شعبہ صحت میں ماہر اور عملی فارماسسٹس کی کمی ہے‘ پی پی ایم اے
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
کراچی (اسٹاف رپورٹر)پاکستان کا نظام صحت اس وقت ایک سنگین مسئلے کا سامنا کر رہا ہے اور وہ ہے ماہر اور عملی فارماسسٹس کی کمی ہے۔ یہ خلا ادویات کی فروخت اور استعمال میں غیر محفوظ طریقوں کا باعث بن رہا ہے، جس کے نتیجے میں عوامی صحت پر سنگین اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (PPMA) کے سابق چیئرمین سید فاروق بخاری نے اس مسئلے کی سنگینی کو اجاگر کیا ہے۔فاروق بخاری نے بتایا کہ پاکستان کے نظام صحت میں تقریباً 80 ہزار فارمیسیز شامل ہیں، لیکن ملک بھر میں صرف 55 ہزار فارماسسٹس رجسٹرڈ ہیں۔ ہر سال ڈھائی ہزار نئے فارماسسٹس میدان میں آتے ہیں، جن میں 45 فیصد مرد اور 55 فیصد خواتین شامل ہوتی ہیں۔ تاہم، گھریلو ذمہ داریوں، خصوصاً شادی کے بعد 25 فیصد خواتین فارماسسٹس اپنا کیریئر جاری نہیں رکھ پاتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ’زیادہ تر فارماسسٹس فارماسیوٹیکل انڈسٹری میں اپنی ملازمت کے مواقع کو ترجیح دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں فارمیسیز میں عملے کی شدید کمی ہو جاتی ہے‘۔فاروق بخاری نے فارمیسی سے متعلقہ کیریئرز میں ترقی کے وسیع مواقع کو اجاگر کیا، جو نظامی غفلت کے باعث مکمل طور پر استعمال نہیں کیے جا رہے۔انہوں نے نشاندہی کی کہ کئی فارمیسیز غیر تربیت یافتہ افراد کے ذریعے چلائی جا رہی ہیں، جو ماہرین کی کمی کے باعث ادویات کے غلط استعمال اور ان کے فراہم کرنے میں سنگین خطرات پیدا کر رہے ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح صفر ہو جانے کا خدشہ
پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 16 ستمبر2025ء) مشیر خزانہ خیبرپختونخواہ مزمل اسلم نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح صفر ہو جانے کا خدشہ، حالات اتنے خراب ہیں کہ یہ دنیا کے دس بدترین معیشت کے ملکوں میں آچکے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق مشیر خزانہ و بین الصوبائی رابطہ خیبرپختونخوا مزمل اسلم نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے زراعت ایمرجنسی کا اعلان محض ایک نمائشی قدم ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ چار برسوں سے پاکستان کی زرعی معیشت کو مسلسل تباہی کا سامنا ہے۔ مشیر خزانہ خیبرپختونخوا نے کہا کہ موجودہ وزیراعظم کے دور میں دوسرا سیلاب آگیا انکے پاس زرعی اور ماحولیاتی نمائشی ایمرجنسی کے علاؤہ کوئی روڈ میپ نہیں ہے۔ مزمل اسلم نے کہا کہ زراعت ایمرجنسی لگانے سے کیا ہوگا جب پچھلے چار سال سے کسان کو ختم کیا جا رہا ہو، زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ سکیمیں بن رہی ہوں اور ملک خوراک کی کمی کے بحران میں داخل ہو چکا ہے۔(جاری ہے)
ملک میں گندم اور آٹے کا بحران ہے اور ملک میں تاریخ کی سب سے مہنگی کھاد ہے انہوں نے کہا کہ پاکستان اب غذائی عدم تحفظ کے شکار ملک کی شکل اختیار کر چکا ہے جہاں پیداوار مسلسل گر رہی ہے اور حکومتوں کی توجہ صرف نمائشی اعلانات پر مرکوز ہے۔ خیبرپختونخوا ہاؤس اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مزمل اسلم نے کہا کہ پوری دنیا میں پاکستان کیلئے شرم کا مقام ہے کہ صرف چار فیصد رقبے پر پاکستان میں جنگلات ہیں جبکہ پاکستان کے کل جنگلات کا 45 فیصد خیبرپختونخوا میں ہے۔ وزیراعظم بتائیں یہ انکی چوتھی حکومت ہے اورملک میں اور پنجاب میں کتنے درخت لگائے ہیں۔ مزمل اسلم نے سابق مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ رواں مالی سال میں ملک کی شرح نمو ممکنہ طور پر صفر فیصد تک گر سکتی ہے جو معیشت کی مکمل ناکامی کا اعلان ہے۔مشیر خزانہ خیبرپختونخوا نے کہا کہ عمران خان کو اسلئے ہٹا دیا کہ معیشت ٹھیک کرسکے حال یہ ہے کہ ان کے دور حکومت میں پہلے سال شرح نمو منفی 0.5 فیصد رہی دوسرے سال شرح نمو 2.4 فیصد رہی جس کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ جعلی طریقے سے حاصل کی گئی ہے۔تیسرے سال شرح نمو 2.7 فیصد قرار دیا گیا جس پر میں نے وزیراعظم کو بتایا کہ ایسا نہیں ہے جس پر وزیراعظم نے اعتراف کیا کہ ڈیٹا غلط ہے چوتھے سال کیلئے یہ کہہ رہے ہیں کہ 4.2 فیصد ہدف ہے لیکن حالات اتنے خراب ہیں کہ یہ دنیا کے دس بدترین معیشت کے ملکوں میں آچکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت کو صرف تین سال دیے گئے لیکن موجودہ حکومت ساڑھے تین سال سے برسراقتدار ہے اور اب تک کوئی احتساب نہیں ہوا، ہماری حکومت پر ہر دن تنقید ہوتی تھی مگر نواز شریف، شہباز شریف، زرداری یا بلاول سے کوئی سوال نہیں کرتا۔مزمل اسلم نے بلاول بھٹو اور حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں 2010 کے سیلاب کے دوران زرداری نے ایڈ نہیں، ٹریڈ کا نعرہ لگایا تھا مگر آج بھی یہی حکمران عالمی امداد کے سہارے حکومت چلا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ 2022 کے سیلاب کا حوالہ دیتے ہوئے سوال اٹھایا کہ اس وقت بطور وزیر خارجہ بلاول نے جس عالمی امداد کے دعوے کیے تھے، وہ کہاں گئی مزمل اسلم نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں صوبوں کے درمیان غیر منصفانہ تقسیم پر بھی سوالات اٹھائے اور کہا کہ پنجاب کے 46 لاکھ افراد کو بی آئی ایس پی فنڈز دیے جا رہے ہیں، سندھ میں 26 لاکھ افراد کو 100 ارب روپے دیے گئے جبکہ خیبرپختونخوا کو صرف 72 ارب اور بلوچستان کو محض 5 ارب روپے دیے گئے۔