سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر سماعت کل ہوگی،سیکیورٹی کے خصوصی انتظامات
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر سماعت کل ہوگی،سیکیورٹی کے خصوصی انتظامات WhatsAppFacebookTwitter 0 26 January, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز)سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پرسماعت کل ہوگی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 8 رکنی آئینی بینچ درخواستوں کی سماعت کریگا جبکہ سماعت کیلئے خصوصی انتظامات کے گئے ہیں۔
26ویں آئینی ترمیم کیخلاف 20 سے زائد درخواستوں پر جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سماعت کرنے والے بینچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس عائشہ ملک بھی شامل ہیں۔جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی ، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن بھی بینچ کا حصہ ہیں۔
آئینی بنچ کمرہ عدالت نمبر دو میں بیٹھے گا جہاں داخلے کی اجازت صرف متعلقہ فریقین اور خصوصی انٹری پاس رکھنے والے صحافیوں کو ہوگی اور موبائل فون ساتھ لے جانے پر پابندی ہے۔سپریم کورٹ سے جاری اعلامیے کے مطابق فریقین کی سہولت اور عدالتی امور کو خوش اسلوبی سے چلانے کے لیے سیکیورٹی کے خصوصی اقدامات کیے گئے ہیں۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر سپریم کورٹ
پڑھیں:
ہائیکورٹ جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا، ناانصافی پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں: سپریم کورٹ
اسلام آباد(خصوصی رپورٹر) صنم جاوید کی 9 مئی مقدمے سے بریت کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا ہے کہ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔ پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت جسٹس ہاشم خان کاکڑ کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے کی۔ حکومتی وکیل نے کہا صنم جاوید کے ریمانڈ کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہوئی۔ ریمانڈ کے خلاف درخواست میں لاہور ہائیکورٹ نے ملزمہ کو مقدمے سے بری کر دیا۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دئیے کہ ان کیسز میں تو عدالت سے ہدایات جاری ہو چکی ہیں کہ 4 ماہ میں فیصلہ کیا جائے۔ اب آپ یہ مقدمہ کیوں چلانا چاہتے ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر فیصلہ دیا اور ملزمہ کو بری کیا۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ میرا اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں۔ اگر ہائیکورٹ کو کوئی خط بھی ملے کہ ناانصافی ہو رہی تو وہ اختیارات استعمال کر سکتی ہے۔ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔ وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ہائیکورٹ سوموٹو اختیارات کا استعمال نہیں کر سکتی، جس پر جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دئیے کہ کریمنل ریویژن میں ہائی کورٹ کے پاس تو سوموٹو کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔ صنم جاوید کے وکیل نے بتایا کہ ہم نے ہائیکورٹ میں ریمانڈ کے ساتھ بریت کی درخواست بھی دائر کی تھی۔ جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ آپ کو ایک سال بعد یاد آیا کہ ملزمہ نے جرم کیا ہے؟ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ شریک ملزم کے اعترافی بیان کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے آپ کو بھی معلوم ہے۔ اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس میں کہا کہ ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے غصے میں فیصلہ دیا۔ بعد ازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کر دی۔