پاکستان اکارڈ پر عمل درآمد سے حادثات سے بچا جاسکتا ہے، ناصر منصور
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن (NTUF) اور ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن (HBWWF) کے اشتراک سے گزشتہ دنوں مقامی ہوٹل میں ٹیکسٹائل گارمنٹس ورکرز کانفرنس منعقدکی گئی جس کا مقصد گارمنٹ انڈسٹری سے وابستہ محنت کشوں میں پاکستان اکارڈ سمیت دیگر قوانین سے آگاہی فراہم کرنا تھا جن سے انکے حقوق کا تحفظ ممکن ہوسکتا ہے۔
کانفرنس کی صدارت پاکستان ٹیکسٹائل ورکرز فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری سید سجاد حسین گردیزی نے کی۔ دیگر مہمان گرامی میں ILUCIP کے نیاز خان، APFUTU سے ثمینہ عرفان، INDUSTRIALL سے سلطان محمد، ماینز ورکر یونین سے سرزمین افغانی ، واپڈا ورکرز یونین سے نوشیر خان اور OGDC ورکرز یونین کے سید اعجاز شاہ بخاری شریک تھے جبکہ کراچی کی مختلف گارمنٹس فیکٹریوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کی بڑی تعداد شریک تھی۔
افتتاحی خطاب میں NTUF کے جنرل سیکرٹری ناصر منصور نے پاکستان اکارڈ (PA) کی اہمیت اور گارمنٹس سیکٹر کے محنت کشوں پر اس کے مثبت اثرات پر روشنی ڈالی جس پر عمل کے نتیجے میں علی انٹرپرائز اور رعنا پلازہ جیسے سانحات سے محنت کشوں کو تحفظ فراہم کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں ہر وہ فیکٹری جو بین الاقوامی برانڈ کی گارمنٹ مصنوعات تیار کر رہی ہے وہ PA میں موجود نکات پر عمل کرنے کی پابند ہے۔
کانفرنس کے لیے انڈسٹریل آل کے ساؤتھ ایشیا کے ریجنل سیکرٹری اساتوش بھٹ اچاریا اور اسپین سے انڈسٹریل آل گلوبل کے کوچیرپرسن وکٹر نے اپنے خطاب کی خصوصی وڈیوز بھیجیں جبکہ امریکہ سے US’s United Workers کی تھریسا نے ویڈیو لنک کے ذریعے براہ راست خطاب کیا اور شرکا کے سوالات کے جوابات بھی دیے۔
پاکستان اکارڈ کے کنٹری منیجر ذوالفقار شاہ نے کہا کہ PA کے تحت 500 گارمنٹس فیکٹریز کے صحت و حفاظت کے حوالے سے معائنے کے پروگرام پر بات کی جس میں سے 150 فیکٹری کا معائنہ مکمل ہوچکا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ فی الوقت یہ اکارڈ صحت و تحفظ کے حوالے سے ہے مگر دسمبر 2025 کے بعد کی تجدید میں اس میں محنت کشوں کی بہتری کے نئے نکات بھی شامل کیے جائیں گے۔
ناصر منصور نے کانفرنس کے پلیٹ فارم سے حکومت سے مطالبہ کیا کہ محنت کشوں کو کم از کم اجرت کی جگہ لیونگ ویج دی جائے، بین الاقوامی برانڈز پاکستان میں اپنی مصنوعات تیار کرنے والی فیکٹریوں میں قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں، ہر گارمنٹ فیکٹری محنت کش کو کم از کم اجرت ادا کرے، حکومت پاکستان اپنی مزدور دشمن روش تبدیل کرے سندھ حکومت فوری طور پر سندھ لیبر کوڈ جیسے ظالمانہ منصوبے کو ترک کرے، جس کی شرکا نے بھر پور تائید کی۔
ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن کی جنرل سیکرٹری اور انڈسٹریل آل کی کو چیئر پرسن زہرا خان نے اپنے خطاب میں SCDDL جو کہ 2023 سے نافذ ہے بتایا کہ گارمنٹ سیکٹر کے محنت کش اس کے ثمرات سے تاحال بہت حد تک محروم ہیں۔
کانفرنس کے اختتامی خطاب میں NTUF مرکزی رہنما رفیق بلوچ نے شرکاء کانفرنس اور خصوصی طور پر دیگر صوبوں سے شرکت کرنے والے افراد کا شکریہ ادا کیا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بلدیہ ٹاؤن سانحہ جس میں علی انٹرپرائز کے 260 محنت کش جل کر شہید ہوگئے تھے ان کے پسماندگان کو حقوق دلانے کے لیے NTUF کے ناصر منصور اور ان کے رفقاء نے جرمنی جا کر اس برانڈ پر مقدمہ کیا جو علی انٹرپرائز میں تیار ہوتا تھا جس کے نتیجے میں اس برانڈ نے 6.
Due Diligence Directives
بھی جاری کیں جن کے تحت جرمنی کا ہر گارمنٹ برانڈ پابند ہے کہ اگر دنیا میں کہیں بھی اس کی مصنوعات تیار کرنے والی فیکٹری میں کوئی حادثہ ہوتا ہے تو اس برانڈ پر جرمنی کی عدالت میں مقدمہ کیا جاسکتا ہے۔ اسی کوشش کے نتیجے میں یورپی یونین اور دیگر ممالک نے بھی قانون سازی کی ہے۔ اس وقت تک دنیا بھر کے 129 برانڈ پاکستان اکارڈ پر دستخط کر چکے ہیں جو علی انٹرپرائز کے شہدا کی قربانی اور NTUF کی مسلسل کاوشوں کا ثمر ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پاکستان اکارڈ علی انٹرپرائز کے نتیجے میں
پڑھیں:
بھارت میں مگ-21 کی آخری پرواز: مسئلہ طیارے میں نہیں، تربیت میں تھا، ماہرین کا انکشاف
بھارتی فضائیہ (IAF) کی تاریخ میں طویل ترین خدمات انجام دینے والا لڑاکا طیارہ مگ-21 ستمبر 2025 کو اپنی آخری پرواز کرے گا، یوں اس کا اہم لیکن متنازعہ دور اختتام پذیر ہونے کو ہے۔ جہاں ایک طرف مگ-21 کو 1971 کی جنگ سمیت کئی محاذوں پر اہم کامیابیوں کا سہرا دیا جاتا ہے، وہیں اسے اڑتا ہوا تابوت کہہ کر بدنام بھی کیا گیا —ایک خطاب جو اس کے حادثات کے سبب اس کے ریکارڈ سے جڑا ہے۔
بھارتی میڈیا ادارے ’این ڈی ٹی وی‘ کی ایک رپورٹ میں بھارتی فضائیہ کے مورخ اور ماہر انچت گپتا نے مگ-21 کے کردار، کامیابیوں، چیلنجز اور اس کی بدنامی کی وجوہات کا تفصیل سے جائزہ لیا۔ ان کے مطابق، مگ-21 کو بدنام کرنے کی بجائے ہمیں اس سسٹم پر سوال اٹھانا چاہیے جس نے ناقص تربیت اور غیر مناسب حکمت عملی کے ذریعے کئی نوجوان پائلٹس کی جانوں کو خطرے میں ڈالا۔
ایک انٹرسیپٹر، جو تربیتی طیارہ بن گیا1963 میں روس سے حاصل کیے گئے مگ-21 طیارے کو اصل میں ہائی ایلٹیٹیوڈ انٹرسیپٹر کے طور پر خریدا گیا تھا، خاص طور پر امریکی U-2 جاسوس طیارے جیسے اہداف کے خلاف۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسے زمین پر حملہ، فضائی دفاع، ریکی، حتیٰ کہ جیٹ تربیت جیسے فرائض میں جھونک دیا گیا — جو اس کے ڈیزائن کے دائرے سے باہر تھے۔
یہ بھی پڑھیے حادثات، ہلاکتیں اور بدنامی: بھارتی فضائیہ کا مگ 21 طیاروں سے جان چھڑانے کا فیصلہ
انچت گپتا نے کہا:
’مگ-21 کو تربیتی طیارے کے طور پر استعمال کرنا سب سے بڑی غلطی تھی۔ اسے سپرسونک کارکردگی کے لیے بنایا گیا تھا، لیکن ہم نے اسے ایسے پائلٹس کو دینا شروع کر دیا جو صرف سب سونک تربیت لے کر آئے تھے۔ یہ فاصلہ تربیتی نظام کی سب سے بڑی خامی تھی۔‘
’اڑتا تابوت‘ کا خطابتقریباً 800 سے زائد مگ-21 طیارے IAF کے بیڑے کا حصہ رہے، جن میں سے 300 حادثات میں تباہ ہوئے۔ لیکن ماہرین کے مطابق یہ خود طیارے کی خرابی نہیں بلکہ ناقابلِ کفایت تربیت، ناقص منصوبہ بندی اور تجربہ کار پائلٹس کی کمی تھی، جس نے ان سانحات کو جنم دیا۔
گپتا کہتے ہیں کہ حادثات کی تحقیقات میں جب ‘انسانی غلطی’ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ پائلٹ قصوروار ہے۔ یہ اس سسٹم پر سوال ہوتا ہے جس نے اس پائلٹ کو مکمل تیاری کے بغیر ایسی خطرناک مشق پر بھیج دیا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی فضائیہ کا مگ 21 طیارہ حادثے کا شکار، 3 افراد ہلاک
انچت گپتا نے بتایا کہ ان کے والد خود مگ-21 پائلٹ رہے ہیں، اور ان کے لیے یہ طیارہ محض ایک مشین نہیں، بلکہ جذباتی وابستگی کا نام ہے۔
’میں نے اپنے والد کو مگ-21 اڑاتے دیکھا ہے۔ ہماری صبح کا الارم وہی گرجدار آواز ہوا کرتی تھی۔ 1986 کی آپریشن براس ٹیکس میں میرے والد بھُج میں تھے، اور وہ روز ٹرینچز میں بیٹھ کر طیاروں کو گن کر واپس آتے دیکھتے تھے۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ہر پائلٹ جو اس طیارے سے جُڑا، اس نے اسے چاہا۔ لیکن جب کوئی ساتھی حادثے میں مارا جاتا، تو صرف ایک زندگی نہیں، ایک پوری کہانی چلی جاتی تھی۔
کارکردگی کا ریکارڈباوجود تنقید کے، مگ-21 نے بھارتی فضائیہ کے کئی اہم جنگی مشنوں میں اہم کردار ادا کیا۔ 1971 کی جنگ میں ’رن وے بسٹر‘ کا لقب پایا۔ کارگل جنگ میں بھی اس کی موجودگی نمایاں رہی، جب اسکواڈرن لیڈر اجے آہوجا نے اس میں جان دی۔
آگے کیا؟ LCA سے امیدیںمگ-21 کی رخصتی کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کی جگہ کون لے گا؟ انچت گپتا کا جواب واضح ہے:
یہ بھی پڑھیں: بھارتی جنگی طیارے ’اڑتے تابوت‘ بن گئے، 550 سے زائد فضائی حادثات، 150پائلٹس ہلاک
’یہ جگہ ہندوستانی لائٹ کامبیٹ ایئرکرافٹ (LCA) کو لینی ہے۔ میری دعا ہے کہ وہ اس ذمہ داری کو نبھا سکے لیکن یہ ایک بڑی جوتی ہے جسے بھرنا آسان نہیں۔‘
خلاصہ: ناکامی نظام کی تھی، طیارے کی نہیںمگ-21 کو ’اڑتا تابوت‘ کہہ کر صرف اس مشین پر الزام دینا انسانی غلطیوں کی اصل وجوہات پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بھارتی فضائیہ مگ 21