وائس چانسلرز تعیناتی کے مجوزہ معیار پر اعتراض کیوں؟
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
گزشتہ کئی دن سے سندھ کی سرکاری جامعات خبروں کی زینت بنی ہوئی ہیں۔ بیشتر جامعات میں اساتذہ سراپا احتجاج ہیں۔ تعلیمی اور تدریسی عمل معطل ہے۔ حکومت سندھ اور وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کڑی تنقید کی زد میں ہیں۔ احتجاج کی وجہ یہ ہے کہ سندھ کابینہ نے سندھ یونیورسٹیز اینڈ انسٹی ٹیوٹس ایکٹ 2018ء میں کچھ ترامیم کی منظوری دی ہے۔ یہ ترامیم سندھ کی جامعات میں وائس چانسلروں کی تعیناتی کے رائج طریقہ کار میں تبدیلی سے متعلق ہیں۔ تجویز ہوا ہے کہ گریڈ اکیس یا بائیس کا کوئی بھی سرکاری افسر، جو چار سالہ انتظامی تجربے کا حامل ہو، سرکاری جامعہ میں وائس چانسلر کے عہدے کیلئے درخواست دینے کا اہل ہو گا۔ایسے امیدوار کیلئے پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری کی شرط نہیں ہے، البتہ متعلقہ مضمون میں ایم۔اے کی ڈگری لازمی ہے۔ اس ضمن میں انجینئرنگ یونیورسٹیوں کو استثنیٰ حاصل ہے۔ واضح رہے کہ کوئی بھی ایسا شخص جو پروفیسر بننے کا اہل ہے ، اور چار سال کا تجربہ رکھتا ہے، وہ بھی وائس چانسلر بننے کا اہل ہو گا۔
سرکاری جامعات کے اساتذہ اور انکی نمائندہ تنظیم اس مجوزہ معیار (criterion) پر شدید معترض ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مجوزہ ترمیم کے ذریعے سندھ حکومت دراصل سرکاری افسروں اور بیوروکریٹس کو جامعات کا وائس چانسلر بنانے کی راہ ہموار کر رہی ہے۔ ان کا نکتہ نظر ہے کہ جامعات کی سربراہی کیلئے پی۔ایچ۔ڈی کی شرط ختم کرنے سے تحقیقی اور تعلیمی عمل بری طرح متاثر ہو گا۔ یہ بیانات بھی میری نگاہ سے گزرے کہ ایک نان۔ پی۔ایچ۔ڈی کس طرح تعلیمی معاملات کی تفہیم کرسکے گا۔ سینڈیکیٹ ا ور دیگر اہم فارموں، علمی تحقیق اور عالمی درجہ بندی سے جڑے پیچیدہ معاملات کو کیسے سمجھے گا؟ یہ بھی سننے کو ملا کہ ایک نان۔ پی۔ایچ۔ڈی سربراہ کی تقرری سے متعلقہ جامعہ کے وقار پر زد پڑے گی۔ وغیرہ وغیرہ ۔ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ جامعہ کی سربراہی کیلئے پی۔ ایچ ۔ڈی کے حامل پروفیسر کے علاوہ کسی اور کو تعینات نہیں ہونا چاہیے۔
دوسری طرف وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا مؤقف ہے کہ سرکاری جامعات تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کچھ جامعات کے وائس چانسلر صاحبان جنسی ہراسانی اور مالی بد عنوانی کے مرتکب ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے تنبیہ کی ہے کہ احتجاج پر اکسانے اور اسے ہوا دینے والے وائس چانسلر اس عمل سے باز نہ آئے تو ان کی گرفت کی جائے گی۔ وزیر اعلیٰ سندھ کی یہ بات قابل جواز معلوم نہیں ہوتی۔ اگر کچھ وائس چانسلر صاحبان مالی بد عنوانی یا ہراسانی میں ملوث ہیں ، تو ان کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔ آپ کسی بیوروکریٹ کو کسی جامعہ کے عہدے پر بٹھا دیں، یا کسی مسجد کے مولوی کو، ایسی شکایات تب بھی پیدا ہو سکتی ہیں۔ مطلب یہ کہ مالی بد عنوانی اور ہراسانی کے جواز پر جامعات میں وائس چانسلروں کی تعیناتی کا طریقہ کار تبدیل کرنے میں کوئی منطق نہیں ہے۔ اس کے لئے آپ کوئی اور دلیل پیش کریں۔
تاہم دوسری طرف اس بات میں بھی وزن نہیں ہے کہ صرف تدریسی تجربے کا حامل ایک پی۔ایچ۔ڈی پروفیسر ہی جامعہ کے معاملات کو عمدہ طریقے سے چلا سکتا ہے۔ کوئی نان پی۔ایچ۔ڈی اس قابل نہیں کہ کسی جامعہ کے انتظامی معاملات کو سمجھ سکے یا چلا سکے۔ احتجاج اور اعتراض کرنے والوں کی اس بات کو درست مان لیا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پی۔ایچ۔ڈی وائس چانسلروں کی موجودگی میں گزشتہ کئی برس سے ہماری سرکاری جامعات زوال پذیر کیوں ہیں؟ہمای اعلیٰ تعلیم کا معیار کیوں مسلسل گراوٹ کا شکار ہے؟78 سال گزرنے کے باوجود عالمی سطح پر ہماری ڈگریوں کی وہ اہمیت کیوں نہیں ہے، جو ہونی چاہیے ؟ سب سے اہم بات یہ کہ ہماری سرکاری جامعات اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے بجائے بدترین مالی بحران کا شکار کیوں ہیں؟
وائس چانسلر جامعہ کے انتظامی امور کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ یعنی یہ ایک انتظامی عہدہ ہے۔اس عہدے سے جڑی ذمہ داریوں کو نبھانے کیلئے آپ کو اچھا، متحرک اور ایماندار منتظم ہونا چاہیے۔ ایسا نہیں ہے کہ پی۔ایچ۔ ڈی ڈگری کی اہمیت نہیں ہے ۔ اس بات کی حمایت بھی نہیں کی جا سکتی کہ بیوروکریٹس کی تعیناتیوں کیلئے جامعات کے پھاٹک کھلے چھوڑ دئیے جائیں۔ تا ہم اس نکتہ نظر سے اتفاق کرنا بھی ممکن نہیں کہ کوئی نان ۔ پی۔ایچ۔ڈی کسی جامعہ کو عمدہ طریقے سے نہیں چلا سکتا۔ ایک نان ۔ پی۔ایچ۔ڈی کسی صوبائی یا وفاقی وزارت کو عمدگی سے چلا سکتا ہے تو ایک جامعہ کو کیوں نہیں؟ ہماری افسر شاہی میں بہت سے اچھے اور قابل افسران موجود ہیں۔دوسری طرف ایسے بھی ہیں جن کے ماتھے پر بدعنوانی اور بد انتظامی کا داغ لگا ہے۔ اسی طرح جامعات میں بھی قابل اور ایماندار اساتذہ موجود ہیں اور اس کے قطعی برعکس بھی۔ یعنی کسی ایک شعبے کو سو فیصد ٹھیک یا غلط نہیں کہا جا سکتا۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت ملک کی کم وبیش تمام سرکاری جامعات خسارے کا شکار ہیں۔ بیشتر جامعات ملازمین اور اساتذہ کو بروقت تنخواہ اور پنشن ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ جامعات کو ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کی طرف دیکھنا پڑتا ہے یا ادھر ادھر سے ادھار مانگ کر گزارا کرنا پڑ تاہے۔ ایک نان پی۔ایچ ۔ڈی اگر مالی بحران میں گھری جامعہ کو اپنے پیروں پر کھڑا کر سکتا ہے تو اس کی تعیناتی میں کیا حرج ہے؟مثال کے طور پر معاشی امور کا ایک اچھا ماہرسرکاری جامعہ کو مالی بحران سے نجات دلا نے کے قابل ہے تو اس کو ضرور موقع ملنا چاہیے۔
اعتراض ہو رہا ہے کہ وائس چانسلر کا پی۔ایچ۔ڈی ہونا بے حد ضروری ہے۔ کیا آپ نہیں جانتے کہ ہماری بہت سی نجی اور سرکاری جامعات نے پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگریاں بیچنے کی دکانیں کھول رکھی ہیں؟ آپ لاکھوں روپے فیس بھریں اور یہ ڈگری خرید کر ماتھے پر سجا لیں۔ کہا جا رہا ہے کہ جامعہ کے وائس چانسلر کو علمی تحقیق کی سمجھ بوجھ ہونی چاہیے تاکہ وہ تحقیقی عمل کی ترویج کیلئے کام کر سکے۔ ہمارے ہاں بہت سے اساتذہ نے تحقیقی مقالے لکھنے کی ایک اندھی دوڑ شروع کر رکھی ہے۔ ایسے بھی ہیں جو ہر سال بیس بیس تحقیقی مقالے لکھتے اور چھپواتے ہیں۔ اگلے دن وزارت تعلیم کے ایک اعلیٰ افسر بتا رہے تھے کہ ایک یونیورسٹی پروفیسر نے انہیں باقاعدہ پیشکش کی کہ آپ کے نام سے پندرہ بیس آرٹیکل چند مہینوں میں شائع کر کے آپ کی وائس چانسلر شپ کی بنیادی requirement پوری کی جا سکتی ہے۔تو کیا پندرہ ، بیس تحقیقی مقالے لکھنا اور پی ۔ایچ،ڈی کرنا ا س قدر مشکل کام ہے ، جو پروفیسروں کے علاوہ کوئی اور نہیں کر سکتا ؟ یہ اعتراض بھی ہو رہا ہے کہ(صفحہ 4پر بقیہ نمبر1)
نان پی۔ایچ۔ڈیز کی تعیناتی سے جامعہ کا وقار متاثر ہو گا۔ عرض ہے کہ ہماری جامعات کا وقار تب بھی متاثر ہوتا ہے جب ہمارے پروفیسر صاحبان کی جعلی تحقیق اور چربہ سازی کے قصے عالمی سطح پر مشہور ہوتے ہیں۔ ان پروفیسر صاحبا ن کی جعلی ڈگریوں اور تحقیقی مقالہ جات کے قصے بھی ہمیں یاد ہیں جو برسوں جامعات کے وائس چانسلر رہے اور ہائیر ایجوکیشن کمیشنوں میں اعلیٰ عہدوں پرتعینات بھی۔
بہرحال وزیر اعلیٰ سندھ کی اس بات سے اتفاق کرنا پڑتا ہے کہ وائس چانسلر وں کی تعیناتی کا جو طریقہ کار رائج ہے ، اس کے ذریعے گھوم پھر کر چند نام ہیں جو گزشتہ کئی سالوں سے بار بار وائس چانسلر بن رہے ہیں۔ باقی صوبوں میں بھی صورتحال مختلف نہیں ہے۔ ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ وائس چانسلر تعیناتی کے عمل میں نئے امیدواروں کو بھی موقع دینا چاہتا ہے تو اس میں اعتراض کی کیا بات ہے۔ سندھ کی وزارت تعلیم کے ایک افسر سے میری بات ہوئی، پتہ یہ چلا کہ اس مجوزہ معیار میں صرف نان پی۔ایچ۔ڈیز نہیں بلکہ کم انتظامی تجربے کے حامل نسبتاً جو نیئر پروفیسروں کیلئے بھی وائس چانسلر بننے کی راہ ہموار ہوگی۔
ویسے یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک کی جامعات میں غیر تدریسی پس منظر کے حامل سربراہان کی تعیناتی کی مثالیں موجود ہیں۔ امریکہ جیسے ملک میں بھی آئیوا (IOWA)اور پرڈیو( (Purdueجیسی نامور سرکاری جامعات سمیت کئی یونیورسٹیوں میں غیر تدریسی پس منظر کی حامل شخصیات جامعات کی سربراہ بنیں۔ یورپ میں بھی یہ مثالیں موجود ہیں۔البتہ وہاں برسوں سے یہ بحث جاری ہے کہ جامعہ کے سربراہ کے تدریسی اور غیر تدریسی پس منظر سے جامعہ پر عملی طور پر کیا فرق پڑتا ہے۔ پاکستان میں بھی آپ یہ بحث ہونے دیجئے اور یہ نیا تجربہ بھی۔تاہم لازم ہے کہ سندھ حکومت یا کوئی بھی صوبائی حکومت یہ تجربہ کرتی ہے تو اس کے پیش نظر جامعات کا مفاد اور اصلاح احوال ہو نہ کہ اقربا پروری اور دوست نوازی۔سندھ حکومت باقاعدہ قانون سازی کر کے غیر تدریسی پس منظر کے حامل افراد کیلئے جامعات کے دروازے کھول رہی ہے تو تدریسی پس منظر کے حامل افراد کیلئے بھی حکومت کے دروازے کھولے۔ وزیر اعلیٰ سندھ ذہین پروفیسروں کو اپنی حکومت اور مشاورتی حلقے کاحصہ بنائیں جیسا کہ دیگر ممالک میں ہوتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ حکومت سندھ لگے ہاتھوں یہ تجربہ بھی کر ڈالے۔
.
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: سرکاری جامعات وائس چانسلر جامعات میں کی تعیناتی نان پی ایچ وزیر اعلی جامعات کے موجود ہیں پی ایچ ڈی رہا ہے کہ جامعہ کے جامعہ کو ہے تو اس نہیں ہے سندھ کی ہوتا ہے میں بھی کے حامل ایک نان اس بات
پڑھیں:
مولانا نے اتحاد کیوں نہیں بنایا
تحریک انصاف کو ایک اور سیاسی دھچکا ملا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن اور ان کی جماعت جے یو آئی (ف) نے فی الحال تحریک انصاف کے ساتھ کسی بھی قسم کا سیاسی اتحاد نہ بنانے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی تحریک انصاف اور بانی تحریک انصاف کا گرینڈ اپوزیشن الائنس بنانے کا خواب بھی ٹوٹ گیا۔ اگر دیکھا جائے تو مولانا کے انکار نے تحریک انصاف کی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اس سے تحریک انصاف کے سیاسی وزن میں کمی ہوگی۔ اور ان کی سیاسی تنہائی میں اضافہ ہوگا۔
تحریک انصاف کے سیاسی نقصان پر بعد میں بات کرتے ہیں، پہلے اس پہلو پر غور کریں کہ اگر گرینڈا پوزیشن الائنس بن جاتا؟ تحریک انصاف اور جے یو آئی (ف) کا سیاسی اتحاد بن جاتا تو کیا ہوتا؟ یہ پاکستان کی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی ہوتی۔ پی ٹی آئی کے سیاسی وزن میں بہت اضافہ ہوتا۔ حکومت کے مقابلہ میں اپوزیشن مضبوط ہوتی۔ میں ابھی احتجاجی سیاست کی بات نہیں کر رہا۔ یہ اتحا د نہ بننے سے تحریک انصاف کی پارلیمانی سیاست کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ اپوزیشن تقسیم رہے گی۔
آپ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلا س کی مثال سامنے رکھ لیں۔ مولانا اجلا س میں پہنچ گئے۔ حکومت کے مطابق اپوزیشن کی نمائندگی موجود تھی۔ تحریک انصاف کے بائیکاٹ کا وہ اثر نہیں تھا۔ جو مشترکہ بائیکاٹ کا ہو سکتا تھا۔ اسی طرح 26ویں آئینی ترمیم کی ساکھ بھی تب بہتر ہوئی جب اس کو اپوزیشن نے بھی ووٹ ڈالے۔ چاہے مولانا نے ہی ڈالے۔ اس لیے میری رائے میں مولانا کے اتحاد نہ کرنے کے فیصلے کا تحریک انصاف کی پارلیمانی سیاست کو بھی کافی نقصان ہوگا۔
وہ بھی کمزور ہوگی۔ یہ الگ بات ہے کہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف تو پہلے ہی کئی دن سے اس اتحاد کے نہ بننے کا اعلان کر رہے ہیں۔ وہ بار بار بیان دے رہے تھے کہ اگر مولانا نے اتحاد نہیں کرنا تو نہ کریں، ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایسے بیانات بنتے اتحاد کو بھی توڑ دیتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں تحریک انصاف کے اندر ایک دھڑا جہاں یہ اتحاد بنانے کی کوشش کر رہا تھا، وہاں تحریک انصاف کا ہی ایک اور دھڑا روز اس اتحاد کو بننے سے روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اگر اسد قیصر اتحاد بنانے کی کوشش کر رہے تھے تو گنڈا پور اور عمر ایوب اس کے حق میں نہیں تھے۔
جے یو آئی (ف) کے رہنما کامران مرتضیٰ کا بہت سادہ موقف سامنے آیا ہے۔ان کے مطابق اسد قیصر جو اس اتحاد کے لیے تحریک انصاف کی طرف سے فوکل پرسن مقرر ہو ئے تھے، وہ لندن چلے گئے اور سیاسی طو رپر بھی خاموش ہو گئے۔ جب اعظم سواتی نے اسٹبلشمنٹ سے بات چیت کے بیانات دیے تو کامران مرتضیٰ نے فوری بیان دیا کہ تحریک انصاف سے یہ بات طے ہوئی ہے کہ دونوں جماعتوں میں سے کوئی اکیلا اسٹبلشمنٹ سے بات نہیں کرے گا۔ جب بھی بات کی جائے مشترکہ بات کی جائے گی، آپ دیکھیں ابھی باقاعدہ اتحاد بنا ہی نہیں ہے اور تحریک انصاف کی طرف سے طے شدہ اصولوں سے انحراف شروع ہو گیا۔
جے یو آئی (ف) کے بیانات کہتے رہے اسد قیصر وضاحت کریں۔ ہم صرف ان کی وضاحت قبول کریں گے۔ کامران مرتضیٰ بیان دیتے رہے کہ وضاحت دیں ۔ لیکن اسد قیصر چپ رہے۔ ہ لندن سے واپس بھی نہیں آئے۔ ان کے علاوہ کسی نے (جے یو آئی ف )سے ملاقات کی کوشش بھی نہیں کی۔ ایسے میں آپ دیکھیں جے یو آئی (ف) کے پاس کیا آپشن رہ جاتے ہیں۔ وہ ایسے میں اتحاد نہ بنانے کا اعلان کرنے کے سوا کیا فیصلہ کر سکتے تھے۔
تحریک انصاف کا وہ دھڑا جو اسٹبلشمنٹ سے مفاہمت چاہتا ہے۔ وہ اس اتحاد کی راہ میں رکاوٹ نظر آرہا تھا۔ وہ دھڑا جو کے پی میں حکومت میں ہے، وہ اس اتحادکے حق میں نظر نہیں آرہا تھا۔ عمر ایوب بھی زیادہ پرجوش نہیں تھے۔ یہ سب سامنے نظر آرہا تھا۔
یہ اتحاد نہ بننے سے تحریک انصاف کا سڑکیں گرم کرنے کا خواب بھی چکنا چورہو گیا ہے۔ تحریک انصاف اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ اب اس میں سڑکیں گرم کرنے طاقت نہیں رہی ہے۔ پنجاب میں مزاحمتی طاقت ختم ہو گئی ہے۔
کے پی میں تقسیم بڑھتی جا رہی ہے۔ اس لیے اگر مولانا ساتھ مل جاتے اور احتجاجی تحریک شروع کی جاتی تواس میں زیادہ طاقت ہوتی۔ مولانا کا ورکر زیادہ طاقتور ہے۔ مولانا کی احتجاجی سیاست کی طاقت آج بھی تحریک انصاف سے زیادہ ہے۔ لیکن یہ بھی تو تسلیم کریں کہ مولانا نے اگر اپنا ورکر باہر نکالنا ہے تو تحریک انصاف سے کچھ طے ہونا ہے۔ جے یو آئی کا ورکرکوئی کرائے کا ورکر تو نہیں جو تحریک انصاف کو کرائے پر دے دیا جائے۔
میں سمجھتا ہوں شاید اسٹبلشمنٹ مولانا کو تو اس اتحاد بنانے سے نہیں روک سکتی تھی لیکن اس لیے تحریک انصاف ہی کو استعمال کر کے اس اتحاد کو بننے سے روکا گیا ہے۔ تحریک انصاف نے اس اتحاد کے خدو خال بھی واضح نہیں کیے تھے۔
تحریک انصاف نے اگر قائد حزب اختلاف کے عہدے اپنے پاس رکھنے تھے تو کم از کم اتحاد کی سربراہی کی پیشکش مولانا کو کی جانی چاہیے تھی۔ کیا تحریک انصاف چاہتی تھی کہ وہ اپوزیشن کو ملنے والے تمام عہدے بھی اپنے پاس رکھے اور مولانا سڑکیں بھی گرم کر دیں۔ مجھے لگتا ہے کہ تحریک انصاف میں لوگوں کو یہ خوف پڑ گیا کہ اگر مولانا آگئے تو ان کا عہدہ چلا جائے گا۔ کے پی خوف میں آگئے کہ مولانا کی جماعت کو اقتدار میں حصہ دینا ہوگا۔ قومی اسمبلی سینیٹ میں تحریک انصاف کی قیادت اپنے خوف میں پڑ گئی۔ اس لیے تحریک انصاف نے یہ اتحاد نہ بننے کی راہ خود ہموار کی۔
ایک اور بات جو جے یو آئی (ف) کے لیے شدید تشویش کی بات تھی کہ بانی تحریک انصاف نے ابھی تک اس اتحاد کو بنانے اور مولانا فضل الرحمٰن کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔ ان کی پالیسی اور سوچ واضح نہیں تھی۔
بانی تحریک انصاف مولانا کے بارے میں خاموش ہیں۔ وہ نہ حق میں بات کر رہے ہیں نہ خلاف بیان کر رہے ہیں۔ جے یو آئی چاہتی تھی کہ کم از کم اس اتحاد کو بنانے کے لیے بانی کا خط ہی آجائے کہ وہ مولانا کو اتحاد بنانے کی دعوت دیں۔ اس بات کی کیا گارنٹی تھی کل بانی تحریک انصاف کہہ دیں کہ میں نے تو اس اتحاد کی منظوری نہیں دی تھی۔ میں نہیں مانتا۔ ایسا کئی مواقع پر ہو بھی چکا ہے۔ لیکن تحریک انصاف بانی تحریک انصاف کا خط لانے میں بھی ناکام رہی۔ اسد قیصر باہر تھے۔ خط آیا نہیں، کوئی ملنے کو تیار نہیں تھا، پھر اتحاد کیسے بنتا۔