UrduPoint:
2025-09-18@14:17:21 GMT

اسرائیل نے اونراسے تعلقات منقطع کر لیے

اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT

اسرائیل نے اونراسے تعلقات منقطع کر لیے

تل ابیب (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 31 جنوری2025ء)اسرائیل فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوامِ متحدہ کی ایجنسی سے تعلقات منقطع کر دے گا جس سے غزہ میں 15 ماہ کی جنگ کے بعد اس کی اہم خدمات کی فراہمی میں تعطل پیدا ہونے کا امکان ہے۔انروا کے اسرائیلی سرزمین پر کام کرنے پر پابندی ہو گی اور اس کے اور اسرائیلی حکام کے درمیان رابطہ بھی ممنوع ہو گا۔

غیرملکی خبرساں ادارے کے مطابق اسرائیلی وزارتِ خارجہ کے ترجمان اورین مارمورسٹین نے پابندی سے قبل سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا، انسانی امداد انروا کے اور انروا انسانی امداد کے برابر نہیں ہے۔ انروا حماس کی دہشت گردانہ سرگرمیوں سے متاثرہ تنظیم کے برابر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 30 جنوری سے اور اسرائیلی قانون کے مطابق اسرائیل کا انروا سے کوئی رابطہ نہیں ہو گا۔

(جاری ہے)

حکومت کے ترجمان ڈیوڈ مینسر نے صحافیوں کو بتایاکہ انروا میں حماس کے کارکنان سرایت کر گئے ہیں۔ اور مزید کہا، اگر کوئی ریاست انروا کی اعانت کرتی ہے تو وہ دہشت گردوں کی مالی معاونت کرتی ہے۔مینسر نے کہا، انروا نے حماس کے 1,200 ارکان کو ملازم رکھا ہوا ہے جن میں دہشت گرد بھی شامل ہیں جنہوں نے سات اکتوبر کو قتل عام کیا۔ یہ امداد نہیں، یہ دہشت گردی کے لیے براہِ راست مالی مدد ہے۔

اسرائیل کی سپریم کورٹ نے فلسطینی انسانی حقوق کی تنظیم عدالہ کی جانب سے انروا پر پابندی کے خلاف دائر درخواست مسترد کر دی۔عدالت نے نوٹ کیا کہ یہ قانون انروا کی سرگرمی کو صرف اسرائیل کی خودمختار سرزمین پر روکتا ہی لیکن یہودیہ سامریہ اور غزہ کی پٹی کے علاقوں میں اس طرح کی سرگرمی پر پابندی نہیں لگاتا۔ مغربی کنارے کا بائبل میں نام یہودیہ سامریہ ہے۔تاہم پابندی کا اطلاق اسرائیل سے منسلک مشرقی یروشلم پر ہوتا ہے جہاں انروا کا مغربی کنارے میں کارروائیوں کے لیے فیلڈ ہیڈ کوارٹر ہے۔فیصلے پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے ایک بیان میں عدالت نے کہا، یہ قانون تباہ کن انسانی نتائج کو نظر انداز کرتے ہوئی نافذ العمل ہو گا۔.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے

پڑھیں:

فلسطینیوں کی نسل کشی اور جبری بیدخلی

اسرائیلی جنگی جنون ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے، اسرائیلی فوج غزہ پٹی کے سب سے گنجان آباد شہر غزہ سٹی میں داخل ہوگئی ہے، 40 فیصد شہریوں کو جنوب کی طرف دھکیل دیا گیا، رات بھر تباہی، بمباری اور گولہ باری میں مزید 90 فلسطینی شہید اور سیکڑوں زخمی ہوگئے ہیں۔

 غزہ پر اسرائیلی جارحیت شدت اختیار کر گئی ہے۔ قابض اسرائیل کی جانب سے امریکا کی کھلی حمایت کے ساتھ غزہ میں جو جنگی جنون مسلط کیا گیا ہے، وہ اب محض ایک علاقائی تنازعہ نہیں رہا، بلکہ مکمل طور پر ایک منظم نسل کشی کی صورت اختیار کرچکا ہے۔

یہ نسل کشی صرف توپ و تفنگ، میزائل اور بمباری تک محدود نہیں، بلکہ اس کا دائرہ روزمرہ زندگی کی ہر بنیاد کو ختم کرنے تک پھیل چکا ہے۔ شہری آبادی، اسپتال، اسکول، پناہ گاہیں، پانی کے ذخائر، بجلی کی لائنیں، خوراک کے مراکز اور مواصلاتی نظام سب کچھ اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بن چکے ہیں۔

بین الاقوامی برادری بارہا اپیلیں کر چکی ہے، عالمی عدالت انصاف واضح احکامات جاری کر چکی ہے، انسانی حقوق کی تنظیمیں مسلسل خبردار کر رہی ہیں، لیکن سب کچھ ایک ایسی دیوار سے ٹکرا رہا ہے جو طاقت، ہٹ دھرمی اور مفادات سے بنی ہوئی ہے۔

غزہ جو پہلے ہی دنیا کا سب سے بڑا کھلا قید خانہ تصور کیا جاتا تھا، اب ایک کھلا قبرستان بنتا جا رہا ہے۔ ہزاروں فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی ہے۔

لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں، جنھیں زبردستی جنوبی علاقوں میں دھکیل دیا گیا ہے جہاں پہلے سے وسائل کی شدید قلت ہے۔ اسرائیلی فوجی آپریشن اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ اب غزہ شہر جیسے مرکزی علاقے بھی مکمل طور پر کھنڈر بن چکے ہیں۔

 یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اسرائیل فلسطینی قوم کو اجتماعی سزا دینے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے ، اس مقصد کے حصول کے لیے ریاستی طاقت کو نہایت منظم طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایسا نہیں کہ دنیا کو ان جرائم کا علم نہیں۔

اقوام متحدہ کے مختلف ادارے، خود بین الاقوامی میڈیا، غیر جانبدار انسانی حقوق کی تنظیمیں اور حال ہی میں اقوام متحدہ کے آزاد تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ نے واضح طور پر ان اقدامات کو نسل کشی قرار دیا ہے۔

پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان تمام شواہد کے باوجود اسرائیل کو روکنے والا کون ہے؟ کیا عالمی قانون صرف کمزور ممالک پر لاگو ہوتا ہے؟ کیا انسانی حقوق صرف یورپ یا امریکا کے شہریوں کے لیے مخصوص ہیں؟

امریکا، جو اسرائیل کا سب سے بڑا اتحادی ہے، نہ صرف فوجی اور مالی معاونت فراہم کر رہا ہے بلکہ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف پیش کی جانے والی تمام قراردادوں کو ویٹو بھی کرتا رہا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ اور دیگر معتبر اداروں کی رپورٹس کے مطابق امریکا کی یہ شراکت محض حمایت تک محدود نہیں رہی بلکہ یہ ممکنہ طور پر اسرائیل کے جنگی جرائم میں معاونت کے زمرے میں آتی ہے۔

امریکا کا دہرا معیار عالمی انصاف کے لیے ایک امتحان بن چکا ہے، اگر روس کی جانب سے یوکرین میں کی گئی فوجی کارروائی کو عالمی قانون کی خلاف ورزی کہا جا سکتا ہے، تو اسرائیل کے اقدامات کو اس سے بری الذمہ کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ یہ دوعملی عالمی امن کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہی ہے۔

 جرمنی، فرانس، برطانیہ جیسے ممالک نے ایک جانب یوکرین کے لیے ہمدردی کے سمندر بہائے، مگر فلسطین کی بربادی پر ان کی زبانیں گنگ ہیں۔ یہی دہرا معیار دنیا کو یہ سبق دے رہا ہے کہ انسانی اقدار بھی مفادات کے تابع ہو چکی ہیں۔

غزہ کے بچوں کی زندگیاں، ان کے مستقبل، ان کے خواب اور ان کی امیدیں عالمی سیاست کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ ادھر مسلم دنیا کی حالت یہ ہے کہ محض مذمتی بیانات اور دعاؤں تک محدود ہو گئی ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم ہو یا عرب لیگ، ان کے اجلاسوں سے نہ مظلوم کی مدد ہوئی ہے اور نہ ہی ظالم کی جارحیت میں کوئی کمی آئی ہے۔

فلسطینی عوام کی مزاحمت کو اکثر عالمی میڈیا ’’ دہشت گردی‘‘ کے زمرے میں رکھ کر پیش کرتا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق کسی بھی مقبوضہ قوم کو مزاحمت کا حق حاصل ہے۔ فلسطینی اپنی بقا کے لیے لڑ رہے ہیں، وہ دہشت گرد نہیں بلکہ حریت پسند ہیں۔ ان کی جدوجہد کو تسلیم کیے بغیر نہ کوئی مذاکرات کامیاب ہوں گے، نہ کوئی قیام امن ممکن ہوگا۔

 مغربی میڈیا اکثر اسرائیلی بیانیے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے جب کہ فلسطینی عوام کی حالت زار کو یا تو نظر انداز کرتا ہے یا غیر واضح انداز میں پیش کرتا ہے۔ صحافیوں کی شہادتیں، میڈیا دفاتر پر بمباری، معلومات کی ترسیل پر قدغن، یہ سب اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ سچ دنیا تک نہ پہنچ سکے۔

یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا اور غیر سرکاری صحافتی ذرایع ہی آجکل حقیقی تصاویر اور وڈیوز دنیا کے سامنے لا رہے ہیں۔

بین الاقوامی عدالت انصاف نے جنوری میں واضح ہدایات دی تھیں کہ اسرائیل فوری طور پر ایسے تمام اقدامات بند کرے جن سے فلسطینی عوام کو نسل کشی کا خطرہ لاحق ہو اور یہ کہ غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے، مگر ان احکامات پر نہ کوئی عملدرآمد ہوا، نہ ہی عالمی برادری کی جانب سے اسرائیل پر کوئی مؤثر دباؤ ڈالا گیا، اگر عدالتِ انصاف کے فیصلے بھی طاقتور ممالک کے مفادات کے تابع ہو جائیں تو پھر عالمی قانون اور انصاف کا وجود بے معنی ہو جاتا ہے۔

پاکستان نے ہمیشہ فلسطینی عوام کی حمایت کی ہے اور یہ ایک مثبت امر ہے، لیکن موجودہ حالات میں محض بیانات کافی نہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ اقوام متحدہ میں ایک فعال اور قائدانہ کردار ادا کرے، اسلامی ممالک کو ایک لائحہ عمل پر متفق کرے، انسانی امداد فراہم کرے، اور عالمی عدالت میں اسرائیلی جرائم کے ثبوت پیش کرے۔ یہ صرف ایک سفارتی ضرورت نہیں بلکہ ایک اخلاقی فریضہ ہے۔

 سات اکتوبر 2023سے قابض اسرائیل نے امریکا کی حمایت سے غزہ میں کھلی نسل کشی مسلط کر رکھی ہے جس میں قتل عام، قحط، تباہی اور جبری بے دخلی شامل ہیں۔ یہ سب کچھ عالمی برادری کی اپیلوں اور عالمی عدالت انصاف کے احکامات کو نظرانداز کرتے ہوئے کیا جا رہا ہے۔

یونیسف نے انتباہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ کے لاکھوں بچے شدید صدموں کا شکار ہیں،غزہ میں بچوں کے درمیان ’دماغی جھلی کے خطرناک انفیکشن‘ کے بڑھتے ہوئے کیسز ایک نئی اور ہولناک انسانی تباہی کا پیش خیمہ ہیں۔ اس بیماری میں مبتلا سیکڑوں بچوں کی تصدیق ہو چکی ہے۔

دراصل قابض اسرائیلی کی مسلط کردہ جنگ اور محاصرے کے نتیجے میں غزہ کی صحت کی سہولیات تباہ ہو چکی ہیں۔ بچوں کے دودھ کی مسلسل قلت، شدید غذائی قلت اور قحط کے عالم میں بچوں کی کمزور ہوتی حالت نے صورتحال کو نہایت خوفناک بنا دیا ہے۔

بنجمن نیتن یاہو کی قیادت میں قابض اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ کی آبادی کو جان بوجھ کر بھوکا رکھنا اور ان کی بنیادی زندگی کی سہولتوں کو نشانہ بنانا کھلی درندگی کا ثبوت ہے۔ یہ انسانی المیہ دنیا کی بدترین تباہ کاریوں میں شمار ہونے لگا ہے اور اب اس کے سب سے کمزور اور معصوم شکار، یعنی بچے موت کے دہانے پر کھڑے ہیں۔

اسرائیل نے مشرق وسطیٰ کے ممالک لبنان، شام، یمن اور ایران پر بمباری کی ہے، اور امریکی غیر سرکاری تنظیم کے مطابق اسرائیل نے غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں سب سے زیادہ بیس ہزار سے زائد حملے کیے۔

فلسطین کا مسئلہ محض ایک سیاسی تنازعہ نہیں بلکہ انسانیت، انصاف اور ضمیر کا مسئلہ ہے۔ آج غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ تاریخ کے سیاہ ترین ابواب میں لکھا جائے گا، اور کل ہماری نسلیں ہم سے سوال کریں گی کہ جب معصوم بچوں کو بموں سے اڑایا جا رہا تھا، جب مائیں اپنے بچوں کی لاشیں اٹھائے رو رہی تھیں، جب انسانی زندگیاں ملبے کے نیچے دم توڑ رہی تھیں، تو تم کیا کر رہے تھے؟ کیا تم خاموش تماشائی بنے رہے؟ یا تم نے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی؟

 اگر اقوام عالم خاموش رہیں تو کل نہ صرف فلسطینی عوام مکمل طور پر تباہ ہو جائیں گے، بلکہ عالمی انصاف، انسانی ہمدردی اور اخلاقی سچائی کے تمام دعوے جھوٹ ثابت ہو جائیں گے۔ فلسطین کی پکار صرف ایک قوم کی نہیں، پوری انسانیت کی پکار ہے۔ اور جو اس پکار پر لبیک نہیں کہے گا، وہ تاریخ کے کٹہرے میں کھڑا ہوگا، اقوام متحدہ، عالمی عدالت، انسانی حقوق کی تنظیمیں، آزاد میڈیا اور سب سے بڑھ کر عام عوام، سب کو متحد ہو کر اس ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • یورپی یونین کی اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات محدود کرنے اور وزرا پر پابندیوں کی تجویز
  • فلسطینیوں کی نسل کشی اور جبری بیدخلی
  • رکن ممالک اسرائیل کیساتھ تجارت معطل اور صیہونی وزرا پر پابندی عائد کریں، یورپی کمیشن
  • رکن ممالک اسرائیلی کیساتھ تجارت معطل اور صیہونی وزراء پر پابندی عائد کریں،یورپی کمیشن
  • رکن ممالک اسرائیلی کیساتھ تجارت معطل اور صیہونی وزرا پر پابندی عائد کریں؛ یورپی کمیشن
  • اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا قطر حملے پر اسرائیل کے احتساب کا مطالبہ
  • پنجاب اسمبلی میں فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی اور اسرائیلی دہشت گردی کیخلاف قرارداد منظور
  • ’دہشت گردوں کو پناہ دینے والے ممالک کی کوئی خودمختاری نہیں‘ نیتن یاہو کی پاکستان اور افغانستان پر تنقید
  • دوحا پر اسرائیلی حملہ: پاکستان اور کویت کی  درخواست پر سلامتی کونسل کا غیر معمولی اجلاس آج
  • دوحہ، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور ایران کے صدر مسعود پزشکیان کی ملاقات