پی ٹی آ ئی نے پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کیخلاف درخواست خارج کرنے کو چیلنج کردیا
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
اسلام آبادد(صباح نیوز)چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہرعلی خان نے پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس 2024 کیخلاف دائر درخواست خارج کرنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کردیا ہے۔بیرسٹر گوہر خان نے عدالت عظمیٰ کے آئینی بینچ کے 12 دسمبر 2024 کے فیصلے کے خلاف دائر انٹرا کورٹ اپیل میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ ان کی اپیل منظور کرتے ہوئے 12 دسمبر کا آئینی بینچ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔اپنی انٹرا کورٹ اپیل میں بیرسٹر گوہر خان نے استدعا کی ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کی شق 2، 3، 4، 5 آئین سے متصادم ہیں لہٰذا پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کے تحت کیے گئے تمام اقدامات کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔درخواست میں صدر پاکستان، سیکرٹری کابینہ اور سیکرٹری قانون کو فریق بنایا گیا ہے۔واضح رہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی خان، افراسیاب خٹک، احتشام الحق اور اکمل باری کی جانب سے پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کے خلاف دائر درخواستیں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے 12 دسمبر کو خارج کردی تھیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس
پڑھیں:
حساس اداروں سمیت سربراہ کیخلاف توہین آمیز پوسٹ، پیکا ایکٹ کے تحت شہری پر مقدمہ درج
سوشل میڈیا پر ویڈیو پوسٹ کرنے پر مقدمہ ملزم وقار خان کے خلاف تھانہ شادباغ میں پیکا ایکٹ کے تحت درج کیا گیا۔ مقدمے میں دیگر دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ سوشل میڈیا پر حساس اداروں اور سربراہ کے خلاف توہین آمیز پوسٹ کرنے پر شہری کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔ سوشل میڈیا پر ویڈیو پوسٹ کرنے پر مقدمہ ملزم وقار خان کے خلاف تھانہ شادباغ میں پیکا ایکٹ کے تحت درج کیا گیا۔ مقدمے میں دیگر دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔ اندراج مقدمہ کے بعد پولیس نے مزید قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا۔ دوسری جانب، پیکا ایکٹ ترمیم کے خلاف دائر درخواست پر پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس ارشد علی اور جسٹس جواد احسان اللہ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سماعت کی۔ عدالت نے وفاقی حکومت، پی ٹی اے اور پیمرا کو نوٹس جاری کر دیا۔ درخواست گزار کے وکیل نعمان محب کاکا خیل کا موقف تھا کہ پیکا ایکٹ میں ترمیم کرکے غلط اور جھوٹی خبروں پر سزائیں متعارف کروا دی گئی ہیں، پیکا ایکٹ کے سیکشن 26 اے سمیت متعدد سیکشنز میں ترمیم کی گئی ہے لیکن ترمیم مبہم ہے اور فیک نیوز کی تشریح نہیں کی گئی کہ فیک نیوز کونسی ہوگی۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ترمیم میں خلاف ورزی پر بڑی بڑی سزائیں رکھی گئی ہیں۔ ترمیم میں جج، اراکین اسمبلی اور دیگر اداروں کے خلاف کوئی بھی بات کرنے پر سزا مقرر کی گئی ہے۔ درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ یہ ترمیم آئین کے آرٹیکل 19 اور 19 اے کے خلاف ہے کیونکہ آرٹیکل 19 اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے، یہ ترمیم جمہوریت اور انسانی حقوق اور احتساب پر وار ہے، یہ ترمیم اپوزیشن کی آواز کو دبانے کے لیے کی گئی ہے۔ عدالت نے وفاقی حکومت، پی ٹی اے اور پیمرا کو نوٹس جاری کرتے ہوئے فریقین سے ایک ماہ کے اندر جواب طلب کر لیا۔