سندھ ہائی کورٹ کا ججز اور عدالتی عملے کے لیے سوشل میڈیا ضابطہ اخلاق جاری
اشاعت کی تاریخ: 9th, September 2025 GMT
سندھ ہائیکورٹ نے ضلعی عدالتوں کے ججز اور عملے کے لیے سوشل میڈیا کے استعمال سے متعلق ضابطہ اخلاق جاری کردیا ہے۔
اس ضمن میں رکن انسپکشن ٹیم نے ضلعی ججز اور عملے کو مراسلہ بھیج دیا۔
مراسلے کے مطابق چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے ضابطوں کی خلاف ورزی پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ جوڈیشل افسران اور عملہ سوشل میڈیا کے استعمال میں نظم، وقار اور احتیاط کو لازماً مدنظر رکھیں۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ ہائیکورٹ میں بجلی کے بڑے بریک ڈاؤن کا معاملہ، کے الیکٹرک حکام پیش
ہدایت میں کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر ایسی کوئی سرگرمی نہ کی جائے جو عدلیہ کی ساکھ کو متاثر کرے۔
جوڈیشل افسران اور عملہ عدالتی کارروائی یا دستاویزات شیئر نہ کریں اور بغیر اجازت خفیہ معلومات افشا کرنے سے گریز کریں، کیونکہ یہ سندھ سول سرونٹس رولز کی خلاف ورزی ہے۔
مراسلے میں مزید کہا گیا ہے کہ زیر التوا یا نمٹائے گئے مقدمات اور پالیسی معاملات پر پوسٹس یا تبصرہ کرنے سے اجتناب کیا جائے، جوڈیشل افسران اور عملہ سیاسی، فرقہ وارانہ یا قابل اعتراض مواد پھیلانے سے پرہیز کریں۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے سابق جج کے خلاف سندھ ہائیکورٹ کے ریمارکس کیوں حذف کیے؟
’توہین آمیز یا ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچانے والا مواد شائع کرنے پر انضباطی کارروائی کی جائے گی، اسی طرح عدالتی عہدے کو ذاتی تشہیر یا کاروباری مقاصد کے لیے استعمال کرنے پر بھی پابندی ہوگی۔‘
مراسلے کے مطابق جوڈیشل افسران اور عملہ سوشل میڈیا پر نئے رابطے بناتے وقت احتیاط سے کام لیں تاکہ مفادات کے ٹکراؤ سے بچا جا سکے۔
’ضلعی ججز پر لازم ہے کہ وہ اپنے ماتحت عملے کی جانب سے ایس او پیز پر مکمل عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایس او پیز جوڈیشل ذاتی تشہیر سندھ ہائیکورٹ سوشل میڈیا ضابطہ اخلاق ضلعی ججز ضلعی عدالتوں عدلیہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایس او پیز جوڈیشل ذاتی تشہیر سندھ ہائیکورٹ سوشل میڈیا ضابطہ اخلاق ضلعی عدالتوں عدلیہ سندھ ہائیکورٹ سوشل میڈیا کے لیے
پڑھیں:
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹیلی کام کمپنیوں کی کمپٹیشن کمیشن کے خلاف درخواستیں مسترد کردیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: ہائی کورٹ نے ٹیلی کام کمپنیوں کی جانب سے کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان کے خلاف دائر درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ کمیشن کو معیشت کے تمام شعبوں میں انکوائری اور کارروائی کا مکمل اختیار حاصل ہے۔
عدالت کے فیصلے نے ٹیلی کام انڈسٹری کے اس طویل مقدمے کا اختتام کر دیا جو گزشتہ ایک دہائی سے زیرِ سماعت تھا۔
تفصیلات کے مطابق جاز، ٹیلی نار، زونگ، یوفون، وارد، پی ٹی سی ایل اور وائی ٹرائب سمیت 7 بڑی کمپنیوں نے کمپٹیشن کمیشن کے اختیارات کو چیلنج کرتے ہوئے عدالت سے رجوع کیا تھا۔ کمپنیوں کا مؤقف تھا کہ ٹیلی کام سیکٹر پہلے ہی پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (PTA) کے ضابطوں کے تحت کام کرتا ہے، اس لیے کمپٹیشن کمیشن کو مداخلت کا اختیار حاصل نہیں۔
عدالت نے واضح فیصلے میں کہا کہ کمپٹیشن کمیشن کا دائرہ کار معیشت کے تمام شعبوں پر محیط ہے، بشمول ٹیلی کام سیکٹر کے۔ عدالت نے کہا کہ کسی بھی ریگولیٹری ادارے کی موجودگی کمیشن کے اختیارات کو محدود نہیں کرتی، بلکہ قانون کے مطابق کمیشن کو مارکیٹ میں شفاف مقابلے، منصفانہ پالیسیوں اور صارفین کے مفادات کے تحفظ کے لیے کارروائی کا مکمل حق حاصل ہے۔
یہ مقدمہ اس وقت شروع ہوا تھا جب کمپٹیشن کمیشن نے مختلف ٹیلی کام کمپنیوں کو گمراہ کن مارکیٹنگ کے الزام میں شوکاز نوٹسز جاری کیے تھے۔ ان نوٹسز میں کمپنیوں سے وضاحت طلب کی گئی تھی کہ وہ ’’ان لِمٹڈ انٹرنیٹ‘‘ جیسے دعووں کے باوجود صارفین کو محدود سروس فراہم کیوں کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ پری پیڈ کارڈز پر ’’سروس مینٹیننس فیس‘‘ کے اضافی چارجز کو بھی غیر منصفانہ قرار دیا گیا تھا۔
ٹیلی کام کمپنیوں نے 2014ء میں ان شوکاز نوٹسز پر اسٹے آرڈر حاصل کر رکھا تھا، جس کے باعث کئی سال تک کمیشن کی کارروائی معطل رہی، تاہم اب عدالت نے یہ واضح کرتے ہوئے کہ کمپٹیشن کمیشن کو تمام اقتصادی شعبوں میں انکوائری کا اختیار حاصل ہے، ساتوں منسلک درخواستیں ناقابلِ سماعت قرار دے کر خارج کر دی ہیں۔