Nai Baat:
2025-11-03@18:24:55 GMT

کوئی روکنے والا نہیں

اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT

کوئی روکنے والا نہیں

کوئی روکنے والا نہیں ،کوئی ٹوکنے والا نہیں ۔۔فریادی فریاد کر رہے ہیں مگر کوئی سننے والا نہیں ۔۔۔ایک عجب سا قحط الرجال کا عالم ہے۔۔ اہل اقتدار اپنی من مانیوں، آسانیوں اور عیاشیوں میں مصروف ہیں۔۔ وہ ایک بل کے ذریعے اپنی اور جن سے ان کے مفادات وابستہ ہیں، ان سب کی محکمہ جاتی و دیگر مالی مراعات اور سہولیات کو بڑھاتے چلے جارہے ہیںجس کے نتیجہ میں مزید معاشرتی تفاوت بہت تیری سے بڑھ رہی ہے ۔پچیس ، تیس ہزار کمانے والا، نشیب میں کھڑا مزدور سر اٹھانے پر بھی دس دس ، بیس بیس لاکھ کی تنخواہ اور اس سے بھی زیادہ ماہانہ مراعات لینے والے کوہ ہمالیہ پر کھڑے مراعات یافتہ طبقے کو نہیں دیکھ سکتا ۔۔۔وہ سر اٹھائے تو لگتا ہے کہ اوپر سلگتا ہوا آسمان نظر آتا ہے اورسر جھکائے تو نیچے تپتی ہوئی زمین دکھائی دیتی ہے۔ وہ جائے تو جائے کہاں۔۔اس کے لیے کہیں بھی جائے امان نہیں ۔۔مقتدرطبقے آپس میں بندر بانٹ میں مصروف ہیں اورغریب بے بسی کے اندھی کھائی میںگرے سسک رہے ہیں ۔۔۔!
ایک طرف کروڑوں اربوں کی مراعات ہیں تو دوسری طرف غریب پینشنرز کے منہ سے لقمہ چھیننے کی تیاری ہے۔ کہیں مرسڈیز، لینڈ کروزر، جھنڈے لگی گاڑیاں اور ویگو ڈالے ہیں تو کہیں چنگ چی رکشہ کی سواری تک بھی منظور نہیں۔۔! امیروں سے ٹیکس کے نام پر سفید پوش طبقہ کو رگڑا دیاجا رہا ہے مگر کوئی سننے والا نہیں۔۔قومی شاہراہوں پر قوم کے ساتھ مذاق جاری ہے ۔ان شاہراؤں پر بنے ٹول پلازوںپر ٹول کی وصولی سال میں کئی کئی بار بڑھائی جا رہی ہے مگر کسی کو کوئی غم نہیں۔۔۔! آج کل’’ ایم ٹیگ‘‘ کے نام پرموٹرویز پر لوٹ مار کا ایک اور سلسلہ چل نکلا ہے۔ آپ نے ’’ایم ٹیگ ‘‘ لگوایا ہے تو چارجز اور ،نہیں لگوایا تو اور ،حتی کہ ایم ٹیگ لگوایا ہے مگر کسی وجہ سے بیلنس کم پڑ گیا ہے تو بھی دو دو تین تین سو گنا جرمانے کے ساتھ وصولی۔۔ خدا کی پناہ کوئی دس بیس روپے کا علامتی جرمانہ تو سمجھ میں آتا ہے مگر 220 روپے کی بجائے 380 روپے کی وصولی۔۔ ایک گھنٹے سے بھی کم سفر پر اتنا جرمانہ اور ہر جگہ جرمانے ہی جرمانے۔۔ کوئی کہے تو کس سے اور سنائے تو کسے سنائے۔۔۔ سننے والے کان اپنی مراعات بچانے اور بڑھانے کے فکر میں ہیں۔ ان کے کانوں میں اپنی مراعات کا پگھلا ہوا سیسہ ڈلا ہے، وہ کس کی سنیں گے اور کیسے سنیں گے۔۔۔!
ایک عالم حشر ہے، بجلی کے ہوش ربا نرخ ۔۔اوپر سے 200 یونٹس کے ریٹ اور ، اور 201 یونٹ صرف ہونے پر اور۔۔ گیس کے یونٹس میں سلیب سسٹم کا ظالمانہ نظام ، بالواسطہ طور پر انڈسٹری کی تباہی ۔۔تنخواہوں سے اپنی مرضی کے ٹیکس کی وصولی۔۔پراپرٹی کی خرید و فروت پر ٹیکس د رٹیکس سلسلہ ۔۔سیلز ٹیکس ،ویلتھ ٹیکس ،پراپرٹی ٹیکس ، پروفیشنل ٹیکس ۔۔اعلانیہ اورغیر اعلانیہ ٹیکسزکی بھرمار۔۔۔کبھی کسی نے اس طرف توجہ نہیں کی ہے کہ لاری اڈے سے نکلنے والی گاڑی کتنے پیسے ادا کرتی ہے ۔۔ہر پھیرے کے ہزاروں روپے اور وہ کن کی جیب میں جا رہے ہیں ۔۔نا جائز سٹینڈ، لوٹ کھسوٹ، بندر بانٹ مگر حرص ہے کہ پھر بھی بڑھ رہی ہے۔ مردہ خورگدھوں کی طرح جو کھا کھا کر اگل رہی ہیں اور پھر کھا رہی ہیں۔۔ کہیں تو سلسلہ رکے گا ۔۔کوئی تو روکے گا ۔۔خدا کے ہاں ہرگزاندھیر نہیں۔۔ اجالا تو ہوگامگر تاریخ آج کے حکمرانوں ، حکمراں اداروں، اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقوں کو مصلوب ضرور کرے گی۔۔ حرام سے بنا کسی کا کبھی کچھ نہیں ۔۔حرام سے کسی کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آیا۔۔یہاں قارون بھی سب کچھ چھوڑ کر چلا گیا ۔۔سکندر اعظم بھی خالی ہاتھ کفن سے باہر نکالے رخصت ہو گیا۔اگر زندگی میں اطمینان قلب نہیں ملا تو کامیابی کا تصور وقتی اور بے معنی ہے۔ اور ایسے ہی وقتی اور بے معنی تصورات میں ہماری زندگیاں بسر ہو رہی ہیں۔۔۔!
بڑا سے بڑا تیر مارا تو دو چار پلاٹ لے لیے، دو تین نئے مکانات بنا لیے،دو چار دکانیں،کوئی ایک دو مارکیٹیں، پلازے بنا لیے یا کوئی کاروبار سیٹ کر لیا ۔۔اپنی اولاد کو تن آسانی سکھائی، مکانات کے کرایوں اور محنت سے دور سہل پسندی کا سبق دیا اور نتیجہ کیا نکلا ۔۔آپ بناتے گئے اور وہ لٹاتے گے۔ ۔۔آپ اپنی ساری زندگی جوڑ توڑ میں گزارو اور وہ آپ کی کمائی کو دنوں میں تار تار کر دیں،گے۔۔۔ نہ ادب،نہ سلیقہ، نہ وفا، نہ محبت۔۔۔آپ اپنی اولاد میں مفاد پرست گدھ تیار کرو،تو پھر جو نتیجہ نکلے گا وہ صاف ظاہر ہے۔۔۔!
ایسے ہی صاف نتیجے پکار پکار کر مقتدر طبقوں سے کہہ رہے ہیں ، یہ زمینیں ، جائدادیں اور مال و زر ، سب یہاں کا یہاںہی رہ جائے گا مگر ہم نہیں۔۔۔! اور اگر باقی رہے گا تو صرف کردار، محبت ، خلوص، وفا، ایثار اور قربانی جیسے جاوداں جوہر اور ان کو اپنے سر کا تاج بنانے والے نگینے اور نابغہ ء روزگار لوگ۔۔۔!تاہم آج پنجاب حکومت جس جذبے ، تندی اور تیزی سے عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کی تشکیل و تکمیل پر کمر بستہ ہے ،وہ یک گونہ اطمینان بخش اوراس سے کسی قدرامید اور اصلاحِ احوال کی توقع کی جاسکتی ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: والا نہیں رہے ہیں ہے مگر

پڑھیں:

ملک میں معاشی استحکام آگیا ہے: محمد اورنگزیب

’جیو نیوز‘ گریب

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ ہم نے میکرو اکنامک استحکام میں اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ملک میں معاشی استحکام آگیا ہے۔

اسلام آباد میں وزیر پاور اویس لغاری، وزیر آئی ٹی شزا فاطمہ خواجہ سمیت اکنامک ٹیم کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے محمد اورنگزیب نے کہا کہ عالمی ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستان کے معاشی استحکام کا اعتراف کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت معیشت میں بنیادی اصلاحات کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ ٹیکس نظام، توانائی سمیت دیگر شعبوں میں اصلاحات لائی جا رہی ہیں۔

محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ہم نے میکرو اکنامک استحکام سے متعلق اہم کام کیا ہے، ہماری معاشی سمت درست ہے، اثرات آپ کے سامنے ہیں، ہمارا ہدف پائیدار معاشی استحکام یقینی بنانا ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدہ معاشی استحکام کی توثیق ہے،  پائیدار معاشی استحکام کے لیے بنیادی اصلاحات ناگزیر ہیں، پنشن اصلاحات، رائٹ سائزنگ بھی بنیادی اصلاحات کا حصہ ہیں۔ چین، امریکا اور خلیج تعاون کونسل نے ہماری مدد کی۔

ٹیکس اصلاحات ایک سال میں مکمل نہیں ہو سکتی، چیئرمین ایف بی آر

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال نے کہا کہ ٹیکس سے متعلق بجٹ میں منظور ہونے والے اقدامات پر عمل پیرا ہیں، مؤثر اقدامات کے باعث ٹیکس وصولیوں میں اضافہ ہوا ہے۔

راشد لنگڑیال کا کہنا ہے کہ ٹیکس اصلاحات میں وقت درکار ہوتا ہے، پہلی بار ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح میں 1.5 فیصد اضافہ ہوا ہے، انفرادی ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں ٹیکس وصولی کو جی ڈی پی کے 18فیصد پر لے کر جانا ہے، ٹیکس اصلاحات ایک سال میں مکمل نہیں ہو سکتی، اس سال انکم ٹیکس گوشواروں میں 18 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

چیئرمین ایف بی آر کا کہنا تھا کہ ٹیکس دہندگان کی تعداد بڑھ کر 59 لاکھ ہوگئی ہے، ایف بی آر کو مزید ٹیکس لگانے کی ضرورت نہیں ہے، وفاق سے 15فیصد اور صوبوں سے 3 فیصد ریونیو اکٹھا کرنا ہے، ریونیو کے لیے صوبوں کے اوپر اتنا دباؤ نہیں جتنا وفاق پر ہے۔

راشد لنگڑیال نے کہا کہ اس سال انفرادی ٹیکس ریٹرنز فائلنگ میں 18 فیصد اضافہ ہوا، ٹیکس ریٹرن فائلرز کی تعداد 49 سے بڑھ کر 59 لاکھ ہو گئی ہے، ایف بی آر کو تمام اداروں کا تعاون حاصل ہے۔

اب حکومت بجلی نہیں خریدے گی: وزیر توانائی اویس لغاری

وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا کہ گردشی قرض میں کمی کےلیے 1200 ارب روپے کا قرض معاہدہ کیا، ایک سال میں گردشی قرضے میں 700 ارب روپے کی کمی لائی، گردشی قرضے کے خاتمے سے متعلق مؤثر پلان بنایا۔

انہوں نے کہا کہ آئی پی پیز سے متعلق ٹاسک فورس نے نمایاں کام کیا، اب حکومت بجلی نہیں خریدے گی، گزشتہ 18 ماہ میں بجلی کی قیمت میں ساڑھے 10 فیصد تک کمی کی ہے، توانائی کے شعبے کو جدید خطور پر استوار کر رہے ہیں۔

اویس لغاری کا کہنا تھا کہ جہاں موقع ملا عوام کو ریلیف فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، آٹومیٹنگ میٹرنگ میں صارفین کو پری پیڈ کی سہولت بھی میسر ہوگی، توانائی کے شعبے کے تکنیکی مسائل کو حل کر کے اربوں روپے کی بچت کی۔

متعلقہ مضامین

  • ایف بی آر کو مزید ٹیکس لگانے کی ضرورت نہیں ہے: چیئرمین ایف بی آر
  • ملک میں معاشی استحکام آگیا ہے: محمد اورنگزیب
  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • تجدید وتجدّْ
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • ایشوریا رائے ایسا کیا کرتی ہیں کہ 52سال کی عمر میں بھی ان کے حسن کا چرچا برقرار ہے؟
  • نفرت انگیز بیانیہ نہیں وطن پرستی
  • پاکستانی سیاست… چائے کی پیالی میں طوفان
  • فلسطین کے حق میں کیے گئے معاہدے دراصل سازش ثابت ہو رہے ہیں، ایاز موتی والا
  • ماتلی ، ڈینگی اور ملیریا کے کیسز میں اضافہ ، کوئی اقدامات نہیں کیے گئے