ صدف ایک ہمہ گیر اور ہمہ جہت خاتون ہیں۔ وہ بیک وقت شاعرہ، ادیبہ، مدیرہ، نظامت کار، براڈ کاسٹر، فلسفی دانشور، منتظم اور بیورو کریٹ ہیں اور آج کل وجدان ادبی، ثقافتی تنظیم سے منسلک ہیں۔

اس سے قبل وہ پنجابی ادب و ثقافت اور فنون کی بہترین اور ترویج کے لیے کوشاں سرکاری ادارے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگوئج، آرٹ اینڈ کلچر (پلاک) کی ڈائریکٹر جنرل کے طور پر اپنی ذمے داریاں بہ حسن و خوبی نبھا چکی ہیں۔

ڈاکٹر صغریٰ صدف ادب و ثقافت کا وہ روشن نام ہیں جو اپنے اشعار میں بہت دبنگ نظر آتی ہیں۔ ان کی شاعری کا بنیادی موضوع بہت سے شعرا کی طرح محبت ہیں، ان کی پُرکشش شخصیت کا اصلی جوہر ان کے ہاں محبت کے بہت سے ایسے چراغ روشن ہیں جن کی روشنی کے رنگ مختلف انداز میں رقص کرتے ہوئے ہوائوں کے مقابل جلنے کا عزم رکھتے ہیں۔

ان کا غزلیات پر مبنی شعری مجموعہ ’’ وعدہ ‘‘ ان کے مزاج کے تمام پہلوئوں کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کی شاعری کو سمجھنے کے لیے کسی خاص تگ و دو کی بجائے ان کے مزاج کے موسموں سے آشنا ہونے کی ضرورت ہیں، وہ اپنے اندر کے موسم کا بدلتا ہُوا منظر بیان نہیں ہونے دیتیں مگر وہی اس بات کا اظہار یوں لفظوں میں کرتی دکھائی دیتی ہیں۔

حال اندر کا جانتا ہے وہ

کون کرتا ہے مخبری میری

ڈاکٹر صغرا صدف خوبصورت شعر کہتی ہیں، ان کی حمد بھی بندگی تمثال اور نعت بھی عقیدت بھری!

رہوں میں حرفِ اماں کے حصار میں آقاؐ

صدفؔ ہوں، مجھ کو ثنا کا گہر عطا کردے

ڈاکٹر صاحبہ کی حمد و نعت کے علاوہ غزلیات میں ایسی دلکشی دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ وہ الفاظ کی مالا موتیوں کی مانند پرونے کا ہنر بخوبی جانتی ہیں۔

ان کی بعض غزلوں میں کہیں جسم و جاں پہ اَن دیکھا خوف طاری تو کہیں آنکھوں کے آئینے میں سنوارنے کی خواہش تو کہیں وصالِ ہجر کا دُکھ تو کہیں ہاتھوں سے ٹوٹے ہوئے آئینوں میں بکھرے ہوئے چہرے تو خون میں نہاتی ہوئی وادیوں کی جھلک، توکہیں صحن وطن میں اندھیروں کا سناٹا، تو کہیں بے خواب موسموں میں لیے ہوئے قافلوں کا منظر تو کہیں بے نام خیالوں کی تجسیم، توکہیں جینے کہیں مرنے اورکہیں تلخ یادوں کے ڈرنے کا خوف توکہیں محبت کا ادھورا سفر، توکہیں خوشبو کی کہانی، توکہیں خزاں رسیدہ شجر، تو کہیں درد آشنا کا غم، شدتِ جذبات کی تڑپ، تو کہیں زندہ رہنے کی خواہش میں شہرِ آرزو میں ایک گھر بنانے کی چاہ، تو کہیں احساس کے لفظوں کے چھوتے ہوئے نشتر تو دوسری طرف تتلیاں پھول جگنو اور ستاروں کے علاوہ بے جاں خواب تو کہیں بے بس ذات ، تو کہیں عشق کا معیار تو کہیں تنہائی میں اشک بہانا تو کہیں شہر ظلمت کا احوال ان کے کلام میں جا بجا پڑھنے کو ملتا ہے۔

جس کے باعث شہر، ظلمت کے حوالے ہو گئے

ہم کبھی شامل نہیں تھے وقت کی اس چال میں

ڈاکٹر صاحبہ کی شاعری میں یہ تمام وارداتیں موجودہ حالات کی عکاس ہیں۔ اس حوالے سے اُن کے نزدیک احساس کے نازک رخساروں پر بے رحم وقت کے طمانچوں سے پیدا ہونے والی آہ شاعری ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب کا نام ’’وعدہ‘‘ رکھا ہے۔

جس میں وہ اپنی رائے میں لکھتی ہیں کہ ’’ میں بیک وقت دو جہانوں کی باسی ہوں ایک مادی دنیا اور دوسری تخیل کی دنیا، جس کی میں خود خالق ہوں۔ جس میں میرا اپنا راج قائم ہے۔ ظاہری دنیا کے ناموافق حالات سے گھبرا جائوں تو باطنی دنیا میں بسیرا کر لیتی ہوں۔ نفع ونقصان اور علت و معلول میں جکڑی دنیا میرے خوابوں کا محور نہیں ہو سکتی۔

میری بے چینی کا سبب یہی ہے کہ میں دو دنیائوں کی مسافر ہوں۔ اپنے چین کے لیے میں ان دونوں دنیائوں کو ایک بنانے کا جتن کرتی ہوں جہاں صرف محبت اور خیرکی جستجوکی جائے کیونکہ میرا سفر تو محبت اور خیر کی جستجو کا سفر ہے۔‘‘

خوشبو بنا دیا ہے محبت کی لہر کو

پرواز میری دیکھ کے دنیا ہوئی ہے دنگ

ڈاکٹر صاحبہ ایک باوقار اور با شعور شاعرہ ہیں جو انسانی نیکی و بدی کا شعور رکھتی ہیں۔ وہ عاجز و انکساری سے کام لیتے ہوئے دوسروں کے کام آنا اپنی عبادت سمجھتی ہیں۔ وہ ایک بے نیاز دردِ دل رکھتے ہوئے ہزاروں دعائوں کی طلب گار رکھتی ہے۔

کسی فقیر کو اک سکہ دے کے سوچتی ہوں

کہ میرے حق میں ہزاروں کی وہ دعا کردے

ڈاکٹر صغریٰ صدف شاعری کے علاوہ کالم نگاری اور پنجابی کہانی اور تحقیق و تنقید میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکی ہیں۔ وہی وہ دنیا بھر کی ادبی کانفرنسوں اور مشاعروں میں شرکت کر چکی ہیں۔ بہرحال انھوں نے اپنے شعری مجموعہ ’’وعدہ‘‘ کا انتساب اپنی بیٹی پریا کے نام کیا ہے۔اس کتاب کا ٹائٹل ڈاکٹر صاحبہ کی سادگی کو نمایاں کرتا ہے۔ ان کا پسندیدہ شعر دیکھی۔

 قطرے سے میں بنوں گی سمندر مگر صدفؔ

یہ شرط ہے وہ جاں سے گزرنے تو دے مجھے

سمندر اور صدف (سیپ) کا بہت ساتھ ہے۔ لغت کے اعتبار سے صدف عربی زبان کا لفظ ہے۔ جس کے معنی یہ بھی ہے کہ ’’ سمندری گھونگا جس میں سے موتی نکلتا ہے۔‘‘ اس کے علاوہ بلند عمارت، دیوار یا پہاڑ کو بھی صدف کہتے ہیں۔ اس حوالے سے ’’وعدہ‘‘ کی شاعرہ ڈاکٹر صغرا صدف کی شاعری کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی شاعری پہاڑکی بلند چوٹی کے مانند ہے۔

اصل میں صدف کے بنیادی معنی جھکائوکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بلندی اور جھکائو ان کی ذات اور شاعری میں ایک ساتھ چلتے ہیں۔

لکھی ہے اس کے واسطے میں نے صدفؔ غزل

ہر حرف جس کے واسطے حرفِ دعا ہوا

وہی وہ لکھتی ہیں کہ

مرے سخن سے پرندے کلام کرتے ہیں

تو خامشی کو مری بے بسی شمار نہ کر

ڈاکٹر صغریٰ صدف کی شاعری کا جہاں محبت موضوع ہے، وہیں ان کا بنیادی مضمون فلسفہ ہے جس میں انھوں نے ڈاکٹریٹ کر رکھا ہے، اس لیے ان کی شاعری میں فلسفیانہ انداز کا در آنا حیرت کا باعث ٹھہرتا ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں بہت سی چیزوں کو ایک فلسفی کی آنکھ سے دیکھنے اور ان پر غور و فکر کرنے کے لیے بہت سے نکتے بھی بیان کیے ہیں۔

 اسی لیے ان کے شعری مجموعہ ’’وعدہ‘‘ میں پختگی اور اعتماد جیسی کیفیات اُسے ثابت قدم رہنے کا حوصلہ دیتی ہیں،کیوں کہ وہ وعدہ کرنا اور اُسے نبھانا بھی خوب جانتی ہیں۔ منیر نیازی کے اس شعر کے مصداق:

جانتے تھے دونوں ہم اس کو نبھا سکتے نہیں

اس نے وعدہ کر لیا میں نے بھی وعدہ کر لیا

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ڈاکٹر صاحبہ ان کی شاعری ڈاکٹر صغری کے علاوہ انھوں نے کے لیے

پڑھیں:

پاکستانی سائنسدانوں نے اے آئی جیو سائنس کے حوالے سے اہم اعزاز حاصل کرلیے

معروف جیو سائنس اور ٹیکنالوجی کمپنی ایل ایم کے آر کو رواں سال کے اینول ٹیکنیکل کانفرنس (ATC) 2024 میں اے آئی جیو سائنس کے حوالے سے اہم اعزاز سے نوازا گیا۔ کانفرنس میں ایل ایم کے آر کی طرف سے تحقیقاتی مقالوں کی قیادت ڈاکٹر عمر منظور نے کی۔

یہ بھی پڑھیں: 18 کروڑ سے زیادہ صارفین کے پاسورڈ اور حساس معلومات چوری، فوری کیا اقدامات کرنے چاہییں؟

کمپنی کی 2 تحقیقاتی رپورٹس کو انقلابی نوعیت کی سائنسی تحقیق پر اعلیٰ اعزازات حاصل ہوئے۔ یہ کامیابیاں اس بات کی مظہر ہیں کہ ایل ایم کے آر کس طرح مصنوعی ذہانت کو جیو سائنس میں ضم کرکے توانائی کے شعبے کے پیچیدہ مسائل کے حل میں قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے۔

ان تحقیقی مقالوں کی قیادت ڈاکٹر عمر منظور نے کی جبکہ ان میں کمپنی کے اندرونی ماہرین کی ٹیم نے معاونت فراہم کی جو جیو سائنس اور اے آئی میں مہارت رکھتے ہیں۔ اعزاز یافتہ تحقیقی مقالات میں ہائی ریزولوشن ماڈلنگ برائے غیر یکساں ریزروائرز میں ڈیپ لرننگ کا استعمال، جدید مشین لرننگ تکنیک کے ذریعے CO₂ اسٹوریج کا جدید تجزیہ شامل ہیں ۔

ڈاکٹر عمر منظور

یہ تحقیقاتی مطالعات اس بات کو اجاگر کرتے ہیں کہ پائیدار توانائی کی ترقی کے تناظر میں کس طرح ڈیپ لرننگ اور مشین لرننگ جیسے جدید ترین طریقے توانائی کے شعبے میں پیچیدہ مسائل کے سائنسی حل فراہم کر سکتے ہیں۔

یہ تحقیقاتی کام ایک ٹیم ورک کا نتیجہ ہے جس میں مُیسر حسین، محمد خضر افتخار، فاروق ارشد، وجیہہ خان، صہیب ضیاء، اور فرمان اللہ شامل ہیں جنہوں نے ڈاکٹر منظور کی نگرانی میں یہ تحقیقی کام انجام دیا۔

ایل ایم کے آرکے ترجمان نے کہا کہ یہ اعزاز ہماری تکنیکی مہارت اور جیو سائنس میں جدت پسندی سے وابستگی کا ثبوت ہے۔

مزید پڑھیے: دنیا کی پہلی روبوٹ فائٹ: پہلوانوں کے تابڑ توڑ حملوں، ناک آؤٹس نے سب کو حیران کردیا

انہوں نے کہا کہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہماری ٹیمیں مصنوعی ذہانت کے ذریعے توانائی کے شعبے کا مستقبل تشکیل دے رہی ہیں۔

کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ باہمی اشتراک، جدت اور سائنسی تحقیق کی ثقافت کو فروغ دیتی ہے اور ان باصلاحیت دماغوں کی پشت پناہی جاری رکھے گی جنہوں نے اس شاندار کامیابی کو ممکن بنایا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ایل ایم کے آر اے آئی جیو سائنس اے ٹی سی 2024 ڈاکٹر عمر منظور

متعلقہ مضامین

  • مسئلہ کشمیر پر ڈونلڈ ٹرمپ اپنا وعدہ پورا کریں گے، بلاول بھٹو
  • پاکستان میں شعبہ صحت کا بحران:ساڑھے 7 لاکھ افراد کیلیے صرف ایک ڈاکٹر
  • وقت ایک نہیں بلکہ تین سمتوں کا حامل ہے، نئی تحقیق
  • شیخ محمد العیسی کی پاکستان کے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے ملاقات
  • برف میں جما گوشت گھنٹوں کے بجائے منٹوں میں کیسے پگھلائیں؟ طریقہ جانیں
  • عید کے بعد سپریم کورٹ میں سیاسی مضمرات کے حامل کونسے مقدمات زیر سماعت آئیں گے؟
  • پاکستانی سائنسدانوں نے اے آئی جیو سائنس کے حوالے سے اہم اعزاز حاصل کرلیے
  • عید پر گوشت کا استعمال اور صحت کا خیال کیسے رکھا جائے؟
  • ڈاکٹر، مگر کونسا؟
  • وزیراعلیٰ نے لاہور میں عالمی معیار کی ’’میٹ مارکیٹ‘‘ کا وعدہ پورا کر دیا