Express News:
2025-07-26@00:23:24 GMT

نانگا پربت ایک قاتل پہاڑ

اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT

ہم چار دوست اپنی موٹر سائیکلوں پر شمالی علاقہ جات کی سیر کو نکلے ہوئے تھے۔ صبح سویرے گوری کوٹ میں آنکھ کھلی تو ہوٹل کی بالکونی سے گوری کوٹ کا خوبصورت نظارہ ہمارے سامنے تھا۔ ناشتہ کرنے کے بعد گوری کورٹ سے نکلے تو آگے جا کر ایک راستہ چلم چوکی دیوسائی کی طرف جارہا تھا جبکہ دائیں ہاتھ والا راستہ ترشنگ روپل ویلی کی طرف جارہا تھا۔ دائیں ہاتھ مڑنے کے بعد ہم روپل نالہ کے ساتھ ساتھ سفر کر رہے تھے۔

کچھ کلومیٹر سفر کرنے کے بعد اسفالٹ کی سڑک کی جگہ پتھر یلی سڑک نے لے لی تھی اور خشک پہاڑ ہمارے ساتھ تھے۔ ایک جگہ بورڈ نظر آیا جہاں سے بائیں ہاتھ ایک راستہ شونٹر پاس، رتو، کالا پانی درلے جھیل کی طرف جارہا تھا، یعنی اس راستہ سے تاؤ بٹ بالا کی طرف جایا جاسکتا ہے لیکن پيدل۔
ہماری منزل کیونکہ نانگا پربت بیس کیمپ تھا، اس لیے ہم ترشنگ اور روپل ویلی کی طرف چلتے گئے۔ جیسے ہی ایک پہاڑی کے ساتھ موڑ کاٹا تو ہمارے سامنے ایک ایسا منظر تھا جسے دیکھ کر آنکھ نے جھپکنا چھوڑ دیا اور دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔

دنیا کی نویں بلند ترين چوٹی نانگا پربت شاید میں اس کے پورے وجود کو پہلی نظر میں برداشت نہ کرسکتا، اس لیے بادلوں کی اوٹ میں چھپ کر پوری ہیبت سے میرے سامنے موجود تھی اور ایک کشش تھی جو مجھے اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔ راستہ مشکل اور لمبا ہوتا جارہا تھا لیکن عشق کا یہ سفر جاری تھا۔ ترشنگ گاؤں سے گزرتے ہوئے اردگرد کھیتوں میں لگے خوبصورت پھول اور دور نانگا پربت کا منظر بہت خوبصورت تھا۔

میں دل میں سوچ رہا تھا ترشنگ گاؤں کے لوگ کتنے خوش نصیب ہیں جن کی نظروں کے سامنے ہر وقت نانگا پربت موجود رہتا ہے اور انہوں نے اس عظیم پہاڑ کا ہر روپ دیکھ رکھا ہوگا۔ تر شنگ گاؤں سے نکلتے ہی روپل ویلی کے راستے پر پرتگال سے تعلق رکھنے والے میاں بیوی پیدل نانگا پربت کی طرف جاتے ملے، جن کے ساتھ رک کر کچھ دیر گپ شپ کی اور تصویر بنائی۔

روپل ويلی جانے والا راستہ کچھ دیر بعد پتھریلا ہوچکا تھا اور راستہ کے اردگرد بہت سے کھیت تھے۔ اس راستے پر نانگا پربت بالکل غائب ہوجاتا ہے۔ راستے میں کچھ جگہ پر کافی سخت چڑھائیاں تھیں تو کچھ جگہ راستہ ہموار۔ ترشنگ سے ایک گھنٹے کی بائیک رائیڈ کے بعد ہم بیس کیمپ تک پہنچ چکے تھے، جس سے آگے بائیک پر جانا ناممکن تھا۔

یہاں پر کچھ کیمپ ہوٹل لگے ہوئے تھے جہاں پر بائیک پارک کی، جس کے چارجز سو روپے تھے۔ کیمپ والے سے پچاس روپے کرایہ پر ہائیكنگ چھڑی لی اور نانگا پربت بیس کیمپ کی طرف جانے والی پگڈنڈی کی راہ لی۔ شروع میں چڑھائی بہت زیادہ تھی اس لیے چھوٹے چھوٹے قدم چلتے ہوئے اوپر کی طرف سفر جاری رکھا۔ جیسے ہی اوپر جانے والی پگڈنڈی ختم ہوئی تو سب کے قدم رک گیے کیونکہ ابھی تک کوئی خاص نظارہ دیکھنے کو نہیں مل رہا تھا اور آسمان پر گہرے کالے بادل گرجنے کے ساتھ ساتھ ہلكی سی بوندا باندی بھی ہورہی تھی۔

تھوڑی دیر میں غیر ملکی دو مرد اور خاتون گزرے تو ان کے ساتھ بھی گپ شپ کی اور یادگار کے طور پر تصویر بنائی۔ یہاں سے آگے والے راستے پر چڑھائی نظر نہیں آرہی تھی بلکہ ایک پگڈنڈی میدان سے ہوتی ہوئی پہاڑی کے پیچھے جارہی تھی جہاں سے نانگا پربت کا اصل نظارہ نظر آنا تھا۔ وہ غیر ملکی سیاح جس راستے پر جارہے تھے وہاں راستے میں ایک جگہ رک کر فوٹو بناتے تو ہمیں بھی تجسس ہوا کہ دیکھیں تو سہی وہاں ہے کیا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو دیکھا ایک مارموٹ اپنے بل سے باہر نکل کر سو رہا تھا۔ ہم سب گپ شپ کرتے ہوئے بیس كيمپ کی طرف چلتے رہے۔

جیسے ہی ہم نے پہاڑی کی اوٹ سے نانگا پربت کو دیکھا تو مبہوت ہوگئے۔ کیا خوبصورت نظارہ تھا۔ آسمان کی بلندی کو چھوتا ہوا بادلوں میں چھپا ہوا نانگا پربت ہمارے سامنے تھا۔

روپل فیس سے نانگا پربت تقریباً 4500 میٹر اٹھتا ہے اور بادلوں کو چیرتا ہو آسمان میں گم ہوجاتا ہے۔ یہ دیوار تمام آٹھ ہزاری چوٹیوں میں سے بلند ہے، کے ٹو اور ایورسٹ سے بھی بلند۔ رب ذوالجلال اس کا حسن قائم رکھے یہاں سے اوپر چڑھنے کی کی جرأت گنے چنے لوگ ہی کرتے ہیں۔

نانگا پربت دنیا کا نواں سب سے بڑا پہاڑ اور پاکستان کی دوسری بلند ترین چوٹی بھی ہے۔ یہ پہاڑ ہمالیہ سلسلے میں واقع ہے۔ اس کی اونچائی 8126 میٹر ہے۔ یہ پاکستان کے علاقہ گلگت بلتستان میں واقع ہے۔ یہ کوئی واحد پہاڑ نہیں بلکہ بلند ہوتے گئے پے در پے پہاڑوں اور عمودی چٹانوں پر مشتمل ایک ایسا دیوہیکل مٹی اور برف کا تودہ ہے جو برفانی چوٹیوں پر اختتام پذیر ہوتا ہے اور یہ بلند اور پروقار چوٹی شان و شوکت کے ساتھ کھڑی ہے۔

یہ دنیا کے کسی اور پہاڑ سے زیادہ انسانوں کےلیے سخت، سنگدل اور بے رحم ہے۔ یہ پہاڑ اب تک بتیس سے زائد کوہ پیماؤں کی جان لے چکا ہے۔ نانگا پربت دنیا کے بلند پہاڑوں میں سب سے آخر میں سَر ہوا۔

نانگا پربت کے مشرقی جانب استور کی طرف سے اسے دیکھا جائے تو نانگا پربت سر اٹھائے بادلوں سے نکلا ہوا ناقابل یقین حد تک انتہائی خوبصورت نظر آتا ہے۔ یہ اپنی بلندیوں اور وسعتوں میں کھڑا نہایت معصوم دکھائی دیتا ہے، جس میں پاکیزگی، سکون، شکوہ اور نزاکت اور لطافت کے ساتھ اس دنیا کا حصہ نہیں بلکہ آسمانی دنیا کی مخلوق نظر آتا ہے۔ یہ ایک ایسا نظارہ ہوتا ہے جو دیکھنے والوں کے وجود کے اندر حلول کرجاتا ہے۔

طلوع و غروب آفتاب کے وقت یہ گلابی روشنی کے سمندر سے ابھرا ہوا موتیوں کا ایک جزیرہ لگتا ہے لیکن یہ صرف ان لوگوں کےلیے ہے جو اسے بڑی محبت اور عقیدت سے دور دراز کا سفر طے کرکے دیکھنے یا اسے سر کرنے آتے ہیں۔ لیکن اس کے دامن میں سنگلاخ چٹانوں پر جو لوگ رہتے ہیں ان کے لیے یہ ایک ننگا پہاڑ ہے۔

نانگا پربت کو سر کرنے کی کوشش کرنے والی پہلی کوہ پیما مہم 1895 میں برطانیہ کی تھی۔ مگر وہ اس کی چوٹی کو سرکرنے میں ناکام رہی اور اس کی دو اراکین لاپتہ اور ایک ہلاک ہوگیا۔ اس کے بعد بہت سے لوگوں نے اسے سَر کرنے کی کوشش جاری رکھی اور اس کوشش میں بہت سے کوہ پیما ناکامی کے ساتھ ساتھ پچاس کے لگ بھگ کوہ پیما اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس لحاظ سے یہ کوہ پیماؤں کا دشمن، قاتل پہاڑ اور جبل الموت مشہور ہوگیا۔ اس کے باوجود کوہ پیماؤں کا جذبہ سرد نہ ہوا اور اسے سر کرنے کوششیں جاری رہیں۔ آخرکار اس پہاڑ کی حفاظت کرنے والی روحیں نرم پڑگئیں اور 1953 میں اس چوٹی کو آسٹریا کے ایک جرمن کوہ پیما ہرمن بوہلر نے سر کرلیا۔ اس طرح دنیا کہ یہ نویں بلند ترین چوٹی سب سے آخر میں سر ہوئی اور انسانی عزم کے سامنے سرنگوں ہوگئی۔

یہ پہاڑ جرمن اور جاپانیوں کا پسندیدہ پہاڑ ہے اور اس سر کرنے کی کوشش میں مرنے والے لوگوں میں اکثریت جرمنوں اور جاپانیوں کی ہے۔ ہم بیس كيمپ پر موجود میدان میں لیٹ کراس عظیم پہاڑ کے حسن میں کھو گئے جیسے یہ کوئی اور ہی دنیا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نانگا پربت جارہا تھا کوہ پیما راستے پر کے ساتھ کی طرف ہے اور کے بعد اور اس

پڑھیں:

بلوچستان کے زخموں پر مرہم رکھیں

بلوچستان کے مسئلے کو عشروں سے جس انداز میں نظر انداز اور غلط طریقے سے نپٹنے کی کوشش کی گئی ہے، اس نے حالات کو مزید پیچیدہ اور نازک بنا دیا ہے۔

ضروری ہے کہ ایک مربوط قومی کوشش کے ذریعے پچھلے برسوں کی غلطیوں کا ازالہ کیا جائے۔ مسائل کا حل حکومت کرسکتی ہے اور دیگر سیاسی قیادت معاونت، مگر مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ وفاقی و صوبائی حکومتیں اور اسمبلیاں بنیادی جمہوری تقاضا یعنی عوام کے منصفانہ اور شفاف ووٹ سے منتخب ہونے کی شرائط پوری نہیں کرتیں۔

یہی وجہ ہے کہ ان حکومتوں کو وہ عوامی حمایت حاصل نہیں جو بلوچستان جیسے حساس اور پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کے لیے درکار ہے۔ اس خلاء کو پْر کرنے کے لیے انھیں اسٹیبلشمنٹ کی مدد درکار ہوتی ہے، جو ماضی میں بارہا ثابت کر چکی ہے کہ وہ اس مسئلے کو صحیح انداز میں نہیں سنبھال سکی۔ معاشرتی، سیاسی اور معاشی مسائل کو حل کرنا دفاعی اداروں کا کام ہے اورنہ طاقت کے استعمال کی ضرورت ہے۔

اس وقت ضرورت یہ ہے کہ بلوچستان کے زخموں پر مرہم رکھاجائے۔ ان زخموں پر مرہم لگانا ہوگاجو اپنوں اور غیروں نے دیے ہیں۔تاریخی طور پر، خان آف قلات کی وساطت سے بلوچستان نے آزادی کے بعد پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ اْس وقت کے تقسیم ہند کے طے شدہ فارمولہ کے تحت کیا گیا جس میں ریاستوں کو بھارت یا پاکستان میں شمولیت کا اختیار دیا گیا تھا۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ بھارت نے اس فارمولہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حیدرآباد اور جوناگڑھ پر جبراً قبضہ کیا اور کشمیر پر قبضے کے بعد آج تک قتل و غارتگری جاری ہے۔ بلوچستان کی تاریخی حیثیت ہر لحاظ سے واضح ہے… چاہے وہ افغانستان کے ساتھ قدیمی تعلقات ہوں، برطانوی راج سے آزادی ہو یا پھر گوادَر جیسے ساحلی علاقے کا سلطنتِ عمان سے ریاستی معاہدے کے تحت پاکستان میں شامل ہونا۔ بلوچستان کا اصل مسئلہ وہاں کے باسیوں کے حقوق کا ہے… بلوچ، پشتون، ہزارہ، اقلیتیں اور دوسرے صوبوں سے آ کر بسنے والے لوگ— سب کسی نہ کسی حد تک متاثر ہیں۔

قیامِ پاکستان کے بعد دیگر صوبوں اور ہندوستان سے آنے والے مہاجرین نے بلوچستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ بلوچستان کے عوام افسوس کے ساتھ اظہار کرتے ہیں کہ 1970 کی دہائی میں وفاقی و صوبائی حکومتوں کے درمیان اختلافات کی بنا پر مہاجرین کی بڑی تعداد کو صوبہ چھوڑنا پڑا، جس سے تعلیمی نظام شدید متاثر ہوا اور صوبہ طویل عرصے تک ماہر افرادی قوت کی تیاری میں پیچھے رہ گیا۔

آج بھی دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے ہنر مند اور مزدوریہاں اہم خدمات سرانجام دے رہے ہیں، ان کی سلامتی اور فلاح نہ صرف انسانی بنیادوں پر ضروری ہے بلکہ بلوچستان کی ترقی کے لیے بھی لازم ہے۔ بلوچستان میں ایسے منصوبے بنانے کی ضرورت ہے کہ مقامی نوجوان بین الاقوامی معیار کی افرادی قوت بن سکیں۔اب ہمیں ماضی سے نکل کر مستقبل پر توجہ دینی ہے۔ مسائل کے حل کی طرف جانا ہوگا تاکہ بلوچستان ایک پْرامن اور خوشحال خطہ بنے۔ اس کے قدرتی وسائل سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ اصل دولت انسان ہے۔ انسانی وسائل کی ترقی ہی بلوچستان اور پاکستان کی پائیدارترقی اور خوشحالی کی ضامن ہے۔ بلوچستان کے نوجوانوں کو ایک روشن مستقبل دینا ہوگا تاکہ کوئی دوبارہ پہاڑوں کی طرف نہ دیکھے۔

بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ میرٹ کی پامالی ہے۔ اسمبلیاں میرٹ پر منتخب ہوتی ہیں اور نہ ہی نوکریوں و تعلیمی اداروں میں میرٹ کا نظام موجود ہے۔ سرداری نظام صوبے کے باصلاحیت نوجوانوں کو آگے بڑھنے سے روک رہا ہے۔ عوام کو اس غلامی سے نجات دلانا ضروری ہے۔ عام آدمی سرداروں کے خلاف الیکشن لڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔

حقیقی حکمرانی اور فیصلوں کا اختیار سرداروں کے پاس ہے۔سو ل انتظامیہ اور دیگر اداروں میں ملازمتیں اور تعلیمی مواقع بھی سرداروں اور بااثر طبقات کو ہی ملتے ہیں۔ یہی نظام کاروبار اور ٹھیکوں میں بھی کام آتا ہے، یہاں تک کہ اسمگلنگ جیسے غیر قانونی کام بھی انھی تعلقات کی بنیاد پر فروغ پاتے ہیں۔

سرداروں اور سرکاری اداروں کا یہ اتحاد بلوچستان کو تباہی کے دہانے پر لے آیا ہے۔یہی میرٹ کی پامالی سرکاری و نجی شعبے کے ناکامیوں کی جڑ ہے۔ جو بھی رقم وفاق یا این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے آتی ہے، وہ ضایع ہوجاتی ہے۔ مثال کے طور پر 100 ڈیمز کا منصوبہ جو مکمل ہونے سے پہلے ہی سیلاب میں بہہ گیا۔

بلوچستان کے نوجوانوں کو تعلیم، روزگار اور کاروبار کے منصفانہ مواقع دینے سے کئی مسائل خود بخود ختم ہو سکتے ہیں۔ بلوچستان کے نوجوان مایوس ہیں اور یہ مایوسی بیرونی پروپیگنڈے کو کامیاب بناتی ہے، جس کا مقصد علیحدگی پسند ذہنیت پیدا کرنا ہے۔ ہمیں پہلے اپنی غلطیوں کو دیکھنا چاہیے۔چند مثالیں واضح کریں گی کہ بلوچستان کے عام آدمی کے ساتھ کیا ظلم ہو رہا ہے۔ گوادر سی پیک کا مرکز ہے، مگر مقامی آبادی حکومتی توجہ سے محروم ہے۔

غریب ماہی گیر غیر قانونی جالوں سے تنگ ہیں جو سمندر کی حیاتیات کو ختم کر رہے ہیں۔ ایرانی سرحد سے ضروری اشیاء کی نقل و حرکت پر عام لوگوں کو روکا جاتا ہے جب کہ اسمگلرز آزادانہ کام کر رہے ہیں۔ چمن بارڈر پر بھی یہی صورتحال ہے۔ترقی کے اعتبار سے بلوچستان پیچھے ہے۔ سی پیک کے ذریعے بلوچستان کی سڑکوں، صنعت، اور ہنر سازی میں سرمایہ کاری اور چین کے منصوبوں کو بلوچستان میں لانے میں ناکام رہے، نہ ہی ہم نے سی پیک اسکالرشپ کے لیے بلوچستان کے نوجوانوں کو تیار کیا۔ یہی وجہ ہے کہ منصوبے رْکے ہوئے ہیں یا تاخیر کا شکار ہیں۔ اگر صنعتی زونز پر توجہ دی جاتی، تو روزگار اور معیشت میں بہتری آتی۔

بلوچستان کے آئینی حقوق کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔ ان حقوق کے لیے جائز جدوجہد کو طاقت سے کچلنا بغاوت کو ہوا دینے کے مترادف ہے۔ اجتماعی سزا اور ''collateral damage'' سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ جبری گمشدگیاں اور ماورائے عدالت قتل بلوچستان کے امن کو تاراج کررہے ہیں۔

بلوچستان کا ایک اور آئینی حق گیس کی فراہمی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 158 کے تحت یہ حق محفوظ ہے۔ سچ یہ ہے کہ بلوچستان کے سوئی سے 1950 میں گیس دریافت ہوئی مگر آج تک بلوچستان کے بیشتر علاقوں کو گیس نہیں ملی۔ جس سے صنعتی ترقی بھی نہیں ہورہی۔ سخت موسم والے علاقوں جیسے ژوب، زیارت، اور قلات کے لوگ گیس کی عدم دستیابی کی وجہ سے قیمتی جنگلات کاٹنے پر مجبور ہیں۔

جماعت اسلامی بلوچستان کو امن اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ ہم بلوچستان کو دیگر صوبوں کے برابر لانے کے لیے 25 جولائی 2025 کو کوئٹہ سے اسلام آباد تک ایک لانگ مارچ کا انعقاد کر رہے ہیں۔ ہم قومی و صوبائی قیادت سے رابطے میں ہیں تاکہ امن کا روڈ میپ طے کیا جا سکے۔ ہم تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرکے کچھ عملی منصوبے بھی شروع کریں گے۔ ان میں سے ایک ''بنو قابل'' پروگرام ہے، جسے ہم بلوچستان میں توسیع دے رہے ہیں تاکہ نوجوانوں کو آئی ٹی کی مہارت دی جا سکے اور انھیں بہتر روزگار کے مواقع فراہم ہوں۔

جماعت اسلامی نہ صرف ایک قومی جماعت ہے بلکہ اْمتِ مسلمہ اور انسانیت کے اعلیٰ اصولوں سے جڑی ہوئی تحریک ہے، جو ہر قسم کی تقسیم سے بالاتر ہے۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ یہی اتحاد اور سب کے لیے عدل، خطے میں پائیدار امن اور خوشحالی کی بنیاد رکھ سکتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:

 ''اور اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان و زمین کی برکتیں کھول دیتے...

متعلقہ مضامین

  • چینی صدر پاکستانی قیادت کے ساتھ قریبی رابطے برقرار رکھتے ہیں، چینی نائب صدر
  • ثناء یوسف قتل کیس: پولیس چالان میں عمر حیات قاتل قرار
  • تنازعات کا حل: اسلامی تعاون کی تنظیم کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کی کوشش
  • چین اسلامی ممالک کے ساتھ مل کر حقیقی کثیرالجہتی پر عمل کرنے کے لئے تیار ہے،چینی مندوب
  • فرانس کا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان
  • فرانس کا تاریخی قدم، فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان
  • بلوچستان کے زخموں پر مرہم رکھیں
  • پاکستان بھارت کے ساتھ بامعنی مذاکرات کے لیے تیار، شہباز شریف
  • ایسی دنیا جہاں تقسیم اور چیلنجز بڑھ رہے ہیں ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اور طاقت کے بجائے سفارتکاری کو ترجیح دینی چاہیے، پاکستان مشترکہ اہداف پر پیش قدمی کےلئے سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے، نائب وزیراعظم سینیٹر محمد اسحاق ڈار
  • فیلڈ مارشل سید عاصم منیر سے ملک کی اہم کاروباری شخصیات سے ملاقات