Jasarat News:
2025-11-03@14:57:02 GMT

ارکانِ اسمبلی کی تنخواہ ومراعات میں اضافہ!

اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT

ارکانِ اسمبلی کی تنخواہ ومراعات میں اضافہ!

جب پورا ملک بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہو، عوام دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہوں اور مہنگائی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہو، ایسے میں ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں 140 فی صد اضافہ، کیا انصاف کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کی باز گشت ہر جگہ سنائی دے رہی ہے۔ ایک طرف عام آدمی اپنی ر وز مرہ کی ضروریات کی عدم تکمیل پر نفسیاتی عذاب کا شکار ہے جبکہ دوسری جانب حکمران طبقہ ہے جس کی عیاشیوں اور شاہ خرچیوں کا نا ختم ہونے والا ایک سلسلہ ہے۔ خبر آئی ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں 140 فی صد اضافے کی منظوری دی گئی ہے، اسپیکر قومی اسمبلی نے اپنی سفارشات وزیر اعظم جناب شہباز شریف کو ارسال کردی ہیں، ارکان ِ اسمبلی اور سینیٹرز کی تنخواہ و مراعات پانچ لاکھ انیس ہزار مقرر کرنے کی منظوری دی گئی ہے، اس حوالے سے فنانس کمیٹی نے سفارشات وزیر اعظم کو ارسال کردی ہیں، واضح رہے کہ وفاقی سیکرٹری کی تنخواہ اور الاؤنسز 5 لاکھ 19 ہزار ماہانہ ہیں، اس اضافے سے ارکانِ پارلیمنٹ کی سہولتیں بھی وفاقی سیکرٹری کے مساوی ہو جائیں گی، قبل ازیں پنجاب اسمبلی نے بھی ارکان اسمبلی کی تنخواہ 76 ہزار سے بڑھا کر 4 لاکھ کردی ہے۔ 83 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ وصول کرنے والے پارلیمانی سیکرٹری اب 4 لاکھ 65 ہزار روپے تنخواہ وصول کریں گے، جبکہ ارکانِ اسمبلی اور وزراء کی تنخواہوں میں کیا گیا یہ اضافہ ان کی بنیادی ماہانہ تنخواہ پر لاگو ہوتا ہے، جبکہ انہیں حاصل ہونے والے ٹی اے، ڈی اے، مفت طبی سہولت، رہائش اور دیگر مراعات اس کے علاوہ ہیں۔ بل کی منظوری کے بعد ارکانِ پارلیمنٹ کو وفاقی سیکرٹری کے برابر سہولت حاصل ہوں گی، المیہ یہ ہے کہ ایم این اے اور سینیٹر کی تنخواہ دس لاکھ مقرر کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا مگر بھلا ہو اسپیکر ایاز صادق کا جنہوں نے اس تجویز کو مسترد کردیا۔ تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کی یہ دلیل دی گئی کہ ارکان اسمبلی کی تنخواہ کم ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی رکن اسمبلی اور اس کی فیملی کو علاج معالجے کی مفت سہولت کے علاوہ پورے سال جاری رہنے والے اسمبلی میں اجلاس میں شرکت کے لیے ٹی اے، ڈی اے کی مد میں بھی خطیر رقم دی جاتی ہے۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے اس ’’کارِ خیر‘‘ میں حصہ لینے کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کیوں کر پیچھے رہتا، اس ادارے نے بھی بلاجھجھک مطالبہ کیا ہے کہ اسے اپنے افسران کے لیے 6 ارب مالیت کی 1010 گاڑیاں دی جائیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مہنگائی کی شرح کو دیکھتے ہوئے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے حوالے سے اسمبلی میں کوئی بل پیش کیا جاتا اس کے برخلاف اپنی ہی مراعات میں اضافہ کروا کے عملاً قوم کو یہ پیغام دیا گیا کہ جنہیں وہ اپنا مسیحا، ہمدرد و خیرخواہ سمجھتے ہیں وہ قطعاً ایسے نہیں انہیں عوامی مشکلات اور مسائل کے حل سے کوئی سروکار نہیں۔ ایک ایسا ملک جس پر 120 ارب ڈالر سے زاید کے بیرونی قرضوں کی تلوار لٹک رہی ہو، جس ملک کا عام شہری تک اس قرض کے بوجھ تلے دبا ہوا ہو، جہاں مہنگائی کی شرح آسمان کو چھو رہی ہو، جہاں ہر گزرتے دن کے ساتھ غربت کی شرح میں ہوشربا اضافہ ہو رہا ہو، 40 فی صد سے زاید افراد خط ِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہوں، جس ملک کی شرح خواندگی فخر کے قابل نہ ہو، جہاں ڈھائی کروڑ سے زاید بچے اسکول نہ جا پاتے ہوں، جہاں بے روزگاری کی وجہ سے گزشتہ تین سال میں 12 لاکھ 78 ہزار نوجوان بہتر روزگار کے لیے ملک چھوڑ کر بیرونِ ملک جاچکے ہوں، جہاں 96 فی صد شہری اور 89 فی صد دیہی آبادی کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہ ہو، جہاں باپ اپنے بچوں کی خواہشات نہ پوری کرنے کی وجہ سے موت کو گلے لگا رہا ہو، بچے فروخت کیے جارہے ہوں۔ خودکشیوں کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہو، مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہو، غریب عوام دو وقت کی روٹی کو ترستے ہوں، وہاں کے ارکانِ پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں شاہانہ اضافہ اس امر کی نشاندہی کر رہا ہے کہ حکومتی ارکان اور عوامی نمائندوں کو عوامی مسائل و مشکلات کی قطعاً پروا نہیں، ان کی بلا سے کوئی مرے یا جیے! لطف کی بات یہ ہے کہ روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والے، ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے آرزو مند، اور ملک میں ’’انصاف‘‘ کا بول بالا کرنے کا عزم رکھنے والوں نے مراعات کے حصول کے لیے اپنے اپنے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک پیج پر نظر آئے اور اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے وقت کوئی عار محسوس نہیں کی، نہ انہیں عوام یاد آئے نہ عوامی مسائل، اپنی مراعات اور تنخواہوں میں اضافہ کرانے والوں نے عوام کا نہیں سوچا اور نہ ہی انہیں اس بات کی فکر ہے کہ پاکستان اقتصادی طور پر دیوالیہ ہونے کی کس گہری کھائی کے دہانے پر کھڑا ہے، ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ ارکانِ اسمبلی مالی آسودگی پانے کے بعد عوامی مسائل و مشکلات کے لیے یکسو ہو جائیں گے اور ان مراعات کے بعد عوام کے دیرینہ مسائل کے حل کے لیے وہ میدان ِ عمل میں کود پڑیں گے! بل منظور کرانے والوں نے پاکستان کے 25 کروڑ عوام کے حق پر ڈاکا ڈالا ہے، انہوں نے نہ عوام کی معاشی مشکلات کا خیال کیا نہ ہی اپنے اْس حلف کا پاس رکھا جس میں درج تھا کہ وہ اپنے ذاتی مفاد کو قومی و عوامی مفادات پر ترجیح دیں گے۔ یہ اس امر کی نشاندہی ہے کہ عوامی مسائل کو حل کرنا نہ حکومت کی ترجیح ہے نہ ان سیاسی جماعتوں کی جو عوام کو سبز باغ دکھاکر ایوان تک پہنچتی ہیں، آج عوام کس صورتحال سے دوچار ہیں، انہیں کن معاشی مشکلات کا سامنا ہے؟ کوئی نہیں جو عوام کے لیے سوچے اور گوناگوں مسائل کے گرداب میں پھنسے عوام کے لیے کچھ کرے۔ حکومت نے ایک مزدور کی جو تنخواہ مقرر کی ہے کیا وہ تنخواہ ایک مزدور اور اس کے خاندان کے لیے کفالت کا باعث ہے؟ کیا اسے ملنے والی تنخواہ میں کوئی میں اقتصادی جادوگر چار پانچ افراد پر مشتمل خاندان کا بجٹ بنا سکتا ہے؟۔ ایک جانب کفایت شعاری کی بات کی جاتی ہے اور دوسری جانب اس نوع کے اقدامات کیے جاتے ہیں جن سے عوام میں سخت مایوسی اور بددلی پھیل جاتی ہے۔ اقتصادی ماہرین کے نزدیک ملک کو درپیش معاشی بحران کی اہم وجہ ہی شاہانہ اخراجات اور موجود وسائل کے درمیان توازن کو نہ ہونا ہے۔ پیش آمدہ صورتحال کے تناظر میں یہ صرف جماعت ِ اسلامی ہی ہے جس سے وابستہ ارکان پارلیمنٹ خواہ وہ کسی بھی سطح کے ہوں نے مراعات کی آلائشوں سے اپنے دامن کو آلودہ نہیں ہونے دیا اور ملکی وسائل کو ذاتی مفاد میں استعمال سے گریز کرکے پارلیمانی سیاست میں امانت و دیانت کی لازوال مثال قائم کی۔ حقیقت یہ ہے کہ آج ملک کی اقتصادی حالت جس ناگفتہ بہ صورتحال سے دوچار ہے اور جس طرح سے عوامی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اقدامات کیے جا رہے ہیں اس سے نجات کی کوئی صورت اس کے علاوہ نہیں ہے کہ عوام انتخابات کے موقع پر ان گندم نما جو فروشوں کے چہرے یاد رکھیں اور اپنا ووٹ ایسے افراد اور جماعت کے حق میں استعمال کریں جو خدمت اور دیانت کا شعار رکھتے ہوں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اسمبلی کی تنخواہ تنخواہوں میں عوامی مسائل کی تنخواہوں مراعات میں میں اضافہ یہ ہے کہ عوام کے ہے کہ ا کے لیے رہا ہو کی شرح

پڑھیں:

متنازع تنخواہ، پی آر سی ایل کے 6؍ ڈائریکٹرز اور سابق سی ای او کو شو کاز نوٹس جاری

اسلام آباد(نیوز ڈیسک)سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) نے پاکستان ری انشورنس کمپنی لمیٹڈ (پی آر سی ایل) کے بورڈ آف ڈائریکٹرز، اور سابق چیف ایگزیکٹو افسر کو سابق سی ای او کی تقرری، اہلیت اور تنخواہ کے پیکیج کی منظوری کے معاملے میں قوانین کی مبینہ خلاف ورزیوں پر اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا ہے۔ ایس ای سی پی کے ایڈجوڈیکیشن ڈپارٹمنٹ نے اپنے نوٹس میں کہا ہے کہ سرکاری سرپرستی میں چلنے والی کمپنی اور اس کے بورڈ نے طریقہ کار پر عمل کیے بغیر چیف ایگزیکٹو افسر کا تقرر اور اس کیلئے مشاہرے کا پیکیج (جس کی وجہ سے سی ای او نے 32؍ ماہ میں 355؍ ملین روپے حاصل کیے) منظور کرکے کمپنیز ایکٹ، انشورنس آرڈیننس اور پبلک سیکٹر کمپنیز (کارپوریٹ گورننس) روُلز کی کئی شقوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ یہ رقم حکومت کی منظور کردہ حد سے بہت زیادہ ہے۔ نوٹس کے مطابق، پی آر سی ایل کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے حکومت سے منظوری حاصل کیے یا پھر ’’فِٹ اینڈ پراپر‘‘ کی شرائط کے تحت جائزہ لیے بغیر 27؍ ستمبر 2021ء کو اپنے اجلاس میں ایک شخص کو قائم مقام چیف ایگزیکٹو افسر مقرر کیا۔ اُس وقت، مقرر کیے جانے والے افسر کے پاس انشورنس کی صنعت میں کسی اہم عہدے پر کام کا مطلوبہ پانچ سال کا تجربہ نہیں تھا۔ اُن کے پاس صرف تین سال چار ماہ کا متعلقہ تجربہ تھا، یہ ایس ای سی پی کے سائونڈ اینڈ پروُڈنٹ مینجمنٹ ریگولیشنز کی خلاف ورزی ہے۔ کمیشن نے اس بات کا مشاہدہ کیا کہ اِس صورتحال کے باوجود، حکومت نے افسر کو پانچ لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ پر باضابطہ طور پر 18؍ اگست 2022ء کو ایس پی پی ایس تھری پے اسکیل پر چیف ایگزیکٹو افسر مقرر کیا۔ پی آر سی ایل بورڈ نے اس کے بعد 19؍ اگست 2022ء کو ہوئے 169ویں اجلاس میں سی ای او کی مراعات اور مشاہرے میں غیر مجاز انداز سے اضافوں کی منظوری دی۔ ایس ای سی پی کے مطابق، بورڈ کی جانب سے منظور کی جانے والی اضافی مراعات کی تفصیلات یہ ہیں: سالانہ 10؍ فکس بونسز، جن میں سے ہر ایک بونس ایک ماہ کی تنخواہ کے برابر تھا، اور اس کے علاوہ کارکردگی بونس؛ ملازمت کے ہر مکمل سال کے عوض 4؍ ماہ کی مجموعی تنخواہ کے مساوی سیورنس پے؛ ہر سال کی سروس پر دو ماہ کی مجموعی تنخواہ (بشمول الائونسز) کے مساوی گریجویٹی؛ ہر سال تنخواہ میں اضافہ یا نظرثانی، جس کی شرح دو لاکھ 49؍ ہزار 500؍ روپے سالانہ مقرر کی گئی؛ سرکاری رہائش اور میڈیکل سہولت کمپنی کے ذمے؛ سرکاری کار بمع پٹرول، رخصت پر جانے کا کرایہ (Leave Fare Assistance)، اور مکمل تنخواہ کے ساتھ تفریحی چھُٹیاں؛ پروفیشنل اداروں کی رُکنیت فیس کی ادائیگی اور ملک کے کسی بھی دو کلبز کی ایک مرتبہ کی ممبرشپ (بشمول ماہانہ سبسکرپشنز)؛ موبائل اور انٹرنیٹ الائونس کی مد میں 15؍ ہزار روپے ماہانہ یا جتنی رقم خرچ کی اتنی ادائیگی؛ بچوں کی تعلیم کے اخراجات کی ادائیگی، ایک ماہ کی تنخواہ تک گھر کی تزئین و آرائش کا الائونس، اور ذاتی تفریحی اخراجات؛ اور وہ تمام دیگر الائونسز، مراعات اور سہولتیں جو چیف ایگزیکٹو افسر کے عہدے کیلئے پہلے سے منظور شدہ تھیں۔ ایس ای سی پی نے کہا کہ یہ مراعات وفاقی حکومت کی منظور کردہ ایس پی پی ایس-III پیکیج سے ’’واضح طور پر زیادہ‘‘ تھیں، لہٰذا کمپنیز ایکٹ کی شق 188(2) کی خلاف ورزی تھیں، یہ شق چیف ایگزیکٹو افسر کی تقرری کی شرائط و ضوابط طے کرنے کا اختیار صرف حکومت کو دیتی ہے۔ ایس ای سی پی نے الزام عائد کیا کہ کمپنی کی جانب سے اگست 2022ء میں ایس ای سی پی کو جمع کرائی گئی سی وی میں یہ غلط دعویٰ کیا گیا تھا سی ای او مقرر کیے گئے شخص کے پاس پانچ سال کا ’’Key Officer‘‘ (اہم عہدے پر کام کا) تجربہ ہے۔ بعد ازاں پی آر سی ایل کے دو ڈائریکٹرز کی جانب سے بھیجی گئی خط و کتابت سے یہ بات واضح ہوئی کہ مقرر کردہ افسر کے پاس صرف ساڑھے تین سال سے کچھ زیادہ کا تجربہ تھا۔ اس بنیاد پر کمیشن نے نتیجہ اخذ کیا کہ غلط معلومات جان بوجھ کر فراہم کی گئیں۔ یہ انشورنس آرڈیننس 2000ء کی شق 158 کی خلاف ورزی ہے۔ 6؍ بورڈ ڈائریکٹرز کو جاری کردہ نوٹس میں انہیں 14؍ یوم کے اندر جواب دینے اور وضاحت پیش کرنے کا کہا گیا ہے کہ ان کیخلاف کارروائی کیوں نہ کی جائے۔ ان دفعات کے تحت سزا میں پچاس لاکھ روپے تک جرمانہ، خلاف ورزی کے جاری رہنے پر روزانہ جرمانہ، اور کمپنی کے ڈائریکٹر یا سی ای او کی حیثیت سے تقرری کے معاملے میں 5 سال تک نااہل قرار دیا جانا شامل ہے۔ پی آر سی ایل جو 2000ء میں قائم ہوئی۔ سرکاری ملکیت کی اس کمپنی میں زیادہ حصہ وزارت تجارت کا ہے۔ یہ پاکستان کی واحد سرکاری ری انشورنس کمپنی ہے اور پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر لسٹڈ ہے۔
انصار عباسی

متعلقہ مضامین

  • پنجاب اسمبلی: حکومت اور اپوزیشن ارکان کے درمیان شدید ہنگامہ آرائی، ’چور چور‘ کے نعرے
  • گڈ گورننس ن لیگ کا ایجنڈا، جرائم کی شرح میں نمایاں کمی آ چکی: وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز
  • چینی عوام کی پہنچ سے دور، مختلف شہروں میں قیمت 220 روپے کلو تک پہنچ گئی
  • مریم نواز سے ساہیوال ڈویژن کے ارکان اسمبلی کی ملاقات، ترقیاتی کاموں پر اظہار اطمینان
  • مریم نواز سے ساہیوال ڈویژن کے ارکان اسمبلی اور پارٹی ٹکٹ ہولڈرز کی ملاقات
  • بانی پی ٹی آئی کے نامزد اپوزیشن لیڈر محمود اچکزئی کی تقرری مشکلات کا شکار
  • متنازع تنخواہ، پی آر سی ایل کے 6؍ ڈائریکٹرز اور سابق سی ای او کو شو کاز نوٹس جاری
  • مودی سرکار میں ارکان پارلیمان ارب پتی بن گئے، بھارتی عوام  انتہائی غربت سے بے حال
  • پیٹرول کی قیمت میں اضافہ ہوگیا، حکومت نے عوام پر مہنگائی کا نیا بوجھ ڈال دیا
  • بھارتی قومی اسمبلی (لوک سبھا) کے 93 فیصد ارکان کروڑ و ارب پتی بن گئے، عوام بدحال؛ رپورٹ