متنازع پیکا ایکٹ پی ٹی آئی دور میں آرڈیننس کے ذریعے آیا تھا، فیصل واوڈا
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
اسلام آباد:سینیٹر فیصل واوڈا کا کہنا ہے کہ متنازع پیکا ایکٹ تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) دور میں آرڈیننس کے ذریعے آیا تھا، جو بہت سخت تھا۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فیصل واوڈا نے کہاکہ آج جتنی میڈیا کی آزادی ہے یہ مشرف کے دور میں ملی، ایسے یوٹیوبر بیٹھے ہوئے ہیں جو ملک کے خلاف باتیں کررہے ہوتے ہیں، ملک مخالف بات کرنے والوں کے خلاف کاروائی ہونی چاہئے۔
انہوں نے مزید کہاکہ اگر یہ حکومت فارم 47 کی ہے تو اس کو لیگل لائز پی ٹی آئی نے کیا ہے، پارلیمنٹ کا کام قانون سازی ہے اس سے کوئی نہیں روک سکتا، پیکا ایکٹ میں ایک لائن شامل کرنی چاہیے کہ فیک نیوز کے معاملے میں سیاستدان ہو یا کوئی بھی سب کو برابر کی سزا دی جائے گی۔ فیصل واوڈا کا کہنا تھا کہ اگرپارلیمنٹ کہتی کہ آئین قانون ہے تو فوج ، عدالتوں اور سب کو ماننا پڑے گا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: فیصل واوڈا
پڑھیں:
حساس اداروں سمیت سربراہ کیخلاف توہین آمیز پوسٹ، پیکا ایکٹ کے تحت شہری پر مقدمہ درج
سوشل میڈیا پر ویڈیو پوسٹ کرنے پر مقدمہ ملزم وقار خان کے خلاف تھانہ شادباغ میں پیکا ایکٹ کے تحت درج کیا گیا۔ مقدمے میں دیگر دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ سوشل میڈیا پر حساس اداروں اور سربراہ کے خلاف توہین آمیز پوسٹ کرنے پر شہری کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔ سوشل میڈیا پر ویڈیو پوسٹ کرنے پر مقدمہ ملزم وقار خان کے خلاف تھانہ شادباغ میں پیکا ایکٹ کے تحت درج کیا گیا۔ مقدمے میں دیگر دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔ اندراج مقدمہ کے بعد پولیس نے مزید قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا۔ دوسری جانب، پیکا ایکٹ ترمیم کے خلاف دائر درخواست پر پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس ارشد علی اور جسٹس جواد احسان اللہ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سماعت کی۔ عدالت نے وفاقی حکومت، پی ٹی اے اور پیمرا کو نوٹس جاری کر دیا۔ درخواست گزار کے وکیل نعمان محب کاکا خیل کا موقف تھا کہ پیکا ایکٹ میں ترمیم کرکے غلط اور جھوٹی خبروں پر سزائیں متعارف کروا دی گئی ہیں، پیکا ایکٹ کے سیکشن 26 اے سمیت متعدد سیکشنز میں ترمیم کی گئی ہے لیکن ترمیم مبہم ہے اور فیک نیوز کی تشریح نہیں کی گئی کہ فیک نیوز کونسی ہوگی۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ترمیم میں خلاف ورزی پر بڑی بڑی سزائیں رکھی گئی ہیں۔ ترمیم میں جج، اراکین اسمبلی اور دیگر اداروں کے خلاف کوئی بھی بات کرنے پر سزا مقرر کی گئی ہے۔ درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ یہ ترمیم آئین کے آرٹیکل 19 اور 19 اے کے خلاف ہے کیونکہ آرٹیکل 19 اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے، یہ ترمیم جمہوریت اور انسانی حقوق اور احتساب پر وار ہے، یہ ترمیم اپوزیشن کی آواز کو دبانے کے لیے کی گئی ہے۔ عدالت نے وفاقی حکومت، پی ٹی اے اور پیمرا کو نوٹس جاری کرتے ہوئے فریقین سے ایک ماہ کے اندر جواب طلب کر لیا۔