اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔27جنوری 2025)سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے وکلا سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ ابھی آپ کی خواہشات کے مطابق فل کورٹ نہیں بن سکتا، آئینی بینچ میں ججز کی نامزدگی جوڈیشل کمیشن کرتا ہے، سپریم کورٹ نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر فریقین کو نوٹس جاری کر دیئے،جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 8 رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس عائشہ ملک بینچ میں شامل ہیں، ان کے علاوہ جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس محمد علی مظہر ،جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن بھی آئینی بینچ میں شامل ہیں۔

(جاری ہے)

عدالت نے فل کورٹ تشکیل اور عدالتی کارروائی براہ راست نشر کرنے کی درخواست پر بھی نوٹسز جاری کر دیئے۔وکیل حامد خان اور فیصل صدیقی روسٹرم پر آگئے۔

درخواست گزاروں نے آئینی ترمیم کے خلاف فل کورٹ بینچ بنانے کی استدعا کی اور وکلا نے موقف اپنایا کہ 26 ویں ترمیم کے خلاف فل کورٹ بینچ تشکیل دیا جائے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے وکلاءسے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ابھی آپ کی خواہشات کے مطابق فل کورٹ نہیں بن سکتا، آئینی بنچ میں ججز کی نامزدگی جوڈیشل کمیشن کرتا ہے۔ جوڈیشل کمیشن نے جن ججز کو آئینی بنچ کیلئے نامزد کیا وہ سب اس بنچ کا حصہ ہیں۔

ججز کی نامزدگی جوڈیشل کمیشن کرتا ہے جبکہ کیسز مقرر 3 رکنی کمیٹی کرتی ہے، کمیٹی کے سربراہ جسٹس امین الدین ہیں، کمیٹی میں جسٹس محمد علی مظہر اور میں شامل ہوں۔جسٹس محمد علی مظہر نے وکلا سے مکالمہ کیا کہ فل کورٹ کے معاملے پر آپ خود کنفیوز ہیں۔ آپ اس بنچ کو ہی فل کورٹ سمجھیں۔وکلا نے استدلال کیا کہ سپریم کورٹ میں موجود تمام ججز پر فل کورٹ تشکیل دیا جائے، اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ ایسا ممکن نہیں آئینی معاملہ صرف آئینی بنچ ہی سنے گا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئینی بنچ میں موجود تمام ججز پر فل کورٹ ہی بنایا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ف±ل کورٹ کا معاملہ چیف جسٹس کے پاس ہی جا سکتا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ لگتا ہے آپ پہلے دن سے ہی لڑنے کے موڈ میں ہیں جس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ہم کسی سے لڑنا نہیں چاہیے۔جسٹس امین الدین نے کہا کہ اگر کوئی فریق دلائل دینے کو تیار نہیں تو عدالت حکم جاری کرے گی۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سمجھ نہیں آ رہی کہ آپ ہچکچاہٹ کا شکار کیوں ہیں؟ جو اس بنچ کے سامنے بحث نہیں کرنا چاہتا وہ پیچھے بیٹھ جائے۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ فل کورٹ تشکیل دینے پر پابندی تو کوئی نہیں ہے جس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ 26 ویں ترمیم اختیارات کی تقسیم کے اصول کیخلاف ہے۔وکیل درخواست گزار عزیر بھنڈاری نے کہا کہ جب 26ویں آئینی ترمیم ہوئی اس وقت ہاوس مکمل ہی نہیں تھا، جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ کیا 26ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور نہیں ہوئی، جب پارلیمنٹ نے دو تہائی اکثریت سے ترمیم منظور کی تو پھر ہاوس نامکمل کیسے تھا، کیا ہاوس نا مکمل ہونے کی یا کورم پورا نہ ہونے کی کسی کی نشاندہی کی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے استفسار کیا کہ 26 ویں ترمیم کیلئے کل ممبرز پر ووٹنگ ہوئی یا دستیاب ممبرز پر؟ جس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ دستیاب ارکان پر ووٹنگ ہوئی ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ دستیاب ارکان کا جو ٹوٹل بنا وہ مکمل ایوان کے دوتہائی پر پورا اترتا ہے؟ جس پر فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ گنتی انہوں نے پوری ہی کر لی تھی ہم اس کا مسئلہ نہیں اٹھا رہے۔

عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ترمیم بغیر بحث کئے رازداری سے منظور کی گئی۔ وکیل درخواست گزار شاہد جمیل نے مو¿قف اپنایا کہ جب تک واضح مینڈیٹ نہ ہو اس وقت تک ترمیم نہیں ہو سکتی۔ انتخابات بہت ساری درخواستیں الیکشن ٹربیونلز میں زیر التوا ہیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے استفسار کیا کہ 26 ویں ترمیم کیلئے کل ممبرز پر ووٹنگ ہوئی یا دستیاب ممبرز پر؟ جس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ دستیاب ارکان پر ووٹنگ ہوئی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ دستیاب ارکان کا جو ٹوٹل بنا وہ مکمل ایوان کے دوتہائی پر پورا اترتا ہے؟ جس پر فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ گنتی انہوں نے پوری ہی کر لی تھی ہم اس کا مسئلہ نہیں اٹھا رہے۔جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا ایوان میں تمام صوبوں کی نمائندگی مکمل تھی؟ جس پر فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ خیبرپختونخواہ کی سینیٹ میں نمائندگی مکمل نہیں تھی، خیبرپختونخوا کی حد تک سینیٹ انتخابات رہتے تھے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دئیے کہ الیکشن پٹینشز تو الیکشن ٹربیونلز نے ہی دیکھنی ہیں، آپکی دلیل سے ایسا لگتا ہے جب تک ٹربیونل الیکشن پٹینشز پر فیصلے نہ کرے اس وقت تک 26ویں آئینی ترمیم پر سماعت ہی نہ کریں۔ ایسے میں تو 26ویں آئینی ترمیم پر سماعت ہی روکنی پڑے گی۔درخواست گزار وکیل شیخ احسن الدین نے موقف اپنایا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد اسکے اثرات گہرے ہیں۔

ایسے لوگ بھی عدلیہ میں آ رہے ہیں جنھیں نااہلی کی بنیاد پر پہلے ہٹایا گیا، اس پر سربراہ آئینی بینچ نے کہا کہ آپ کی دلیل نوٹ کر لی۔بعدازاں عدالت نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر فریقین کو نوٹس جاری کر دیئے، سپریم کورٹ نے فل کورٹ تشکیل اور عدالتی کارروائی براہ راست نشر کرنے کی درخواست پر بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 3 ہفتوں کیلئے ملتوی کر دی۔.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جسٹس جمال خان مندوخیل جسٹس محمد علی مظہر نے جسٹس جمال مندوخیل نے آئینی ترمیم کے خلاف ویں آئینی ترمیم کے کہ دستیاب ارکان کہ 26 ویں ترمیم پر ووٹنگ ہوئی فل کورٹ تشکیل جوڈیشل کمیشن سپریم کورٹ پر فیصل ہے جسٹس

پڑھیں:

عمران خان کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا، اب جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، سپریم کورٹ 

سپریم کورٹ نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر حکومت پنجاب کی اپیلیں نمٹا دیں جب کہ دوران سماعت جسٹس ہاشم کاکڑ  نے ریمارکس دیے ہیں کہ ملزم کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا اب تو جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

سپریم کورٹ نے بانی پی ٹی آئی کے جسمانی ریمانڈ کے لیے دائر حکومت پنجاب کی اپیلوں پر سماعت کے دوران کہا کہ پنجاب حکومت چاہے تو ٹرائل کورٹ سے رجوع کر سکتی ہے، بانی پی ٹی آئی کے وکلا دراخواست دائر ہونے پر مخالفت کرنے کا حق رکھتے ہیں۔

جسٹس ہاشم کاکڑ  نے ریمارکس دیے کہ ملزم کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا اب تو جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

پراسیکیوٹر زوالفقار نقوی  نے کہا کہ ملزم کے فوٹو گرامیٹک، پولی گرافک، وائس میچنگ ٹیسٹ کرانے ہیں۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ درخواست میں استدعا ٹیسٹ کرانے کی نہیں، جسمانی ریمانڈ کی تھی۔

جسٹس صلاح الدین پنور نے کہا کہ  کسی عام قتل کیس میں تو ایسے ٹیسٹ کبھی نہیں کرائے گئے، توقع ہے عام آدمی کے مقدمات میں بھی حکومت ایسے ہی ایفیشنسی دکھائے گی۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ڈیڑھ سال بعد جسمانی ریمانڈ کیوں یاد آیا، اسپیشل پراسیکیوٹر زوالفقار نقوی  نے مؤقف اپنایا کہ ملزم بانی پی ٹی آئی نے تعاون نہیں کیا۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ جیل میں زیر حراست ملزم سے مزید کیسا تعاون چاہیے، میرا ہی ایک فیصلہ ہے کہ ایک ہزار سے زائد سپلیمنٹری چلان بھی پیش ہو سکتے ہیں، ٹرائل کورٹ سے اجازت لیکر ٹیسٹ کروا لیں۔

جسٹس صلاح الدین پہنور نے کہا کہ استغاثہ قتل کے عام مقدمات میں اتنی متحرک کیوں نہیں ہوتی۔

اسپیشل پراسیکیوٹر زوالفقار نقوی نے استدلال کیا کہ 14 جولائی 2024 کو ٹیم بانی پی ٹی آئی سے تفتیش کرنے جیل گئی لیکن ملزم نے انکار کردیا، ریکارڈ میں بانی پی ٹی آئی کے فیس بک، ٹیوٹر اور اسٹاگرام پر ایسے پیغامات ہیں جن میں کیا گیا اگر بانی پی ٹی کی گرفتاری ہوئی تو احتجاج ہوگا۔

جسٹس صلاح الدین پہنور نے کہا کہ  اگر یہ سارے بیانات یو ایس بی میں ہیں تو جاکر فرانزک ٹیسٹ کروائیں، اسپیشل پراسیکیوٹر زوالفقار نقوی نے مؤقف اپنایا کہ ہم صرف یہ چاہتے ہیں ہمارے ساتھ تعاون کیا جائے۔

عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ  اب پانی سر سے گزر چکا ہے، 26 گواہان کے بیانات قلمبند ہو چکے ہیں۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ اگر ہم نے کوئی آبزرویشن دیدی تو ٹرائل متاثر ہوگا، ہم استغاثہ اور ملزم کے وکیل کی باہمی رضامندی سے حکمنامہ لکھوا دیتے ہیں۔

زوالفقار نقوی نے کہا کہ  میں اسپیشل پراسیکیوٹر ہوں، میرے اختیارات محدود ہیں، میں ہدایات لیے بغیر رضامندی کا اظہار نہیں کر سکتا۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ چلیں ہم ایسے ہی آرڈر دے دیتے ہیں، ہم چھوٹے صوبوں سے آئے ہوئے ججز ہیں، ہمارے دل بہت صاف ہوتے ہیں،  پانچ دن پہلے ایک فوجداری کیس سنا، 
نامزد ملزم کی اپیل 2017 میں ابتدائی سماعت کیلئے منظور ہوئی۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ کیس میں نامزد ملزم سات سال تک ڈیتھ سیل میں رہا جسے باعزت بری کیا گیا، تین ماہ کے وقت میں فوجداری کیسز ختم کر دیں گے۔

عدالت نے اپنے حکمنامے میں کہا کہ  بانی پی ٹی آئی کے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر کی گئی اپیلیں دو بنیادوں پر نمٹائی جاتی ہیں، استغاثہ بانی پی ٹی آئی کے پولی گرافک ٹیسٹ، فوٹو گرافک ٹیسٹ اور وائس میچنگ ٹیسٹ کیلئے ٹرائل کورٹ سے رجوع کرنے میں آزاد ہے۔

حکمنامہ کے مطابق بانی پی ٹی کی قانونی ٹیم ٹرائل کورٹ میں ایسی درخواست آنے پر لیگل اور فیکچویل اعتراض اٹھا سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • عمران کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا، جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا: سپریم کورٹ
  • عمران خان کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا، اب تو جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، سپریم کورٹ
  • عمران خان کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا، اب جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، سپریم کورٹ 
  • ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں،سپریم کورٹ
  • عمران خان کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا ، جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، سپریم کورٹ
  • عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر اپیلیں نمٹادی گئیں
  • عمران خان کا جسمانی ریمانڈ دینے کی پنجاب حکومت کی استدعا مسترد
  • ہائیکورٹ جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا، ناانصافی پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں: سپریم کورٹ
  • 26ویں ترمیم معاملہ، بانی کی پی ٹی آئی قیادت کو چیف جسٹس کو خط لکھنے کی ہدایت، فیصل چوہدری
  • ایک سال بعد جرم یاد آنا حیران کن ہے، ناانصافی پر عدالت آنکھیں بند نہیں رکھ سکتی، سپریم کورٹ