لاہور میں دو سالہ بچے کے اغوا اور قتل میں ماں ہی ملوث نکلی، بچے کی جلی ہوئی لاش برآمد
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
لاہور میں دو سالہ بچے کے اغوا اور قتل میں ماں ہی ملوث نکلی، پولیس نے ملزمہ اور اس کے آشنا سمیت تین ملزمان کو گرفتارکرلیا، بچے کی جلی ہوئی لاش بھی برآمد کرلی گئی۔ملزمہ نے آشنا کے ساتھ مل کر واردات کا منصوبہ بنایا، جس کے بعد دو سالہ اذلان 23 جنوری کو رائیونڈ سے اغوا ہوا۔پولیس نے مشکوک بیانات پر مغوی کی ماں کا موبائل فون چیک کیا تو مسلسل رابطے قریبی رشتہ دار سے نکلے جس پر ملزمہ کو حراست میں لے کر تفتیش کی گئی تو اس نے بیٹے کے اغوا کے بعد قتل کا انکشاف کردیا۔پولیس نے ملزمان کی نشاندہی پر لاش کوٹ رادھا کشن سے برآمد کی۔گرفتار ملزمان میں مرکزی ملزم اسلام، نوکرانی ثنا اور مقتول بچے کی ماں کنزہ شامل ہیں۔پولیس کا کہنا ہے کہ تین ملزمان کو گرفتارکیا گیا ہے۔دوران تفتیش کنزہ نے بتایا اس نے نوکرانی کے ہاتھ بچے کو آشنا کے پاس بھیجا تھا، بچے کو قتل کرکے جلانے والے ملزم سے مزید تفتیش جاری ہے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
قازقستان میں جبری شادیوں اور دلہنوں کے اغوا پر سخت پابندی عائد، 10 سال قید کی سزا کا قانون نافذ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
۔آستانہ : قازقستان نے جبری شادیوں اور دلہنوں کے اغوا کے خلاف سخت قانون نافذ کرتے ہوئے ان پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔
غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق قازقستان نے خواتین اور کمزور طبقات کے تحفظ کے لیے ایک اہم قدم اٹھاتے ہوئے جبری شادیوں اور دلہنوں کے اغوا پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے، منگل کے روز نافذ ہونے والے ایک نئے قانون کے تحت اب زبردستی شادی پر مجبور کرنے والوں کو 10 سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
قازق پولیس کے مطابق یہ قانون خواتین اور نوجوانوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے اور جبری شادیوں جیسے غیر انسانی رواج کو روکنے کے لیے متعارف کرایا گیا ہے، اب اغوا کاروں کو سخت سزا کا سامنا کرنا پڑے گا، چاہے وہ متاثرہ کو رہا کریں یا نہ کریں۔
پولیس نے واضح کیا کہ ماضی میں دلہن کے اغوا کے واقعات میں ملزم اگر متاثرہ کو اپنی مرضی سے رہا کر دیتا تھا تو وہ قانونی کارروائی سے بچ سکتا تھا، لیکن اب اس قانون نے ایسی تمام رعایتوں کا خاتمہ کر دیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق، قازقستان میں جبری شادیوں سے متعلق درست اعداد و شمار کا فقدان ہے کیونکہ ملکی فوجداری قانون میں اس جرم کے لیے کوئی مخصوص دفعہ موجود نہیں تھی۔ تاہم، ایک رکن پارلیمان نے رواں سال انکشاف کیا کہ گزشتہ تین برسوں کے دوران پولیس کو اس نوعیت کی 214 شکایات موصول ہوئیں، جو اس سماجی مسئلے کی سنگینی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
یہ قانون اس وقت زیادہ اہمیت اختیار کر گیا جب 2023 میں خواتین کے حقوق کا معاملہ قازقستان میں سرخیوں کی زینت بنا۔ ایک سابق وزیر کے ہاتھوں اپنی اہلیہ کے قتل کے دلخراش واقعے نے معاشرے میں گہری بحث چھیڑ دی تھی، جس کے بعد خواتین کے تحفظ کے لیے قانون سازی کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ قانون نہ صرف جبری شادیوں اور اغوا جیسے جرائم کی روک تھام کرے گا بلکہ قازق معاشرے میں خواتین کے وقار اور خودمختاری کو فروغ دینے میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔
حکام نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ اس قانون کی حمایت کریں اور کسی بھی غیر قانونی سرگرمی کی اطلاع فوری طور پر پولیس کو دیں تاکہ متاثرین کو بروقت انصاف مل سکے۔