نانگا پربت ایک قاتل پہاڑ
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
ہم چار دوست اپنی موٹر سائیکلوں پر شمالی علاقہ جات کی سیر کو نکلے ہوئے تھے۔ صبح سویرے گوری کوٹ میں آنکھ کھلی تو ہوٹل کی بالکونی سے گوری کوٹ کا خوبصورت نظارہ ہمارے سامنے تھا۔ ناشتہ کرنے کے بعد گوری کورٹ سے نکلے تو آگے جا کر ایک راستہ چلم چوکی دیوسائی کی طرف جارہا تھا جبکہ دائیں ہاتھ والا راستہ ترشنگ روپل ویلی کی طرف جارہا تھا۔ دائیں ہاتھ مڑنے کے بعد ہم روپل نالہ کے ساتھ ساتھ سفر کر رہے تھے۔
کچھ کلومیٹر سفر کرنے کے بعد اسفالٹ کی سڑک کی جگہ پتھر یلی سڑک نے لے لی تھی اور خشک پہاڑ ہمارے ساتھ تھے۔ ایک جگہ بورڈ نظر آیا جہاں سے بائیں ہاتھ ایک راستہ شونٹر پاس، رتو، کالا پانی درلے جھیل کی طرف جارہا تھا، یعنی اس راستہ سے تاؤ بٹ بالا کی طرف جایا جاسکتا ہے لیکن پيدل۔
ہماری منزل کیونکہ نانگا پربت بیس کیمپ تھا، اس لیے ہم ترشنگ اور روپل ویلی کی طرف چلتے گئے۔ جیسے ہی ایک پہاڑی کے ساتھ موڑ کاٹا تو ہمارے سامنے ایک ایسا منظر تھا جسے دیکھ کر آنکھ نے جھپکنا چھوڑ دیا اور دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔
دنیا کی نویں بلند ترين چوٹی نانگا پربت شاید میں اس کے پورے وجود کو پہلی نظر میں برداشت نہ کرسکتا، اس لیے بادلوں کی اوٹ میں چھپ کر پوری ہیبت سے میرے سامنے موجود تھی اور ایک کشش تھی جو مجھے اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔ راستہ مشکل اور لمبا ہوتا جارہا تھا لیکن عشق کا یہ سفر جاری تھا۔ ترشنگ گاؤں سے گزرتے ہوئے اردگرد کھیتوں میں لگے خوبصورت پھول اور دور نانگا پربت کا منظر بہت خوبصورت تھا۔
میں دل میں سوچ رہا تھا ترشنگ گاؤں کے لوگ کتنے خوش نصیب ہیں جن کی نظروں کے سامنے ہر وقت نانگا پربت موجود رہتا ہے اور انہوں نے اس عظیم پہاڑ کا ہر روپ دیکھ رکھا ہوگا۔ تر شنگ گاؤں سے نکلتے ہی روپل ویلی کے راستے پر پرتگال سے تعلق رکھنے والے میاں بیوی پیدل نانگا پربت کی طرف جاتے ملے، جن کے ساتھ رک کر کچھ دیر گپ شپ کی اور تصویر بنائی۔
روپل ويلی جانے والا راستہ کچھ دیر بعد پتھریلا ہوچکا تھا اور راستہ کے اردگرد بہت سے کھیت تھے۔ اس راستے پر نانگا پربت بالکل غائب ہوجاتا ہے۔ راستے میں کچھ جگہ پر کافی سخت چڑھائیاں تھیں تو کچھ جگہ راستہ ہموار۔ ترشنگ سے ایک گھنٹے کی بائیک رائیڈ کے بعد ہم بیس کیمپ تک پہنچ چکے تھے، جس سے آگے بائیک پر جانا ناممکن تھا۔
یہاں پر کچھ کیمپ ہوٹل لگے ہوئے تھے جہاں پر بائیک پارک کی، جس کے چارجز سو روپے تھے۔ کیمپ والے سے پچاس روپے کرایہ پر ہائیكنگ چھڑی لی اور نانگا پربت بیس کیمپ کی طرف جانے والی پگڈنڈی کی راہ لی۔ شروع میں چڑھائی بہت زیادہ تھی اس لیے چھوٹے چھوٹے قدم چلتے ہوئے اوپر کی طرف سفر جاری رکھا۔ جیسے ہی اوپر جانے والی پگڈنڈی ختم ہوئی تو سب کے قدم رک گیے کیونکہ ابھی تک کوئی خاص نظارہ دیکھنے کو نہیں مل رہا تھا اور آسمان پر گہرے کالے بادل گرجنے کے ساتھ ساتھ ہلكی سی بوندا باندی بھی ہورہی تھی۔
تھوڑی دیر میں غیر ملکی دو مرد اور خاتون گزرے تو ان کے ساتھ بھی گپ شپ کی اور یادگار کے طور پر تصویر بنائی۔ یہاں سے آگے والے راستے پر چڑھائی نظر نہیں آرہی تھی بلکہ ایک پگڈنڈی میدان سے ہوتی ہوئی پہاڑی کے پیچھے جارہی تھی جہاں سے نانگا پربت کا اصل نظارہ نظر آنا تھا۔ وہ غیر ملکی سیاح جس راستے پر جارہے تھے وہاں راستے میں ایک جگہ رک کر فوٹو بناتے تو ہمیں بھی تجسس ہوا کہ دیکھیں تو سہی وہاں ہے کیا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو دیکھا ایک مارموٹ اپنے بل سے باہر نکل کر سو رہا تھا۔ ہم سب گپ شپ کرتے ہوئے بیس كيمپ کی طرف چلتے رہے۔
جیسے ہی ہم نے پہاڑی کی اوٹ سے نانگا پربت کو دیکھا تو مبہوت ہوگئے۔ کیا خوبصورت نظارہ تھا۔ آسمان کی بلندی کو چھوتا ہوا بادلوں میں چھپا ہوا نانگا پربت ہمارے سامنے تھا۔
روپل فیس سے نانگا پربت تقریباً 4500 میٹر اٹھتا ہے اور بادلوں کو چیرتا ہو آسمان میں گم ہوجاتا ہے۔ یہ دیوار تمام آٹھ ہزاری چوٹیوں میں سے بلند ہے، کے ٹو اور ایورسٹ سے بھی بلند۔ رب ذوالجلال اس کا حسن قائم رکھے یہاں سے اوپر چڑھنے کی کی جرأت گنے چنے لوگ ہی کرتے ہیں۔
نانگا پربت دنیا کا نواں سب سے بڑا پہاڑ اور پاکستان کی دوسری بلند ترین چوٹی بھی ہے۔ یہ پہاڑ ہمالیہ سلسلے میں واقع ہے۔ اس کی اونچائی 8126 میٹر ہے۔ یہ پاکستان کے علاقہ گلگت بلتستان میں واقع ہے۔ یہ کوئی واحد پہاڑ نہیں بلکہ بلند ہوتے گئے پے در پے پہاڑوں اور عمودی چٹانوں پر مشتمل ایک ایسا دیوہیکل مٹی اور برف کا تودہ ہے جو برفانی چوٹیوں پر اختتام پذیر ہوتا ہے اور یہ بلند اور پروقار چوٹی شان و شوکت کے ساتھ کھڑی ہے۔
یہ دنیا کے کسی اور پہاڑ سے زیادہ انسانوں کےلیے سخت، سنگدل اور بے رحم ہے۔ یہ پہاڑ اب تک بتیس سے زائد کوہ پیماؤں کی جان لے چکا ہے۔ نانگا پربت دنیا کے بلند پہاڑوں میں سب سے آخر میں سَر ہوا۔
نانگا پربت کے مشرقی جانب استور کی طرف سے اسے دیکھا جائے تو نانگا پربت سر اٹھائے بادلوں سے نکلا ہوا ناقابل یقین حد تک انتہائی خوبصورت نظر آتا ہے۔ یہ اپنی بلندیوں اور وسعتوں میں کھڑا نہایت معصوم دکھائی دیتا ہے، جس میں پاکیزگی، سکون، شکوہ اور نزاکت اور لطافت کے ساتھ اس دنیا کا حصہ نہیں بلکہ آسمانی دنیا کی مخلوق نظر آتا ہے۔ یہ ایک ایسا نظارہ ہوتا ہے جو دیکھنے والوں کے وجود کے اندر حلول کرجاتا ہے۔
طلوع و غروب آفتاب کے وقت یہ گلابی روشنی کے سمندر سے ابھرا ہوا موتیوں کا ایک جزیرہ لگتا ہے لیکن یہ صرف ان لوگوں کےلیے ہے جو اسے بڑی محبت اور عقیدت سے دور دراز کا سفر طے کرکے دیکھنے یا اسے سر کرنے آتے ہیں۔ لیکن اس کے دامن میں سنگلاخ چٹانوں پر جو لوگ رہتے ہیں ان کے لیے یہ ایک ننگا پہاڑ ہے۔
نانگا پربت کو سر کرنے کی کوشش کرنے والی پہلی کوہ پیما مہم 1895 میں برطانیہ کی تھی۔ مگر وہ اس کی چوٹی کو سرکرنے میں ناکام رہی اور اس کی دو اراکین لاپتہ اور ایک ہلاک ہوگیا۔ اس کے بعد بہت سے لوگوں نے اسے سَر کرنے کی کوشش جاری رکھی اور اس کوشش میں بہت سے کوہ پیما ناکامی کے ساتھ ساتھ پچاس کے لگ بھگ کوہ پیما اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس لحاظ سے یہ کوہ پیماؤں کا دشمن، قاتل پہاڑ اور جبل الموت مشہور ہوگیا۔ اس کے باوجود کوہ پیماؤں کا جذبہ سرد نہ ہوا اور اسے سر کرنے کوششیں جاری رہیں۔ آخرکار اس پہاڑ کی حفاظت کرنے والی روحیں نرم پڑگئیں اور 1953 میں اس چوٹی کو آسٹریا کے ایک جرمن کوہ پیما ہرمن بوہلر نے سر کرلیا۔ اس طرح دنیا کہ یہ نویں بلند ترین چوٹی سب سے آخر میں سر ہوئی اور انسانی عزم کے سامنے سرنگوں ہوگئی۔
یہ پہاڑ جرمن اور جاپانیوں کا پسندیدہ پہاڑ ہے اور اس سر کرنے کی کوشش میں مرنے والے لوگوں میں اکثریت جرمنوں اور جاپانیوں کی ہے۔ ہم بیس كيمپ پر موجود میدان میں لیٹ کراس عظیم پہاڑ کے حسن میں کھو گئے جیسے یہ کوئی اور ہی دنیا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نانگا پربت جارہا تھا کوہ پیما راستے پر کے ساتھ کی طرف ہے اور کے بعد اور اس
پڑھیں:
چُھٹکی
سردیوں کی پہلی بارش نے ٹھنڈ کی شدت کو مزید بڑھا دیا تھا، وہ اور اس کا چھوٹا سا پوڈل ہیٹر کے سامنے بیٹھے تھے، اس کے باوجود سردی ہڈیوں میں یوں سرایت کر رہی تھی جیسے نوکیلے کانٹے چبھ رہے ہوں۔
اچانک اسے اُس کی یاد آئی، وہ جو گلی کے نکڑ پر خالی پلاٹ میں کئی برسوں سے ڈیرہ ڈالے بیٹھی تھی۔
میڈیکل کالج آتے جاتے یا اپنے پوڈل کو واک کراتے ہوئے اکثر اُس پر نظر پڑ جاتی، آنکھوں میں ایک ایسی اداسی، ایسا دکھ کہ دل چیر دے، وہ ہر بار سر جھٹک دیتا۔
’ایسی اداس آنکھیں تو جا بجا ہیں، سب کے بارے میں سوچا جائے تو جئیں گے کیسے۔‘
دن گزرتے گئے، وہ وہیں خالی پلاٹ میں براجمان رہی، دن بھر کہیں سے کچھ کھانے پینے کو ڈھونڈتی، مگر شام ڈھلے پھر اپنے اسی مسکن پر لوٹ آتی۔
کچھ دنوں سے اسے محسوس ہو رہا تھا کہ اس کے پیٹ کا حجم بڑھنے لگا ہے، رفتہ رفتہ وہ پھولنے لگا۔ ایک صبح اماں نے اسے آواز دی:
’ہائے بیٹا، رات بہت برا خواب دیکھا، میرا دل ہول رہا ہے، بندو قصائی سے پھیپھڑے کلیجی لے آؤ، صدقہ دوں تو ذرا من ہلکا ہو۔ اللہ ہر بری بلا سے بچائے۔‘
اس نے دل میں سوچا، اس صدقے کی اصل حقدار تو وہ پیٹ والی ہی ہے۔
قصائی سے گوشت لیا اور سیدھا اسی خالی پلاٹ کی طرف چل پڑا۔
وہ آنکھیں موندے نیم بے ہوش سی پڑی تھی اور شاید دھیرے دھیرے سسک بھی رہی تھی، پیٹ ایسا جیسے ابھی پھٹ جائے۔
اس نے سرخ گوشت کی تھیلی آہستہ سے اس کے سامنے رکھی، ایک نظر اس پر ڈالی اور الٹے قدموں واپس آگیا۔
رات بھر موسلا دھار بارش ہوتی رہی، موسم کی شدت بڑھتی گئی۔ اس نے بستر میں دبکے پوڈل کو دیکھ کر سوچا، ’اس بیچاری کا کیا بنے گا اتنی ٹھنڈ میں؟‘
صبح وہ پوڈل کے ساتھ چہل قدمی کو نکلا تو قدم خود بخود اسی پلاٹ کی جانب اٹھ گئے۔
پلاٹ کے ایک کونے میں وہ بے جان پڑی تھی، اور اس کے آس پاس پانچ چھ ننھے وجود کلبلا رہے تھے۔
اس نے نیم وا آنکھوں سے اسے دیکھا جیسے کہہ رہی ہو، ’اب میرا کچھ نہیں، ان کا خیال رکھنا۔‘
اس کا کلیجہ کٹ گیا۔
ننھا پوڈل ان بچوں پر زور زور سے بھونکنے لگا جیسے اپنی اہمیت جتا رہا ہو، لیکن وہ ذرا نہیں غرائی، اپنے محسن کے پیارے پر وہ کیونکر غصہ کر سکتی تھی۔
وہ دوڑ کر گھر آیا، جو کچھ کھانا بچا تھا ایک تھیلی میں ڈالا اور بھاگ کر دوبارہ اسی پلاٹ میں پہنچا۔
ماں جلدی جلدی کھانے پر منہ مارنے لگی، بچے اس کے پستانوں سے چمٹے ہوئے تھے۔
اب یہ اس کا روز کا معمول بن گیا، اپنے کتے کو واک پر لے کر جاتا تو ہاتھ میں گھر کا بچا ہوا کھانا، ہڈیاں، سوکھی روٹیاں بھی ساتھ ہوتیں، ان ننھنی جانوں کے لیے۔
کبھی گھر میں کچھ نہ ہوتا تو قصائی سے چھیچھڑے لے آتا، ابالتا اور ان کے آگے رکھ دیتا۔
بچے خوشی سے چاؤں چاؤں کرتے دوڑتے آتے، لپک لپک کر کھانے لگتے۔
وقت گزرتا گیا، بچے بڑے ہوئے، بکھر گئے، لیکن ایک بچی ماں کے ساتھ چپکی رہی، لاغر سی۔ اس نے اس کا نام رکھا ’چھٹکی‘۔
چھٹکی بھوری کتھی رنگ کی تھی، جیسے ہی وہ آتا، وہ دم ہلاتی دوڑ کر اس کے پاس پہنچ جاتی۔ پوڈل کے ساتھ مستی کرتی لیکن پوڈل اس پر خوب گرجتا برستا پر چھٹکی کی دم اس کے بھونکنے پر بھی مسلسل ہلتی رہتی۔
وہ اسے سہلاتا تو چھٹکی زمین پر لیٹ جاتی، پیروں سے لپٹ جاتی،
ایک دن وہ محلے کے ڈاکٹر کے پاس گیا۔
’ڈاکٹر صاحب، اس کو شاید الرجی ہو گئی ہے، بہت کھجا رہی ہے، کوئی دوا دے دیں۔‘
ڈاکٹر نے ابرو چڑھائے، ’دوا کا نام لکھ دیتا ہوں، مگر پلانا تمہارا کام۔ میں جانوروں کا ڈاکٹر نہیں ہوں، اور ان آوارہ کتوں سے مجھے دور ہی رکھو۔‘
وہ پرچی لے آیا، دوا سرنج میں بھری، کھانے کے ساتھ چھٹکی کو پلائی۔ چھٹکی بنا چوں چراں منہ کھول کر دوا پی لیتی۔
رفتہ رفتہ ٹھیک ہونے لگی۔ ماں کی صحت ڈھل رہی تھی، مگر چھٹکی دن بدن قد نکال رہی تھی، تندرست اور چست ہو رہی تھی۔
ایک دن وہ بو سونگھتے سونگھتے سیدھی اس کے دروازے تک پہنچ گئی۔ ’ارے چھٹکی! تُو یہاں کیسے آگئی؟‘ چھٹکی دم ہلاتی، پیروں سے لپٹ گئی۔
’کھانا کھائے گی میری چھٹکی؟‘
’کوں کوں‘!
وہ ہنس دیا۔
’اچھا، ٹھہر، ابھی لایا‘!
اس نے جلدی سے مٹی کی پرانی پلیٹ میں کھانا نکالا اور باہر آیا تو دیکھا چھٹکی ادھ کھلے دروازے سے اندر بڑی حسرت بھری نظروں سے جھانک رہی تھی۔
سامنے لاؤنج کے صوفے پر پوڈل آرام سے بیٹھا مزے سے کچھ کھا رہا تھا۔ وہ تلخ مسکراہٹ کے ساتھ سوچنے لگا۔’ فرق صرف انسانوں میں نہیں، جانوروں کے ساتھ برتا جاتا ہے، اونچ نیچ، امیری غریبی، اعلیٰ و کم تر نسل‘!
اس نے چھٹکی کے سامنے کھانے سے بھری پلیٹ رکھ دی، چھٹکی نے پیٹ بھر کے کھایا، پھر گھر کے باہر کٹورے سے سڑپ سڑپ پانی پیا، ایک شکر گزار نظر اس پر ڈالی اور دم ہلاتی واپس چلی گئی۔
اب یہ اس کا معمول بن گیا تھا۔ ہر دوسرے تیسرے دن وہ آتی، کھانا کھاتی، پیار سے سہلوا کے چلی جاتی۔
ایک روز وہ باہر نکلا تو دیکھا، چھٹکی دروازے کے پاس سمٹی بیٹھی ہے۔ ’ارے میری چھٹکی آئی ہے‘!
اس کے پکارنے پر چھٹکی نے آنکھ اٹھا کر دیکھا، مگر اٹھلانے کے بجائے فوراً سمٹ کر ایک طرف ہوگئی۔
وہ اکڑوں بیٹھ کر اسے سہلانے لگا تو زمین پر کچھ لال سا دکھائی دیا۔۔۔ خون۔
اس نے چونک کر غور سے دیکھا، چھٹکی کے اگلے پیر کی ایک انگلی کٹی ہوئی تھی، اور اس زخم سے مسلسل خون رس رہا تھا۔
’افف۔۔۔ یہ کیا ہوا چھٹکی؟‘ وہ بےاختیار بول اٹھا۔
چھٹکی درد سے کپکپا رہی تھی، مگر اس کی آنکھوں میں عجب سا بھروسہ تھا۔
وہ تیزی سے اندر گیا، مرہم، پٹی اور دوا لے آیا، اور نہایت نرمی سے اس کے زخم پر پٹی باندھنے لگا۔
’وحشی ظالم لوگ۔۔۔‘ وہ دل ہی دل میں انسانوں کو گالیاں دینے لگا۔
چھٹکی خاموشی سے اسے دیکھتی رہی، جیسے اپنے مسیحا کو پہچانتی ہو جانتی ہو۔
ایک دن اماں نے اسے دیکھ کر کہا:
’بیٹا، انسانوں کو تو کوئی پوچھتا نہیں، تم نے کتوں سے دوستی پال لی ہے؟‘
وہ مسکرا دیا۔
’اماں، انسان کے پاس زبان ہے، دماغ ہے، ہاتھ ہیں۔
یہ بے زبان تو ہم پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔
اگر ہم بھی ان کا آسرا نہ بنیں تو کون بنے گا؟‘
پھر کئی دن گزر گئے، چھٹکی نہ آئی۔
وہ خالی پلاٹ گیا، پارک گیا، مگر کہیں نظر نہ آئی۔
دن ہفتوں میں، ہفتے مہینوں میں بدل گئے۔
ایک رات وہ دوست کے ساتھ گلی میں کھڑا بات کر رہا تھا کہ سامنے سے چھٹکی آتی دکھائی دی۔
دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی اس کے قریب آئی، سر جھکائے خاموش کھڑی ہوگئی۔
’چھٹکی! کہاں تھی تو اتنے دن؟‘
وہ کوں کوں کرتی، اس کے پیروں سے لپٹ گئی۔
اس نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
اور تبھی اس کی نظر پڑی، چھٹکی کے لٹکے ہوئے پستانوں پر۔
’ارے۔۔۔ میری چھوٹی سی چھٹکی۔۔۔ اماں بن گئی تُو؟‘
وہ سر جھکائے کھاتی رہی۔
وہ بار بار اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتا جاتا، اور آنکھوں سے آنسو ٹپکتے جاتے۔
اس نے سوچا بچے جننے کا دکھ صرف انسانوں کا نہیں، جانور بھی اسی اذیت سے گزرتے ہیں۔
چھٹکی نے گھر کے قریب پارک میں تین بچے دیے تھے۔ اب وہ روز آتا، کھانا ڈالتا، پانی رکھتا۔ چھٹکی کی آنکھوں میں وہی شکر گزاری ہوتی، جو کبھی اس کی ماں کی آنکھوں میں تھی۔
شہر میں کتوں کی آبادی روکنے کے لیے مہم زوروں پر تھی، انہیں زہر دے کر مارا جا رہا تھا۔
وہ سوچ میں گم رہتا، ’اگر انسانوں میں تھوڑا سا بھی رحم باقی ہوتا تو یہ بے زبان یوں نہ مرتے۔‘
ہر بار خالی پلاٹ کے پاس سے گزرتے ہوئے اسے چھٹکی کی ماں کی آنکھیں یاد آجاتیں۔ اداس، مگر شکر گزار!
جو لفظوں سے نہیں، نگاہوں سے بات کرتی تھیں۔
یہ انسان قدرت کی سب سے ظالم مخلوق ہے کیسے کسی جاندار کو اتنی بے دردی سے زہر دے کر سسکنے کے لیے چھوڑ دیتی ہے؟
اب اسے ہر وقت چھٹکی اور اس کے بچوں کی فکر ستانے لگی تھی، روز جب وہ چھٹکی کو زندہ سلامت اور اس کے بچوں کو رینگتا ہوا دیکھتا تو اس کے اندر جیسے زندگی لوٹ آتی۔
میڈیکل کالج کا آخری سال اختتام کے قریب تھا، آج صبح وہ معمول کے مطابق تیار ہو کر کالج جانے نکلا ہی تھا کہ پارک کے سامنے بڑے سے کوڑے دان کے گرد اسکول کے بچوں کا ہجوم دیکھ کر ٹھٹھک گیا، دل زور زور سے دھڑکنے لگا، ایک انجانی گھبراہٹ نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ وہ تیز تیز قدموں سے کوڑے دان کی طرف بڑھا،
بچے اسے آتا دیکھ کر ایک طرف ہو گئے۔
کوڑے دان کے اندر سینکڑوں مرے ہوئے کتے ایک دوسرے کے اوپر ڈھیر تھے، انہی کے بیچ چھٹکی اور اس کے ننھے بچے بھی پڑے تھے۔
چھٹکی کے منہ سے اب بھی سفید جھاگ نکل رہا تھا، اور اس کے پستان دودھ سے بھرے ہوئے تھے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔
wenews انسان آوارہ کتے چھٹکی ظلم وی نیوز