Express News:
2025-11-03@14:56:31 GMT

میڈم چیف منسٹر ! (دوسری قسط)

اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT

میڈم چیف منسٹر! پچھلے کالم میں جو گذارشات کی گئی تھیں ان کا مقصد آپ کو یہ باور کرانا تھا کہ عوام کی جان اور مال کا تحفّظ آپ کی ترجیحِ اوّل ہونی چاہیے، نیز یہ کہ جرائم پر صرف وہ پولیس افسر قابو پاسکتے ہیں جو صرف رزقِ حلال پر قناعت کرتے ہوں اور نڈر اور جراتمند ہوں۔ اگر کوئی پولیس افسر سات پردوں میں بھی کیش یا kind کی صورت میں کسی ماتحت یا ملزم سے رشوت لیتاہے تووہ بات چند دنوں میں پورے ضلع اور ڈویژن میں پھیل جاتی ہے۔

 اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے کرپٹ افسر کے subordinates بھی اس کی عزّت نہیں کرتے، وہ اپنی نجی محفلوں میں ایسے افسروں کو برا بھلا کہتے ہیں لہٰذا حرام خور افسر بہت جلد اپنی فورس اور عوام دونوں کی نظروں میں گر جاتے ہیں۔ اگر افسر کا دامن داغدار ہو تو اس کی کمانڈ لڑکھڑانے لگتی ہے، ایسی کمزور کمانڈ والے افسر امن و امان کے کسی بڑے چیلنج سے نبردآزما ہونے کی صلاحیّت کھو دیتے ہیں۔ رزقِ حلال کھانے والے پولیس افسر کی یونیفارم، امن، تحفّظ اور عزّت کی علامت ہوتی ہے جب کہ کرپٹ افسر کی وردی اس کے ایمان اور ضمیر کا کفن بن جاتا ہے۔ ایسے افسر محافظ نہیں مجرم ہوتے ہیں۔ وہ اپنے ادارے کے لیے ناسور اور معاشرے کے لیے عذاب کی حیثیّت رکھتے ہیں۔

راشی افسر احساسِ جرم کے تحت اپنے ماتحتوں کی جوابدہی نہیں کرسکتے، لہٰذا ان کے ماتحت کھلّم کھلا کرپشن کا بازار گرم رکھتے ہیں اور نتیجتاً پورا ضلع کرپشن کا گڑھ بن جاتا ہے۔ ایسی صورت میں جرائم میں بے تحاشا اضافہ ہوتا ہے اور عوام عدمِ تحفّظ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ پچھلے کالم کے بعد پنجاب کے کم از کم بارہ اضلاع (جن میں وسطی اور جنوبی پنجاب کے اضلاع شامل ہیں) سے میلز، میسج اور فون آتے رہے، جن میں جرائم میں اضافے کا رونا رویا گیا ہے۔ سینٹرل پنجاب کے اہم ترین ضلع گوجرانوالہ سے صنعتکاروں، تاجروں اور پڑھے لکھے لوگوں کے درجنوں فون اور میسج آئے ، سب کا یہی کہنا تھا کہ لگتا ہے پولیس نے ضلع گوجرانوالہ ٹھیکے پر دے دیا ہے اور خود لمبی چھٹی پر چلی گئی ہے۔

ضلع وزیرآباد روایتی طور پر ایک پرامن علاقہ رہا ہے مگر پچھلے دنوں وزیرآباد جانا ہوا تو شہریوں اور تاجروںکی تنظیموں کے مرکزی عہدیدار ملے، وہ سب بڑھتے ہوئے جرائم پر سخت پریشان تھے۔ وہ بتاتے رہے کہ تاجر آئے روز ڈاکوؤںکا ٹارگٹ بن رہے ہیں۔ ایک انتہائی معزّز تاجر کو ایک ماہ میں چھ بار لُوٹا گیا ہے۔ وہ سب مجھ سے یہی پوچھتے رہے کہ ’’یہ بتادیں کہ گوجرانوالہ اور وزیرآباد صوبۂ پنجاب کا حصہ ہیں یا نہیں؟‘‘ میں نے کہا کیوں نہیں؟ اس پر وہ کہنے لگے کہ ’’پنجاب حکومت ہمیں تحفّظ دینے میں کیوں ناکام ہے؟ آپ ہماری جائز تشویش وزیراعلیٰ تک پہنچائیں‘‘۔ لوگ بتاتے ہیں کہ لاہور کی کمانڈموثّر ہے، سیالکوٹ جہلم میں جو نوجوان ڈی پی او لگے ہیں ان کی شہرت اچھی ہے، باقی اﷲ مالک ہے۔

 عوام اور پولیس کا سب سے بڑا رابطہ مرکز، پولیس اسٹیشن ہے اور وہی یونٹ پولیس کا سب سے کمزور پہلو (grey area) ہے جس کے بارے میں عوام کو سب سے زیادہ شکایات ہیں۔ چند روز پہلے آئی جی پنجاب کی جانب سے ایک بہت ضخیم کتاب موصول ہوئی جس کا عنوان رکھا ہوا تھا ’’تھانے پنجاب دے‘‘ میں خوش ہوا کہ شاید کتاب کے اندر ان کوششوں کا ذکر ہوگا جو پنجاب کے تھانوں میں عوام کی شکایات کے ازالے کے لیے کی جارہی ہیں۔ عوام کو تھانوں سے دو بڑی شکایات ہیں ایک یہ کہ وہاں مظلوم اور مدعی کی بھی رشوت کے بغیر شنوائی نہیں ہوتی اور دوسری یہ کہ تھانے کے اہلکاروں کا روّیہ عام آدمی کے ساتھ بڑا غیر مہذّب اور غیر ہمدردانہ ہوتا ہے۔

اسی کو تھانہ کلچر کہتے ہیں جس کی تبدیلی کے دعوے کیے جاتے ہیں مگر اکثر دعویدار تھانہ کلچر کے معنی بھی نہیں سمجھتے۔ آئی جی کی بھیجی ہوئی کتاب میں تھانوں کی نئی تعمیر کردہ عمارتوں کی تصاویر ہیں، اکثر تصاویر ایسی ہیں جنھیں دیکھ کر کسی فائیو اسٹار ہوٹل کا گمان ہوتا ہے، میں حیران ہوں اس سوچ اور ترجیحات پر ہوںکہ عوام کے پیسوں سے تھانوں کو فائیوا سٹار ہوٹلوں میں تبدیل کرکے خوش ہوا جائے ۔ تھانہ اسٹاف کے رہائشی کمرے اور باتھ روم صاف ستھرے ہونے چاہئیںمگر عوام ہرگز یہ نہیں چاہتے کہ تھانے ہوٹلوں کی طرح بنادیے جائیں ۔ کیا ایسا کرنے سے اب عوام کا پولیس پر اعتماد بحال ہوگیا ہے؟ بالکل نہیں۔

ویسے تو تھانے کے ساتھ پٹوارخانے، عدالت، سیاست اور صحافت کا موجودہ کلچر بھی تبدیل ہونا چاہیے مگر ہم ان سطور میں صرف تھانہ کلچر کی بات کریں گے ، تھانوں کا موجودہ ماحول اور کلچر pro criminal ہے یہ اس کے برعکس ہونا چاہیے۔ اس وقت مظلوم نادار اور بے سہارا شخص کے لیے تھانوں کا ماحول بے حد ناخوشگوار اور غیر ہمدردانہ ہے اسے تبدیل کرنے کے لیے عرق ریزی سے کی جانے والی طویل ریاضت اور جدّوجہد درکار ہے، جس کے لیے پولیس کے ضلعی سربراہ کا کیریکٹر اور مضبوط عزم (strong will) سب سے اہم ہے۔

قومی سطح کے بہت سے دانشور اور صحافی لکھ چکے ہیں کہ تھانوں کا ماحول اور کلچر یعنی تھانہ اسٹاف کی سوچ تبدیل کرنے کی اگر کبھی اخلاص اور جوش وجنون کے ساتھ کوشش ہوئی جس کے نتیجے میں تھانوں سے رشوت، بدتمیزی اور بداخلاقی کا خاتمہ ہوا تو وہ 2009-10  میں گوجوانوالہ میں ہوئی تھی۔ یہ کیسے ممکن ہوا؟ پورا سال پولیس لیڈر شپ کو کس طرح خونِ جگر جلانا پڑا؟ کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے؟ میری کتاب ’’دو ٹوک‘‘ میں اس کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔

انسانی ذہن کی تبدیلی کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے، گوجرانوالہ میں بھی بہت کچھ کرنا پڑا۔سختی بھی، پیار بھی، سزا بھی، انعام بھی، دلیل بھی، کونسلنگ بھی اور موٹیویشن بھی۔ دس گیارہ مہینے کی جدّوجہدکے بعد ہم نے قومی سطح کی بااعتبار این جی اوز سے سروے کرایا جنھوں نے رپورٹ لکھی کہ 95% فیصد تھانوں میں نہ کوئی رشوت لیتا ہیء اور نہ ہی قبول کرتا ہے اور عام آدمی کے ساتھ ان کا طرزِ عمل بھی بہت بہتر ہوا ہے۔

 تھانوں کو ہوٹلوں کی شکل دینے یا رنگ روغن چڑھانے کے بجائے اس کے اندر کا کلچر اور وہاں تعینات عملے کی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے، یہی وزیراعلیٰ کا ہدف ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ چیف سیکریٹری اور آئی جی کو سختی سے ہدایات دی جائیں کہ وہ اپنے تھانیداروں اور محکہ مال کے اہلکاروں کوSensitise کریں کہ وہ عام آدمی کو اہمیّت دیں اور اس کے ساتھ عزّت، احترام اور ہمدردی کے ساتھ پیش آئیں۔ افسران اپنے آرام دہ ائرکنڈیشنڈ دفتروں میں نہ بیٹھیں رہیں، وہ عوام تک خود پہنچیں اور ان کے دکھ درد سنیں اور اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کریں۔

 اس سلسلے میں افسران مختلف محلّوں اور قصبوں میں کھلی کچہریاں لگائیں اور جمعے کو مساجد میں بیٹھ کر عوام کے مسائل سنیں۔ نشے کا ناسور ہر شہر، قصبے اور ہر ایلیٹ اسکول میں پہنچ چکا ہے۔ منشیات فروش نوجوانوں کی رگوں میں زہر اُتار کر انھیں موت کی وادی میں دھکیل رہے ہیں۔ منشیات، بدکاری اور جوئے کے اڈّے پولیس کی آشیرباد کے بغیر نہیں چل سکتے۔ تمام ضلعی پولیس افسران کو سخت ہدایات جاری کریں کہ قابلِ اعتماد ذرایع سے معلومات حاصل کرکے وہ ایک مہینے کے اندر ان اڈوّں کا خاتمہ کردیں۔

 پولیسنگ کا بنیادی مقصد چونکہ عوام کے جان ومال اور عزّت و آبرو کا تحفّظ ہے لہٰذا پولیسنگ کے عمل میں عوام کی شرکت کو یقینی بنانابے حد اہم ہے۔ عوام کے تعاون اور شراکت سے کی جانے والی پولیسنگ (Participative Policing)کی بہترین عملی صورت مصالحتی کمیٹیاں ہیں۔ پولیس افسروں کو چاہیے کہ ضلعی نہیں بلکہ تھانوں کی سطح پر باکردار افراد پر مشتمل مصالحتی کمیٹیاں تشکیل دیں۔

راقم نے پہلے ایبٹ آباد اور پھر گوجرانوالہ میں تھانوں کی سطح پر مصالحتی کمیٹیاں قائم کی تھیں ، جن میں معاشرے کے قابلِ احترام افراد، عدلیہ کے ریٹائرڈ جج، سابق پرنسپل، سول اور ملٹری کے ریٹائرڈ افسران، صنعت و تجارت کے نمایندے اور منتخب کونسلرز میں سے اچھی شہرت کے افراد شامل کیے گئے تھے، ہر پولیس اسٹیشن میں ایک کمرہ ان کے دفتر کے لیے مخصوص کیا گیا تھا،فوجداری اور دیوانی نوعیّت کے جھگڑے، میاں بیوی کے تنازعات اور پولیس افسروں کے خلاف درخواستیں مصالحتی کمیٹیوں کو بھیجی جاتی تھیں، ان کمیٹیوں کی کوششوں سے ہزاروں کیسوں میں صلح ہوئی جس سے کئی خاندان دشمنی کی آگ میں جلنے سے بچ گئے۔

کروڑوں روپے اصل حقداروں کو واپس دلائے گئے۔ درجنوں کیسوں میں میاں بیوی کے درمیان صلح کرادی گئی جس سے خاندان ٹوٹنے سے بچ گئے۔ جو کیس عدالتوں میں پندرہ پندرہ سالوں سے چل رہے تھے، مصالحتی کمیٹیوں نے ان کا دو سے تین ہفتوں میں فیصلہ کردیا جو تمام فریقوں کے لیے قابلِ قبول ہوتا تھا۔ ان کمیٹیوں نے اخلاص اور محنت سے کام کرکے معجزہ کردکھایا۔

خواتین کے علیحدہ تھانے بینظیر حکومت کا ایک سیاسی فیصلہ تھا جو ناکام ثابت ہوا ، وہ تجربہ دھرانے کی ضرورت نہیں۔ پرائس کنٹرول یا تجاوزات کے خاتمے کے نام پر کوئی بھی یونیفارم پہننے والی نئی فورس قائم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، اگر ہو بھی تو وہ صوبے کے انسپکٹر جنرل پولیس کے انتظامی کنٹرول کے تحت ہونی چاہیے۔آخری بات یہ ہے کہ کارکردگی جانچنے کا سب سے بڑا معیار (KPI) ایک ہی ہے اور وہ ہے عوام کی رائے اور تاثّر، اگر عوام میں عدمِ تحفّظ کا احساس پایا جاتا ہے اور وہ مقامی پولیس سے مطمئن نہیں ہیںتو پھر وہ چاہے یو این او سے رپورٹ لے آئے مگر اسے نااہل اور ناکام سمجھا جائے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پولیس افسر پنجاب کے ہوتا ہے کے ساتھ عوام کے عوام کی گیا ہے کے لیے ہے اور اور وہ

پڑھیں:

سڑکیں کچے سے بدتر، جرمانے عالمی معیار کے

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251101-03-5

 

میر بابر مشتاق

ہیڈ لائن کی ضرورت ہی کیا ہے جب شہر خود اپنی کہانی سنارہا ہو؟ یہ کہانی سڑکوں پر بہتے گٹر کے پانی کی ہے، پانی کے ٹینکر کے پیچھے بھاگتے عوام کی ہے، اور بارش کے بعد طوفانی نالے بن کر بہنے والی سڑکوں کی ہے۔ یہ کہانی اس انفرا اسٹرکچر کی ہے جو کاغذوں پر تو شاندار نظر آتا ہے، مگر زمین پر ’’زیرو‘‘ ہے۔ اور ان تمام مسائل پر ایک طاقتور حقیقت مسلط ہے: مافیا۔ ٹینکر مافیا، ڈمپر مافیا، اور اب اس کے ساتھ ایک نیا اضافہ ’ای چالان مافیا‘۔ کراچی، جو کبھی پاکستان کا معاشی دل سمجھا جاتا تھا، آج ایک ایسے شہر کی حیثیت سے جی رہا ہے جہاں بنیادی سہولتوں کا فقدان ہی روزمرہ کی زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ سڑکیں نہ صرف کچی ہیں، بلکہ ان کی حالت اتنی خراب ہے کہ کچی سڑکیں بھی شرم سے منہ چھپا لیتی ہیں۔ ہر موڑ پر گڑھے، ہر سڑک پر کھدائی، اور ہر بارش کے بعد یہ شہر ڈوبتا نہیں بلکہ شرم سے مر جاتا ہے۔ اسی خراب انفرا اسٹرکچر کے نتیجے میں رواں سال 700 سے زائد شہری ٹریفک حادثات کا نشانہ بن کر جاں بحق ہو چکے ہیں، جبکہ 10 ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان اموات میں 205 کا تعلق بھاری گاڑیوں؛ ٹینکر، ٹرالر اور ڈمپر سے ہے، جو عوام کے لیے موت کا پروانہ بن کر دوڑ رہے ہیں۔ یہ وہ ’’اسٹرکچر‘‘ ہیں جو کبھی نہیں ڈوبتے، ان کا کام جاری ہے، اور ان کے مالکان کو کوئی جوابدہی نہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب شہریوں کو بنیادی سہولتیں مہیا کرنا حکومت کی ذمے داری ہے، تو پھر اس کی ناکامی کی سزا عوام کو کیوں دی جا رہی ہے؟ یہی وہ مقام ہے جہاں ’ای- چالان‘ کا المیہ شروع ہوتا ہے۔ سندھ حکومت نے ایک طرف تو سڑکوں کی مرمت، پانی کی فراہمی اور سیکورٹی جیسی بنیادی ذمے داریوں کو یکسر نظر انداز کر رکھا ہے، دوسری طرف وہ ’’عالمی معیار‘ کے ای-چالان سسٹم کے ذریعے عوام کو ڈھادے جانے والے بھاری جرمانوں سے اپنے خزانے بھرنے میں مصروف ہے۔ یہ نظام درحقیقت لوٹ مار کا ایک منظم دھندا بن چکا ہے۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ پنجاب میں اسی ای-چالان سسٹم کے تحت موٹر سائیکل سوار سے 200 روپے کا جرمانہ وصول کیا جاتا ہے، جبکہ کراچی میں ایک ہی قصور پر موٹر سائیکل سوار کو 5000 روپے کی خطیر رقم ادا کرنا پڑتی ہے۔ یہ کوئی معمولی فرق نہیں، یہ دس گنا سے بھی زیادہ کا فرق ہے۔ کیا کراچی کے شہری پنجاب کے شہریوں کے مقابلے میں دس گنا زیادہ امیر ہیں؟ یا پھر یہ سندھ حکومت کی طرف سے عوام پر معاشی تشدد ہے؟

حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہی حکومت جو سڑکوں پر گڑھے چھوڑ کر، ٹریفک کے بہاؤ کو درست کرنے میں ناکام رہ کر اور عوامی ٹرانسپورٹ کا کوئی بندوبست نہ کر کے روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں شہریوں کو غیر محفوظ ٹریفک اسٹرٹیجی کا شکار بنا رہی ہے، اسے یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنی نااہلی کی پاداش میں عوام پر بھاری جرمانے عائد کرے؟ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے ڈاکو خود تو گھر لوٹے، اور مالک کو ہی قصوروار ٹھیرایا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ سندھ حکومت عوام کو شعور دینے اور انفرا اسٹرکچر بہتر بنانے کے بجائے، صرف جرمانوں کے ذریعے خزانہ بھرنے میں لگی ہوئی ہے۔ یہ ایک آسان راستہ ہے۔ سڑکیں بنانے، ٹریفک انجینئرنگ درست کرنے، عوامی امن و امان قائم رکھنے اور پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر بنانے میں تو محنت اور خلوص نیت کی ضرورت ہے، جبکہ کیمرے لگا کر جرمانے کاٹ لینا بہت آسان کام ہے۔

ای-چالان سسٹم کا مقصد اصل میں عوام کو سزائیں دینا نہیں، بلکہ ٹریفک کے بہاؤ کو بہتر بنانا اور حادثات کو کم کرنا ہونا چاہیے۔ لیکن جب یہ نظام انصاف کے بجائے مالی فائدہ کمانے کا ذریعہ بن جائے، تو پھر یہ نہ صرف غیر اخلاقی ہوتا ہے بلکہ عوام کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچاتا ہے۔ اس پورے معاملے پر ازسرنو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ای-چالان سسٹم کو ایک انصاف پر مبنی، شفاف اور عوام دوست نظام میں تبدیل کیا جانا چاہیے۔ اس کے لیے درج ذیل اقدامات فوری طور پر اٹھائے جانے چاہئیں:

1۔ جرمانوں کی شرح کا پنجاب کے برابر ہونا: سندھ میں جرمانوں کی شرح کا پنجاب کے ساتھ ہم آہنگ ہونا انتہائی ضروری ہے۔ یہ امتیازی سلوک ختم ہونا چاہیے۔ ایک عام موٹر سائیکل سوار کے لیے 5000 روپے کا جرمانہ نہ صرف غیر منصفانہ بلکہ غیر معاشی بھی ہے۔

2۔ سڑکوں کی فوری مرمت: سڑکوں کو حادثات کے لیے محفوظ بنایا جائے۔ گڑھوں کو پر کیا جائے، سڑکوں کی واضح مارکنگ کی جائے، اور خاص طور پر اسکولز، اسپتالوں اور مصروف چوراہوں کے اردگرد سیفٹی اقدامات کو یقینی بنایا جائے۔

3۔ بھاری گاڑیوں پر کنٹرول: ٹینکر اور ڈمپرز کے لیے مخصوص اوقات مقرر کیے جائیں اور ان کی رفتار پر سختی سے عملدرآمد کرایا جائے۔ ان گاڑیوں کے ڈرائیورز کو خصوصی تربیت دی جائے اور ان کی گاڑیوں کی فٹنس کا سالانہ معائنہ لازمی ہونا چاہیے۔

4۔ عوامی آگاہی مہم: محض جرمانے جاری کرنے کے بجائے، ٹریفک قوانین کے بارے میں عوامی آگاہی مہم چلائی جائے۔ اسکولوں، کالجز اور میڈیا کے ذریعے شہریوں کو ٹریفک اصولوں کی تربیت دی جائے تاکہ وہ خود بخود قوانین کی پابندی کریں۔

5۔ شفافیت اور جوابدہی: ای-چالان کے ذریعے وصول کی گئی رقم کا شفاف حساب کتاب عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔ یہ رقم صرف سڑکوں کی مرمت اور ٹریفک انفرا اسٹرکچر کی بہتری پر خرچ کی جائے، نہ کہ عام بجٹ میں شامل کر کے ضائع کی جائے۔

بنیادی بات یہ ہے کہ شہریوں کو سہولت نہ دی جائے اور ان پر بھاری بھرکم جرمانے مسلط کیے جائیں، یہ کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہے۔ حکومت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ عوام کو ’’مجرم‘‘ بنا کر نہیں، بلکہ ان کی خدمت کر کے ہی ترقی ممکن ہے۔ جب تک سڑکیں کچے سے بدتر رہیں گی، تب تک چاہے جرمانے عالمی معیار کے ہی کیوں نہ ہو جائیں، شہر کی کہانی اندھیرے اور مایوسی ہی سناتی رہے گی۔ حکومت کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ریاست کی مشروعیت عوام کی خدمت سے آتی ہے، نہ کہ ان پر جرمانے عائد کر کے۔ اگر سڑکیں ٹھیک نہیں، پانی نہیں، بجلی نہیں، اور امن نہیں، تو پھر ’’عالمی معیار کے جرمانے‘‘ صرف ایک مذاق ہیں۔

 

میر بابر مشتاق

متعلقہ مضامین

  • سرکاری سکیم کے تحت حج واجبات کی آخری قسط کی وصولی شروع
  • پیپلزپارٹی عوامی مسائل پر توجہ دے رہی ہے،شرجیل میمن
  • پنجاب میں عوام عدم تحفظ کا شکار ہیں،جماعت اسلامی
  • کراچی، خونی ڈمپر نے موٹرسائیکل سوار ایف آئی اے افسر کو کچل ڈالا
  • ملیر کینٹ میں تیز رفتار ڈمپر کی ٹکر سے ایف آئی اے افسر جاں بحق
  • کراچی: ملیر کینٹ کے قریب تیز رفتار ڈمپر کی ٹکر سے موٹرسائیکل سوار ایف آئی اے افسر جاں بحق
  • ای چالان نے مشکلات میں مبتلا کردیا ہے‘سنی تحریک
  • ڈیم ڈیم ڈیماکریسی (پہلا حصہ)
  • سڑکیں کچے سے بدتر، جرمانے عالمی معیار کے
  • اسلام آباد ،جماعت اسلامی کا ترامڑی چوک پر اسپتال کی عدم تعمیر پر احتجاج