اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 جنوری 2025ء) پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے بدھ کو امریکی فوج کے انخلا کے بعد افغانستان میں چھوڑے گئے جدید فوجی سازوسامان سے لاحق حفاظتی خطرات پر روشنی ڈالی، اور اس بات پر زور دیا کہ یہ پاکستان اور اس کے شہریوں دونوں کی سلامتی کے لیے تشویش کا باعث بن گئے ہیں۔

انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان نے کابل میں حکام پر مسلسل زور دیا ہے کہ وہ ان ہتھیاروں کو دہشت گردوں کے ہاتھ میں جانے سے روکنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کریں۔

امریکی فوجی سازوسامان، جس میں ہوائی جہاز، زمین سے زمین پر گولہ باری کرنے والے ہتھیار، گاڑیاں اور مواصلاتی آلات شامل ہیں، امریکی قیادت والے اتحاد کے انخلاء کے بعد افغانستان میں رہ گئے۔

(جاری ہے)

اگست 2021 میں امریکی فوجیوں کے افغانستان سے روانہ ہونے سے قبل امریکہ نے 70 سے زائد طیارے، درجنوں بکتر بند گاڑیاں اور فضائی دفاع کو ناکارہ بنا دیا تھا، تاہم اسلحے اور ساز وسامان کا ایک بڑا ذخیرہ اس کے باوجود وہاں رہ گیا، جسے افغان طالبان نے اپنے قبضے میں لے لیا۔

افغانستان سے امریکی انخلاء: ریپبلیکن رپورٹ میں بائیڈن پر س‍خت تنقید

پاکستانی میڈیا رپورٹوں کے مطابق یہ اسلحے کالعدم عسکریت پسند تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) گروپ اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے بھی ہاتھ لگ گئے، جیسا کہ پاکستان اور دیگر نے اشارہ کیا ہے۔ اسلام آباد نے سرحد پار دہشت گردی کے لیے عسکریت پسندوں کی جانب سے افغان سرزمین کے استعمال پر تشویش کا بار بار اظہار کیا ہے اور اقوام متحدہ سے ٹی ٹی پی جیسے دہشت گرد گروپوں سے تمام ہتھیاروں کی بازیابی کے لیے "مشترکہ مہم" کا مطالبہ کیا ہے۔

ٹرمپ، بائیڈن اور طالبان کا کیا کہنا ہے

طالبان نے فوری طور پر زیادہ تر ملٹری ہارڈ ویئر پر قبضہ کر لیا، جس سے پاکستان کے سکیورٹی چیلنجز میں مزید اضافہ ہو گیا۔

پاکستان میں دہشت گردی میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟

سابق امریکی صدر جو بائیڈن کی ​​انتظامیہ کا کہنا تھا کہ امریکی افواج نے افغانستان سے انخلاء کے دوران کوئی ایسا سامان نہیں چھوڑا جسے دہشت گرد پاکستان کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کر سکیں۔

تاہم، 20 جنوری کو اپنے حلف برداری کے دن واشنگٹن میں ایک ریلی میں، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بائیڈن انتظامیہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا "انہوں نے ہمارے فوجی سازوسامان، کا ایک بڑا حصہ، دشمن کو دیا۔"

ٹرمپ نے افغانستان کے لیے امداد کو فوجی سازوسامان کی واپسی سے مشروط کیا ہے۔ ٹرمپ نے اس معاملے پر اپنی انتظامیہ کے مؤقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا، "اگر ہم سالانہ اربوں ڈالر ادا کرنے جارہے ہیں تو، انہیں بتائیں کہ جب تک وہ ہمارا فوجی سازوسامان واپس نہیں کرتے ہم انہیں رقم نہیں دیں گے۔

"

امریکہ افغان ’صدمے‘ سے نکلے اور نئے خطرات سے نمٹے، مطالعہ

تاہم، طالبان نے مبینہ طور پر ہتھیاروں کو واپس کرنے سے انکار کر دیا ہے اور اس کے بجائے امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ داعش سے لڑنے کے لیے انہیں مزید جدید ہتھیار فراہم کرے۔

پاکستان نے مزید کیا کہا؟

پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا، "افغانستان میں امریکی جدید ہتھیاروں کی موجودگی، جو اگست 2021 میں اپنی فوجوں کے انخلاء کے بعد وہاں رہ گئی تھی، ایک سنگین مسئلہ رہا ہے۔

یہ پاکستان اور اس کے شہریوں کے تحفظ اور سلامتی کے لیے تشویش کا باعث ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ہتھیار ٹی ٹی پی سمیت دہشت گرد تنظیموں نے پاکستان میں دہشت گردانہ حملے کرنے کے لیے استعمال کیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ "ہم کابل کے حکام سے بارہا مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ تمام ضروری اقدامات کریں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ یہ ہتھیار غلط ہاتھوں میں نہ جائیں۔

"

پاکستان اور بالخصوص صوبہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں 2024 میں اور مجموعی طور پر اگست 2021 کے بعد دہشت گردی سے متعلقہ واقعات میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ٹی ٹی پی کی جانب سے 2022 میں حکومت کے ساتھ جنگ ​​بندی کا ایک نازک معاہدہ توڑنے کے بعد سے دہشت گردی کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔

سات بلین ڈالر کا فوجی سازوسامان افغانستان میں رہ گیا

امریکی محکمہ دفاع نے 2022 میں اپنی ایک رپورٹ می‍‍ں کہا تھا کہ سات بلین ڈالر مالیت کا فوجی سازوسامان افغانستان میں رہ گیا ہے، جس میں سے زیادہ تر کو طالبان جنگجوؤں نے تیزی سے اپنے قبضے میں لے لیا۔

گوکہ امریکی افواج نے انخلاء کے آخری ہفتوں میں اپنی کچھ مشینری کو ختم کرنے یا تباہ کرنے کی کوششیں کیں، لیکن فوجی ہارڈ ویئر کی ایک قابل ذکر مقدار اس کے باوجود طالبان کے ہاتھ میں آگئی۔

افراتفری میں امریکی انخلا کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ٹرمپ کی پہلی انتظامیہ کے دوران امریکہ نے طالبان کے ساتھ فوجیوں کے انخلاء کے معاہدے پر دستخط کیے تھے، لیکن اس پر صدر جو بائیڈن کے دور میں عمل درآمد ہوا۔

حامد کرزئی حکومت کے اچانک خاتمے اور اگست 2021 میں طالبان کی جانب سے اقتدار پر تیزی سے دوبارہ قبضے نے افغانستان می‍‍ں افراتفری کے حالات پیدا کردیے تھے، جس کا اختتام کابل کے ہوائی اڈے پر ایک مہلک خودکش بم دھماکے میں ہوا، جس میں تیرہ امریکی فوجی اور درجنوں افغان شہری ہلاک ہوئے۔

ج ا ⁄ ص ز ( خبر رساں ادارے)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے افغانستان میں رہ فوجی سازوسامان پاکستان اور انخلاء کے انہوں نے ٹی ٹی پی اگست 2021 کیا ہے کے لیے اور اس کے بعد

پڑھیں:

پاک افغان تعلقات میں بہتری: کیا طورخم بارڈر سے تجارت پر اثر پڑے گا؟

پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہو چکا ہے، اور دونوں ممالک نے چین کے تعاون سے باہمی تجارت کو فروغ دینے اور سی پیک کو افغانستان تک توسیع دینے پر اتفاق کیا ہے۔ اس سفارتی پیشرفت کے بعد نہ صرف سیاسی تعلقات میں بہتری آئی ہے، بلکہ سرحدی تجارتی سرگرمیوں میں بھی واضح بہتری دیکھی جا رہی ہے۔

افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اور دیگر مال بردار گاڑیاں بغیر کسی بڑی رکاوٹ کے افغانستان میں داخل ہو رہی ہیں، جبکہ پاکستانی حکام نے طورخم اور دیگر سرحدی گزرگاہوں پر سہولیات کی فراہمی کے لیے نئے اقدامات کیے ہیں۔

سفارتی کوششوں کے مثبت اثرات

پاک افغان امور پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق، پاکستان کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان محمد صادق خان کی کوششوں اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے حالیہ دورے کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی فضا بحال ہوئی ہے۔ ان سفارتی کوششوں میں چین نے بھی اہم کردار ادا کیا، جو دونوں ممالک کے درمیان تجارتی روابط کو وسعت دینے میں معاونت کر رہا ہے۔

مزید پڑھیں: پاک افغان طورخم بارڈر سے تجارتی سرگرمیاں بحال

تینوں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ تجارت کو وسعت دے کر وسطی ایشیائی ریاستوں تک رسائی حاصل کی جائے، اور سی پیک روٹ کو افغانستان تک بڑھایا جائے۔

طورخم میں تجارت کا نیا منظرنامہ

خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر میں واقع اہم گزرگاہ طورخم بارڈر پر تجارتی سرگرمیوں میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق اب مال بردار گاڑیوں کی آمد و رفت میں حائل رکاوٹیں دور ہو چکی ہیں اور ڈرائیوروں کو خصوصی اجازت نامے جاری کیے جا رہے ہیں، جس سے تجارت میں روانی پیدا ہوئی ہے۔

طورخم پر تعینات ایک افسر نے بتایا کہ حکومت پاکستان افغان تجارت کو سہل بنانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل نمائندہ خصوصی محمد صادق نے طورخم کا دورہ کیا اور افغان تاجروں سے ملاقات کر کے ان کے مسائل سنے، جس کے بعد واضح بہتری دیکھنے میں آئی۔

روزانہ 300 سے زائد گاڑیاں افغانستان میں داخل

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق حالیہ دنوں میں طورخم بارڈر سے روزانہ 300 سے زائد مال بردار گاڑیاں افغانستان میں داخل ہو رہی ہیں، جبکہ قریباً اتنی ہی تعداد میں گاڑیاں افغانستان سے واپس پاکستان آتی ہیں۔ ان میں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے کنٹینرز، درآمدی مال اور خالی گاڑیاں شامل ہیں۔

مزید پڑھیں:25 دنوں سے بند پاک افغان طورخم بارڈر کھول دیا گیا، تجارتی سرگرمیاں بحال

گزشتہ روز کے ریکارڈ کے مطابق 369 گاڑیاں افغانستان میں داخل ہوئیں، جن میں 34 افغان ٹرانزٹ ٹریڈ، 288 درآمدات اور 13 دیگر اشیا شامل تھیں، جبکہ 164 خالی گاڑیاں افغانستان سے واپس آئیں۔ یہ اعداد و شمار تعلقات کی بہتری کے بعد تجارت میں واضح اضافے کی نشاندہی کرتے ہیں۔

کرم میں خرلاچی بارڈر دوبارہ کھول دیا گیا

دونوں ممالک کے درمیان رابطوں کو مزید آسان بنانے کے لیے حکومت پاکستان نے قبائلی ضلع کرم میں واقع خرلاچی بارڈر کو بھی تجارت کے لیے کھول دیا ہے۔ اس موقع پر ’پاک افغان دوستی اسپتال‘ کا بھی افتتاح کیا گیا، جس میں جدید طبی سہولیات بشمول لیبارٹری، فارمیسی، بلڈ پریشر، شوگر اور امراضِ قلب کی ابتدائی تشخیص کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ یہ اسپتال سرحدی علاقوں کے مکینوں اور افغان شہریوں کے لیے اہم طبی مرکز ثابت ہوگا۔

تجارت کو 3 گنا بڑھانے پر اتفاق

افغان وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی نے حالیہ دنوں کابل میں چین کے خصوصی نمائندے یو شیاؤیونگ اور پاکستان کے خصوصی نمائندے محمد صادق کے ہمراہ وفود سے ملاقات کی، جس میں سی پیک کو افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک تک توسیع دینے پر اتفاق کیا گیا۔

چین میں ہونے والی سہ فریقی کانفرنس میں تینوں ممالک نے تجارت کو 3 گنا بڑھانے، روٹ کو خیبر پختونخوا کے 7 اضلاع سے گزارنے، اور افغانستان میں نئی راہداریوں کے قیام پر رضامندی ظاہر کی۔

مزید پڑھیں: طورخم بارڈر پر کسٹم عملے نے کام روک دیا، وجہ کیا ہے؟

ذرائع کے مطابق وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے حالیہ دورے کے دوران اس حوالے سے تفصیلی گفت و شنید ہوئی، اور پاکستان سے تاجکستان و دیگر وسطی ایشیائی ممالک تک تجارتی راستے بڑھانے پر بھی بات ہوئی۔

پاک افغان تجارت کا نیا دور

افغان امور پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی شہاب یوسفزئی کے مطابق، پاکستان اور افغانستان ایک نئے تجارتی دور میں داخل ہو رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ افغان حکومت اب تجارت کو سنجیدگی سے لے رہی ہے اور پاکستان بھی ویزا پالیسی اور بارڈر مینجمنٹ میں نرمی لا کر افغان شہریوں کو سہولیات دے رہا ہے۔

شہاب یوسفزئی نے کہا کہ افغانستان کو اب یہ سمجھ آ گیا ہے کہ ان کے لیے پاکستان کے ساتھ تجارت زیادہ مفید ہے، اور بھارت کے ساتھ براہ راست تجارت فی الحال ان کے لیے ممکن یا سودمند نہیں۔

پاکستان افغانستان سے کیا درآمد و برآمد کرتا ہے؟

پاکستان، افغانستان کے لیے ایک اہم تجارتی روٹ ہے۔ پاکستان سے افغانستان سیمنٹ، سریا، ادویات، سبزیاں، چینی اور دیگر اشیائے ضروریہ برآمد کی جاتی ہیں، جبکہ افغانستان سے پاکستان کو پھل، سبزیاں اور خشک میوہ جات درآمد کیے جاتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

افغانستان پاک افغان تجارت پاک افغان تعلقات پاکستان چائنا سی پیک طورخم بارڈر

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل نے غزہ پٹی کے لیے امداد لے جانے والے کشتی روک لی
  • افغان طالبان نے مغرب نواز شہریوں کیلئے عام معافی کا اعلان کر دیا
  • پاک افغان تعلقات میں بہتری: کیا طورخم بارڈر سے تجارت پر اثر پڑے گا؟
  • کراچی سے واپس جانے والے قربانی کے جانوروں کے بیوپاری حادثے کا شکار، 3 جاں بحق
  • طالبان حکومت کا عیدالاضحیٰ پر ملک چھوڑنے والے مغرب نواز افغانوں کیلئے عام معافی کا اعلان
  • طالبان کا مغرب نواز شہریوں کیلیے عام معافی کا اعلان؛ افغانستان واپس آنے کی دعوت
  • جانور فروخت کرکے کراچی سے واپس جانے والے پیوپاریوں کی گاڑی کو حادثہ، ایک جاں بحق، 14 زخمی
  • پاکستان اور بھارت جنگ کے اگلے مرحلے میں جوہری ہتھیار استعمال کر سکتے تھے، امریکی صدر
  • افغانستان میں عسکریت پسندوں کی موجودگی علاقائی سلامتی کے لیے خطرہ ہے، امریکی تھنک ٹینک
  • عید پر دہشتگردی کا منصوبہ بنانے والے 3 دہشتگرد گرفتار، سی ٹی ڈی