Islam Times:
2025-09-17@23:30:34 GMT

واپسی کی لہر

اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT

واپسی کی لہر

اسلام ٹائمز: فلسطینیوں اور مصر و اسرائیل کی حکام نے ٹرمپ کے اس منصوبے کو سختی سے مسترد کر دیا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں حالیہ جنگ میں نوے فیصد سے زائد وہ فلسطینی جو غزہ کی پٹی کے اندر ہی ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں منتقل ہوگئے تھے، اپنے چھوڑے ہوئے علاقوں میں ایک عظیم لہر کی صورت میں پلٹ رہے ہیں۔ اس واپسی کو تاریخ میں فلسطینیوں کی پہلی واپسی قرار دیا جا رہا ہے۔ ایسی واپسی جو اہل فلسطین کی مقاومت اور ان کی افسانوی طرز کی مزاحمت کا نتیجہ ہے۔ تحریر: سید تنویر حیدر

فلسطینی عوام کو بے گھر کرنے اور ان کی زبردستی نقل مکانی کرنے کی سازش فلسطینی علاقوں پر صیہونی حکومت کے قبضے کے ابتدا سے ہی جاری ہے۔ صیہونی جرائم پیشہ افراد نے ناجائز صیہونی ریاست کے قیام کے آغاز میں ہی، 1948ء میں ”حادثہء نکبہ“ کے دوران فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کے لیے خوفناک طرز کا قتل عام کیا۔ فلسطین کے ”مرکزی ادارہء شماریات“ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2023ء کے آخر تک مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں صیہونیوں کے کنٹرول سے باہر کے علاقوں میں رہنے والے فلسطینیوں کی تعداد 5.

48 ملین تک پہنچ گئی تھی جو کل فلسطینی آبادی کا تقریباً 38 فیصد یعنی 14.5ملین ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ 62 فیصد فلسطینی اپنے علاقوں سے باہر رہتے ہیں۔

فلسطینی آبادی کا یہ انخلا دو بڑے واقعات کے سبب ہوا۔ ایک کا سبب 1948ء میں جعلی صیہونی ریاست کے قیام ہے جب کہ دوسرے بڑے انخلا کی وجہ 1948ء کی جنگ ہے۔ نسل کشی اور انسانیت سوز جرائم کے ذریعے فلسطینی عوام کو بے گھر کرنا صیہونیوں کا پرانا مشغلہ ہے۔ ان مظالم کے بعد جو فلسطینی اپنی جانیں بچانا چاہتے تھے وہ مغربی کنارے اور غزہ سمیت کئی علاقوں سے اپنے ہمسایہ ممالک مثلاً اردن، لبنان، شام، مصر اور عراق وغیرہ میں ہجرت کر گئے۔ یہ ممالک اب تک ان مہاجرین کی میزبانی کر رہے ہیں۔ محض اردن میں 40 لاکھ سے زائد فلسطینی اردن کی شہریت حاصل کر چکے ہیں۔

1948ء کے نکبہ کے واقعے میں آٹھ سے نو لاکھ فلسطینی بے گھر ہوئے تھے۔ فلسطینیوں کی نقل مکانی کا یہ سلسلہ 1948ء اور 1968ء کی جنگ کے دوران جاری رہا۔ 1967ء میں چار لاکھ فلسطینیوں نے اپنا وطن چھوڑا جن میں سے سے زیادہ تر مصر چلے گئے۔ 1978ء میں لبنان پر اسرائیلی حملے کے نتیجے میں 65 ہزار فلسطینی پناہ گزین، لبنان سے بے گھر ہوئے۔ پھر 1982ء میں لبنان پر اسرائیلی حملے کے نتیجے میں لبنان سے ”پی ایل او“ کی موجودگی کا خاتمہ ہوا۔ اس دوران 15 ہزار افراد بے گھر ہوئے۔ 1968ء کی جنگ جو فلسطینیوں کے بڑے پیمانے پر انخلاء کا باعث بنی، فلسطینیوں کی نقل مکانی اس کے بعد بھی رکی نہیں۔ صیہونیوں نے اس جنگ کے بعد سے اپنی استعماری اور جابرانہ پالیسیوں کی وجہ سے فلسطینیوں کے حالات زندگی کو مشکل تر بنا دیا ہے۔

مقبوضہ فلسطین نے سات دہائیوں سے زائد عرصے کے دوران کبھی بھی سلامتی اور استحکام نہیں دیکھا۔ صیہونی ہمیشہ سے فلسطینی سرزمین میں اسرائیلی بستیوں کو توسیع دے کر فلسطینیوں کے لیے زمین تنگ کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ 1977ء میں فلسطین کے مختلف علاقوں میں اسرائیلی بستیوں کی تعداد تقریباً 40 ہزار تھی جو 2017ء میں بڑھ کر 60 ہزار ہوگئی۔ جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل 2050ء تک ان بستیوں کی تعداد تقریباً دو ملین تک پہنچانا چاہتا ہے۔ توسیع پسندی کے ان تمام ہتھکنڈوں کے باوجود تمام فلسطینیوں کی جبری بے دخلی اسرائیل کے لیے ہمیشہ ایک ایسا خواب رہی ہے جسے امریکہ کے تمام منصوبے بھی شرمندہء تعبیر نہ کر سکے۔

”الاقصیٰ آپریشن“ کے بعد صیہونیوں نے غزہ کی پٹی میں نسل کشی کر کے یہ سمجھا کہ شاید اب ان کے اس پرانے دیرینہ خواب کو زندہ کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ غزہ جنگ کے ابتدائی مہینوں میں عبرانی میڈیا نے اسرائیلی انٹیلی جنس کی وزارت سے متعلق ایک دستاویز کا انکشاف کیا تھا جس کے مطابق غزہ سے سینائی تک فلسطینیوں کی نقل مکانی کے منصوبے کو اسرائیل کا ایک مثالی منصوبہ قرار دیا گیا تھا۔ تاہم بیدار ضمیر عالمی رائے عامہ نے غزہ میں تقریباً ڈیڑھ سال سے اسرائیلیوں کی بربریت کا مشاہدہ کرنے کے بعد فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کے کسی اسرائیلی منصوبے کو کبھی قبول نہیں کیا۔

فلسطینی عوام کی نقل مکانی عرب ممالک، بالخصوص فلسطین کے ہمسایہ ممالک کے لیے ایک خطرناک حقیقت ہے۔ اردن اور مصر اس مسئلے سے ہمیشہ خوف زدہ رہے ہیں۔ مختلف امریکی حکومتوں نے فلسطینیوں کو دھوکا دینے کے لیے ”عارضی ہجرت“ کی اصطلاح بار بار استعمال کی ہے لیکن یہ حقیقت سب جانتے ہیں کہ فلسطینیوں کی جو بھی نقل مکانی ہوگی، مستقل ہوگی۔ حال ہی میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسی قسم کا ایک منصوبہ ٹیبل پر رکھا ہے۔ ان کے خیال میں فلسطینی اس دام فریب میں آ کر اپنے علاقے سے ہجرت کر کے وقتی طور پر اردن اور مصر میں آباد ہو جائیں گے اور یوں گریٹر اسرائیل کا ادھورا خواب پورا ہو سکے گا۔

فلسطینیوں اور مصر و اسرائیل کی حکام نے ٹرمپ کے اس منصوبے کو سختی سے مسترد کر دیا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں حالیہ جنگ میں نوے فیصد سے زائد وہ فلسطینی جو غزہ کی پٹی کے اندر ہی ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں منتقل ہوگئے تھے، اپنے چھوڑے ہوئے علاقوں میں ایک عظیم لہر کی صورت میں پلٹ رہے ہیں۔ اس واپسی کو تاریخ میں فلسطینیوں کی پہلی واپسی قرار دیا جا رہا ہے۔ ایسی واپسی جو اہل فلسطین کی مقاومت اور ان کی افسانوی طرز کی مزاحمت کا نتیجہ ہے۔

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: فلسطینیوں کی کی نقل مکانی علاقوں میں میں فلسطین غزہ کی پٹی منصوبے کو کو بے گھر رہے ہیں اور مصر کے بعد کے لیے اور ان

پڑھیں:

برلن،فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف ہزاروں افراد کا احتجاج

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

برلن:اسرائیل کی فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف جرمن کے شہری سڑکوں پرآگئے،غزہ میں جاری اسرائیلی ریاست کی جنگ اور فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف دارالحکومت برلن میں ہزاروں شہریوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔برلن میں ہفتے کے روز 20 ہزار سے زائد افراد نے اسرائیل کے خلاف فلسطین میں جاری نسل کشی پر بھرپور احتجاج کیا۔ ”غزہ میں نسل کشی بند کرو“ کے عنوان سے نکالی گئی ریلی میں مظاہرین نے اسرائیل کے فوجی حملوں کی شدید مذمت کی اور فلسطینی عوام سے اظہارِ یکجہتی کیا۔

معروف گلوکار اور سابق بینڈ ”پنک فلوئیڈ“ کے رکن راجر واٹرز نے ویڈیو پیغام میں کہاہم یہاں فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ کھڑے ہیں، دنیا بھر کے باشعور افراد اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے ناقابلِ بیان جرائم کی مذمت کر رہے ہیں۔جرمن سیاسی رہنما سارہ واگن کنشت نے کہا کہ اگرچہ وہ 7 اکتوبر کو حماس کے حملے کی مذمت کرتی ہیں لیکن یہ کسی طور بھی ”غزہ میں دو ملین افراد جن میں نصف بچے ہیں، کو اندھا دھند بمباری، قتل، بھوک اور جبری بے دخلی کا جواز فراہم نہیں کرتا۔ انہوں نے کہایہ جنگ دراصل نسل کشی ہے اور ہم اس کی شدید مذمت کرتے ہیں۔واگن کنشت نے زور دیا کہ جرمنی کا ماضی (نازی دور) یہ سبق نہیں دیتا کہ وہ ایک ”انتہا پسند صیہونی حکومت“ کی غیر مشروط حمایت کرے، بلکہ اصل سبق یہ ہے کہ ظلم پر آواز بلند کی جائے۔

 انہوں نے چانسلر فریڈرک مرز پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو ہتھیار بھیج کر جرمنی بین الاقوامی قانون کی پامالی کر رہا ہے اور اس جنگ کا ساتھی بن چکا ہے۔مظاہرین نے فلسطینی پرچم لہرائے اور اسرائیل کو اسلحہ کی فراہمی فوری بند کرنے کا مطالبہ کیا۔اسی دوران اسپین میں ایک بین الاقوامی سائیکل ریس میں اسرائیلی ٹیم کی شرکت کے خلاف شدید مظاہرے ہوئے جبکہ تل ابیب میں بھی ہزاروں افراد نے غزہ پر جنگ کے خاتمے کے لیے احتجاج کیا۔دوسری جانب انسانی حقوق کا نمائندہ قافلہ ”صمود فلوٹیلا“ تیونس سے غزہ کی جانب روانہ ہو چکا ہے، جو محصور فلسطینیوں کے لیے امداد اور عالمی شعور اجاگر کرنے کا مشن لے کر نکلا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • فلسطینیوں کی نسل کشی اور جبری بیدخلی
  • امریکی وزیر خارجہ اسرائیلی دورے سے واپسی پر دوحا پہنچ گئے،امیر قطر اور وزیراعظم سے ملاقات
  • اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کُشی کا مرتکب، تحقیقاتی کمیشن
  • جاپان فی الحال فلسطینی ریاست تسلیم نہیں کریگا، جاپانی اخبار کا دعویٰ
  • امریکی وزیر خارجہ اسرائیلی دورے سے واپسی پر عجلت میں دوحہ پہنچ گئے؛ اہم پیغام پہنچایا
  • اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کو مٹانے کے لیے نسل کشی کر رہا ہے، اقوام متحدہ
  • باجوڑ آپریشن، چار گاؤں کلیئر ہونے کے بعد مکینوں کو واپسی کی اجازت
  • ایران میں جوہری معائنہ کاروں کی واپسی مفاہمت کی جیت، رافائل گروسی
  • فلسطینیوں کی نسل کشی میں کردار ادا کرنیوالی بین الاقوامی کمپنیاں (2)
  • برلن،فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف ہزاروں افراد کا احتجاج