سوات:  وفاقی وزیر برائے امور کشمیر، گلگت بلتستان اور سیفران انجینئر امیر مقام نے کہا ہے کہ عدالتی اصلاحات اور ججوں کی تعداد میں اضافہ موجودہ حکومت کارنامہ ہے،
پشاور ہائی کورٹ بار مینگورہ بنچ میں وکلاء سے خطاب میں انہوں نے کہا  کہ 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری میں وکلاء اور بارز نے مثبت کردار اداکیا ۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کے بنانے کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح بھی وکیل تھے، وکلاء نے ملک بنانے اور سلامتی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
امیر مقام نے کہا کہ عدالتوں میں زیرالتوا کیسوں کے تیزرفتارٹرائلز سے انصاف کے تقاضے پورے ہورہے ہیں،دہشت گردی ملاکنڈڈویژن میں سب سے بڑا چیلنج ہے،بے پناہ قربانیوں کی بدولت قائم امن پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے،
 امیر مقام نے کہا کہ ٹیکس استثنیٰ ملاکنڈڈویژن اور ضم اضلاع کے عوام کی قربانیوں کا ثمر ہے، ووٹ لینامینڈیٹ نہیں، منتخب نمائندے بھی عوامی منصوبوں پر توجہ دیں۔
وفاقی وزیر نے کہا   کہ پی ڈی ایم حکومت نے 16 مہینوں میں ملک کو دیوالیہ پن سے بچالیاتھا،  وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں اضافی کی شرح 38 سے 4 فیصد پرلے آئے ،دن رات محنت کرکے شرح سود کو کم کرکے 13 فیصد پر لے آئے-
امیر مقام نے کہا ہے کہ ملاکنڈ ڈویژن میں کوئی ملٹری آپریشن نہیں ہورہاہے،علاقے میں ٹارگٹڈ آپریشن ہورہا ہے،عوام دوبارہ آئی ڈی پیز نہیں بنیں گے، دہشت گردی اور سیاست کو الگ کرکے پوری قوم کو ایک ہونا چاہیے، پاکستان میں مزید دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں،
وفاقی وزیر نے پشاور ہائیکورٹ مینگورہ بنچ کے لئے 20لاکھ روپے کا اعلان کردیا-
 

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

پاکستانی سیاست… چائے کی پیالی میں طوفان

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251102-09-6

 

متین فکری

بظاہر سطح آب پر کوئی زیرو بم نظر نہیں آتا، حالات معمول کے مطابق چل رہے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف ملکی حالات سے مطمئن مسلسل بیرونی دوروں میں مصروف ہیں اور سنا ہے کہ انہوں نے برادر بزرگ میاں نواز شریف کے بیرونی دوروں کا ریکارڈ بھی توڑ دیا ہے۔ ان دوروں کے نتیجے میں بڑی حوصلہ افزا باتیں سامنے آرہی ہیں لیکن رزلٹ بالکل الٹ نکل رہا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں سرمایہ کاری کے لیے حالات ناساز پا کر دھڑا دھڑا پاکستان چھوڑ رہی ہیں اور اب تک سترہ بڑی کمپنیاں اپنا کاروبار سمیٹ کر پاکستان سے رخصت ہوچکی ہیں۔ تاہم وزیراعظم شہباز شریف مطمئن ہیں کہ حالات قابو میں ہیں اور معیشت ترقی کررہی ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ شہباز حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں۔ شہباز شریف ہر بات مقتدرہ سے پوچھ کر کرتے ہیں اس لیے ان کی جانب سے غلطی کا کوئی امکان نہیں ہے اور ان کی حکومت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ انہوں نے امریکا سے بھی بنا کر رکھی ہوئی ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ پاکستان میں کسی امریکا مخالف حکومت کو برداشت نہیں کرتا۔ اگر وہ حکومت سیدھے طریقے سے رخصت نہ ہو تو وہ پاکستانی حکمران کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتا جیسا کہ اس نے لیاقت علی خان اور جنرل ضیا الحق کے معاملے میں کیا۔ عمران خان خوش قسمت ہیں کہ ’’تحریک عدم اعتماد‘‘ سے رخصت ہوگئے اور انہیں جانی نقصان نہیں اٹھانا پڑا۔

بات لمبی ہوگئی ہم پھر اپنے اصل موضوع یعنی پاکستانی سیاست کی طرف آتے ہیں۔ ان دنوں پختون خوا کی سیاست نے چائے کی پیالی میں طوفان برپا کررکھا ہے۔ اس صوبے کی سیاست پر تحریک انصاف کا غلبہ ہے۔ پختون خوا اسمبلی میں تحریک انصاف کی قطعی اکثریت ہے اس لیے 8 فروری 2024ء کے انتخابات کے بعد بھی صوبے میں اس کی حکومت چلی آرہی ہے حالانکہ دوسرے صوبوں خاص طور پر پنجاب میں فارم 47 کا جادو ایسا چلا کہ سب کچھ الٹ پلٹ کر رہ گیا۔ ہارنے والے جیت گئے اور جیتنے والے ہار گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی میں صرف سترہ سیٹیں حاصل کی تھیں لیکن فارم 47 کے بَل پردہ اسمبلی کی اکثریتی پارٹی بن گئی اور وفاق میں اقتدار اسے مل گیا۔ یہی معاملہ پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں بھی پیش آیا۔ مسلم لیگ (ن) نے یہاں بھی فارم 47 کے طفیل اکثریت حاصل کرلی اور مریم نواز ہار کر بھی صوبے کی وزیراعلیٰ بن گئیں۔ سندھ کو سمجھوتے کے تحت پیپلز پارٹی کے سپرد کردیا گیا، بلوچستان میں بھی ملا جلا معاملہ رہا۔ البتہ پختون خوا میں فارم 47 کا جادو نہ چل سکا۔ عوام نے جسے ووٹ دیا وہی کامیاب قرار پایا۔ اسی طرح پی ٹی آئی نے پختون خوا اسمبلی میں اپنی اکثریت برقرار رکھی اور حکومت بھی اس کی قائم رہی۔ واضح رہے کہ 8 فروری 2024ء کے انتخابات سے پہلے بھی خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان تو جیل میں تھے لیکن اس کے باوجود پی ٹی آئی نے خیبر پختون خوا میں معرکہ سر کرلیا۔ نئی حکومت علی امین گنڈا پور کی قیادت میں تشکیل دی گئی لیکن اسٹیبلشمنٹ نے ان سے معاملات طے کرلیے اور گنڈا پور وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے لگے۔ جب پانی سر سے اونچا ہوگیا اور عمران خان نے محسوس کیا کہ اب گنڈاپور کو تبدیل کیے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے تو انہوں نے گنڈا پور سے استعفا طلب کرلیا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر اپنی پریس کانفرنسوں میں بالعموم یہ بات شدت سے باور کراتے ہیں کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے اگر کوئی صحافی کوئی سیاسی سوال کر بیٹھے تو وہ ’’نو پالیٹکس‘‘ کہہ کر اس کا جواب دینے سے انکار کردیتے ہیں لیکن جب خیبر پختون خوا میں گنڈاپور کے استعفے کے بعد نئی حکومت کی تشکیل کا مرحلہ آیا تو ڈی جی آئی ایس پی آر فوراً پشاور پہنچے اور وہاں ایک عدد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’خیبر پختون خوا میں کوئی مخالف حکومت برداشت نہیں کی جائے گی‘‘۔ شاید یہ بھی فوج کو سیات سے دور رکھنے کی قابل تحسین کاوش تھی۔ الیکشن کمیشن تو ہمیشہ مقتدرہ کے اشارے کا منتظر رہتا ہے۔ اشارہ ملتے ہی اس نے خیبر پختون خوا اسمبلی میں ارکان پی ٹی آئی سے ان کی سیاسی شناخت چھین کر انہیں آزاد ارکان قرار دے دیا۔ اس طرح انہیں ووٹوں کی خریدو فروخت کی منڈی میں زبردستی دھکیل دیا گیا اور حکومت کا دھندا کرنے والوں کو دعوت دی گئی کہ منڈی میں مال موجود ہے جو چاہے خریدے۔ اِدھر مولانا فضل الرحمن بھی خیبر پختون خوا میں وزارتِ علیہ کے اُمیدوار تھے اور اپنے بھائی کو وزیراعلیٰ بنانا چاہتے تھے ان کی خواہش تھی کہ اسٹیبلشمنٹ انہیں بیس ووٹ خرید کر دے دے تا کہ وہ اپنی حکومت بناسکیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اگرچہ ان کے تعلقات ہمیشہ اُتار چڑھائو کا شکار رہتے ہیں لیکن آخری مرحلے میں ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ ہی جیتتی ہے اور مولانا فضل الرحمن ہمیشہ پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے نہایت اچھا موقع تھا وہ مولانا فضل الرحمن کو بیس ووٹ دے کر اپنا ممنونِ احسان بنا سکتی تھی۔ اگر پنجاب ہوتا تو اسٹیبلشمنٹ کے لیے بیس کیا سو پچاس ووٹ بھی حاصل کرنا دشوار نہ تھا لیکن خیبر پختون خوا کا معاملہ مختلف ہے یہاں جو ووٹ خریدتا اس کی جان کے لالے پڑجاتے اس لیے ووٹوں کی خریدو فروخت کی کوشش ناکام رہی اور بانی پی ٹی آئی عمران خان کے نامزد امیدوار سہیل آفریدی کثرت رائے سے پختون خوا کے وزیراعلیٰ بن گئے۔ شکر ہے ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس موقع پر کوئی پریس کانفرنس نہیں کی۔

اب سنا ہے کہ نومنتخب وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کے خلاف الیکشن کمیشن میں نااہلی کی درخواست دائر کردی گئی ہے الیکشن کمیشن بہت ڈھیٹ ہے ممکن ہے کہ وہ یہ درخواست منظور کرلے اور سہیل آفریدی کو نااہل قرار دے دیا جائے لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اسمبلی میں تو پی ٹی آئی کی اکثریت برقرار ہے وہ نیا وزیراعلیٰ لے آئے گی۔ اسے کہتے ہیں ’’چائے کی پیالی میں طوفان‘‘ برپا کرنا۔ لیکن اس کا اسٹیبلشمنٹ سے کوئی تعلق نہیں، فوج کے لیے سیاست شجر ممنوع ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ کورکمانڈر پشاور نے نومنتخب وزیراعلیٰ سے وزیراعلیٰ ہائوس میں ملاقات کرکے انہیں اپنی وفاداری کا یقین دلایا ہے۔ نئے وزیراعلیٰ بڑے دبنگ فیصلے کررہے ہیں، انہوں نے عمران خان سے ملاقات کی درخواست دی تھی عدالت نے بھی ان کے حق میں فیصلہ دے دیا تھا چونکہ اسٹیبلشمنٹ کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اور یہ سیاسی معاملہ تھا اس لیے وزیراعلیٰ کی اپنے قائد سے ملاقات نہیں کرائی گئی حالانکہ اسے ملاقات میں کوئی حرج نہ تھا جس کمرے میں ملاقات کرائی جاتی اس میں کیمرے لگے ہوئے ہیں اور آواز ریکارڈ کرنے والے آلات نصب ہیں پھر ڈر کس بات کا تھا۔ یہ بھی چائے کی پیالی میں طوفان برپا کرنے کی کوشش کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ حکومت ہو، اسٹیبلشمنٹ ہو یا مخالف سیاستدان سب اس کام میں بہت ماہر ہیں۔

متین فکری

متعلقہ مضامین

  • پائیدار ترقی کے لیے ڈھانچہ جاتی اصلاحات ناگزیر ہیں، حکومتی معاشی ٹیم کی مشترکہ پریس کانفرنس
  • گلگت بلتستان کی ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کیلئے پرعزم ہیں: امیر مقام
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • پاکستانی سیاست… چائے کی پیالی میں طوفان
  • وزیراعظم 59 لاکھ ٹیکس گوشوارے جمع ہونے پر ایف بی آر کی پذیرائی
  • خیبر پختونخوا کی عوام کی فلاح و بہبود اولین ترجیح ہے: امیر مقام
  • وفاقی وزیر امیر مقام کی جانب سے گلگت بلتستان کے عوام کو یوم آزادی کی مبارکباد
  • ماتلی ، ڈینگی اور ملیریا کے کیسز میں اضافہ ، کوئی اقدامات نہیں کیے گئے
  • پی ٹی آئی کی حکومت یا اسٹیبلشمنٹ سے کوئی بات چیت نہیں ہورہی، بیرسٹر گوہر
  • وفاقی حکومت کا بڑا فیصلہ: سرکاری ملازمین کے ہاؤس رینٹ سیلنگ میں 85 فیصد اضافہ منظور