لینڈنگ کے دوران اچانک کتے کی آمد،طیارہ حادثے سے بال بال بچ گیا
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)لینڈنگ کے دوران کتا رن وے پرآگیا، غیرملکی ائیرلائنز کا طیارہ حادثے سے بچ گیاطیارے میں 250 سے زائد مسافر سوار تھے،اے ٹی سی کی ہدایت پر کپتان نے لینڈنگ کے بجائے طیارے کو چکر لگوایا،ذرائع کے مطابق دبئی سے اسلام آباد آنے والی غیرملکی ائیرلائن کی پروازکی لینڈنگ کے دوران کتا رن وے پرآگیا اور طیارے کی لینڈنگ کے وقت کتے کی موجودگی پر اے ٹی سی نے طیارے کے کپتان کو فوری آگاہ کیا۔ذرائع نے بتایاکہ اے ٹی سی کی ہدایت پر کپتان نے لینڈنگ کے بجائے طیارے کو چکر لگوایا اور دوسری بار کوشش پرکپتان نے طیارے کوبحفاظت اتارلیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ طیارے میں 250 سے زائد مسافر سوار تھے۔دوسری جانب ترجمان ائیرپورٹ نے بتایاکہ اسلام آباد ائیرپورٹ پر ٹیکسی کرنے والے پائلٹ نے رن وے پر کسی جانور کی موجودگی کی اطلاع دی تھی، اسی وقت غیرملکی طیارے کو لینڈنگ کرنا تھی، اور رن وے کی جانچ کا وقت نہیں تھا۔ترجمان کا کہنا تھاکہ اس لیے غیرملکی ائیر لائنز کے طیارے کی لینڈنگ روک کراسے گو اراؤنڈ کروایا گیا اور رن وے کلیئر ہونے کی تصدیق کے بعد طیارے کو لینڈنگ کی اجازت دی گئی۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
گڈانی کے سمندر کا پانی اچانک گلابی ہوگیا
گڈانی کا نیلا سمندر پراسرار طور گلابی رنگت اختیار کرگیا جب کہ ہاربر کے وسیع علاقے میں ناگوار بو پھیلنا شروع ہوگئی، سمندر کے قدرتی رنگ کے بجائے بدلتے گلابی رنگ نے ماہی گیروں اور مقامی آبادی کو تشویش میں مبتلا کردیا۔
اس معاملے پر رد عمل دیتے ہوئے ڈبلیو ڈبلیو ایف(پاکستان )کے تیکنیکی مشیر معظم خان کے مطابق رنگت کی تبدیلی کا عمل کھلے سمندر میں نہیں ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ گڈانی میں ماہی گیروں کے لیے بندرگاہ بنائی گئی تھی اس فش ہاربر کی بناوٹ اور ساخت میں موجود کچھ پیچیدگیوں کی وجہ سے کشتی جیٹی کے اندر نہیں آسکتی اور سینیٹیشن کی وجہ سے مکمل طور پر بند تھی تو پانی تالاب کی مانند جمع رہا۔
سمندر کا پانی جب کسی مخصوص جگہ پر رکھ دیا جائے تو وہ پانی ایک وقت کے بعد سڑنا شروع ہو جاتا ہے کیونکہ اس پانی کے اندر ایک بہت بڑا بائیولوجیکل مواد ہوتاہے جو گلنے سڑنے کے بعد بدبو کا سبب بنتا ہے، چونکہ سمندری پانی میں بہت زیادہ مقدار میں نمک ہوتا ہے پانی محدود جگہ پر ہونے کی وجہ سے بخارات بن کر ہوا میں اڑنا شروع ہو جاتا ہے، وہ پانی نمک بننے کے عمل کی جانب جاتا ہے۔
اس صورتحال سے نمٹنے کا واحد حل یہ ہے کہ یا تو گڈانی جیٹی کوری ڈیزائن کیا جائے یا اس میں مسلسل ڈریجنگ(زیر آب ریت نکالنے)کا عمل کرنا پڑے گا،ڈریجنگ کے لیے بہت بڑا تخمینہ درکار ہوتا ہے۔
گڈانی جیٹی کو روز اول سے ہی غلط ڈیزائن کیا گیا ہے اسی وجہ سے اس میں سینیٹیشن ہو رہی ہے، اس مسئلے کا فوری ڈیزائن کی تبدیلی ہی ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ اتنی بڑی جیٹی ہونے کے باوجود ماہی گیرآج بھی صدیوں پرانے فرسودہ طریقوں کے مطابق اپنی کشتیاں ساحل کے ساتھ کھڑی کرتے ہیں، یہ ان کے ساتھ ایک بہت بڑا ظلم ہے جب کہ گڈانی جیٹی کے غلط ڈیزائننگ کی وجہ سے حکومت کا ایک بہت بڑا سرمایہ ضائع ہوچکا ہے۔
گڈانی جیٹی کو اس غیر معمولی حالات سے نکالنے کے لیے ہنگامی اقدامات کرنے ہونگے ورنہ اس میں جو نمک موجود ہے، اس کی وجہ سے اگلے مرحلے میں جیٹی میں ریت بھرنا شروع ہو جائے گی یہ ایک بہت بڑا سانحہ ہوگا۔
سبی میں بھی ایک ایسی ہاربر تعمیر کی گئی تھی جو مکمل طور پر ریت سے بھرچکی ہے، سمندر کے کنارے جتنے بھی ہاربر بھرے، ان کی پیچنگ کرنی پڑتی ہیں ،ایک خاص عمل اور دورانیہ کے دوران اس سے ریجن کرنی پڑتی ہے اور ریت نکالنی پڑتی ہے اگر ایسا نہیں کیا گیا تو جو سبی اور گڈانی کا حال ہے تاریخ اپنے اپ کو دہراتی رہے گی۔
پاکستان میں نمک بنانے کی ایک بہت بڑی انڈسٹری ہے نمک بنانے کے لیے اسی طرح کے چھوٹے چھوٹے تالابوں میں سمندری پانی رکھ دیا جاتا ہے، پانی سورج کی روشنی کی وجہ سے بخارات میں تبدیل ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
سب سے پہلے وہ پانی گلابی ہو جاتا ہے، اس پانی کے پنک ہونے کی وجہ بہت زیادہ تعداد میں سمندری پانی میں موجود ایک بیکٹیریا کی افزائش ہے۔
اتفاق کی بات ہے کہ اس بیکٹیریا کا اپنا رنگ پنک ہوتا ہے،جس کی وجہ سے پانی کا رنگ گلابی ہو جاتا ہے، پاکستان کے بہت سارے مقامات پر نمک بنتا ہے، کراچی نمک کی پیداوار کا سب سے بڑامرکز ہے جس وقت نمک بننے کا عمل ہوتا ہے تو اس وقت سمندری پانی کو محدود جگہ پر روک کرنمک کی پیداوار کے حامل ان تالابوں کا رنگ ابتدا میں گلابی ہوتا ہے اور بعدازاں سفید نمک بننا شروع ہو جاتا ہے۔
معظم خان کے مطابق یہ کوئی نقصان دہ نہیں بلکہ ایک ایسا قدرتی عمل ہے جس سے خوفزدہ ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے، یہ بیکٹیریا انسان پر اثر انداز نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ بہت زیادہ نمک میں پروان چڑھتا ہے، انسانی جسم پر اس کا کوئی بھی اثر نہیں ہوتا۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان تقریبا 50 ملین یو ایس ڈالرز سالانہ نمک ایکسپورٹ کرتا ہے، اگر اس کا دائرہ مزید بڑھایا جائے تو سالانہ کئی گنا تک بڑھایاجاسکتا ہے، کیونکہ دنیا بھر میں سی سالٹ کی بہت زیادہ ڈیمانڈ ہے۔
دیگر ماہرین نے اس صورتحال پر فوری تحقیق کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پانی کے نمونے لے کر ان کی لیبارٹری ٹیسٹنگ کی جائے تاکہ یہ تعین ہوسکے کہ آیا یہ عارضی تبدیلی ہے یا کسی بڑے ماحولیاتی مسئلے کی نشاندہی ہے۔
مقامی ماہی گیروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو مچھلیوں کی افزائش اور دیگر سمندری حیات متاثر ہوسکتی ہیں، جس سے ان کا روزگار بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
ماحولیاتی ماہرین نے حکام سے اپیل کی ہے کہ ساحلی پانی کے معیار کی نگرانی سخت کی جائے اور سینیٹیشن کے فضلے کو مناسب فلٹریشن کے بغیر سمندر میں پھینکنے پر پابندی لگائی جائے تاکہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات سے بچا جاسکے۔