امریکا دنیا کی وہ واحد سپرپاور ہے جہاں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلی کے مثبت اور منفی ہر دو طرح کے اثرات پوری دنیا کو متاثر کرتے ہیں۔ سیاست سے لے کر معیشت تک اور جنگ و جدل سے تجارت تک ہر شعبے میں تغیر کے آثار ہویدا ہو جاتے ہیں۔ اسی باعث پوری دنیا کی نظریں ہر چار سال بعد امریکا میں ہونے والے صدارتی انتخاب پر لگی ہوتی ہیں۔
پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں مبصرین، ماہرین، سیاستدان اور تجزیہ نگار امیدواروں کی ممکنہ جیت یا ہار کے حوالے سے تبصرے اور تجزیے کر رہے ہوتے ہیں۔
گزشتہ برس ہونے والے امریکی صدر کے انتخاب کے حوالے سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ منتخب ہونے کے حوالے سے دنیا بھر کے میڈیا میں ہونے والے تبصروں اور تجزیوں میں کہا جا رہا تھا کہ ان کی متنازعہ شخصیت، ماضی کے کردار، ان پر قائم متعدد مقدمات اور امریکا کے طاقت ور حلقوں کی مخالفت کے باعث ان کا صدر بننا مشکل نظر آتا ہے، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کو یقین تھا کہ ان کے خلاف چلائی جانے والی پروپیگنڈا مہم میں جان نہیں۔
رواں ماہ 20 جنوری کو ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کے 47 ویں صدر کا حلف اٹھا لیا ہے۔ تقریب حلف برداری سے خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے بعض اہم اقدامات اور اعلانات کیے جن سے ان کے مستقبل کے عزائم اور ارادوں کا واضح اظہار ہوتا ہے کہ وہ اپنے آیندہ یعنی دوسرے دور صدارت میں امریکا کو کن خطوط پر چلانا چاہتے ہیں۔
انھوں نے اپنے پیش رو بائیڈن دور پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ خدا نے انھیں اس لیے محفوظ رکھا کہ وہ امریکا کو ایک عظیم ملک بنا سکیں۔ واضح رہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر انتخابی مہم کے دوران تقریر کرتے ہوئے قاتلانہ حملہ ہوا تھا اور گولی ان کے کان کو چھوتی ہوئی نکل گئی تھی۔ صدر ٹرمپ نے اپنے صدارتی انتخاب میں کہا کہ امریکا سے لاکھوں غیر قانونی تارکین وطن کو بے دخل کر دیں گے، کوئی ملک ٹیکس سے مستثنیٰ نہیں ہوگا، پاناما کینال پر قبضہ واپس لیں گے، خلیج میکسیکو کا نام خلیج امریکا رکھیں گے۔
سرکاری طور پر صرف مرد اور عورت دو ہی جنس ہوں گی، سیاسی پناہ اور پیدائشی حق کی شہریت کا قانون ختم کر دیں گے، جنوبی سرحد پر قومی ایمرجنسی نافذ کریں گے، عوام پر ٹیکس میں کمی اور مہنگائی ختم کریں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی منصب سنبھالتے ہی 78 ایگزیکٹیو آرڈر جاری کرکے اپنے جارحانہ عزائم کا اظہار کر دیا۔
انھوں نے بائیڈن دور کے متعدد اقدامات کو بہ یک جنبش قلم منسوخ کر دیا۔ صدر ٹرمپ نے کیپٹل ہل پر حملے کے ملزمان کو معاف کرکے ان کی رہائی کا حکم بھی جاری کر دیا۔ صدر ٹرمپ نے پیدائشی حق شہریت کے جس حکم نامے پر دستخط کیے تھے اسے وفاقی امریکی جج نے غیر آئینی قرار دیتے ہوئے معطل کر دیا۔ امریکا کی وفاقی عدلیہ کی طرف سے ٹرمپ کے ابتدائی حکم نامہ معطلی ان کے لیے ایک بڑا جھٹکا اور عدلیہ و ٹرمپ انتظامیہ کے درمیان کشمکش کا نقطہ آغاز بھی ہے۔
صدر ٹرمپ نے اسرائیل حماس حالیہ جنگ بندی معاہدے کے حوالے سے آگے بڑھ کر اپنے انتخابی وعدوں کے مطابق جو مثبت کردار ادا کیا تھا تو یہ امید ہو چلی تھی کہ وہ اپنے دور صدارت کے آغاز میں ہی عارضی جنگ بندی معاہدے کو مستقل کرنے کے لیے بھی اپنا کردار ادا کریں گے، لیکن وائٹ ہاؤس واپسی پر ایک رپورٹر نے جب ان سے سوال کیا کہ کیا دونوں فریق مستقل جنگ بندی پر آمادہ ہو جائیں گے تو ان کا جواب تھا کہ میں پراعتماد نہیں ہوں کہ یہ معاہدہ برقرار رہے گا۔
مبصرین اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل کی فلسطین دشمنی کے جنگی اقدام کے آگے بند باندھنے میں صدر ٹرمپ کی کوششیں زیادہ سودمند ثابت نہیں ہو سکیں گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صدر ٹرمپ یوکرین روس جنگ رکوانے میں تو شاید کامیاب ہو جائیں لیکن فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے کے اسرائیلی عزائم کو روکنے میں وہ کوئی موثر کردار ادا نہیں کرسکیں گے یعنی ان کے دوسرے دور میں بھی تنازعہ کشمیر، فلسطین اور مسئلہ کشمیر خطے کے امن کے لیے ’’فلیش پوائنٹ‘‘ بنا رہے گا جو یقینا افسوس ناک صورت حال ہے جہاں تک صدر ٹرمپ کے جاری دور صدارت میں پاک امریکا تعلقات کا تعلق ہے تو تاریخ بتاتی ہے کہ پاکستان اور امریکا کبھی پراعتماد دوست نہیں رہے۔ دو طرفہ تعلقات ہمیشہ مفادات کے ٹکراؤ کے درمیان مد و جزر کی کیفیت سے گزرتے رہے۔
بائیڈن دور میں پاک امریکا تعلقات میں کشمکش کا عنصر غالب نہیں تھا، پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی امریکا مطمئن تھا۔ لیکن صدر ٹرمپ کے دور میں صورت حال ذرا مختلف نظر آتی ہے ادھر وطن عزیز میں اسٹیبلشمنٹ اور اتحادی حکومت کے درمیان پراعتماد مراسم ہیں۔ برسر اقتدار حکمران طبقے کو اسٹیبلشمنٹ کا مکمل تعاون اور سپورٹ حاصل ہے ۔ بانی پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ سے ان کے اچھے مراسم تھے۔ اسی باعث پی ٹی آئی کے رہنما و کارکن پرامید ہیں کہ ماضی کے ’’خان ٹرمپ‘‘ محبتانہ و دوستانہ مراسم ان کے ’’مرشد‘‘ کی رہائی کا پیغام لائیں گے۔
اس حوالے سے حکومتی حلقے بھی خدشات اور تحفظات کا اظہار کرتے رہتے ہیں لیکن ابھی یقین سے اس ضمن میں کلام کرنا مشکل ہے۔ کیوں کہ ٹرمپ کے سامنے اس وقت ’’اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا‘‘ والی صورت حال ہے تو ادھر حکومت کے سب سے بڑے اتحادی بلاول بھٹو بھی حکومتی فیصلوں سے شاکی نظر آتے ہیں اور مختلف مواقعوں پر برملا اس کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔
ابھی چار روز پیش تر حکومت نے پیکا ایکٹ ترمیمی بل قومی اسمبلی سے منظور کرایا ہے ،اس پر نہ صرف ملک بھر کی صحافتی تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں بلکہ اپوزیشن بھی ان کی ہمنوا ہے اور خود بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ حکومت مشاورت کے بغیر فیصلے کرکے اپنے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ ٹرمپ کے کر دیا
پڑھیں:
امریکا: تارکین وطن کے ویزوں کی حد مقرر: ’سفید فاموں کو ترجیح‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2026 کے لیے تارکینِ وطن کے داخلے کی نئی حد مقرر کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ آئندہ سال صرف 7,500 افراد کو امریکا میں امیگریشن کی اجازت دی جائے گی، یہ 1980 کے ”ریفوجی ایکٹ“ کے بعد سب سے کم حد ہے۔
صدر ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا کہ ان کی حکومت امریکی تاریخ میں امیگریشن کی سطح کم کرنے جا رہی ہے، کیونکہ ”امیگریشن کو کبھی بھی امریکا کے قومی مفادات کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے۔“
انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ جنوبی افریقہ میں سفید فام افریقیوں کو نسل کشی کے خطرات لاحق ہیں، اسی وجہ سے ان افراد کو ترجیحی بنیادوں پر ویزے دیے جائیں گے۔ واضح رہے کہ فی الحال امریکا کا سالانہ ریفیوجی کوٹہ 125,000 ہے، لیکن ٹرمپ کی نئی پالیسی کے تحت یہ تعداد 7,500 تک محدود کر دی گئی ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کے مطابق نئی پالیسی کے تحت پناہ گزینوں کی سیکیورٹی جانچ مزید سخت کر دی جائے گی، اور کسی بھی درخواست دہندہ کو داخلے سے پہلے امریکی محکمہ خارجہ اور محکمہ داخلہ دونوں کی منظوری لازمی حاصل کرنا ہوگی۔
جون 2025 میں صدر ٹرمپ نے ایک نیا ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا تھا جس کے ذریعے غیر ملکی شہریوں کے داخلے کے ضوابط میں بھی تبدیلی کی گئی۔ ان ضوابط کے تحت ”غیر مطمئن سیکیورٹی پروفائل“ رکھنے والے افراد کو امریکا میں داخلے سے روکنے کا اختیار حکومت کو حاصل ہو گیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ عالمی ادارہ برائے مہاجرین کے سابق مشیر کے مطابق یہ اقدام امریکا کی طویل عرصے سے جاری انسانی ہمدردی اور مہاجرین کے تحفظ کی پالیسیوں سے کھلا انحراف ہے۔
نیویارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ نے اپنے بیان میں کہا کہ ”یہ فیصلہ رنگ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر تفریق کے مترادف ہے، اور امریکا کی امیگریشن تاریخ کو نصف صدی پیچھے لے جا سکتا ہے۔“
سیاسی ماہرین کے مطابق ٹرمپ کی نئی امیگریشن پالیسی ایک طرف انتخابی وعدوں کی تکمیل ہے، جبکہ دوسری جانب یہ ان کے ووٹ بینک کو متحرک رکھنے کی کوشش بھی ہے، خاص طور پر اُن حلقوں میں جو غیر ملکی تارکینِ وطن کی مخالفت کرتے ہیں۔
امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق، وائٹ ہاؤس کے اندر بھی اس فیصلے پر اختلافات پائے جاتے ہیں، کیونکہ کئی سینئر حکام کا ماننا ہے کہ اس پالیسی سے امریکا کی عالمی ساکھ اور انسانی حقوق کے میدان میں قیادت کو نقصان پہنچے گا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر یہ پالیسی نافذالعمل رہی تو لاکھوں پناہ گزین، بالخصوص مشرقِ وسطیٰ، افریقہ اور جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے افراد، امریکا میں داخلے کے مواقع سے محروم ہو جائیں گے، جبکہ سفید فام جنوبی افریقیوں کو ترجیح دینے کا فیصلہ دنیا بھر میں شدید تنازع کا باعث بن سکتا ہے۔