Express News:
2025-04-25@11:16:59 GMT

فلسفیانہ سوچ کی حامل شاعرہ… ڈاکٹر صغریٰ صدف

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

ڈاکٹر صغریٰ صدف ایک ہمہ گیر اور ہمہ جہت خاتون ہیں۔ وہ بیک وقت شاعرہ، ادیبہ، مدیرہ، نظامت کار، براڈ کاسٹر، فلسفی دانشور، منتظم اور بیورو کریٹ ہیں اور آج کل وجدان ادبی، ثقافتی تنظیم سے منسلک ہیں۔

اس سے قبل وہ پنجابی ادب و ثقافت اور فنون کی بہترین اور ترویج کے لیے کوشاں سرکاری ادارے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگوئج، آرٹ اینڈ کلچر (پلاک) کی ڈائریکٹر جنرل کے طور پر اپنی ذمے داریاں بہ حسن و خوبی نبھا چکی ہیں۔

ڈاکٹر صغریٰ صدف ادب و ثقافت کا وہ روشن نام ہیں جو اپنے اشعار میں بہت دبنگ نظر آتی ہیں۔ ان کی شاعری کا بنیادی موضوع بہت سے شعرا کی طرح محبت ہیں، ان کی پُرکشش شخصیت کا اصلی جوہر ان کے ہاں محبت کے بہت سے ایسے چراغ روشن ہیں جن کی روشنی کے رنگ مختلف انداز میں رقص کرتے ہوئے ہوائوں کے مقابل جلنے کا عزم رکھتے ہیں۔

ان کا غزلیات پر مبنی شعری مجموعہ ’’ وعدہ ‘‘ ان کے مزاج کے تمام پہلوئوں کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کی شاعری کو سمجھنے کے لیے کسی خاص تگ و دو کی بجائے ان کے مزاج کے موسموں سے آشنا ہونے کی ضرورت ہیں، وہ اپنے اندر کے موسم کا بدلتا ہُوا منظر بیان نہیں ہونے دیتیں مگر وہی اس بات کا اظہار یوں لفظوں میں کرتی دکھائی دیتی ہیں۔

حال اندر کا جانتا ہے وہ

کون کرتا ہے مخبری میری

ڈاکٹر صغرا صدف خوبصورت شعر کہتی ہیں، ان کی حمد بھی بندگی تمثال اور نعت بھی عقیدت بھری!

رہوں میں حرفِ اماں کے حصار میں آقاؐ

صدفؔ ہوں، مجھ کو ثنا کا گہر عطا کردے

ڈاکٹر صاحبہ کی حمد و نعت کے علاوہ غزلیات میں ایسی دلکشی دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ وہ الفاظ کی مالا موتیوں کی مانند پرونے کا ہنر بخوبی جانتی ہیں۔

ان کی بعض غزلوں میں کہیں جسم و جاں پہ اَن دیکھا خوف طاری تو کہیں آنکھوں کے آئینے میں سنوارنے کی خواہش تو کہیں وصالِ ہجر کا دُکھ تو کہیں ہاتھوں سے ٹوٹے ہوئے آئینوں میں بکھرے ہوئے چہرے تو خون میں نہاتی ہوئی وادیوں کی جھلک، توکہیں صحن وطن میں اندھیروں کا سناٹا، تو کہیں بے خواب موسموں میں لیے ہوئے قافلوں کا منظر تو کہیں بے نام خیالوں کی تجسیم، توکہیں جینے کہیں مرنے اورکہیں تلخ یادوں کے ڈرنے کا خوف توکہیں محبت کا ادھورا سفر، توکہیں خوشبو کی کہانی، توکہیں خزاں رسیدہ شجر، تو کہیں درد آشنا کا غم، شدتِ جذبات کی تڑپ، تو کہیں زندہ رہنے کی خواہش میں شہرِ آرزو میں ایک گھر بنانے کی چاہ، تو کہیں احساس کے لفظوں کے چھوتے ہوئے نشتر تو دوسری طرف تتلیاں پھول جگنو اور ستاروں کے علاوہ بے جاں خواب تو کہیں بے بس ذات ، تو کہیں عشق کا معیار تو کہیں تنہائی میں اشک بہانا تو کہیں شہر ظلمت کا احوال ان کے کلام میں جا بجا پڑھنے کو ملتا ہے۔

جس کے باعث شہر، ظلمت کے حوالے ہو گئے

ہم کبھی شامل نہیں تھے وقت کی اس چال میں

ڈاکٹر صاحبہ کی شاعری میں یہ تمام وارداتیں موجودہ حالات کی عکاس ہیں۔ اس حوالے سے اُن کے نزدیک احساس کے نازک رخساروں پر بے رحم وقت کے طمانچوں سے پیدا ہونے والی آہ شاعری ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب کا نام ’’وعدہ‘‘ رکھا ہے۔

جس میں وہ اپنی رائے میں لکھتی ہیں کہ ’’ میں بیک وقت دو جہانوں کی باسی ہوں ایک مادی دنیا اور دوسری تخیل کی دنیا، جس کی میں خود خالق ہوں۔ جس میں میرا اپنا راج قائم ہے۔ ظاہری دنیا کے ناموافق حالات سے گھبرا جائوں تو باطنی دنیا میں بسیرا کر لیتی ہوں۔ نفع ونقصان اور علت و معلول میں جکڑی دنیا میرے خوابوں کا محور نہیں ہو سکتی۔

میری بے چینی کا سبب یہی ہے کہ میں دو دنیائوں کی مسافر ہوں۔ اپنے چین کے لیے میں ان دونوں دنیائوں کو ایک بنانے کا جتن کرتی ہوں جہاں صرف محبت اور خیرکی جستجوکی جائے کیونکہ میرا سفر تو محبت اور خیر کی جستجو کا سفر ہے۔‘‘

خوشبو بنا دیا ہے محبت کی لہر کو

پرواز میری دیکھ کے دنیا ہوئی ہے دنگ

ڈاکٹر صاحبہ ایک باوقار اور با شعور شاعرہ ہیں جو انسانی نیکی و بدی کا شعور رکھتی ہیں۔ وہ عاجز و انکساری سے کام لیتے ہوئے دوسروں کے کام آنا اپنی عبادت سمجھتی ہیں۔ وہ ایک بے نیاز دردِ دل رکھتے ہوئے ہزاروں دعائوں کی طلب گار رکھتی ہے۔

کسی فقیر کو اک سکہ دے کے سوچتی ہوں

کہ میرے حق میں ہزاروں کی وہ دعا کردے

ڈاکٹر صغریٰ صدف شاعری کے علاوہ کالم نگاری اور پنجابی کہانی اور تحقیق و تنقید میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکی ہیں۔ وہی وہ دنیا بھر کی ادبی کانفرنسوں اور مشاعروں میں شرکت کر چکی ہیں۔ بہرحال انھوں نے اپنے شعری مجموعہ ’’وعدہ‘‘ کا انتساب اپنی بیٹی پریا کے نام کیا ہے۔اس کتاب کا ٹائٹل ڈاکٹر صاحبہ کی سادگی کو نمایاں کرتا ہے۔ ان کا پسندیدہ شعر دیکھی۔

 قطرے سے میں بنوں گی سمندر مگر صدفؔ

یہ شرط ہے وہ جاں سے گزرنے تو دے مجھے

سمندر اور صدف (سیپ) کا بہت ساتھ ہے۔ لغت کے اعتبار سے صدف عربی زبان کا لفظ ہے۔ جس کے معنی یہ بھی ہے کہ ’’ سمندری گھونگا جس میں سے موتی نکلتا ہے۔‘‘ اس کے علاوہ بلند عمارت، دیوار یا پہاڑ کو بھی صدف کہتے ہیں۔ اس حوالے سے ’’وعدہ‘‘ کی شاعرہ ڈاکٹر صغرا صدف کی شاعری کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی شاعری پہاڑکی بلند چوٹی کے مانند ہے۔

اصل میں صدف کے بنیادی معنی جھکائوکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بلندی اور جھکائو ان کی ذات اور شاعری میں ایک ساتھ چلتے ہیں۔

لکھی ہے اس کے واسطے میں نے صدفؔ غزل

ہر حرف جس کے واسطے حرفِ دعا ہوا

وہی وہ لکھتی ہیں کہ

مرے سخن سے پرندے کلام کرتے ہیں

تو خامشی کو مری بے بسی شمار نہ کر

ڈاکٹر صغریٰ صدف کی شاعری کا جہاں محبت موضوع ہے، وہیں ان کا بنیادی مضمون فلسفہ ہے جس میں انھوں نے ڈاکٹریٹ کر رکھا ہے، اس لیے ان کی شاعری میں فلسفیانہ انداز کا در آنا حیرت کا باعث ٹھہرتا ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں بہت سی چیزوں کو ایک فلسفی کی آنکھ سے دیکھنے اور ان پر غور و فکر کرنے کے لیے بہت سے نکتے بھی بیان کیے ہیں۔

 اسی لیے ان کے شعری مجموعہ ’’وعدہ‘‘ میں پختگی اور اعتماد جیسی کیفیات اُسے ثابت قدم رہنے کا حوصلہ دیتی ہیں،کیوں کہ وہ وعدہ کرنا اور اُسے نبھانا بھی خوب جانتی ہیں۔ منیر نیازی کے اس شعر کے مصداق:

جانتے تھے دونوں ہم اس کو نبھا سکتے نہیں

اس نے وعدہ کر لیا میں نے بھی وعدہ کر لیا

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ڈاکٹر صاحبہ ان کی شاعری ڈاکٹر صغری کے علاوہ انھوں نے کے لیے

پڑھیں:

برطانوی جریدے کی جانب سے ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کیلئے عالمی ایوارڈ

برطانیہ کا یہ معتبر جریدہ ہر سال اُن ماہرینِ طب، محققین اور طبی اداروں کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہے، جنہوں نے شعبہ طب میں نمایاں اور مثالی خدمات انجام دی ہوں۔ اسلام ٹائمز۔ برطانوی جریدے برٹش میڈیکل جرنل (بی ایم جے) کی جانب سے معروف معالج ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کو عالمی ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ ان کو یہ ایوارڈ جنوبی ایشیا میں طب کے میدان میں گراں قدر خدمات پر دیا گیا ہے۔ برطانیہ کا یہ معتبر جریدہ ہر سال اُن ماہرینِ طب، محققین اور طبی اداروں کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہے، جنہوں نے شعبہ طب میں نمایاں اور مثالی خدمات انجام دی ہوں۔ اس اعزازکی پروقار تقریب نئی دہلی میں منعقد ہوئی۔ جس میں بی ایم جے کے ایڈوائزری بورڈ کے شریک صدر، ڈاکٹر سنجے نگرہ نے اس اعزاز کا اعلان کیا اور پروفیسر ادیب رضوی کو بھرپور خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر رضوی نے ترقی پذیر ملک پاکستان میں صحت کی فراہمی کا ایک مثالی ماڈل متعارف کروایا، جو حکومت اور معاشرہ  کے درمیان شراکت داری کی بہترین مثال ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے ڈاکٹر رضوی کی غیر متزلزل عزم کی تعریف بھی کی، جس کے تحت انہوں نے ہر فرد کو بلا امتیاز ذات، رنگ، نسل یا مذہب، مفت و اعلیٰ معیار کی طبی سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔ اگرچہ ڈاکٹر ادیب رضوی خود اس تقریب میں شریک نہیں ہو سکے، تاہم انہوں نے انٹرنیٹ رابطہ کے ذریعے حاضرین سے خطاب کیا۔ اس موقع پر انہوں نے بی ایم جے کے اس اقدام کو سراہا اور میڈیکل ایجوکیشن اور تحقیق کے فروغ میں اس کی خدمات کو شاندار قرار دیا۔

ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کون ہیں؟
ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی پاکستان کے معروف طبیب ہیں جو سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن کے سربراہ ہیں۔ یہ ادارہ مفت گردوں کی پیوندکاری اور ڈائلیسس کرتا ہے۔ جبکہ 2003ء میں جگر کے ٹرانسپلانٹ کا کام بھی اس ادارے میں متعارف کیا گیا۔ اس ادارے میں ہر سال دس لاکھ سے زائد مریض ایس آئی یو ٹی کی سہولتوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ڈاکٹر ادیب نے 11 ستمبر 1938ء میں کلن پور، اترپردیش میں پیدا ہوئے۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے ڈاؤ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا۔ وہ سرجری کی اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ گئے۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے برطانیہ سے واپسی پر سول اسپتال کراچی میں ملازمت اختیار کی۔ ڈاکٹر ادیب نے طب کے شعبے میں گردوں کے علاج کے لیے بہت گراں قدرخدمات انجام دی ہیں۔ ڈاکٹر ادیب الحسن نے سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن کی بنیاد رکھی۔ ڈاکٹر ادیب الحسن نے جب سول ہسپتال میں ملازمت اختیار کی تو گردے کے علاج کے لیے 8 بستروں کے وارڈ سے ایک نئے مشن کا آغاز کیا۔ انھوں نے اپنے ساتھ اپنے نوجوان ڈاکٹروں کی ٹیم جمع کی جن کا مقصد ایک چھوٹے سے وارڈ کو عظیم الشان میڈیکل کمپلیکس میں تبدیل کرنا اور ہر مریض کا اس کی عزت نفس مجروح کیے بغیر علاج کرنا تھا۔

یوں آج سرکاری شعبے میں قائم سندھ انسٹی ٹیوٹ آف نیورولاجی اور ٹرانسپلانٹیشن کا شمار دنیا کے اعلیٰ میڈیکل انسٹی ٹیوٹس میں ہوتا ہے۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے انسٹی ٹیوٹ کے قیام کے لیے محض سرکاری گرانٹ پر ہی تکیہ نہیں کیا بلکہ نجی شعبے کو بھی اپنے مشن میں شریک کیا۔ یوں سرکاری ادارے میں بغیر کسی فائدے کے نجی شعبے کے عطیات کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ پوری دنیا میں اپنی مثال آپ ہے۔ معروف سرمایہ کارگھرانے دیوان گروپ کی مالیاتی مدد سے دیوان فاروق میڈیکل کمپلیکس تعمیر ہوا۔ اس میڈیکل کمپلیکس کی زمین حکومت سندھ نے عطیہ کی۔ اس طرح 6 منزلہ جدید عمارت پر 300 بیڈ پر مشتمل کمپلیکس کی تعمیر ہوئی۔ اس کمپلیکس میں متعدد جدید آپریشن تھیٹر، لیکچرز ہال، او پی ڈی وغیرہ کی سہولتوں کے ساتھ ساتھ ایک جدید آڈیٹوریم بھی تعمیر کیا گیا۔ نیز گردے کے کینسر کے علاج کے لیے حنیفہ بائی حاجیانی کمپلیکس تعمیر ہوا۔ ڈاکٹر ادیب الحسن کی کوششوں سے بچوں اور بڑوں میں گردے سے متعلق مختلف بیماریوں کی تشخیص کے لیے الگ الگ او پی ڈی شروع ہوئیں اور الگ الگ آپریشن ہونے لگے۔

اس کے ساتھ ہی گردے کی پتھری کو کچلنے کے لیے لیپسو تھریپی کی مشین جو اپنے وقت کی مہنگی ترین مشین تھی ایس آئی یو ٹی میں لگ گئی۔ یہ وہ وقت تھا جب کراچی کے دو یا تین اسپتالوں میں یہ مشین لگائی گئی تھی جہاں مریضوں سے اس جدید طریقہ علاج کے لیے خطیر رقم وصول کی جاتی تھی مگر سیوٹ میں یہ سہولت بغیر کسی معاوضے کے فراہم کی جاتی تھی۔ اسی طرح گردوں کے کام نہ کرنے کی بنا پر مریضوں کی اموات کی شرح خاصی زیادہ تھی مگر ایس آئی یو ٹی میں ڈائیلیسز مشین لگا دی گئی۔ یوں ناامید ہونے والے مریض اپنے ناکارہ گردوں کی بجائے ڈائیلیسز مشین کے ذریعے خون صاف کرا کے عام زندگی گزارنے کے قابل ہوئے۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کی قیادت میں ڈاکٹروں کی ٹیم نے گردے کے ٹرانسپلانٹ کا کامیاب تجربہ کیا۔ انھوں نے ایک تندرست فرد کا گردہ ایک ایسے شخص کو لگایا جس کا گردہ ناکارہ ہو چکا تھا۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے اعضاء کی پیوند کاری کے لیے راہ ہموار کرنے کے لیے ایک مہم منظم کی۔

متعلقہ مضامین

  • دین کی دعوت مرد و زن کی مشترکہ ذمہ داری ہے، ڈاکٹر حسن قادری
  • کراچی میں ڈاکٹر کی ڈاکٹروں کے خلاف ایف آئی آر  درج، معاملہ کیا ہے؟
  • وہ ڈاکٹر اور یہ ڈاکٹر
  • علی سسٹرز کی پزیرائی میں آئی بی اے میں تقریب کا انعقاد
  • بھارت کا پاکستان پر الزام لگانا مناسب نہیں، کہیں بھی دہشتگردی ہو مذمت کرتے ہیں، خواجہ آصف
  • پہلگام واقعے سے پاکستان کا کوئی تعلق نہیں، دہشتگردی کو کہیں بھی سپورٹ نہیں کرتے، وزیر دفاع خواجہ آصف
  • سابق کپتان عروج ممتاز نے ڈاکٹر بن کر علاج بھی کرڈالا
  • کراچی: ڈاکٹر شاہ فائیو اے سائیڈ ویمنز ہاکی ٹورنامنٹ کا انعقاد
  • جامعہ اردو کراچی میں آئی ایس او کی احتجاجی ریلی
  • برطانوی جریدے کی جانب سے ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کیلئے عالمی ایوارڈ