سندھ کے 8 تعلیمی بورڈز میں چیئرمین کے عہدے کیلئے انٹرویوز مکمل
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
ڈاکٹر طارق رفیع(فائل فوٹو)۔
چیئرمین سندھ ہائر ایجوکیشن ڈاکٹر طارق رفیع کی سربراہی میں سندھ کے 8 تعلیمی بورڈز میں چیئرمین کے عہدے کےلیے امیدواروں کے انٹرویوز کا سلسلہ 18 روز بعد مکمل ہوگیا۔
تلاش کمیٹی نے اس دوران مختلف مرحلوں میں 235 امیدواروں کے انٹرویوز کئے۔ ہر مرحلے میں 25 سے 30امیدواروں کے انٹرویوز کئے گئے۔ تلاش کمیٹی ڈاکٹر طارق رفیع، سکریٹری بورڈز و جامعات عباس بلوچ، جامعہ این ای ڈی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سروش لودھی، سکریٹری سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن معین صدیقی، سکریٹری کالجز آصف اکرام اور سابق چیرمین حیدرآباد بورڈ ڈاکٹر محمد میمن پر مشتمل تھی۔
تلاش کمیٹی کے ایک رکن کے مطابق ہر رکن نے امیدواروں کے نمبر محفوظ کرلیے ہیں جب کہ دو سے تین روز کے اندر اجلاس میں حاصل کردہ نمبروں کو جمع کرکے حتمی شکل دیدی جائے گی اور پھر ہر بورڈ کے لیے نمبروں کے حساب سے تین امیدواروں کا پینل وزیر اعلیٰ سندھ کو بھیجا جائے گا۔ اس طرح 8 بورڈز کے لیے 24 امیدواروں کا پینل ترتیب دیا جائے گا۔
کمیٹی کے مطابق جن امیدواروں کے انٹرویوز اچھے ہوئے ان میں قاضی عارف علی، کرنل (ر) علمدار رضا، فرناز ریاض، عمران چشتی، رفیعہ بانو، زینب فاطمہ، ذولفقار علی شاہ، حفیظ اللہ مہر، عزیز احمد زئی بریگیڈیئر وسیم اختر، قاضی ارشد، سید سرور علی شاہ، ڈاکٹر نوید رب صدیقی، ڈاکٹر سید اقلیم تقوی، شاہدہ پروین اور ڈاکٹر ہما شاہد، عنبرین فاطمہ،ثمینہ کلثوم، فریدہ خانم، ڈاکٹر شازیہ سید شامل ہیں۔
یاد رہے کہ چند ماہ قبل سندھ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ چیرمین تلاش کمیٹی ڈاکٹر طارق رفیع کی سربراہی میں 27 سرکاری جامعات کے لیے میرٹ پر ڈائریکٹرز فنانس کا نہ صرف انتخاب کیا اور ان کی تقرری بھی کر دی گئی۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: ڈاکٹر طارق رفیع
پڑھیں:
مورو واقعہ: سندھ ہائیکورٹ نے پولیس تحقیقاتی کمیٹی کے خلاف درخواست مسترد کر دی
سندھ ہائی کورٹ نے مورو واقعے کی تحقیقات کے لیے آئی جی سندھ کی جانب سے قائم کردہ تحقیقاتی کمیٹی کے خلاف دائر درخواست مسترد کرتے ہوئے تفصیلی تحریری فیصلہ جاری کر دیا ہے۔
فیصلے میں عدالت نے قرار دیا کہ کمیٹی کا قیام قانون کے دائرہ کار میں ہوا ہے اور اس میں کوئی قانونی سقم موجود نہیں، عدالت نے کہا کہ پولیس کی یہ کمیٹی واقعے میں پولیس کے ردعمل کا جائزہ لینے اور آئندہ ایسے حالات سے بچاؤ کے لیے سفارشات مرتب کرنے کے لیے قائم کی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
درخواست گزار نے مؤقف اپنایا تھا کہ پولیس اپنی ہی کارروائی کے خلاف شفاف تحقیقات نہیں کر سکتی اور کمیٹی مفادات کے ٹکراؤ کا شکار ہے۔ تاہم عدالت نے یہ مؤقف مسترد کرتے ہوئے کہا کہ مورو جیسے حساس واقعات میں امن و امان قائم رکھنا پولیس کی بنیادی ذمہ داری ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ مورو واقعے کے دوران دھرنے کے شرکا نے نجی املاک کو نقصان پہنچایا، انسانی جان کا ضیاع ہوا، متعدد افراد زخمی ہوئے اور ہائی وے کی بندش سے عام شہریوں کی زندگی متاثر ہوئی۔
مزید پڑھیں:
سندھ ہائیکورٹ نے پولیس پر زور دیا کہ ایسے حالات میں بروقت اور مؤثر کارروائی کو یقینی بنایا جائے تاکہ صورتحال بگڑنے سے روکی جا سکے، عدالت نے کہا کہ کمیٹی کا مقصد پولیس کی کارکردگی میں بہتری اور مستقبل کی منصوبہ بندی ہے۔
فیصلے کے آخر میں عدالت نے مورو واقعے کے تمام مقدمات قانون کے مطابق شفاف تحقیقات کے بعد چلانے کا حکم دیا، فیصلے کے مطابق موجودہ حالات میں کسی مقدمے کو خارج کرنے کی کوئی بنیاد موجود نہیں۔
عدالت نے درخواست کو دیگر متفرق درخواستوں کے ساتھ نمٹاتے ہوئے مسترد کر دیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امن و امان پولیس تحقیقاتی کمیٹی ذمہ داری سندھ ہائیکورٹ مورو واقعہ نجی املاک ہائی وے