Nai Baat:
2025-07-26@10:17:52 GMT

جوڈیشل کمیشن پر جواب

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

جوڈیشل کمیشن پر جواب

پی ٹی آئی فارم سینتالیس کے نعرے لگانے کے باوجو دالیکشن آڈٹ کے مطالبے سے دستبردار ہو گئی ہے اور بہت ساروں کے لئے یہ حیرت انگیز ہے مگر میرے لئے نہیں۔ میں جانتا ہوں کہ ان کے دھاندلی کے الزامات ثابت ہونے کے قابل نہیں ۔ وہ صرف فارم سینتالیس کے دعوے سوشل میڈیا پر ہی کر سکتے ہیں جہاں جعلی فارم شیئرز کرنے کی سہولت موجود ہے لیکن جب وہ الیکشن ٹریبونلز میں جاتے ہیں تو وہاں ایک ایک فارم کی سکروٹنی ہوتی ہے، فارموں کے ریکارڈ کو ووٹوں کے ساتھ جانچا جاتا ہے اور کیا یہ دلچسپ نہیں ہے کہ پی ٹی آئی ( اوراس کی اتحادی جماعت اسلامی بھی) عام انتخابات کے بعد مجموعی طور پرایک درجن سے زیادہ سیٹیں اپیلوں میں ہار چکے ہیں یعنی شورو غوغا ایک طرف مگر حقیقت میں ان حلقوں میں ان کی جیت جعلی تھی۔
پی ٹی آئی نے اب صرف دو بڑے مطالبے رکھے ہیں، پہلا نو مئی اور چھبیس نومبر کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن کا قیام او ر دوسرا سیاسی قیدیوں کی رہائی، باقی سب حاشیہ آرائی ہے۔ ہم دوسرے مطالبے پر پہلے بات کریں گے۔ ان کے چارٹر آف ڈیمانڈ کے ساتھ سیاسی قیدیوں کی کوئی فہرست موجود نہیں ہے اور اس سے بھی پہلے ضرورت ہے کہ سیاسی قیدی کی تعریف پراتفاق رائے کر لیا جائے۔ کیا پی ٹی آئی نو مئی کے مجرموں کو سیاسی قیدی سمجھتی ہے کیونکہ وہ سیاسی کارکن تھے یا وہ اپنے بانی اور ان کی اہلیہ کو ایک سو نوے ملین پاو¿نڈکیس میں سزا پا نے کے بعد بھی سیاسی قیدی کہتی ہے کیونکہ انہوں نے جو جرم کیا وہ بطور سیاسی رہنما اور بطور ایک پولیٹیکل پوسٹنگ میں کیا۔ قانون سیاسی اور فوجداری مقدمات میں تقسیم کرتا ہے اور یقینی طور پر یہاں بھی پی ٹی آئی کی تشریح اسی طرح نہیں مانی جا سکتی جس طرح اوسط فہم اور علم کا مالک قانون دان ثاقب نثاری عدالتوں کی اس تشریح کو نہیں مان سکتا جو بلیک لاءڈکشنری سے لی گئی۔ نو مئی کو سنگین جرم کیا گیا اور ایک سو نوے ملین پاونڈ کیس سو فیصد اختیارات کے ناجائز استعمال اور مالی بدعنوانی کا کیس ہے۔یہ بات خود پی ٹی آئی کے لئے سمجھنے والی ہے کہ اگر نو مئی میں ملوث حملہ آور سیاسی قیدی اور اس کے کارکن قرار پاتے ہیں تو پھر منطقی طور پر ان کا کوئی منصوبہ ساز اور ماسٹر مائنڈ بھی ہوگا ۔ جیسے ہی آپ انہیں سیاسی قیدی ڈکلیئر کریں گے ، عمران خان خود بخود ماسٹر مائنڈ قرار پاجائے گا۔ریاست کے پاس اس امر کی گواہیاں موجود ہیں کہ زمان پارک میں اجلاسوں میں اس کی منصوبہ بندی کی گئی اور ہدایات جاری کی گئیں ورنہ ملک بھر میں تحریک انصاف کے احتجاجیوں کو فوجی تنصیبات ہی کی طرف رخ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ محض اتفاق نہیں تھا۔
میں نہیں جانتا کہ حکمران اتحادنو مئی اور چھبیس نومبر کے واقعات پر جوڈیشیل کمیشن بنانے کے مطالبے پر کیا جواب دینے جا رہا ہے مگر میرا تجزیہ کہتا ہے کہ اس پر آئین اور قانون کے مطابق انکار ہی سب سے مو¿ثر جواب ہے اور یہ عین سیاسی بھی ہے کہ حکمران اتحاد کو جوڈیشل کمیشن کی صورت میں ایک نیا پنڈورا باکس نہیں کھولنا چاہئے۔ اس پر نکات کی صورت میں بحث کرنے سے پہلے مجھے حیرت اس مطالبے پر بھی ہے کہ ماہرین قانون کے مطابق جوڈیشل کمیشن کی کسی انکوائری کو کسی عدالت کے فیصلے کے طور پر لاگو نہیں کیا جا سکتا تو پھر پی ٹی آئی نے جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیوں کیا۔ اس کی وجہ یہی نظر آتی ہے کہ وہ میکاولین اور چانکیہ سیاست کے اصولوں کے مطابق ہر اس معاملے کو مشکوک بنا دینا چاہتے ہیں،اس پر ابہام پیدا کرنا چاہتے ہیں جس کی ان کے پاس دلیل، صفائی اور ثبوت موجود نہیںہیں۔ بہت دور جانے کی ضرورت نہیں، ماڈل ٹاون والے واقعات میں عدالتی کمیشن نے کون سا کمال کردکھایا، کون سے حقائق سامنے لائے گئے، یہ محض وقت کا ضیاع ہے۔
چھبیس نومبر کی بات کی جائے تو پی ٹی آئی کے دعوے ہیں کہ ان کے ایک درجن سے زائد کارکن ہلاک اور کئی درجن گم شدگان ہیں مگر ان کے نام اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سے مانگے گئے تو وہ نہیں دے سکے اور اسی طرح مذاکراتی ٹیم نے بھی اپنے چارٹر آف ڈیمانڈ کے ساتھ مرنے والوں کے ناموں، پتوں ، شناختی کارڈوں اور ثبوتوں نام کی کوئی شے منسلک نہیں کی۔ یہ کام جوڈیشل کمیشن سے پہلے محض انتظامیہ اور پولیس کے ذریعے ہوسکتا ہے کہ مرنے والے کون تھے ۔ جوڈیشل کمیشن کس بات کی تحقیق کرے گا کہ پی ٹی آئی نے حکومت کی اجازت کے بغیر اور عدالت کے فیصلے کے خلاف ڈی چوک میں دھرنا کیوں دیا۔ یہ شرمناک تاریخ ہے کہ وہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور بانی کی اہلیہ وہاں کارکنوں کو چھوڑ کے فرار ہو گئے تھے اور اگلے روز کئی سو کلومیٹر دورظاہرہوئے تھے۔ میں نے سوشل میڈیا پر دیکھا ہے کہ پی ٹی آئی کے ترجمان بنے کچھ ٹرول اکاو¿نٹس پر جو تصویریں شیئرکی گئی ہیں ان میں سے کئی نشئیوں کی ہیں جو سردی یا نشے کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔
مجھے نو مئی پر بات کرنی ہے اور سب سے پہلی بات اس زمینی حقیقت کی ہے کہ اس کیس میں فریق پاکستان کی فوج ہے اوراس کی مرضی کے بغیر محض مجرموں کے مطالبے پر جوڈیشل کمیشن نہیں بن سکتا کہ اگر مطالبے کو مان لیا جائے کیونکہ یہ ایک سیاسی دھڑے کی طرف سے مطالبہ ہے تو کل ہر قبضہ گروپ اوربدمعاش حملہ کرنے کے بعد تحقیقاتی کمیشن کا مطالبہ کر دے گا۔ معاملہ یہ ہے کہ قانون کے مطابق عدالتی کمیشن مشکوک معاملات پربنتے ہیں واضح جرائم پر نہیں، جرائم پر ایف آئی آرز ہوتی ہیں، مقدمے چلتے ہیں جو کہ چل رہے ہیں۔ ہم نومئی پر اگر تحقیقاتی کمیشن کی ضرورت کو مان لیں تو پھر وہ تمام معاملات جو انسداد دہشت گردی کی عدالتوں سپریم کورٹ تک میں زیر سماعت ہیں تو ان کی قانونی حیثیت کیا ہوگی۔ اگر پی ٹی آئی والے ان مقدمات میں ملوث نہیں نکلیں گے تو بری ہوتے جائیں گے اوربیسیویں بری اور رہا ہوئے بھی ہیں لیکن اگرایک تحقیقاتی کمیشن بنتا ہے تو پھر تمام عدالتوں کو بند کر دیا جائے یا ختم کر دیا جائے۔
میرا تجزیہ ہے کہ عمران خان جیل میں بیٹھے ہوئے اوور سمارٹ بننے کی کوشش کر رہے ہیں اور اپنی پوری پارٹی کو کٹھ پتلیوں کی طرح چلا رہے ہیں۔ وہ جیل میں کہتے ہیں کہ جاو اسلام آباد پر حملہ کر دو تو کٹھ پتلیاں خیبرپختونخوا کے سرکاری وسائل کے ساتھ وفاق پر حملہ کر دیتی ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ جاو مذاکرات کرو تو یہ کٹھ پتلیاں مذاکرات کا راپ الاپنے لگتی ہیں۔ سیاسی سمجھ بوجھ کا تقاضہ یہی ہے کہ اس فتنے اور فساد کو راہ دینے کی بجائے منطقی انجام تک پہنچایا جائے ۔فوج سے بغض میںکچھ رہنما اس کی سیاسی سہولت کاری نہ کریں تو بہتر ہے۔ یہ گرو ہ سیاسی میدان سے بھی اسی طرح بھاگ نکلے گا جیسے ڈی چوک سے بدمعاشی کرتے ہوئے بھاگا تھا۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: جوڈیشل کمیشن سیاسی قیدی مطالبے پر پی ٹی آئی کے مطابق کے ساتھ تو پھر ہیں کہ ہے اور

پڑھیں:

آصف زرداری کے دور میں کوئی سیاسی قیدی نہیں تھا، مفاہمت کی سیاست کی مثال ہیں: شرجیل انعام میمن

وزیراطلاعات سندھ شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ صدر آصف علی زرداری کے دور حکومت میں کوئی سیاسی قیدی نہیں تھا اور انہوں نے ہمیشہ مفاہمت کی سیاست کو فروغ دیا۔ اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ آصف زرداری نے بدترین سیاسی مخالفین کے ساتھ بھی افہام و تفہیم کی پالیسی اپنائی اور بی بی شہید کی المناک شہادت کے بعد "پاکستان کھپے" کا نعرہ لگا کر ملک کو انتشار سے بچایا شرجیل میمن کا کہنا تھا کہ آصف زرداری نے 11 سال قید کاٹنے کے باوجود کبھی انتقامی سیاست کا راستہ نہیں اپنایا۔ ان کے مطابق پاکستان کو آج ایسی بردبار اور دوراندیش قیادت کی ضرورت ہے جو انتقام کی بجائے مفاہمت، اور اقتدار کی بجائے جمہوریت کو ترجیح دے۔

متعلقہ مضامین

  • آصف زرداری کے دور میں کوئی سیاسی قیدی نہیں تھا، مفاہمت کی سیاست کی مثال ہیں: شرجیل انعام میمن
  • عدلیہ کیلئے ماہر اور سیاسی وابستگی نہ رکھنے والے نوجوان وکلاء کو سامنے لایا جائے گا، چیف جسٹس
  • پی ٹی آئی سے کوئی بات نہیں کر رہا، وہ احتجاج نہ کریں تو کیا کریں: اسد
  • ’مجھے فرق نہیں پڑتا‘، عمرہ وی لاگنگ پر تنقید کرنے والوں کو ربیکا خان کا جواب
  • سینیٹ میں مخبر کے تحفظ اور نگرانی کیلئے کمیشن کے قیام کا بل منظور
  • اس صوبے میں کسی قسم کے اپریشن کی اجازت نہیں دیں گے
  • ہمارے پاس الیکشن کمیشن کی ہیرا پھیری کے 100 فیصد ثبوت موجود ہیں، راہل گاندھی
  • مسابقتی کمیشن کا 68 ارب روپے کے جرمانے ریکور نہ کرنے کا انکشاف 
  • پہلے تھپڑ منسا نے مارا، میں نے جواب میں جوتا پھینکا، علیزے شاہ کا دعویٰ
  • ’اداکار نہیں بن سکتے‘ کہنے والوں کو قہقہوں سے جواب دینے والے ورسٹائل ایکٹر محمود