اپنے بجلی میٹر کا خیال رکھیں ورنہ لاکھوں روپے کا بل آسکتا ہے، جانیے کیسے؟
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
کراچی میں کے الیکٹرک کے 2 طرح کے صارفین ہیں، ایک وہ جو جائز طریقے سے بجلی استعمال کرتے ہیں اور بروقت بل کی ادائیگی کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو کنڈے سے بجلی کا استعمال کرتے ہیں۔ جو صارفین بجلی چوری نہیں کرتے، ان کا یہ شکوہ رہتا ہے کہ ہم بل بھی دیتے ہیں اور بل کی ادائیگی نہ کرنے والوں کی وجہ سے لوڈشیڈنگ بھی برداشت کرتے ہیں۔
تاہم، کے الیکٹرک کی ’پھرتیوں‘ کا اب ایک نیا کیس سامنے آگیا ہے جس میں میٹر خراب ہونے پر چند سو روپے کی بجلی استعمال کرنے والے صارف کو ڈیڑھ لاکھ روپے کا بل تھما دیا گیا اور اس کی کوئی شنوائی بھی نہیں ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں: پاور ڈویژن اور بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کا ہر ملازم ماہانہ کتنی مفت بجلی حاصل کررہا ہے؟
کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن کی رہائشی خاتون آمنہ کا کہنا ہے کہ ہمارا بل ایک ہزار یا 1200 روپے یا زیادہ سے زیادہ 1700 روپے تک آیا کرتا تھا، 3 ماہ قبل میٹر کا ڈسپلے غائب ہوا، جس ماہ میٹر کا ڈسپلے غائب ہوا اس ماہ بل ایک لاکھ 40 ہزار روپے آیا اور جب ٹھیک میٹر لگا دیا گیا تو ڈسپلے آنے سے بل 1440 روپے آیا۔
ان کا کہنا ہے کہ میٹر خراب ہونے کی وجہ سے ایک لاکھ 47 ہزار روپے کا بل اب تک ٹھیک نہیں ہوسکا اور نہ ہی کے الیکٹرک اس بات کو ماننے کو تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ 3 ماہ سے وہ دفاتر کے چکر لگا رہی ہیں لیکن کوئی ماننے کو تیار نہیں، اس میں ہماری کوئی غلطی نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بجلی کے صارفین کو بھاری بلوں کی ادائیگی میں مزید سہولت ملنے کا امکان
کے الیکٹرک کی 50 سالہ صارف آمنہ نے مزید بتایا کہ کے الیکٹرک والے کہتے ہیں کہ آپ نے میٹر خراب کیا ہے لہٰذا ایک سال تک قسطوں کی شکل میں اب جرمانہ بھریں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں اس بارے میں قطعی کوئی علم نہیں کہ اس ماہ کتنے یونٹس استعمال ہوئے، جب میٹر خراب ہوا تو اس کے بدلے ایک نیا میٹر لگا دیا گیا اور ہمارے حصے میں ڈیڑھ لاکھ روپے بل آگیا۔
آمنہ کا کہنا تھا کہ گزشتہ 4 سال سے ان کا بجلی کا بل بڑھتے بڑھتے 1700 روپے تک پہنچ چکا ہے، اس سے سے زیادہ بل کبھی نہیں آیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات کے الیکٹرک کو بھی سمجھنی چاہیے کہ اتنا زیادہ بل اگر اچانک آیا ہے تو کوئی مسلئہ ہوا ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: بجلی کا میٹر بند تو بل 3 ہزار سے زائد کیسے آیا؟ صارفین کے الیکٹرک پر برس پڑے
انہوں نے کہا، ’ہمارے گزشتہ تمام بل کلئیر ہیں، ایک ماہ میں ہم نے کون سا یہاں فیکٹری لگا لی جو اتنا بل آگیا ہے، 2 کمروں کا گھر ہے اور اس میں بھی صرف ضرورت کے برقی آلات موجود ہیں‘۔
آمنہ نے وفاقی محتسب میں بھی ایک درخواست دی ہے جس میں انہوں نے کے الیکٹرک کی جانب سے بھیجے گئے اضافی اور ’ناجائز‘ بل کو ختم کرنے کی استدعا کی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے، ’ہم نے کبھی کنڈا استعمال یا بجلی چوری نہیں کی، ہمیں ایک لاکھ 47 لاکھ روپے بھیج دیا گیا، اسے ہم کیسے ادا کریں گے‘۔
انہوں نے اپنی درخواست میں مؤقف اپنایا ہے کہ کے الیکٹرک حکام سروے کررہے ہیں اور نہ ہی بل کم کر رہے ہیں۔ انہوں نے وفاقی محتسب سے استدعا کی ہے کہ کے الیکٹرک کو سروے کرنے کا حکم دیا جائے اور انہیں بھجوائے گئے اضافی بل کو منسوخ کرایا جائے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اضافی بل کی ادائیگی خراب درخواست زائد بل زیادہ بل کراچی کُنڈے کے الیکٹرک لاکھوں روپے لوڈ شیڈنگ میٹر وفاقی محتسب.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اضافی بل کی ادائیگی درخواست زیادہ بل کراچی ک نڈے کے الیکٹرک لاکھوں روپے لوڈ شیڈنگ میٹر وفاقی محتسب کے الیکٹرک کی ادائیگی میٹر خراب انہوں نے کرتے ہیں کا کہنا ہیں اور دیا گیا
پڑھیں:
روشن معیشت رعایتی بجلی پیکج کا اعلان قابل تحسین ہے،حیدرآباد چیمبر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-2-16
حیدرآباد (اسٹاف رپورٹر ) حیدرآباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹری کے صدر محمد سلیم میمن نے وزیرِاعظم پاکستان میاں شہباز شریف کی جانب سے صنعت و زراعت کے شعبوں کے لیے ’’روشن معیشت رعایتی بجلی پیکج‘‘ کے اعلان کو قابلِ تحسین اور خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام ملک کی صنعتی بحالی کی سمت ایک مثبت پیش رفت ہے۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ صنعتوں کی حقیقی بقا، روزگار کے تحفظ اور پاکستان میں کاسٹ آف پروڈکشن کو یقینی بنانے کے لیے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بنیادی سطح پر کمی ناگزیر ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے صنعتی و زرعی صارفین کے لیے اضافی بجلی کے استعمال پر 22.98 روپے فی یونٹ کا رعایتی نرخ ایک اچھا آغاز ہے، مگر ان ریٹوں پر بھی صنعتی طبقہ اپنی لاگتِ پیداوار کو کم نہیں کر پا رہا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مہنگی بجلی کی اصل وجوہات ’’کپیسٹی چارجز‘‘ اور سابق معاہدے ہیں، جب تک ان پر نظرِثانی نہیں کی جاتی، بجلی کی حقیقی لاگت کم نہیں ہو سکتی اور کاروبار کرنا دن بہ دن مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔صدر چیمبر سلیم میمن نے کہا کہ کاسٹ آف پروڈکشن مسلسل بڑھنے سے نہ صرف ملکی صنعت متاثر ہو رہی ہے بلکہ برآمدی مسابقت بھی کم ہو رہی ہے۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ صنعتی صارفین کے لیے بجلی اور گیس دونوں کے نرخ کم از کم ممکنہ سطح تک لائے اور ان تجاویز پر عمل کرے جو حیدرآباد چیمبر اور دیگر کاروباری تنظیموں نے پہلے بھی حکومت کو پیش کی تھیں۔انہوں نے کہا کہ جب تک کپیسٹی چارجز اور غیر ضروری معاہداتی بوجھ ختم نہیں کیے جاتے، بجلی سستی نہیں ہو سکتی۔ اس صورتحال میں پاکستان میں کاروبار چلانا دن بدن ناممکن ہوتا جا رہا ہے، لہٰذا حکومت کو ترجیحی بنیادوں پر صنعتی شعبے کے لیے ریلیف فراہم کرنا چاہیے تاکہ روزگار کے مواقع برقرار رہیں اور چھوٹی و درمیانی صنعتیں بند ہونے سے بچ سکیں۔صدر حیدرآباد چیمبر نے مزید کہا کہ حکومت اگر صنعتی علاقوں میں (جہاں بجلی چوری کا تناسب انتہائی کم ہے) سب سے پہلے رعایتی نرخوں کا نفاذ کرے، تو یہ زیادہ مؤثر ثابت ہوگا۔ اس سے نہ صرف بجلی کی طلب بڑھے گی بلکہ وہ صارفین جو متبادل ذرائعِ توانائی کی طرف جا رہے ہیں، دوبارہ قومی گرڈ سے منسلک ہو جائیں گے۔ اس طرح حکومت کا ریونیو بھی بڑھے گا اور اضافی 7000 میگاواٹ پیداواری گنجائش کو بہتر طریقے سے استعمال میں لایا جا سکے گا۔انہوں نے باورکروایا کہ اگر بجلی اور گیس کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی نہ کی گئی تو کاروباری طبقہ مجبورا سستے متبادل توانائی ذرائع کی طرف منتقل ہوتا جائے گا، جس سے حکومت کے لیے کپیسٹی چارجز کا بوجھ مزید بڑھ جائے گا۔ یہ ضروری ہے کہ حکومت ان پالیسیوں پر عمل کرے جو ماضی میں کیے گئے غیر متوازن معاہدوں کی اصلاح کی طرف جائیں تاکہ توانائی کا شعبہ ایک پائیدار صنعتی ماڈل میں تبدیل ہو سکے۔انہوں نے وزیرِاعظم پاکستان، وفاقی وزیرِتوانائی اور اقتصادی ٹیم کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کا یہ اقدام یقیناً ایک مثبت آغاز ہے۔