ایک 100 میٹر وسیع سیارچے کے زمین سے ٹکرانے کا قریب مستقبل میں امکان
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
ایک 100 میٹر وسیع سیارچے نے عالمی خلائی دفاعی نظام کو فعال کر دیا ہے۔
اس سیارچے کے 2032 میں زمین سے ٹکرانے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے، جس کے بعد دنیا بھر کے سائنسدانوں نے اس پر گہری نظر رکھنا شروع کر دی ہے۔
اس سیارچے کو پہلی بار دسمبر 2024 میں چلی کی ایک ٹیلی اسکوپ نے دریافت کیا تھا، لیکن اب امریکی اور یورپی خلائی ایجنسیاں اس کو زمین کے لیے ممکنہ خطرہ قرار دے چکی ہیں۔ ابتدائی تجزیوں کے مطابق اس بات کا صرف 1.                
      
				
ایڈنبرا یونیورسٹی کے ماہر فلکیات، پروفیسر کولن سنوڈگراس نے اس بارے میں بیان دیا کہ زیادہ امکان ہے کہ یہ سیارچہ زمین کو نقصان پہنچائے بغیر گزر جائے گا، مگر پھر بھی اس کے راستے کی درست پیش گوئی کے لیے اس پر نظر رکھنا ضروری ہے۔
یہ سیارچہ زمین کے لیے خطرے کی فہرست میں کیٹیگری 3 میں شامل کیا گیا ہے کیونکہ اس کے ٹکرانے کا امکان ایک فیصد یا اس سے زیادہ ہے۔ اس فہرست میں 0 سے لے کر 10 تک کیٹیگریز شامل ہیں، جس میں 10 سب سے زیادہ خطرناک سیارچوں کے لیے مختص ہے۔ اب تک کسی بھی سیارچے کو کیٹیگری 10 میں نہیں رکھا گیا، تاہم ایک مرتبہ سیارچہ Apophis کو کیٹیگری 4 میں شامل کیا گیا تھا، جو 2004 میں عالمی سطح پر خبروں کا حصہ بنا تھا۔
ماہرین کے مطابق، ایسٹرائیڈ 2024 وائے آر 4 کا حجم اتنا بڑا نہیں کہ یہ زمین کو مکمل طور پر تباہ کر سکے، مگر اس سے کسی شہر پر تباہی کا شدید امکان موجود ہے۔ اس خطرے کے پیش نظر، اقوام متحدہ نے اپنے دو عالمی ایسٹرائیڈ ریسپانس گروپوں کو متحرک کر دیا ہے تاکہ کسی بھی ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے لیے تیاریوں کو یقینی بنایا جا سکے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
مقبوضہ کشمیر میں میڈیا کے خلاف مودی حکومت کی کارروائیوں سے نوجوان صحافیوں کا مستقبل دائو پر لگ گیا
ذرائع کے مطابق مقبوضہ علاقے میں صحافت کا منظرنامہ ڈرامائی طور پر تبدیل ہو چکا ہے، نیوز رومز خالی ہو چکے ہیں اور رپورٹرز کے لیے مستقبل کے راستے تقریبا بند ہو گئے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں نوجوان صحافیوں کو شدید بحران کا سامنا ہے جو حکومتی دبائو کے باعث بڑھتی ہوئی بیروزگاری کا شکار ہیں اور اس سے علاقے کی ایک وقت کی متحرک پریس بالکل خاموش ہو گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق مقبوضہ علاقے میں صحافت کا منظرنامہ ڈرامائی طور پر تبدیل ہو چکا ہے، نیوز رومز خالی ہو چکے ہیں اور رپورٹرز کے لیے مستقبل کے راستے تقریبا بند ہو گئے ہیں۔ نئے آنے والے نوجوانوں کو بہت سے تلخ حقائق کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں قابل عمل اور آزاد روزگار کے پلیٹ فارمز کا فقدان شامل ہے، نگرانی کا ماحول، صحافیوں پر کالے قوانین کو لاگو کرنا اور پریس کی آزادی میں کمی ایک معمول بن چکا ہے۔ بحران اتنا سنگین ہے کہ نئے طلباء اس پیشے سے وابستہ ہونے سے کتراتے ہیں۔ یونیورسٹیوں کا کہنا ہے کہ صحافت کے شعبہ جات میں اندراج کی شرح خطرناک حد تک کم ہوئی ہے، صرف 25 سے 30 طلباء سالانہ اپنی ڈگریاں مکمل کر پاتے ہیں۔ وہ انتہائی محدود پیشہ ورانہ مواقع، شدید دبائو کے باعث شعبے کے گرتے ہوئے وقار اور فائدے سے زیادہ بڑھتی ہوئی تعلیمی لاگت کو اس کمی کی بنیادی وجوہات قرار دے رہی ہیں۔