ویمن یونیورسٹی پنڈی کا مشاعرہ اور ڈاکٹر فرحت جبیں
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
غالباً 2004 کی بات ہے ریڈیو پاکستان لاہور کے زیرِ اہتمام 23 مارچ کے حوالے سے الحمرا آرٹس کونسل لاہور کے ہال نمبر تین میں کل پاکستان مشاعرہ تھا جس کا میں پروڈیوسر تھا۔ مشاعرے کی صدارت احمد ندیم قاسمی کر رہے تھے اور ان کے علاوہ اس مشاعرے میں ملک بھر سے منیر نیازی، احمد فراز، افتخار عارف، ظفر اقبال، شہزاد احمد، ناز خیالوی، قاسم پیر زادہ، اسلم انصاری، ریاض مجید، منیر سیفی، اسلم کولسری اور عطاء الحق قاسمی جیسے سینئر اور نامور شعراء شریک تھے۔ دور نزدیک کے سبھی مہمان شاعر ہال میں سٹیج کے سامنے پہلی رو میں کرسیوں پر تشریف فرما تھے، ہال شائقین سے کھچا کھچ بھرا تھا۔ مشاعرے کے باقاعدہ آغاز سے پہلے امجد اسلام امجد جن کے ذمے مشاعرے کی نظامت تھی سٹیج پر میرے ساتھ بیٹھے شعراء کی فہرست ترتیب دے رہے تھے کہ اسی دوران ہال کے واش روم کی طرف سے منیر نیازی آتے دکھائی دیئے۔ جیسے ہی امجد صاحب کی نظر نیازی صاحب پر پڑی تو وہ فہرست بنانا چھوڑ کر نیازی صاحب کو دیکھنے لگے جو کسی مدہوشی کے عالم میں چلتے ہوئے اب عین مشاعرے کی صدارتی کرسی کے سامنے یوں کھڑے تھے جیسے وہ اس پر بیٹھنے ہی والے ہوں۔ اس سے پہلے کہ منیر نیازی صدارتی کرسی پر براجمان ہو جاتے۔ امجد صاحب نے بروقت اس خطرے کو بھانپ کر بلند آواز میں نیازی صاحب کو مخاطب کر کے کہا ’’نیازی صاحب یہ صدر کی کرسی ہے‘‘۔ منیر نیازی نے امجد صاحب کی آواز سنی اور اسی عالم مدہوشی میں چند لمحوں کی خاموشی کے بعد پوچھا ’’وہ کون ہے‘‘۔ اس پر امجد صاحب نے دوبارہ بلند آواز میں کہا ’’احمد ندیم قاسمی صاحب‘‘۔ اب کی بار منیر نیازی نے باقاعدہ گردن موڑ کر امجد اسلام امجد کی طرف دیکھا اور پھر بڑے ڈرامائی انداز میں کہا ’’وہ کون ہے‘‘۔ جو لوگ منیر نیازی کو قریب سے جانتے ہیں وہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ منیر نیازی ایسے ہی تھے اور ایسا سوال اور ایسا جواب وہ ہی دے سکتے ہیں۔ دلچسپ اور مزے کی بات ہے کہ یہ انوکھا انداز اُن پر جچتا بھی تھا اور سوائے ایک آدھ زود رنج کے بڑے بڑے شاعر اپنے حوالے سے اُن کے ایسے جملوں کا مزا لیتے تھے۔ منیر نیازی منفرد لب و لہجے کے ایک ایسے خوبصورت شاعر تھے جن کی شاعری، برجستہ جملوں اور شخصیت کا جادو آج بھی اردو ادب کے قارئین کے دلوں پر راج کرتا ہے۔ ہمارے ہاں اردو، پنجابی اور دیگر زبانوں میں یوں تو اچھا شعر کہنے والے بڑے بڑے باکمال شاعر پہلے بھی تھے اور آج بھی ہیں مگر وہ جو رومانوی فلموں، ناولوں اور ڈراموں میں ایک خوبصورت، خوش لباس، خوش گلو اور کرشماتی شاعر کا ایک تصوراتی خاکہ بنتا ہے۔ ہمارے ادبی منظر نامے میں اب تک اس معیار پر صرف منیر نیازی ہی پورا اُترتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ منیر نیازی کے اس فانی دنیا سے جانے کے بعد بھی اُن کی مقبولیت میں رتی بھر فرق نہیں آیا۔ اُن سے پیار کرنے والے انہیں مختلف حیلوں بہانوں سے آج بھی یاد کرتے رہتے ہیں۔ منیر نیازی کے بے شمار چاہنے والوں کی طرح میرا شمار بھی اُن کے پرستاروں میں ہوتا ہے مگر میں اس حوالے سے خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ مجھے اُن کے ساتھ دو تین مشاعرے پڑھنے کا موقع ملا۔ اس کے علاوہ انہوں نے 1998ء میں شائع ہونے والے میرے پہلے پنجابی شعری مجموعے ’’کون دلاں دیاں جانے‘‘ کے لیے فلیپ بھی لکھا تھا۔ میرے لیے اُن کی وہ چند لائنیں آج بھی کسی قیمتی اعزاز سے کم نہیں ہیں۔ باکمال شاعری، برجستہ جملوں اور اپنی دلکش شخصیت کے مختلف حوالوں سے یوں تو منیر نیازی مجھے بھی اُن کے دیگر بے شمار چاہنے والوںکی طرح اکثر کسی نہ کسی بہانے سے یاد آتے رہتے ہیں مگر آج اتنے عرصے بعد خاص طور پر اپنے سامنے گزرا اُن کا یہ مزیدار واقعہ مجھے فاطمہ جناح وویمن یونیورسٹی راولپنڈی میں شعبہ اردو کی سربراہ ڈاکٹر فرحت جبیں ورک کی منیر نیازی کے شعری تصورات کے حوالے سے لکھی کتاب ’’ایک نگر ایجاد کروں‘‘ دیکھ کر بس یونہی یاد آ گیا ہے۔ منیر نیازی کے فن اور شخصیت کے حوالے سے تنقید اور تحقیق کی یہ خوبصورت کتاب ڈاکٹر صاحبہ نے مجھے اپنے ہاں یونیورسٹی میں منعقدہ مشاعرے کے اختتام پر عنایت کی تھی جس میں شرکت کے لیے میں اُن کی دعوت پر خاص طور پر لاہور سے گیا تھا۔ کچھ نئے دوستوں سے پہلی بار بالمشافہ ملنے کے حوالے سے میرے لیے یہ ایک یادگار مشاعرہ تھا۔ مشاعرے کی صدارت شکیل جاذب نے کی جبکہ مہمان خصوصی صائمہ آفتاب تھیں دیگر شاعروں میں میرے علاوہ سبھی مقامی شاعر تھے جن میں میرے ’’دُورکے جاننے والوں‘‘ میں بس خالد اقبال یاسر، ڈاکٹر فاخرہ نورین اور ڈاکٹر عزیز فیصل ہی تھے۔ باقی سارا مال نیا تھا نئے شاعروں میں مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے شیدا جنٹری میں پھس گیا ہو۔ یہ ایک شاندار مشاعرہ تھا جس میں ڈاکٹر فرحت جبیں وِرک کے حسن انتظام اور اُن کی خوبصورت نظامت کے علاوہ مشاعرے کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس میں میری درخواست پر بطور خاص ہمارے دوست اور ممتاز مزاح نگار ڈاکٹر ذوالفقار احسن بھی ایک سامع کی حیثیت سے تشریف لائے تھے۔ مجھے نہیں پتا اُن کی مشاعرہ سننے میں کتنی دلچسپی تھی البتہ سٹیج پر بیٹھے بیٹھے میں نے ایک بات ضرور نوٹ کی کہ اپنے دائیں بائیں مشاعرہ دیکھنے میں وہ اختتام تک بھرپور دلچسپی لیتے رہے۔ حتیٰ کہ مشاعرے کے بعد جب سموسوں اور چائے کا دور چل رہا تھا وہاں بھی ڈاکٹر ذوالفقار احسن کی یہ وارفتگی پوری طرح برقرار رہی۔ ڈاکٹر صاحب مرد و زن کی تفریق کے بغیر لگا تار کسی ماہر تلوار باز کی طرح اپنے برجستہ جملوں سے کشتوں کے پشتے یا پشتوں کے کشتے لگاتے جا رہے تھے۔ اُن کے شوخ اور مزیدار جملوں سے کچھ لوگ محظوظ تو کچھ اِدھر اُدھر کھسک کر محفوظ ہوتے رہے۔ مجھے چونکہ واپسی کی جلدی تھی اور بھوک بھی شدید لگی تھی اس لیے میں نے ڈاکٹر فرحت جبیں وِرک سے یہ کہتے ہوئے اجازت طلب کی کہ ’’ڈاکٹر صاحبہ مجھے اجازت دیں میں نے لاہور پہنچ کر روٹی شوٹی بھی کھانی ہے‘‘۔ اس پر پتا نہیں کیوں ڈاکٹر ذوالفقار احسن ہنستے ہوئے لوٹ پوٹ ہو گئے۔ جہاں تک ڈاکٹر فرحت جبیں وِرک کی منیر نیازی کے فن اور شخصیت پر مبنی کتاب ’’ایک نگر ایجاد کروں‘‘ کی بات ہے تو اس حوالے عرض کروں کہ وہ جو کسی شاعر نے کہا ہے ناں ’’ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا‘‘۔ ایک تو ہم سب کے پسندیدہ شاعر منیر نیازی کا ذکر اور اس پر ڈاکٹر صاحبہ نے جس محبت، عقیدت اور لگن سے اپنے موضوع سے انصاف کیا ہے اس نے ہمارے جیسے بندے کو بھی یہ کتاب پڑھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ایک ایسے دور میں کہ جب بازار علم و ادب میں پی ایچ ڈی کے ’’ریڈی میڈ‘‘ مقالوں کا سستا لنڈا بازار لگا ہوا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے کسی ’’ریڈی میڈ‘‘ فارمولے کی بجائے ڈھیروںکتابیں کھنگال کر جس عرق ریزی سے منیر نیازی کی شخصیت، حالات زندگی اور شاعری کے مختلف پہلوئوں کا تفصیل اور استدلال سے تجزیہ کیا ہے۔ منیر نیازی کی شخصیت اور اُن کی شاعری کے مختلف پہلوئوں کو سمجھنے اور اُن سے حقیقی معنوں میں حظ اُٹھانے کے لیے اردو ادب کے قارئین اور تنقید و تحقیق کے طالب علموں کے لیے یقینا یہ ایک بہترین اور مستند کتاب ہے جس پر بلاشبہ ڈاکٹر فرحت جبیں وِرک تحسین کی مستحق ہیں۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: ڈاکٹر فرحت جبیں و رک منیر نیازی کے ڈاکٹر صاحبہ کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب نیازی صاحب مشاعرے کی ا ج بھی کے لیے مجھے ا
پڑھیں:
وفاقی جامعات کےکراچی کیمپسز کا منصوبہ سرخ فیتے کی نظر
اسلام ٓباد (نیوز ڈیسک)وفاقی حکومت کی بیورو کریسی نے کراچی میں فیڈرل چارٹر پبلک یونیورسٹیز کے کیمپس کے قیام کا منصوبہ فائلوں میں دبا دیا ہے۔
کراچی میں آرٹ ، ڈیزائن، فیشن اور ٹیکنیکل اسکلز کا ڈسپلن سے تعلق رکھنے والی جامعات کے کیمپسز کھولنے کا منصوبہ ادھورا رہ گیا ہے اور ڈیڑھ برس میں کراچی کے شہریوں کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا۔
یاد رہے کہ منصوبہ کا اعلان ایم کیو ایم کے چیئرمین اور وفاقی وزیر تعلیم ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے تقریبا ڈیڑھ سال قبل ایک پریس کانفرنس کے ذریعے کیا تھا جبکہ تقریبا ایک سال قبل اس سلسلے ایک پرشکوہ تقریب موہتا پیلس کراچی میں ہوئی تھی۔
تقریب میں آرٹ اور فیشن کی تعلیم دینے والی لاہور کی معروف یونیورسٹی “پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف فیشن ڈیزائننگ” کے کراچی میں فوری کیمپس کھولنے اور شارٹ کورسز سے کلاسز کا آغاز کرنے کی خوشخبری سنائی گئی۔
اس سے قبل منعقدہ پریس کانفرنس جو جون 2024 کے آخری عشرے میں ہوئی تھی اس میں ” نیشنل کالج آف آرٹس( این سی اے)، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف فیشن ڈیزائننگ(پی آئی ایف ڈی) اور نیشنل اسکلز یونیورسٹی اسلام آباد کے کراچی میں کیمپسز جبکہ اردو یونیورسٹی کی طرز پر کراچی میں مزید ایک فیڈرل چارٹر پبلک یونیورسٹی کے قیام کی بات کی گئی تھی۔
تاہم پریس کانفرنس کو ڈیڑھ برس جبکہ موہتا پیلس کی تقریب کو تقریبا 1 برس گزرنے کے باوجود کراچی میں مذکورہ بالا جامعات کا نا تو کوئی کیمپس کھل سکا اور نہ ہی بی ایس پروگرام کے داخلے، شارٹ کورسز شروع ہوسکے بلکہ بظاہر سارا کا سارا منصوبہ فائلوں میں بند کردیا گیا۔
یاد رہے کہ جس وقت وفاقی وزیر تعلیم ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی جانب سے اس منصوبے کا اعلان ہوا تھا اس وقت وفاقی سیکریٹری تعلیم محی الدین وانی تھے جنھوں نے انتہائی تیزی اور سرعت کے ساتھ اس منصوبے پر کام شروع کیا تھا۔
اسی اثنا میں ان کا تبادلہ ہوگیا اور وفاقی حکومت کے افسر ندیم محبوب کو وفاقی سیکریٹری تعلیم مقرر کردیا گیا اس وقت سیکریٹری تعلیم کے پاس چیئرمین ایچ ای سی کا چارج بھی ہے۔