Nai Baat:
2025-11-03@15:49:15 GMT

وائس چانسلرز تعیناتی کے مجوزہ معیار پر اعتراض کیوں؟

اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT

وائس چانسلرز تعیناتی کے مجوزہ معیار پر اعتراض کیوں؟

گزشتہ کئی دن سے سندھ کی سرکاری جامعات خبروں کی زینت بنی ہوئی ہیں۔ بیشتر جامعات میں اساتذہ سراپا احتجاج ہیں۔ تعلیمی اور تدریسی عمل معطل ہے۔ حکومت سندھ اور وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کڑی تنقید کی زد میں ہیں۔ احتجاج کی وجہ یہ ہے کہ سندھ کابینہ نے سندھ یونیورسٹیز اینڈ انسٹی ٹیوٹس ایکٹ 2018ء میں کچھ ترامیم کی منظوری دی ہے۔ یہ ترامیم سندھ کی جامعات میں وائس چانسلروں کی تعیناتی کے رائج طریقہ کار میں تبدیلی سے متعلق ہیں۔ تجویز ہوا ہے کہ گریڈ اکیس یا بائیس کا کوئی بھی سرکاری افسر، جو چار سالہ انتظامی تجربے کا حامل ہو، سرکاری جامعہ میں وائس چانسلر کے عہدے کیلئے درخواست دینے کا اہل ہو گا۔ایسے امیدوار کیلئے پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری کی شرط نہیں ہے، البتہ متعلقہ مضمون میں ایم۔اے کی ڈگری لازمی ہے۔ اس ضمن میں انجینئرنگ یونیورسٹیوں کو استثنیٰ حاصل ہے۔ واضح رہے کہ کوئی بھی ایسا شخص جو پروفیسر بننے کا اہل ہے ، اور چار سال کا تجربہ رکھتا ہے، وہ بھی وائس چانسلر بننے کا اہل ہو گا۔

سرکاری جامعات کے اساتذہ اور انکی نمائندہ تنظیم اس مجوزہ معیار (criterion) پر شدید معترض ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مجوزہ ترمیم کے ذریعے سندھ حکومت دراصل سرکاری افسروں اور بیوروکریٹس کو جامعات کا وائس چانسلر بنانے کی راہ ہموار کر رہی ہے۔ ان کا نکتہ نظر ہے کہ جامعات کی سربراہی کیلئے پی۔ایچ۔ڈی کی شرط ختم کرنے سے تحقیقی اور تعلیمی عمل بری طرح متاثر ہو گا۔ یہ بیانات بھی میری نگاہ سے گزرے کہ ایک نان۔ پی۔ایچ۔ڈی کس طرح تعلیمی معاملات کی تفہیم کرسکے گا۔ سینڈیکیٹ ا ور دیگر اہم فارموں، علمی تحقیق اور عالمی درجہ بندی سے جڑے پیچیدہ معاملات کو کیسے سمجھے گا؟ یہ بھی سننے کو ملا کہ ایک نان۔ پی۔ایچ۔ڈی سربراہ کی تقرری سے متعلقہ جامعہ کے وقار پر زد پڑے گی۔ وغیرہ وغیرہ ۔ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ جامعہ کی سربراہی کیلئے پی۔ ایچ ۔ڈی کے حامل پروفیسر کے علاوہ کسی اور کو تعینات نہیں ہونا چاہیے۔

دوسری طرف وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا مؤقف ہے کہ سرکاری جامعات تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کچھ جامعات کے وائس چانسلر صاحبان جنسی ہراسانی اور مالی بد عنوانی کے مرتکب ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے تنبیہ کی ہے کہ احتجاج پر اکسانے اور اسے ہوا دینے والے وائس چانسلر اس عمل سے باز نہ آئے تو ان کی گرفت کی جائے گی۔ وزیر اعلیٰ سندھ کی یہ بات قابل جواز معلوم نہیں ہوتی۔ اگر کچھ وائس چانسلر صاحبان مالی بد عنوانی یا ہراسانی میں ملوث ہیں ، تو ان کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔ آپ کسی بیوروکریٹ کو کسی جامعہ کے عہدے پر بٹھا دیں، یا کسی مسجد کے مولوی کو، ایسی شکایات تب بھی پیدا ہو سکتی ہیں۔ مطلب یہ کہ مالی بد عنوانی اور ہراسانی کے جواز پر جامعات میں وائس چانسلروں کی تعیناتی کا طریقہ کار تبدیل کرنے میں کوئی منطق نہیں ہے۔ اس کے لئے آپ کوئی اور دلیل پیش کریں۔
تاہم دوسری طرف اس بات میں بھی وزن نہیں ہے کہ صرف تدریسی تجربے کا حامل ایک پی۔ایچ۔ڈی پروفیسر ہی جامعہ کے معاملات کو عمدہ طریقے سے چلا سکتا ہے۔ کوئی نان پی۔ایچ۔ڈی اس قابل نہیں کہ کسی جامعہ کے انتظامی معاملات کو سمجھ سکے یا چلا سکے۔ احتجاج اور اعتراض کرنے والوں کی اس بات کو درست مان لیا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پی۔ایچ۔ڈی وائس چانسلروں کی موجودگی میں گزشتہ کئی برس سے ہماری سرکاری جامعات زوال پذیر کیوں ہیں؟ہمای اعلیٰ تعلیم کا معیار کیوں مسلسل گراوٹ کا شکار ہے؟78 سال گزرنے کے باوجود عالمی سطح پر ہماری ڈگریوں کی وہ اہمیت کیوں نہیں ہے، جو ہونی چاہیے ؟ سب سے اہم بات یہ کہ ہماری سرکاری جامعات اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے بجائے بدترین مالی بحران کا شکار کیوں ہیں؟
وائس چانسلر جامعہ کے انتظامی امور کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ یعنی یہ ایک انتظامی عہدہ ہے۔اس عہدے سے جڑی ذمہ داریوں کو نبھانے کیلئے آپ کو اچھا، متحرک اور ایماندار منتظم ہونا چاہیے۔ ایسا نہیں ہے کہ پی۔ایچ۔ ڈی ڈگری کی اہمیت نہیں ہے ۔ اس بات کی حمایت بھی نہیں کی جا سکتی کہ بیوروکریٹس کی تعیناتیوں کیلئے جامعات کے پھاٹک کھلے چھوڑ دئیے جائیں۔ تا ہم اس نکتہ نظر سے اتفاق کرنا بھی ممکن نہیں کہ کوئی نان ۔ پی۔ایچ۔ڈی کسی جامعہ کو عمدہ طریقے سے نہیں چلا سکتا۔ ایک نان ۔ پی۔ایچ۔ڈی کسی صوبائی یا وفاقی وزارت کو عمدگی سے چلا سکتا ہے تو ایک جامعہ کو کیوں نہیں؟ ہماری افسر شاہی میں بہت سے اچھے اور قابل افسران موجود ہیں۔دوسری طرف ایسے بھی ہیں جن کے ماتھے پر بدعنوانی اور بد انتظامی کا داغ لگا ہے۔ اسی طرح جامعات میں بھی قابل اور ایماندار اساتذہ موجود ہیں اور اس کے قطعی برعکس بھی۔ یعنی کسی ایک شعبے کو سو فیصد ٹھیک یا غلط نہیں کہا جا سکتا۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت ملک کی کم وبیش تمام سرکاری جامعات خسارے کا شکار ہیں۔ بیشتر جامعات ملازمین اور اساتذہ کو بروقت تنخواہ اور پنشن ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ جامعات کو ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کی طرف دیکھنا پڑتا ہے یا ادھر ادھر سے ادھار مانگ کر گزارا کرنا پڑ تاہے۔ ایک نان پی۔ایچ ۔ڈی اگر مالی بحران میں گھری جامعہ کو اپنے پیروں پر کھڑا کر سکتا ہے تو اس کی تعیناتی میں کیا حرج ہے؟مثال کے طور پر معاشی امور کا ایک اچھا ماہرسرکاری جامعہ کو مالی بحران سے نجات دلا نے کے قابل ہے تو اس کو ضرور موقع ملنا چاہیے۔

اعتراض ہو رہا ہے کہ وائس چانسلر کا پی۔ایچ۔ڈی ہونا بے حد ضروری ہے۔ کیا آپ نہیں جانتے کہ ہماری بہت سی نجی اور سرکاری جامعات نے پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگریاں بیچنے کی دکانیں کھول رکھی ہیں؟ آپ لاکھوں روپے فیس بھریں اور یہ ڈگری خرید کر ماتھے پر سجا لیں۔ کہا جا رہا ہے کہ جامعہ کے وائس چانسلر کو علمی تحقیق کی سمجھ بوجھ ہونی چاہیے تاکہ وہ تحقیقی عمل کی ترویج کیلئے کام کر سکے۔ ہمارے ہاں بہت سے اساتذہ نے تحقیقی مقالے لکھنے کی ایک اندھی دوڑ شروع کر رکھی ہے۔ ایسے بھی ہیں جو ہر سال بیس بیس تحقیقی مقالے لکھتے اور چھپواتے ہیں۔ اگلے دن وزارت تعلیم کے ایک اعلیٰ افسر بتا رہے تھے کہ ایک یونیورسٹی پروفیسر نے انہیں باقاعدہ پیشکش کی کہ آپ کے نام سے پندرہ بیس آرٹیکل چند مہینوں میں شائع کر کے آپ کی وائس چانسلر شپ کی بنیادی requirement پوری کی جا سکتی ہے۔تو کیا پندرہ ، بیس تحقیقی مقالے لکھنا اور پی ۔ایچ،ڈی کرنا ا س قدر مشکل کام ہے ، جو پروفیسروں کے علاوہ کوئی اور نہیں کر سکتا ؟ یہ اعتراض بھی ہو رہا ہے کہ(صفحہ 4پر بقیہ نمبر1)
نان پی۔ایچ۔ڈیز کی تعیناتی سے جامعہ کا وقار متاثر ہو گا۔ عرض ہے کہ ہماری جامعات کا وقار تب بھی متاثر ہوتا ہے جب ہمارے پروفیسر صاحبان کی جعلی تحقیق اور چربہ سازی کے قصے عالمی سطح پر مشہور ہوتے ہیں۔ ان پروفیسر صاحبا ن کی جعلی ڈگریوں اور تحقیقی مقالہ جات کے قصے بھی ہمیں یاد ہیں جو برسوں جامعات کے وائس چانسلر رہے اور ہائیر ایجوکیشن کمیشنوں میں اعلیٰ عہدوں پرتعینات بھی۔
بہرحال وزیر اعلیٰ سندھ کی اس بات سے اتفاق کرنا پڑتا ہے کہ وائس چانسلر وں کی تعیناتی کا جو طریقہ کار رائج ہے ، اس کے ذریعے گھوم پھر کر چند نام ہیں جو گزشتہ کئی سالوں سے بار بار وائس چانسلر بن رہے ہیں۔ باقی صوبوں میں بھی صورتحال مختلف نہیں ہے۔ ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ وائس چانسلر تعیناتی کے عمل میں نئے امیدواروں کو بھی موقع دینا چاہتا ہے تو اس میں اعتراض کی کیا بات ہے۔ سندھ کی وزارت تعلیم کے ایک افسر سے میری بات ہوئی، پتہ یہ چلا کہ اس مجوزہ معیار میں صرف نان پی۔ایچ۔ڈیز نہیں بلکہ کم انتظامی تجربے کے حامل نسبتاً جو نیئر پروفیسروں کیلئے بھی وائس چانسلر بننے کی راہ ہموار ہوگی۔

ویسے یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک کی جامعات میں غیر تدریسی پس منظر کے حامل سربراہان کی تعیناتی کی مثالیں موجود ہیں۔ امریکہ جیسے ملک میں بھی آئیوا (IOWA)اور پرڈیو( (Purdueجیسی نامور سرکاری جامعات سمیت کئی یونیورسٹیوں میں غیر تدریسی پس منظر کی حامل شخصیات جامعات کی سربراہ بنیں۔ یورپ میں بھی یہ مثالیں موجود ہیں۔البتہ وہاں برسوں سے یہ بحث جاری ہے کہ جامعہ کے سربراہ کے تدریسی اور غیر تدریسی پس منظر سے جامعہ پر عملی طور پر کیا فرق پڑتا ہے۔ پاکستان میں بھی آپ یہ بحث ہونے دیجئے اور یہ نیا تجربہ بھی۔تاہم لازم ہے کہ سندھ حکومت یا کوئی بھی صوبائی حکومت یہ تجربہ کرتی ہے تو اس کے پیش نظر جامعات کا مفاد اور اصلاح احوال ہو نہ کہ اقربا پروری اور دوست نوازی۔سندھ حکومت باقاعدہ قانون سازی کر کے غیر تدریسی پس منظر کے حامل افراد کیلئے جامعات کے دروازے کھول رہی ہے تو تدریسی پس منظر کے حامل افراد کیلئے بھی حکومت کے دروازے کھولے۔ وزیر اعلیٰ سندھ ذہین پروفیسروں کو اپنی حکومت اور مشاورتی حلقے کاحصہ بنائیں جیسا کہ دیگر ممالک میں ہوتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ حکومت سندھ لگے ہاتھوں یہ تجربہ بھی کر ڈالے۔

 

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: سرکاری جامعات وائس چانسلر جامعات میں کی تعیناتی نان پی ایچ وزیر اعلی جامعات کے موجود ہیں پی ایچ ڈی رہا ہے کہ جامعہ کے جامعہ کو ہے تو اس نہیں ہے سندھ کی ہوتا ہے میں بھی کے حامل ایک نان اس بات

پڑھیں:

ستائیسویں آئینی ترمیم کے مجوزہ ڈرافٹ کے اہم نکات سامنے آ گئے

حکومت کی جانب سے ستائیسویں آئینی ترمیم  کے مجوزہ ڈرافٹ کے اہم نکات سامنے آ گئے۔

ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت آئین کے پانچ آرٹیکلز میں ترامیم کی خواہاں ہے۔ اس سلسلے میں  مجوزہ ترمیم میں آئین کے آرٹیکل 160، شق 3 اے، آرٹیکل 213، آرٹیکل 243 اور آرٹیکل 191 اے  میں ترمیم  کی تجاویز شامل کی گئی ہیں۔

آرٹیکل 160 کی شق 3A میں ترمیم کی تجویز  دی گئی ہے، مجوزہ ترمیم کے تحت صوبوں کے وفاقی محصولات میں حصے کے حوالے سے آئینی ضمانت ختم کرنے کی تجویز شامل  کی گئی ہے۔ اسی طرح عدالتی ڈھانچے میں بڑی تبدیلی  کر کےآرٹیکل 191A اور نیا آرٹیکل شامل کرنے کی تجویز  بھی ڈرافٹ میں شامل ہے، جس کے مطابق نئے ڈھانچے کے تحت ایک آئینی عدالت یا سپریم آئینی عدالت قائم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

یہ خبر بھی پڑھیں: وزیراعظم نے 27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کیلیے حمایت مانگی، بلاول بھٹو نے تفصیلات  جاری کردیں

ذرائع کے مطابق  مجوزہ ترمیم کے تحت آئینی تشریحات کے حتمی اختیار میں تبدیلی کی تجویز  بھی دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ہائی کورٹ کے ججز کی منتقلی سے متعلق آرٹیکل 200 میں بھی ترامیم شامل ہیں۔

علاوہ ازیں تعلیم اور آبادی کی منصوبہ بندی کے شعبے دوبارہ وفاق کے ماتحت لانے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔  اسی طرح آرٹیکل 243 میں ترمیم  سے مسلح افواج کی کمان مکمل طور پر وفاقی حکومت کے ماتحت رکھنے کی تجویز شامل  ہے۔ آرٹیکل 213 کے تحت چیف الیکشن کمشنر کے تقرر میں تبدیلی کی تجویز  بھی ڈرافٹ کا حصہ ہے۔

وفاقی حکومت نے 27 ویں آئینی ترامیم کا مجوزہ مسودہ پیپلزپارٹی کے حوالے کردیاہے اور پی پی سے اس ترمیم کی منظوری کے لیے حمایت طلب کی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • جامعہ ملیہ اسلامیہ میں "کلچرل کنیکٹس اور ڈپلومیٹک ڈائیلاگ" پر ورکشاپ منعقد
  • 13 آبان استکبارستیزی اور امریکہ کے خلاف جدوجہد کی علامت ہے، حوزه علمیہ قم
  • ستائیسویں آئینی ترمیم کے مجوزہ ڈرافٹ کے اہم نکات سامنے آ گئے
  • سندھ ہائیکورٹ نے ٹی ایل پی پر پابندی کیخلاف درخواست اعتراض لگاکر نمٹا دی
  • بلیاں بھی انسانوں کی طرح مختلف مزاج رکھتی ہیں، ہر بلی دوست کیوں نہیں بنتی؟
  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • شاہ رخ خان کی سالگرہ: 60 کی عمر میں بھی جین زی کے پسندیدہ ’لَور بوائے‘ کیوں ہیں؟
  • میں گاندھی کو صرف سنتا یا پڑھتا نہیں بلکہ گاندھی میں جیتا ہوں، پروفیسر مظہر آصف
  • نریندر مودی اور موہن بھاگوت میں اَن بن کیوں؟
  • سڑکیں کچے سے بدتر، جرمانے عالمی معیار کے