کوشش کی جا رہی ہے فیک نیوز کی آڑ میں جس کو چاہیں اٹھا لیں، بیرسٹر گوہر
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
اینکرز کے وفد نے ملاقات کی اور پیکا پر خدشات کا اظہار کیا، بیرسٹر گوہر - فوٹو: فائل
چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹر گوہر خان نے کہا ہے کہ کوشش کی جا رہی ہے کہ فیک نیوز کی آڑ میں جس کو چاہیں اٹھا لیں۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ اینکرز کے وفد نے ملاقات کی اور پیکا پر خدشات کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ اسمبلی میں چند منٹ میں بل پاس ہوجاتا ہے، کوشش کی جا رہی ہے کہ فیک نیوز کی آڑ میں جس کو چاہیں اٹھا لیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ میڈیا ریاست کا چوتھا ستون ہے، حکومت جلد بازی میں یہ قوانین پاس کر رہی ہے۔
مشیر اطلاعات خیبر پختون نخوا بیرسٹر محمدعلی سیف نے کہا کہ پیکا ایکٹ میں ترامیم آزادی صحافت پر شب خون مارنے کےمترادف ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آپ جلد بازی میں یہ قوانین پاس کر رہے ہیں، آپ ایک نئی اذیت میں عوام اور شہریوں کو مبتلا کر رہے ہیں۔
بیرسٹر گوہر علی خان کا کہنا تھا کہ اگر یہ بل پاس ہوا تو عدلیہ میں چیلنج ہو گا۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ 20 سے زائد جماعتوں نے آج خیبر پختونخوا ہاؤس میں اجلاس میں شرکت کی، پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت چاہتی ہے کہ دہشت گردی کا کوئی حل نکالا جائے، تمام سیاسی جماعتوں اور علماء کو اس نشست میں بلایا گیا۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: بیرسٹر گوہر نے کہا کہ رہی ہے
پڑھیں:
بھارت میں آزادیٔ اظہار جرم، اختلافِ رائے گناہ ؛ مودی سرکار میں سنسر شپ بڑھ گئی
مودی سرکار کے دورِ حکومت میں سنسرشپ کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں آزادیٔ اظہار جرم اور اختلافِ رائے گناہ بنا دیا گیا ہے۔
بھارت میں آزادیٔ اظہار اور صحافت پر بڑھتی پابندیوں کے حوالے سے جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو نیوز نے ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے، جس نے مودی حکومت پر سخت الزامات عائد کرتے ہوئے سنسرشپ کے بڑھتے رجحان کو بے نقاب کردیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق نریندر مودی کے دورِ حکومت میں اختلاف رائے کو گناہ سمجھا جانے لگا ہے اور میڈیا، تعلیمی ادارے حتیٰ کہ عدلیہ بھی خوف کے سایے میں کام کر رہے ہیں۔ اسی دوران آزادیٔ اظہار کو بھی جرم بنا دیا گیا ہے۔
ڈی ڈبلیو نیوز کے مطابق مودی سرکار نے ’’آپریشن سندور‘‘کی ناکامی کو چھپانے کے لیے آزادیٔ اظہار کو نشانہ بنایا۔ اس آپریشن کی ناکامی پر نیوز ویب سائٹ "The Wire" نے بھارتی طیارہ گرنے کی درست خبر شائع کی، جس کے بعد مودی حکومت نے اس پلیٹ فارم کو بند کر کے پورے میڈیا کو خاموش رہنے کا پیغام دیا۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارت دنیا میں آزادیِ صحافت کی عالمی درجہ بندی میں 180 ممالک میں سے 151 ویں نمبر پر آ چکا ہے، جب کہ حکومت اختلافی آوازوں کو دبانے کے لیے اب تک 8000 سے زائد سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کر چکی ہے۔
مودی حکومت نے ممتاز مسلم اسکالر علی خان محمودآباد کو جنگ مخالف پوسٹ پر گرفتار کیا اور ان کے سچ کو ’’فرقہ واریت‘‘قرار دے کر جیل بھیج دیا۔
ڈی ڈبلیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے پولیٹکل سائنٹسٹ پروفیسر اجے نے کہا کہ مودی راج میں اب صرف خاموشی محفوظ ہے، رائے دینا خود کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ دور میں لوگ حتیٰ کہ نجی محفلوں میں بھی اپنی رائے دینے سے گریز کرتے ہیں۔
او پی جندل گلوبل یونیورسٹی کے پروفیسر دیپانشو موہن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ مودی حکومت نے ’’آپریشن سندور‘‘کو ایک سیاسی ڈراما بنا کر انتخابی فائدے کے لیے استعمال کیا اور قومی سلامتی جیسے حساس معاملے کو ووٹ بینک میں بدل دیا۔
پروفیسر موہن نے مزید کہا کہ آج بھارت میں صرف وہی استاد قابل قبول ہے جو مودی کا بیانیہ پڑھاتا ہے، باقی سب کو ’ملک دشمن‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ بھی اب حکومت کی زبان بول رہی ہے اور قومی سلامتی کے نام پر اظہارِ رائے پر قدغن لگائی جا رہی ہے۔ پروفیسر کے مطابق تعلیمی اداروں میں نصاب، تدریس اور تقرریاں اب مکمل طور پر مودی حکومت کے بیانیے کی غلامی میں ہیں، مخالف آوازوں کو نہ گرانٹ دی جاتی ہے اور نہ ہی ملازمت کا حق۔
پروفیسر موہن نے عالمی برادری پر زور دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں عالمی دباؤ ہی آزاد میڈیا، دانشوروں اور اختلافی آوازوں کے تحفظ کی آخری امید رہ گیا ہے۔