مذاکرات دفن، کال کا انتظار، پیپلز پارٹی ناراض
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
مذاکرات دفن ہو گئے، انتقال، تجہیز، تکفین اور تدفین میں ڈیڑھ مہینہ لگ گیا، اشتعال کی خبریں پیدائش (آغاز) کے ساتھ ہی اس وقت آنا شروع ہو گئی تھیں جب پہلے رائونڈ میں پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم سے مطالبات تحریری شکل میں دینے کے لیے کہا گیا۔ ادھر سے اصرار، اڈیالہ جیل سے انکار، انکار کو اقرار میں بدلتے 42 دن لگ گئے گویا مذاکرات کومے میں چلے گئے تاہم مصنوعی سانس کے لیے آکسیجن ماسک لگا دیا گیا۔ رانا ثنا اللہ نے دبے لفظوں میں واضح کر دیا کہ حکومت سے اتنا ہی مانگو جتنا وہ دے سکتی ہے۔ عقل کے دشمنوں کو ’’معرفت کی رموز‘‘ سمجھ میں نہ آئیں کیسے آتیں ان کے اپنے رئوف حسن کے مطابق رابندر ناتھ ٹیگور نے کہا تھا کہ خدا جنہیں تباہ کرنا چاہتا ہے انہیں عقل سے محروم کر دیتا ہے۔ تیسرے رائونڈ میں 42 دنوں میں 3 صفحات لکھنے والوں نے جواب کے لیے حکومت کو صرف سات دن دئیے لیکن سات دن پورے ہونے سے قبل ہی اڈیالہ جیل سے ’’حکم ان کا آیا محبت نہ کرنا‘‘ بیرسٹر گوہر نے حکم ملتے ہی 23 تاریخ کو کومے میں پڑے مذاکرات کے چہرے سے آکسیجن ماسک نوچ کر نہ صرف اشتعال کا اعلان بلکہ قومی اسمبلی کے احاطے ہی میں سپرد خاک کر دیا۔ حکومت قبر کشائی کے لیے تیار، مگر ’’ایک ناں سب کے جواب میں‘‘ حکومتی موقف واضح 9 مئی پر کمیشن رینج سے باہر، 26 نومبر پر کمیشن کمیشن کھیلا جا سکتا ہے۔ جس میں اس بات کی بھی تحقیقات کی جا سکتی ہے کہ ایک صوبہ کے وزیر اعلیٰ اور سابق خاتون اول ’’گھریلو اور دین دار‘‘ نے کس آئینی اختیار کے تحت مسلح جتھوں کے ساتھ وفاقی دارالحکومت پر حملہ کیا، مذاکرات پر بعد از مرگ واویلا کرنے اور سینہ کوبی کرنے والے قبر کشائی پر ہرگز رضا مند نہیں ہوں گے۔ کیوں؟ ترجیحات بدل گئی ہیں۔ دسمبر 2024ء میں حکومت کو مصروف رکھنے کی ضرورت تھی۔ 190 ملین پائونڈ کیس کا فیصلہ تین چار بار ملتوی ہوا تھا مزید التوا مقصود تھا۔ 20 جنوری کو صدر ٹرمپ کی حلف برداری کے بعد کال کا انتظار تھا (حلف برداری سے قبل کوئی دعوت نامہ اور بعد ازاں کوئی کال موصول نہ ہوئی) پشاور میں آرمی چیف اور بیرسٹر گوہر کے دو منٹ کے رسمی مکالموں کو مثبت مذاکرات کا آغاز قرار دیا گیا باہر بیٹھے یوتھیا بریگیڈ کے ڈالر خور اب تک اس کو اچھال رہے ہیں۔ ان ہی دنوں مبینہ طور پر ایک بڑے صنعت کار نے ایک بڑے افسر سے ملاقات کر کے خان کی گارنٹی لینے کی بات کی جواب پوری قوت سے سر ہلا کر نفی میں دیا گیا۔ ہر محاذ پر خاموشی ہر طرف سے کورا جواب خان اندر سے ٹوٹ پھوٹ گئے ایک دن میں پانچ بار طبی معائنہ کرنا پڑا۔ وہ 31 جنوری تک حکومت کو مصروف رکھنا چاہتے تھے۔ مگر انہیں ساکت پانیوں میں مسلسل پتھر پھینکنے کے باوجود مایوسی ہوئی تو انہوں نے مذاکرات کا چیپٹر کلوز کر کے 8 فروری کو اپنی قوم (قوم یوتھ) کو باہر نکلنے کا حکم دے دیا۔ پیارے سجیلے خان بھول گئے کہ 17 جنوری کو انہیں اور ان کی دین دار اہلیہ کو سزا سنائی گئی تو ان کی قوم گھروں تک محدود رہی۔ کوئی ایک نعرہ تک سنائی نہ دیا۔ صرف قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں گیڈروں جیسی آوازیں اور رہا کرو کے پلے کارڈ سننے اور دیکھنے کو ملے ککھ نہ ہلیا، مایوسی تو ہو گی۔ کمال کے انتظار پر شاعر مشرق یاد آ گئے انہوں نے ایک صدی قبل شاید خان کی روح کو ہی مخاطب کر کے کہا تھا ’’بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی، مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے‘‘۔
حالات نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے خان کب تک جیل میں رہیں گے؟ حالات کب اور کیسے بدلیں گے؟ خان کو اور کتنے عذاب بھگتنا ہوں گے؟ قوم یوتھ سڑکوں پر کیوں نہیں آ رہی؟ خان چالیں چلنے کے ماہر ہیں مگر ستاروں کی اپنی چالیں ہیں وہ راستہ بدلنے میں دیر نہیں کرتے، ایک سزا کی تکمیل، 2039ء بہت دور، کس نے دیکھا ہے ’’کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک‘‘ اس کے باوجود خان امید کی ڈور سے بندھے ہیں۔ گزشتہ دنوں کہا کہ موجودہ حکمران کسی خوش فہمی میں نہ رہیں یہ رات کو سو رہے ہوں گے صبح اٹھیں گے تو پتا چلے گا کہ میں رہا ہو چکا ہوں۔ نئے سال کے آغاز پر ہی خان کو اتنے جھٹکے لگے ہیں کہ وہ بہکی بہکی باتیں کر رہے ہیں۔ تشویش کی بات تو ہے ادھر پارٹی کا شیرازہ بلکہ شیرہ بکھر رہا ہے۔ پارٹی پر قبضہ میکے والوں کا ہو گا یا سسرالیوں کا علیمہ باجی اور بشریٰ بی بی کی کوششیں ڈھکی چھپی نہیں پھر کالے کوٹوں والے بھی بھاگ دوڑ میں مصروف ہیں۔ شیر افضل مروت کے بعد نعیم حیدر پنجوتھہ کی ٹی وی شوز میں پٹائی افسوسناک لیکن کیا کیا جائے ’’لفظوں کے انتخاب نے رسوا کیا انہیں‘‘ قوم یوتھ بھی مایوس ہے وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ خان کے دور حکومت میں عام آدمی کو کیا ملا؟
ایک سال ہونے کو آیا جس دن سے موجودہ حکومت بنی ہے پیپلز پارٹی کے ماتھے کی شکنیں دور نہیں ہوئی۔ ’’ہر چند کہیں کہ حکومت میں نہیں ہیں مگر ہیں‘‘ تمام آئینی عہدے صدر، چیئرمین سینیٹ، دو صوبوں کے گورنر، دو صوبوں کی حکومتیں ان کے پاس ہیں مگر صاحبزادہ بلاول زرداری بھٹو مسلسل ایک سال سے ناراض چلے آتے ہیں۔ ن لیگ اب تک کابینہ میں لینے کو تیار مگر پیارے زرداری اور دلارے بلاول شرکت سے گریزاں ذمہ داری سر پر آن پڑے گی۔ سندھ میں چار نہریں نکالنے کے مسئلہ پر قربتیں دوریوں میں بدل رہی ہیں۔ حکومت چولستان اور بلوچستان کی ترقی کے لیے اقدامات کر رہی ہے پیپلز پارٹی سندھ میں اکثریتی پارٹی ہے سارے وڈیرے اس کے اپنے ہیں جو پارٹی سے نکلا پریشان ہوا یعنی ’’جو تیری بزم سے نکلا سو پریشان نکلا‘‘ انہیں اپنی میلوں تک پھیلی زمینوں کے لیے پانی درکار ہے۔ دریائے سندھ ہر سال پنجاب اور سندھ میں تباہی مچاتا سمندر کی گود میں جا گرتا ہے۔ پانی کی کمی کی بنیادی وجہ ڈیمز کی عدم موجودگی ہے پڑوس کے ملکوں میں سیکڑوں ہزاروں کی تعداد میں ڈیمز موجود ہیں ہم 70 سال میں کالا باغ ڈیم کے جادو سے باہر نہیں نکل سکے۔ سندھ میں کوئی بڑا ڈیم نہیں جہاں دریائے سندھ کا پانی سال بھر کے لیے جمع کیا جا سکے۔ حکومت کے اس اعلان سے پیپلز پارٹی مطمئن نہیں کہ پنجاب اپنے حصے کا پانی چولستان اور بلوچستان کو دے گا۔ بد قسمتی ہے ’’سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے‘‘۔ حد نظر تک پھیلی کینچھر جھیل بھی کراچی والوں کی پیاس نہیں بجھا سکی۔ کراچی کے تین ساڑھے تین کروڑ عوام تین چار ہزار روپے کے ٹینکروں سے گندہ پانی لینے پر مجبور، مجبوریاں اپنی جگہ ہیں نیتیں اپنی جگہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی اوپر کی ڈور سے بندھی ہیں تو انہیں دور اندیشی اور تحمل سے کام لیتے ہوئے نہری مسئلہ کو مشترکہ مفادات کو نسل میں حل کرنا چاہیے، گزشتہ جمعہ کو پی پی کی سنٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی میں میاں نواز شریف سے رابطے کا فیصلہ کیا گیا ہے غیروں سے ہاتھ ملانے کی دھمکیوں کی بجائے اپنوں سے رابطے سود مند ثابت ہونگے۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: پیپلز پارٹی کے لیے
پڑھیں:
عرب جذبے کے انتظار میں
اسلام ٹائمز: ماضی میں بھی یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جب بھی اسلامی ممالک نے آپس میں متحد ہو کر ایک فوجی اتحاد تشکیل دیا تو اس کے نتیجے میں اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم بھی پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئی۔ مثال کے طور پر 1973ء میں ماہ مبارک رمضان کی جنگ میں مصر اور شام آپس میں متحد ہوئے اور انہوں نے مل کر اسرائیل کا مقابلہ کیا جس کے نتیجے میں کینال سویز پر مصر کی رٹ بھی قائم ہوئی اور صیہونی رژیم کی جنگی مشینری بھی رک گئی۔ آج بھی خطے میں موجود صلاحیتوں کو بروئے کار ہوتے ہوئے ایک علاقائی فوجی اتحاد تشکیل پانا چاہیے تاکہ اس طرح اسلامی دنیا کی دفاعی طاقت بھی بحال ہو اور ہر قسم کی جارحیت کا سدباب بھی کیا جا سکے۔ امریکہ کا مشہور تجزیہ کار جرج فریڈمین بھی کہتا ہے کہ اسرائیل مغربی ایشیا میں امریکہ کا اسٹریٹجک اتحادی ہے اور امریکہ ہر گز اس کے مقابلے میں عرب ممالک کو ترجیح نہیں دے گا۔ تحریر: سید رضا حسینی
دوحا شہر پر غاصب صیہونی رژیم کی فوجی جارحیت کے آثار ختم ہونے سے پہلے پہلے قطر کے حکمران تل ابیب کی فوجی مہم جوئی کی روک تھام کے لیے عرب اسلامی اتحاد کی اہمیت ہر وقت سے زیادہ محسوس کرنے لگے ہیں۔ آل ثانی خاندان نے امریکی فوجیوں کی میزبانی کر کے ان سے ہر قسم کی فوجی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی امیدیں لگا رکھی تھیں لیکن اسرائیلی حملے کے بعد اب انہوں نے اپنی پالیسی تبدیل کی ہے اور گروہی سلامتی کے اصول پر کاربند ہو چکے ہیں۔ اسی سلسلے میں قطر کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ پیر کے دن عرب اور اسلامی ممالک کا ہنگامی اجلاس دوحا میں منعقد کیا جائے گا جس میں قطر پر اسرائیلی جارحیت کا جائزہ لیا جائے گا اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے مناسب راہ حل تلاش کیا جائے گا۔
خلیجی ریاستوں کی جانب سے قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے امریکہ کی فوجی طاقت پر اعتماد کرنے کا تجربہ ناکام ہو جانے کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری جنرل علی لاریجانی نے ایکس پر اپنے ایک پیغام میں اس بات پر زور دیا ہے کہ قطر کے دارالحکومت دوحا میں منعقد ہونے والے عرب اسلامی سربراہی اجلاس میں صرف زبانی کلامی حد تک اسرائیل کی مذمت نہ کی جائے ورنہ اسرائیل کے جارحانہ اقدامات جاری رہیں گے۔ انہوں نے اپنے پیغام میں مزید لکھا: "صیہونی جنون کے مقابلے میں ایک مشترکہ آپریشن روم تشکیل پانا چاہیے۔" علی لاریجانی نے مزید لکھا: "یہی فیصلہ صیہونی رژیم کے مالک کو تشویش میں مبتلا کر دے گا اور وہ عالمی امن قائم کرنے اور نوبل انعام حاصل کرنے کی خاطر ہی سہی صیہونی رژیم کو ایسے مزید اقدامات انجام دینے سے روکے گا۔"
اتحاد یا نابودی
دوسری جنگ عظیم کے بعد سے مغربی ایشیا پر استعماری طاقتوں کے قبضے اور اثرورسوخ کے باعث عرب اسلامی ممالک اب تک گروہی تحفظ تشکیل دینے میں ناکام رہے ہیں جس کے باعث یہ خطہ عام طور پر مغربی اور مشرقی طاقتوں کے درمیان رسہ کشی کا میدان بنا رہا ہے۔ سرد جنگ کے دوران امریکہ نے سینٹکام (مغربی ایشیا میں امریکہ کی مرکزی فوجی کمان) کے ذریعے خطے کی سلامتی یقینی بنانے کا نظریہ پیش کیا جو آج تک جاری تھا۔ عرب حکمرانوں کا تصور تھا کہ وہ امریکہ کو اپنے اپنے ملک میں فوجی اڈے بنانے کی اجازت دے کر اپنی قومی سلامتی بھی یقینی بنا سکتے ہیں اور یوں کمزور فوج اور فوجی طاقت کا بھی ازالہ کر سکتے ہیں۔ لیکن قطر کے دارالحکومت دوحا پر حالیہ اسرائیلی جارحیت نے انہیں غفلت کی نیند سے بیدار کر دیا ہے۔
آج عرب حکمرانوں پر واضح ہو گیا ہے کہ امریکہ صرف اس وقت تک ان کا دفاع کرے گا جب تک اس کے اپنے مفادات اس بات کا تقاضا نہ کریں کہ عرب ممالک کی قومی سلامتی خطرے میں پڑے۔ لہذا جیسے ہی اسرائیل نے ایک عرب ملک کو فوجی جارحیت کا نشانہ بنانے کا منصوبہ بنایا تو اس ملک میں موجود امریکہ کا جدید ترین میزائل دفاعی نظام خاموش تماشائی بنا رہا اور اسرائیلی میزائل اپنے مطلوبہ اہداف کو نشانہ بناتے رہے۔ وال اسٹریٹ جرنل اپنی ایک رپورٹ میں لکھتا ہے: "اسرائیلی میزائل بحیرہ احمر کے مشرقی ساحل سے اسرائیلی جنگی طیاروں کے ذریعے فائر کیے گئے تھے لہذا اسرائیل نے سعودی عرب کی فضائی حدود کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔ سعودی عرب ایسا ملک ہے جو طوفان الاقصی آپریشن سے کچھ دن پہلے تک اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کے لیے بالکل تیار کھڑا تھا۔ لہذا اسرائیل کے اقدامات نے خلیجی ریاستوں پر بھی اتحاد کی اہمیت واضح کر دی ہے۔"
دنیا کے مسلمانو متحد ہو جاو
ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری جنرل علی لاریجانی نے جو وارننگ جاری کی ہے وہ منافقت اور اجنبی طاقتوں پر تکیہ ختم کر کے آپس میں متحد ہو جانے کی ضرورت پر مبنی ہے۔ گذشتہ چند سالوں سے اسلامی ممالک کے متعدد اجلاس منعقد ہو چکے ہیں لیکن وہ غزہ میں جاری فلسطینیوں کی نسل کشی اور غزہ کے خلاف ظالمانہ محاصرہ ختم کرنے میں کیوں ناکامی کا شکار ہوئے ہیں؟ اس کی واحد وجہ اسلامی ممالک کا آپس میں متحد نہ ہونا اور اپنے دفاع اور سیکورٹی امور کے لیے اجنبی طاقتوں پر تکیہ کرنا ہے۔ اسلامی ممالک اور اسلامی دنیا کی دفاعی طاقت کا ایک ہی راز ہے اور وہ خطے کی سطح پر دفاعی اتحاد اور اداروں کی تشکیل ہے۔ صرف اسی صورت میں اسرائیل کی سرکش اور وحشی صیہونی رژیم کو بھی لگام دیا جا سکتا ہے۔
ماضی میں بھی یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جب بھی اسلامی ممالک نے آپس میں متحد ہو کر ایک فوجی اتحاد تشکیل دیا تو اس کے نتیجے میں اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم بھی پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئی۔ مثال کے طور پر 1973ء میں ماہ مبارک رمضان کی جنگ میں مصر اور شام آپس میں متحد ہوئے اور انہوں نے مل کر اسرائیل کا مقابلہ کیا جس کے نتیجے میں کینال سویز پر مصر کی رٹ بھی قائم ہوئی اور صیہونی رژیم کی جنگی مشینری بھی رک گئی۔ آج بھی خطے میں موجود صلاحیتوں کو بروئے کار ہوتے ہوئے ایک علاقائی فوجی اتحاد تشکیل پانا چاہیے تاکہ اس طرح اسلامی دنیا کی دفاعی طاقت بھی بحال ہو اور ہر قسم کی جارحیت کا سدباب بھی کیا جا سکے۔ امریکہ کا مشہور تجزیہ کار جرج فریڈمین بھی کہتا ہے کہ اسرائیل مغربی ایشیا میں امریکہ کا اسٹریٹجک اتحادی ہے اور امریکہ ہر گز اس کے مقابلے میں عرب ممالک کو ترجیح نہیں دے گا۔