شکارپور میں شب شہداء کی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ سندھ میں کالعدم دہشتگرد تنظیموں کی شرانگیز سرگرمیوں کو روکنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ لیکن افسوس کہ آج بھی پورے سندھ میں انکی شرانگیز سرگرمیاں جاری ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنماء علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ 10 سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود شکارپور کے عوام، اہل تشیع اور وارثان شہداء نے شہداء کی یاد میں کانفرنس ریلی اور مشعل بردار جلوس نکال کر یہ ثابت کر دیا کہ شہدائے راہ حق زندہ ہیں۔ ان کا مشن زندہ ہے اور ہم ان کے پیغام اور مقاصد کو جاری رکھیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے شکار پور میں چوک شہداء یادگار شہداء پر شب شہداء کے موقع پر شہداء کی یاد میں نکالی گئی مشعل بردار ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس سے قبل سانحہ نماز جمعہ کربلا معلی امام بارگاہ جامع مسجد سید الشہداء علیہ السلام شکارپور کے شہداء کی یاد میں ڈکھن اور پیر چنڈام سے لبیک یا زینب (س) پیدل مارچ شروع کیا گیا، جس میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنماء علامہ مقصود علی ڈومکی اور وحدت یوتھ پاکستان کے مرکزی رہنماء علامہ راجہ مصطفی عباس جعفری، ضلعی صدر اصغر علی سیٹھار، ضلعی نائب صدر دولہا دریا خان جتوئی، تحصیل صدر سید نوید علی شاہ اور دیگر شریک ہوئے۔

شب شہداء کی ریلی اور جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی رہنماء علامہ مقصود علی ٹومکی نے کہا کہ وارثان شہداء کمیٹی شکارپور اور شہداء کے وکیل کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ شہدائے شکارپور کے مقدمات بڑی جرات اور استقامت سے لڑ رہے ہیں۔ جس کے سبب دہشت گردوں کو پھانسی کی سزا ہو چکی ہے۔ جبکہ سانحہ شکارپور کا مرکزی مجرم مفرور ہے۔ سانحہ شکارپور کا مفرور مجرم کالعدم جماعت کا سرغنہ اورنگزیب فاروقی ابھی تک گرفتار نہیں ہوا، ہم اس کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی سندھ گورنمنٹ نے وارثان شہداء کے ساتھ 21 نکاتی تحریری معاہدہ کیا تھا۔ جس کی رو سے سندھ میں کالعدم دہشت گرد تنظیموں کی شرانگیز سرگرمیوں کو روکنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ لیکن افسوس کہ آج بھی پورے سندھ میں کالعدم دہشت گرد تنظیموں کی شرانگیز سرگرمیاں جاری ہیں۔ ماہ رجب میں جن شہروں میں کالعدم دہشت گرد تنظیم نے ریلیاں نکالیں ان کے خلاف مقدمات درج کئے جائیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ شکارپور، کشمور، گھوٹکی، جیکب آباد میں امن و امان کی ابتر صورتحال پر ہمیں شدید تشویش ہے۔ اس لئے ہم سندھ حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ کچے اور پکے کے ڈاکوؤں کے خلاف پاک فوج اور رینجرز کا مشترکہ آپریشن کیا جائے۔ آج شکارپور اور کشمور غزہ اور کشمیر کا منظر پیش کر رہا ہے۔ جہاں لوگوں کا قتل اغواء اور چوری ڈکیتی روز کا معمول بن چکا ہے، مگر پیپلز پارٹی کے ایک لیڈر بڑی ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ سندھ میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن جاری ہے، حالانکہ ڈاکوؤں کے خلاف کوئی آپریشن نہیں ہو رہا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ قتل اغواء اور بدامنی کے واقعات میں کمی کی بجائے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وحدت یوتھ ونگ کے مرکزی رہنماء علامہ راجہ مصطفی عباس جعفری نے کہا کہ شہداء کی یاد منانا شہادت سے کم نہیں ہے۔ کیونکہ شہداء کی یاد منانے سے معاشرے میں شہادت کا کلچر عام ہوتا ہے اور شہداء کی پاکیزہ فکر کی خوشبو پھیلتی ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کے مرکزی رہنماء علامہ میں کالعدم دہشت خطاب کرتے ہوئے شہداء کی یاد علامہ مقصود کی شرانگیز نے کہا کہ کے خلاف

پڑھیں:

پاکستان کرکٹ زندہ باد

کراچی:

’’ ہیلو، میچ دیکھ رہے ہو ٹی وی پر، اگر نہیں تو دیکھو کتنا کراؤڈ ہے،ٹکٹ تو مل ہی نہیں رہے تھے ، بچے، جوان، بوڑھے سب ہی قذافی اسٹیڈیم میں کھیل سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، مگر تم لوگ تو کہتے ہو پاکستان میں کرکٹ ختم ہو گئی، اس کا حال بھی ہاکی والا ہو جائے گا،لوگ اب کرکٹ میں دلچسپی ہی نہیں لیتے۔ 

اگر ایسا ہے تو لاہور کا اسٹیڈیم کیوں بھرا ہوا ہے؟ راولپنڈی میں ہاؤس فل کیوں تھا؟ میری بات یاد رکھنا کرکٹ پاکستانیوں کے ڈی این اے میں شامل ہے، اسے کوئی نہیں نکال سکتا۔ 

اگر کسی بچے کا امتحان میں رزلٹ اچھا نہ آئے تو گھر والے ناراض تو ہوتے ہیں مگر اسے ڈس اون نہیں کر دیتے، اگر اس وقت برا بھلا ہی کہتے رہیں تو وہ آئندہ بھی ڈفر ہی رہے گا لیکن حوصلہ افزائی کریں تو بہتری کے بہت زیادہ چانسز ہوتے ہیں، اس لیے اپنی ٹیم کو سپورٹ کیا کرو۔ 

تم میڈیا والوں اور سابق کرکٹرز کا بس چلے تو ملکی کرکٹ بند ہی کرا دو لیکن یہ یاد رکھنا کہ اسپورٹس میڈیا ،چینلز اور سابق کرکٹرز کی بھی اب تک روزی روٹی اسی کھیل کی وجہ سے ہے، اگر یہ بند تو یہ سب کیا کریں گے؟

بات سمجھے یا نہیں، اگر نہیں تو میں واٹس ایپ پر اس میچ میں موجود کراؤڈ کی ویڈیو بھیجوں گا وہ دیکھ لینا،پاکستان میں کرکٹ کبھی ختم نہیں ہو سکتی، پاکستان کرکٹ زندہ باد ‘‘ ۔

اکثر اسٹیڈیم میں موجود دوست کالز کر کے میچ پر ہی تبصرہ کر رہے ہوتے ہیں لیکن ان واقف کار بزرگ کا فون الگ ہی بات کیلیے آیا، وہ میرے کالمز پڑھتے ہیں، چند ماہ قبل کسی سے نمبر لے کر فون کرنے لگے تو رابطہ قائم ہو گیا، میں نے ان کی باتیں سنیں تو کافی حد تک درست لگیں۔ 

ہم نے جنوبی افریقہ کو ٹی ٹوئنٹی سیریز میں ہرا دیا، واقعی خوشی کی بات ہے لیکن اگر گزشتہ چند برسوں کا جائزہ لیں تو ٹیم کی کارکردگی خاصی مایوس کن رہی ہے،خاص طور پر بڑے ایونٹس میں تو ہم بہت پیچھے رہے، شاید یہی وجہ ہے کہ ہمیں ایسا لگنے لگا کہ خدانخواستہ اب ملکی کرکٹ اختتام کے قریب ہے، کوئی بہتری نہیں آ سکتی،لوگوں نے کرکٹ میں دلچسپی لینا ختم کر دی ہے۔ 

البتہ ٹھنڈے دل سے سوچیں تو یہ سوچ ٹھیک نہیں لگتی، اب بھی یہ پاکستان کا سب سے مقبول کھیل ہے، اربوں روپے اسپانسر شپ سے مل جاتے ہیں، کرکٹرز بھی کروڑپتی بن چکے، اگر ملک میں کرکٹ کا شوق نہیں ہوتا تو کوئی اسپانسر کیوں سامنے آتا؟

ٹیم کے کھیل میں بہتری لانے کیلیے کوششیں لازمی ہیں لیکن ساتھ ہمیں بھی اپنے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہمیں نجم سیٹھی یا ذکا اشرف پسند نہیں تھے تو ان کے دور میں کرکٹ تباہ ہوتی نظر آتی تھی، آج محسن نقوی کو جو لوگ پسند نہیں کرتے وہ انھیں قصور وار قرار دیتے ہیں۔ 

اگر حقیقت دیکھیں تو ہماری کرکٹ ان کے چیئرمین بننے سے پہلے بھی ایسی ہی تھی، پہلے ہم کون سے ورلڈکپ جیت رہے تھے، ہم کو کپتان پسند نہیں ہے تو اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں، سب کو اپنا چیئرمین بورڈ، کپتان اور کھلاڑی چاہیئں، ایسا نہ ہو تو انھیں کچھ اچھا نہیں لگتا۔

یقینی طور پر سلمان علی آغا کو بطور کھلاڑی اور کپتان بہتری لانے کی ضرورت ہے لیکن جب وہ نہیں تھے تو کیا ایک، دو مواقع کے سوا ہم بھارت کو ہمیشہ ہرا دیتے تھے؟

مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے دور میں لوگوں کی ذہن سازی آسان ہو چکی، پہلے روایتی میڈیا پھر بھی تھوڑا بہت خیال کرتا تھااب تو چند ہزار یا لاکھ روپے دو اور اپنے بندے کی کیمپئن چلوا لو، پہلے پوری ٹیم پر ایک ’’ سایا ‘‘ چھایا ہوا تھا، اس کی مرضی کے بغیر پتا بھی نہیں ہلتا تھا، نئے کھلاڑیوں کی انٹری بند تھی۔ 

پھر برطانیہ سے آنے والی ایک کہانی نے ’’ سائے ‘‘ کو دھندلا کر دیا لیکن سوشل میڈیا تو برقرار ہے ناں وہاں کام جاری ہے، آپ یہ دیکھیں کہ علی ترین سالانہ ایک ارب 8 کروڑ روپے کی پی ایس ایل فرنچائز فیس سے تنگ آکر ری بڈنگ میں جانا چاہتے ہیں۔

لیکن سوشل میڈیا پر سادہ لوح افراد کو یہ بیانیہ سنایا گیا کہ وہ تو ہیرو ہے، ملتان سلطانز کا اونر ہونے کے باوجود لیگ کی خامیوں کو اجاگر کیا اس لیے زیرعتاب آ گیا۔ 

یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ یہ ’’ ہیرو ‘‘ اس سے پہلے کیوں چپ تھا،ویلوایشن سے قبل کیوں یہ یاد آیا،اسی طرح محمد رضوان کو اب اگر ون ڈے میں کپتانی سے ہٹایا گیا تو یہ خبریں پھیلا دی گئیں کہ چونکہ اس نے 2 سال پہلے پی ایس ایل میں سیروگیٹ کمپنیز کی تشہیر سے انکار کیا تو انتقامی کارروائی کی گئی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا والوں نے اسے سچ بھی مان لیا، کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ بھائی واقعہ تو برسوں پہلے ہوا تھا اب کیوں سزا دی گئی اور اسے ٹیم سے تونکالا بھی نہیں گیا، یا اب تو پی ایس ایل نہ ہی پاکستانی کرکٹ کی کوئی سیروگیٹ کمپنی اسپانسر ہے، پھر کیوں کسی کو رضوان سے مسئلہ ہے؟

پی سی بی والے میرے چاچا یا ماما نہیں لگتے، میں کسی کی حمایت نہیں کر رہا لیکن آپ ہی بتائیں کہ گولیمار کراچی میں اگر ایک سابق کپتان کا سیروگیٹ کمپنی کی تشہیر والا بل بورڈ لگا ہے تو اس سے پی سی بی کا کیا تعلق۔ 

خیر کہنے کا مقصد یہ ہے کہ چیئرمین محسن نقوی ہوں یا نجم سیٹھی، کپتان سلمان علی آغا ہو یا بابر اعظم اس سے فرق نہیں پڑتا، اصل بات پاکستان اور پاکستان کرکٹ ٹیم ہے، اسے دیکھیں، شخصیات کی پسند نا پسندیدگی کو چھوڑ کر جو خامیاں ہیں انھیں ٹھیک کرنے میں مدد دیں۔

میں بھی اکثر جوش میں آ کر سخت باتیں کر جاتا ہوں لیکن پھر یہی خیال آتا ہے کہ اس کھیل کی وجہ سے ہی میں نے دنیا دیکھی، میرا ذریعہ معاش بھی یہی ہے، اگر کبھی اس پر برا وقت آیا تو مجھے ساتھ چھوڑنا چاہیے یا اپنے طور پر جو مدد ہو وہ کرنی چاہیے؟

ہم سب کو بھی ایسا ہی سوچنے کی ضرورت ہے، ابھی ہم ایک سیریز جیت گئے، ممکن ہے کل پھر کوئی ہار جائیں لیکن اس سے ملک میں کرکٹ ختم تو نہیں ہو گی، ٹیلنٹ کم کیوں مل رہا ہے؟ بہتری کیسے آئے گی؟

ہمیں ان امور پر سوچنا چاہیے، اگر ایسا کیا اور بورڈ نے بھی ساتھ دیا تو یقین مانیے مسائل حل ہو جائیں گے لیکن ہم جذباتی قوم ہیں، یادداشت بھی کمزور ہے، دوسروں کو کیا کہیں ہو سکتا ہے میں خود کل کوئی میچ ہارنے پر ڈنڈا (قلم یا مائیک) لے کر کھلاڑیوں اور بورڈ کے پیچھے پڑ جاؤں، یہ اجتماعی مسئلہ ہے جس دن حل ہوا یقینی طور پر معاملات درست ہونے لگیں گے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

متعلقہ مضامین

  • عمران خان کی رہائی کیلئے جنگ جاری رکھیں گے، علیمہ خان
  • بلوچستان اس وقت سنگین امن و امان کے بحران سے دوچار ہے، علامہ مقصود ڈومکی
  • فلسطین کے مسئلہ پر پاکستان اور ترکیہ مل کر کام جاری رکھیں گے
  • سرحد پار دہشتگردی: فیصلہ کن اقدامات جاری رکھیں گے: خواجہ آصف
  • عمران کی رہائی اولین ترجیح، کارکن  سرگرمیاں جاری رکھیں:سہیل آفریدی 
  • سرحد پار دہشت گردی ، فیصلہ کن اقدامات جاری رکھیں گے، وزیر دفاع
  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • بابر اعظم نے طویل خاموشی توڑ دی، شائقین کے لیے پیغام جاری
  • مشہد مقدس، شیعہ علماء کونسل کے مرکزی ایڈیشنل سیکرٹری جنرل علامہ ناظر تقوی کا ایم ڈبلیو ایم کے دفتر کا دورہ 
  • خاموشی کا وقت ختم، بابر اعظم نے پیغام جاری کردیا