یو این آر ڈبلیو اے کے خاتمے کی اجازت ‘فائر بندی معاہدے کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہوگا.پاکستان
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
نیویارک(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔29 جنوری ۔2025 )پاکستان نے خبردار کیا ہے کہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے فلسطینی پناہ گزین (یو این آر ڈبلیو اے) کے خاتمے کی اجازت دینا فائر بندی معاہدے کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہوگا اور غزہ کی بحالی اور سیاسی منتقلی کے کسی بھی امکان کو سبوتاژکر دے گا.
(جاری ہے)
پاکستان نے یو این آر ڈبلیو اے کو لاکھوں فلسطینی مہاجرین کے لیے امید کی کرن قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ادارہ فائر بندی کے موثر نفاذ، ضروری انسانی امداد کی فراہمی اور غزہ کی تعمیر نو کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یو این آر ڈبلیو اے کے حوالے سے ہونے والے اجلاس کے دوران اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے اپنے بیان میں کہا کہ یو این آر ڈبلیو اے کو نشانہ بنا کر اسرائیل نہ صرف فلسطینی عوام کو دی جانے والی انسانی امداد کا ڈھانچہ ختم کرنا چاہتا ہے بلکہ ان کی شناخت اور ان کے جائز حقوق کو بھی مٹانے کے درپے ہے تاکہ انصاف اور امن کے لیے ان کی جدوجہد کو کمزور کیا جا سکے.
انہوں نے خبردار کیا کہ یو این آر ڈبلیو اے کے وجود اور بقا کو آج شدید خطرہ لاحق ہے خاص طور پر اس اسرائیلی قانون سازی کے نتیجے میں جو 28 اکتوبر 2024 کو اسرائیلی پارلیمان میں منظور کی گئی تھی اور جس پر اگلے 48 گھنٹوں میں عملدرآمد متوقع ہے. اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے کہا کہ یو این آر ڈبلیو اے کا وسیع نیٹ ورک جس میں سکول، صحت عامہ کی سہولیات اور انسانی امدادی خدمات شامل ہیں اپنی نوعیت میں بے مثال اور ناگزیر ہے یہ ادارہ لاکھوں افراد کو زندگی بچانے والی مدد، ہزاروں بچوں کی تعلیم کی بحالی، اور لاکھوں فلسطینیوں کے لیے طبی سہولیات کی فراہمی میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے. پاکستانی مندوب نے کہاکہ یو این آر ڈبلیو اے پر پابندی عائد کرنے کا اسرائیلی قانون بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ کے منشور اور 19 جولائی 2024 کو دیے گئے عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) کے مشاورتی فیصلے کی صریح خلاف ورزی ہے انہوں نے واضح کیا کہ ایک قابض طاقت کے طور پر اسرائیل کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اقوام متحدہ کے کسی بھی ادارے کو بند کرے خاص طور پر مشرقی مقبوضہ بیت المقدس میں یو این آر ڈبلیو اے کے دفاتر کو منیر اکرم نے اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ اسرائیل کے اقدامات اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی متعدد قراردادوں کی خلاف ورزی ہیں جن میں یو این آر ڈبلیو اے کے مینڈیٹ کی تجدید کی گئی ہے. انہوں نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی نو دسمبر 2024 کی اس یادداشت کا حوالہ بھی دیا جس میں کہا گیا تھا کہ اقوام متحدہ کے رکن ملک کی حیثیت سے اسرائیل پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ یو این آر ڈبلیو اے کے کام میں سہولت فراہم کرے، جیسا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 2 (5) میں درج ہے سفیر منیر اکرم نے اسرائیل کی جانب سے یو این آر ڈبلیو اے پر لگائے گئے الزامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کولونا رپورٹ میں ان الزامات کی تصدیق نہیں ہوئی اگر کوئی شکوک و شبہات ہیں تو ان کی مکمل اقوام متحدہ کی تحقیقات کے ذریعے وضاحت ہونی چاہیے. پاکستانی مندوب نے فائر بندی معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اس کے تمام مراحل مکمل طور پر نافذ کیے جائیں گے اور فائربندی مستقل شکل اختیار کرے گی جس میں اسرائیلی افواج کا مکمل انخلا، غزہ کے بے گھر اور متاثرہ افراد کے لیے فوری اور بلا رکاوٹ انسانی امداد کی فراہمی شامل ہیں منیر اکرم نے کہا کہ ہمیں فائر بندی کے مکمل نفاذ، غزہ سے اسرائیلی افواج کے مکمل انخلا اور متاثرہ و بے گھر فلسطینی عوام کو فوری اور بلا روک ٹوک انسانی امداد کی فراہمی کی امید ہے ہم نے اسرائیل کی جانب سے فائر بندی کے بعد حملے دوبارہ شروع کرنے کی دھمکیوں کو بھی نوٹ کیا ہے. انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی 79/81 قرارداد کا بھی خیرمقدم کیا جس کے تحت جون 2025 میں فرانس اور سعودی عرب کی میزبانی میں ایک اعلیٰ سطح کی بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی جائے گی جس میں امید ہے کہ فلسطین کے مسئلے کے دو ریاستی حل پر اتفاق کیا جائے گا. سفیر اکرم نے دو ریاستی حل کے حصول کے لیے ایک جامع سیاسی عمل کو آگے بڑھانے کی فوری ضرورت پر زور دیا ان کا کہنا تھا ہمیں اس بات پر بھی تشویش ہے کہ مغربی کنارے میں اسرائیل اور آبادکاروں کے فلسطینیوں پر تشدد کو روکنے کے لیے تاحال کوئی اقدام نہیں کیا گیا ہے ہمیں غزہ اور مغربی کنارے میں امن برقرار رکھنا ہے ہمیں فلسطینیوں کو انسانی امداد کی فراہمی اور غزہ کی تعمیر نو کے لیے ایک جامع منصوبہ تیار کرنے میں مدد کرنی چاہیے جیسا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2735 (2024) میں تصور کیا گیا ہے اور اس کے نفاذ کے لیے مناسب بین الاقوامی وسائل کو متحرک کرنا چاہیے. پاکستان کے اقوام متحدہ میں مستقل مندوب کا کہنا تھاکہ ہمیں ان اقدامات کی مخالفت کرنی چاہیے جو فلسطینیوں کے حق خودارادیت اور ریاستی تشخص کو ختم کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں اس کے بجائے ہمیں ایسے اقدامات کرنے چاہییں جو دو ریاستی حل کو ناگزیر بنا دیں بشمول ریاست فلسطین کو عالمی سطح پر تسلیم کرنا اور اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کے لیے اس کی جلد منظوری کو یقینی بنانا. انہوں نے کہا کہ دو ریاستی حل ہی سب سے موثر، قابل عمل اور منصفانہ فریم ورک ہے جو نہ صرف فلسطینی عوام اور اسرائیل کے درمیان بلکہ عرب و مسلم دنیا کے ساتھ بھی امن کا ضامن بن سکتا ہے منیر اکرم نے کہا کہ پاکستان بطور رکن دو ریاستی حل کے نفاذ کے لیے عالمی اتحاد اس مقصد کے حصول کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انسانی امداد کی فراہمی اقوام متحدہ کے کہ اقوام متحدہ اقوام متحدہ کی دو ریاستی حل منیر اکرم نے فائر بندی نے کہا کہ انہوں نے کے لیے
پڑھیں:
اقوام متحدہ: تنازعات کے پرامن حل سے متعلق پاکستانی قرارداد منظور
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 جولائی 2025ء) اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) نے منگل کے روز پاکستان کے زیر اہتمام اس قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کر لیا، جس کا مقصد تنازعات کے پرامن حل کے طریقہ کار کو مضبوط کرنا ہے۔
پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار اس وقت نیویارک کے دورے پر ہیں اور انہیں کے زیر صدارت اجلاس کے دوران "تنازعات کے پرامن حل کے لیے میکانزم کو مضبوط بنانے" والی (قرارداد 2788) پیش کی گئی اور پھر کھلی بحث کے دوران منظور کر لی گئی۔
قرارداد میں کیا ہے؟اس قرارداد میں اقوام متحدہ کے رکن ممالک پر زور دیا گیا ہے وہ تنازعات سے بچنے کے لیے احتیاطی سفارت کاری، ثالثی اور بات چیت کا راستہ استعمال کریں اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے باب ششم کے تحت پرامن تنازعات کے حل کے لیے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر مکمل عمل درآمد کریں۔
(جاری ہے)
قرارداد میں علاقائی اور ذیلی علاقائی تنظیموں اور اقوام متحدہ کے درمیان قریبی تعاون پر بھی زور دیا گیا ہے تاکہ تنازعات کو بات چیت اور اعتماد سازی کے اقدامات کے ذریعے حل کیا جا سکے۔
پاکستانی وزیر خارجہ نے اجلاس میں کیا کہا؟جولائی کے مہینے میں سلامتی کونسل کے صدر کی حیثیت سے پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اس اجلاس کی صدارت کی اور بحث کے دوران قرار داد کی منظوری کو "تصادم پر سفارت کاری کے لیے عالمی عزم کی اجتماعی توثیق" قرار دیا۔
"کثیر جہتی اور تنازعات کے پرامن حل کے ذریعے بین الاقوامی امن و سلامتی کو فروغ دینا" کے عنوان پر اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ کثیرالجہتی "محض سفارتی سہولت نہیں بلکہ وقت کی ضرورت ہے۔
"ان کا مزید کہنا تھا، "تنازعات کا پرامن تصفیہ صرف ایک اصول نہیں ہے، بلکہ یہ عالمی استحکام کی لائف لائن ہے۔"
انہوں نے خبردار کیا کہ حل نہ ہونے والے تنازعات، جغرافیائی سیاسی رقابتیں اور چن چن کر سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد نہ صرف بین الاقوامی امن کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ کثیر جہتی اداروں میں اعتماد کو بھی ختم کر رہا ہے۔
انہوں نے سکیورٹی کونسل کے تمام اراکین کا ان کی "تعمیری مصروفیت" کے لیے شکریہ ادا کیا اور قرار داد کی متفقہ منظوری کو "تنازعات کی روک تھام کے لیے مذاکرات اور سفارت کاری کو آگے بڑھانے کے لیے اجتماعی ارادے کا خوش آئند اظہار" قرار دیا۔
کشمیر کا تنازعہ بھی اقوام متحدہ کی قرارداد کے تحت حل ہوتنازعہ کشمیر پر بات کرتے ہوئے پاکستانی وزیر خارجہ نے ایک بار پاکستان کے موقف کو دہرایا اور کہا کہ یہ "تنازعہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے ایجنڈے میں سب سے پرانی چیزوں میں سے ایک" ہے۔
انہوں نے کہا کہ "کوئی کاسمیٹک اقدام کشمیری عوام کے اس بنیادی اور ناقابل تنسیخ حق خودارادیت کا متبادل نہیں بن سکتا، جس کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی ضمانت دی گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے لیکن وہ نئی دہلی سے بھی "باہمی تعاون اور اخلاص" کی توقع رکھتا ہے۔
ڈار نے نئی دہلی کی جانب سے سندھ آبی معاہدے (انڈس واٹر ٹریٹی) کو معطل کرنے کے فیصلے پر بھی تنقید کی اور اسے "غیر قانونی اور یکطرفہ" قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ 65 سال پرانا معاہدہ "کامیاب سفارت کاری کا نمونہ" ہے اور بھارت پر الزام لگایا کہ وہ 240 ملین پاکستانیوں کے لیے ضروری پانی کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔
وزیر خارجہ نے کئی تنازعات کی جڑ کے طور پر "کثیرالجہتی کے بحران" کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا: "مسئلہ اصولوں کا نہیں بلکہ سیاسی ارادے کا ہے، اداروں کا نہیں بلکہ ہمت کا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ساکھ دوہرے معیار اور انسانی اصولوں پر سیاست کرنے سے مجروح ہوئی ہے۔"اپنے خطاب کے اختتام پر وزیر خارجہ نے بیان بازی کے بجائے ٹھوس کارروائی پر زور دیا۔ "اس بحث کو کثیرالجہتی میں ہمارے ایمان کے اثبات کے طور پر کام کرنے دیں اور ان لوگوں سے ایک پختہ وعدہ کریں جو اس کونسل کی جانب محض الفاظ کے لیے نہیں، بلکہ عمل کے لیے نظریں لگائیں ہیں۔
اقوام متحدہ کی 80 ویں سالگرہ کے موقع پر بات چیت کے پلیٹ فارم، انصاف اور پائیدار امن فراہم کرنے والے ادارے کے طور پر، ہمیں اسے مزید متعلقہ بنانا چاہیے۔" بھارت کی پاکستان پر تنقیداس موقع پر اقوام متحدہ میں بھارتی مندوب نے پاکستان پر بھارتی حملوں کا یہ کہہ کر دفاع کیا کہ اس نے "دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ہی نشانہ بنایا۔
اور کہا کہ بھارت "اقوام متحدہ کی امن فوجوں میں سب سے بڑا حصہ دینے والا ملک ہے اور امن فوج میں خواتین کو فروغ دینے میں پیش پیش ہے۔"بھارتی مندوب ہریش نے پاکستان پر نکتہ چینی کرنے کے لیے بھارتی معیشت کی ترقی کو اجاگر کیا اور کہا بھارت ایک بڑی معیشت کے طور پر ابھر رہا ہے، جبکہ پاکستان آئی ایم ایف سے قرض کی بنیاد پر ٹکا ہے۔
انہوں نے کہا، "بھارت برصغیر میں ترقی اور خوشحالی اور ترقی کے ماڈلز کے طور پر ایک بالکل برعکس تصویر پیش کرتا ہے۔"
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ "قوم کے خیالات اور فریقین کی رضامندی تنازعات کے پرامن حل کے حصول کے لیے مرکزی حیثیت رکھتے ہیں"، بھارتی سفارت کار نے نتیجہ اخذ کیا کہ "بھارت کثیرالجہتی اور تنازعات کے پرامن حل کے ذریعے بین الاقوامی امن اور سلامتی کے لیے کام کرنے کے لیے پرعزم ہے۔"
انہوں نے اقوام متحدہ کے کام کاج کے طور طریقوں پر بھی تنقید کی اور کہا کہ "ہم ایک ایسے وقت میں ہیں، جہاں کثیرالجہتی نظام، خاص طور پر اقوام متحدہ کے بارے میں شکوک و شبہات بڑھ رہے ہیں۔"
ادارت: جاوید اختر