Nai Baat:
2025-07-26@06:58:45 GMT

کرائم فائٹر VS ٹک ٹاک فائٹر!

اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT

کرائم فائٹر VS ٹک ٹاک فائٹر!

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی جانب سے پنجاب پولیس کے افسران کی کارکردگی جانچنے کے لیے "کی پرفارمینس انڈیکیٹرز ” (KPI )کا ایک سکور کارڈ بنایا گیا ہے ۔ 100 نمبر کے اس سکور کارڈ میں 37 ایسے انڈیکیٹرز ہیں جن کی بنیاد پر پنجاب کے تمام اضلاع کی پولیس کمانڈ کی کارکردگی جانچی جاتی ہے۔ پولیس افسران اسے سی ایم پرفارمہ بھی کہتے ہیں جس میں کرائم کنٹرول، 15 کالز، انوسٹی گیشن، کھلی کچہری، انسپکشن، ہارڈ کرینمل پالیسی، اشتہاریوں کی گرفتاری، کالز پر رسپانس اور شکایات کے ازالہ سمیت 37 چیزوں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ یہ رپورٹ وزیراعلیٰ آفس سے بنتی ہے جس کی باقاعدہ ویریفکیشن کی جاتی ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ پنجاب میں تمام اضلاع کے افسران کو پوائنٹس دینے کا طریقہ ایک سابق آئی جی پنجاب نے شروع کیا تھا جس پر افسران اور کرائم رپورٹرز نے نجی نشستوں میں یہ کہہ کر مذاق اڑایا کہ اب پولیس افسران کو سکول کے طالب علموں کی طرح نمبر دیے جائیں گے؟ وزیراعلیٰ پنجاب نے یہ "کی پرفارمینس انڈیکیٹرز” اپنے ہاتھ میں لے کر زیادہ اچھا کیا کہ اب جواب دہی کا سلسلہ مزید مضبوط ہو گا۔
دسمبر کے "کی پرفارمنس انڈیکیٹر” کے مطابق پورے پنجاب میں سب سے اچھی کارکردگی ڈی پی او وہاڑی منصور امان کی ہے جو 89.

2 نمبرز کے ساتھ ٹاپ پر ہیں ۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے اس ٹاپ پوزیشن پر رہنے کی ہیٹ ٹرک کی ہے ۔ اس سے پہلے اکتوبر اور نومبر میں بھی یہی منصور امان اور ان کا ضلع وہاڑی پہلے نمبر پر تھا جہاں کرائم میں 31 فیصد کمی ریکارڈ ہوئی ہے ۔ میری منصور امان سے واقفیت نہیں ہے لیکن یہ چارٹ دیکھ کر میں سوچ رہا ہوں منصور امان سے مل کر پوچھوں کہ انہوں نے ایسا کونسا سبق یاد کر لیا ہے جو باقی آفیسرز پڑھنا بھول گئے تھے ۔ کارکردگی میں دوسرا نمبر گوجرانولہ کا ہے ۔ یہاں کے سی پی او رانا ایاز سلیم کو میں جانتا ہوں ۔ وہ ماضی میں بطور ایس پی ایڈمن لاہور جو کام کر گئے اس کا مقابلہ پھر کوئی نہیں کر پایا ۔ انہوں نے لاہور پولیس سسٹم کو ٹیکنالوجی بیسڈ کر دیا ۔ خاص طور پر پولیس شہدا کے اہل خانہ کی جو خدمت کی اس سے لگتا ہے کہ شہدا کے بوڑھے والدین ، بچوں اور بیواں کی مستقل دعائیں ان کی کامیابی کی اصل وجہ ہیں ۔ گزشتہ دور حکومت میں انہیں اچانک کارنر کر دیا گیا ۔ شنید ہے کہ کسی نے
طاقت ور شخصیت کے کان میں پھونک مار دی تھی کہ رانا ایاز سلیم ایک سیاست دان کے کزن ہیں ۔کانوں کے کچے شخص کے لیے اتنا ہی کافی ہوتا ہے ۔ بہرحال دیوار سے لگانے والے خود دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے ہیں اور رانا ایاز سلیم جیسے آفیسر اپنی کارکردگی کے جوہر دکھا رہے ہیں ۔ تیسرے نمبر پر ڈی پی او ساہیوال فیصل شہزاد ہیں جنہیں اب سیالکوٹ میں ڈی پی او لگا دیا گیا ہے ۔انہیں بھی متحرک افسر کے طور پر جانا جاتا ہے ۔ چوتھے نمبر پر ڈی پی او قصور محمد عیسی ہیں ۔ قصور ایک عرصہ تک ایسا ضلع سمجھا جاتا رہا ہے جہاں افسران تعینات ہونے سے بچتے تھے ۔ کئی کامیاب ڈی پی اوز قصور میں ناکام ہوئے ۔ حسین خان والا ویڈیو سکینڈل سے لے کر زینب ریپ کیس تک اور جعلی این کاونٹرز سے منشیات سینڈیکیٹ تک ، قصور ملکی میڈیا کی توجہ کا مرکز رہا ہے ۔ ایسے مشکل ضلع میں کارکردگی کی بنیاد پر پورے صوبے کو پیچھے چھوڑ جانا ڈی پی او محمد عیسی کی بہت بڑی کامیابی ہے ۔اسے بھی ہم جیسے کرائم آبزرور ٹیسٹ کیس کے طور پر دیکھ رہے ہیں ۔ ٹاپ فائیو میں پانچویں نمبر پر سی پی او ملتان صادق علی ڈوگر ہیں ۔ یہ بھی ایسے آفیسر ہیں جو اس سے قبل پنجاب کے مختلف اضلاع میں ڈی پی او تعینات رہے اور انہوں نے مشکل اضلاع میں بھی اچھا رزلٹ دیا ہے۔
میرے لیے دلچسپی کی بات یہ ہے کہ صوبے بھر میں سب سے اہم شہر لاہور ہے لیکن "کی پرفارمینس انڈیکیٹرز” کے مطابق لاہور 36 اضلاع میں سے 24 ویں نمبر پر ہے جبکہ راجن پور پولیس کی پرفارمنس لاہور سے بہتر ہے ۔ میڈیا پر عموما لاہور پولیس کی پرفارمنس کا زیادہ چرچا رہتا ہے ، پریس کانفرنس اور انٹرویوز بھی لاہور پولیس کے ہوتے ہیں لیکن بازی بہرحال وہاڑی اور گوجرانولہ پولیس لے گئی ہے۔ یاد آتا ہے کہ گزشتہ برس ماہ جون جولائی کی پرفارمنس رپورٹ میں لاہور پولیس نے 68.64 نمبروں کے ساتھ پہلی پوزیشن حاصل کی تھی لیکن اس وقت پورے ضلع کو تین کیٹگریز میں تقسیم کیا گیا تھا ۔ بڑے شہروں میں لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد، ملتان اور راولپنڈی کا ایک گروپ تھا ، دوسرے گروپ میں بھکر، میانوالی، سرگودھا اور راجن پور سمیت 14 اضلاع اور تیسری کیٹگری میں خانیوال، چکوال، خوشاب، ننکانہ صاحب اور منڈی بہاالدین سمیت 17 اضلاع کو شامل کیا گیا تھا ۔ اس وقت بھی گروپ اے میں تو لاہور پولیس ٹاپ پر تھی لیکن مجموعی طور پر بھکر پولیس 74.37 نمبروں کے ساتھ سب سے آگے تھی جو اس بار کم از کم لاہور سے ایک درجہ نیچے آ چکی ہے ۔
جب میں نے ایک جگہ لاہور پولیس کی پرفارمنس پر بات کی تو لاہور کے کرائم فائٹر انسپکٹرز خصوصا ناصر حمید ، اشتیاق احمد اور رانا نعیم اللہ وغیرہ مجھ سے باقاعدہ ناراض ہو گئے ۔ان کا کہنا تھا کہ لاہور جیسے بڑے شہر کا تقابل چھوٹے اضلاع سے نہیں کیا جا سکتا ۔ اس حد تک تو یہ بات درست ہے کہ پنجاب کے 737 کے لگ بھگ پولیس اسٹیشنز میں سے 84 پولیس اسٹیشن صرف لاہور میں ہیں ۔آبادی کے لحاظ سے بھی لاہور دیگر اضلاع سے بہت بڑا ہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ لاہور پولیس کے پاس دستیاب سہولیات بھی دیگر اضلاع کی نسبت بہت زیادہ ہیں ۔ کئی ایسے پولیس آفیسر ہیں جنہیں آئی جی پنجاب اور سی سی پی او لاہور میں سے کسی ایک سیٹ کا اختیار دیا جائے تو وہ آئی جی شپ کی بجائے سی سی پی او لاہور لگنے کو ترجیح دیں ۔
بہرحال اس پرفارمنس سکور کارڈ کے مطابق میڈیا سے دور چھوٹے اضلاع کی کارکردگی دلچسپ رہی ہے ۔اس سے بھی اہم بات یہ سامنے آئی کہ سوشل میڈیا پر کامیاب سمجھے جانے والے آفیسرز اور اضلاع بھی وزیراعلیٰ کے پرفارمہ انڈیکیٹر میں پیچھے ہیں ۔ سوشل میڈیا خصوصا ٹک ٹاک پر سب سے زیادہ متحرک اور بہترین آفیسر سمجھے جانے والے ڈی پی او چکوال احمد محی الدین ہیں جن کی ویڈیوز خصوصا کھلی کچہریوں میں انصاف کی فراہمی کی ویڈیوز انتہائی متاثر کن ہے ۔ بدقسمتی سے وزیراعلیٰ کے اس کی پرفارمینس انڈیکیٹرز کے اسکور بورڈ پر ان کے ضلع کی پولیس کارکردگی آخر سے دوسرے نمبر پر ہے یعنی 36 اضلاع میں سے چکوال 35 ویں نمبر پر ہے جبکہ 36 ویں نمبر پر بھی ایسا ضلع ہے جو سوشل میڈیا اور نیشنل میڈیا پر اپنے ویڈیو پیکجز اور خبروں کی وجہ سے سب سے اوپر نظر آتا ہے ۔ سابق وزیراعظم کی اس ضلع پر خاص نظر کرم رہی اور یہاں ٹورسٹ پولیس تک متعارف کروائی گئی ۔اس بار ننکانہ پولیس کی کارکردگی پورے پنجاب میں سب سے کم رہی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کو چاہیے کہ ایسی "کی پرفارمینس انڈیکیٹرز” ہر محکمہ میں متعارف کرائیں اور بیوروکریسی کی کارکردگی کو بھی جانچیں۔ ممکن ہے اس کے بعد انہیں پولیس مظلوم لگنے لگے۔

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: کی کارکردگی کی پرفارمنس لاہور پولیس اضلاع میں پولیس کی انہوں نے ڈی پی او سی پی او سے بھی

پڑھیں:

پنجاب حکومت کو گندم کی قیمتیں مقرر کرنے سے متعلق بنائے گئے قانون پر عملدرآمد کا حکم

لاہور ہائی کورٹ نے گندم کی قیمت مقرر نہ کیے جانے کے خلاف دائر درخواست پر فیصلہ سنادیا۔
عدالت نے پنجاب حکومت کو قیمتوں کےتعین سے متعلق بنائے گئے قانون پر عمل درآمد کا حکم دے دیا۔
عدالتی فیصلے میں محکمہ زراعت کی گندم کے فی من اخراجات کی رپورٹ کو شامل کیا گیا ہے جس کے مطابق فی من گندم کی لاگت 3 ہزار 533 روپے ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ سرکاری اداروں نے سیزن کے دوران آئین کے تحت اپنا کردار ادا نہیں کیا اور نہ ہی اخراجات کو مدنظر رکھ کر فی من قیمت کا تعین کیاگیا۔
عدالت نے نشاندہی کی کہ سرکاری وکیل کے مطابق قیمتوں کے تعین کے لیے قانون بنا دیا گیا ہے تاہم کم زمین والے اور ٹھیکے پر کاشتکاری کرنے والوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
لاہور ہائیکورٹ نے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ سرکاری اداروں نے تسلیم کیا ہے کہ گندم خوراک کا ایک بنیادی جزو ہے۔
یاد رہے کہ یہ درخواست صدر کسان بورڈ کی جانب سے 8 اپریل 2025 کو دائر کی گئی تھی جس میں وفاقی اور پنجاب حکومت سمیت دیگر اداروں کو فریق بنایا گیا تھا۔

Post Views: 9

متعلقہ مضامین

  • پنجاب حکومت کو گندم کی قیمتیں مقرر کرنے سے متعلق بنائے گئے قانون پر عملدرآمد کا حکم
  • پنجاب حکومت گندم کی قمیتیں مقرر کرنے کے قانون پر عملدرآمد کرے، لاہور ہائیکورٹ
  • میٹرک امتحانات، ملتان بورڈ میں رکشہ ڈرائیور کے بیٹے نے آرٹس میں 1161نمبر لیکر پہلی پوزیشن حاصل کرلی
  • مون سون کا چوتھا سلسلہ پنجاب میں آج بھی بارش برسائے گا
  • لاہور: پنجاب حکومت کا اعلیٰ تعلیمی اداروں کے قیام، معیار تعلیم بلند کرنے کا فیصلہ
  • یو ای ٹی لاہور ، عالمی رینکنگ میں شاندار کارکردگی دکھانے پرمختلف شعبہ جات اور فیکلٹی ممبران کو ایوارڈز سے نوازنے کیلئے تقریب
  • وزیراعلیٰ مریم نواز کی میٹرک میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے طلباء کو مبارکباد
  •  لاہور میں نقل فارم کی فیس 50روپے ہے جبکہ ملتان اور بہاولپور میں 500 روپے لاگو کر دی گئی
  • میٹرک: لاہور 1193 نمبرز کے ساتھ حرم فاطمہ، گوجرانوالہ سے 3 امیدواروں کا مشترکہ ٹاپ 
  • لاہور، سینیئر سیاستدان، سابق گورنر پنجاب میاں اظہر کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی