صحافیوں کو اعتماد میں نہ لینا کوتاہی، متنازع پیکا ایکٹ میں ترامیم کی جا سکتی ہیں، عرفان صدیقی
اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT
صحافیوں کو اعتماد میں نہ لینا کوتاہی، متنازع پیکا ایکٹ میں ترامیم کی جا سکتی ہیں، عرفان صدیقی WhatsAppFacebookTwitter 0 1 February, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(سب نیوز )حکومتی رہنما سینیٹر عرفان صدیی نے متنازع پیکا ایکٹ کو صحافیوں کو اعتماد میں لیے بغیر پاس کرنا ایک کوتاہی قرار دیتے ہوئے اس پر مذاکرات کرنے اور ترامیم کرنے کا عندیہ دے دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ جب آئین میں 26 ویں آئینی ترمیم ہو سکتی ہے تو پیکا ایکٹ بھی کوئی آسمانی صحیفہ نہیں ہے۔ایک نجی ٹی وی انٹرویو میں عرفان صدیقی نے کہا کہ پیکا ایکٹ میں ترمیم کی گنجائش موجود ہے، وزیراعظم سے بات کی ہے اسے درست کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ پیکا قانون وزارت داخلہ کے حصے میں کیسے آیا؟، میں اس سارے عمل سے باہر رہا ہوں، میں جس مقام پر اس میں سامنے آیا اس وقت تک یہ قانون اسمبلی سے بھی پاس ہو چکا تھا۔عرفان صدیقی نے کہا کہ اس قانون کے حوالے سے پارٹی لائن سے ہٹ کر میری دوٹوک رائے ہے کہ صحافتی برادری کو اعتماد میں لیا جانا چاہیے تھا، اس کے لیے صحافتی تنظیموں کی رائے لینا بھی ضروری تھی اور ان سے اس ایکٹ کے فوائد اور نقصانات پر بھی بات کی جانی چاہیے تھی۔
انہوں نے کہا کہ میری دوٹوک رائے ہے کہ جہاں جہاں صحافتی برادری اس قانون سے متاثر ہو رہی تھی وہاں وہاں ان سے رائے لینا اور اس کے اغراض و مقاصد کے بارے آگاہ کرنا بہت ضروری تھا، اس پر صحافیوں کے تحفظات جائز ہیں۔عرفان صدیقی نے کہا کہ وہ اس قانون کی روح کے خلاف قطعا نہیں ہیں، یہ قانون قطعا صحافیوں کے خلاف نہیں ہے نہ ہی صحافی اس کی زد میں آ رہے ہیں۔ جو لوگ صاف ستھری صحافت کرتے ہیں، جو ہر لفظ سوچ سمجھ کر بولتے ہیں، یوں اگر کسی کو پکڑنا ہو تو وہ کرایہ داری قانون میں بھی پکڑا جا سکتا ہے، مجھے خود کرایہ داری قانون کے تحت ہتھکڑی لگا دی گئی تھی۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ جب نیتیں خراب ہوتی ہیں تو کسی قانون کی ضرورت نہیں ہوتی، صحافیوں کو اعتماد میں نہ لینے ایک کوتاہی ہے جس کی میں پہلے ہی نشاندہی کر چکا ہوں کہ صحافیوں کو ہر حال میں اعتماد میں لیا جانا چاہیے تھا۔واضح رہے کہ قومی اسمبلی کے بعد پیکا ایکٹ ترمیمی بل اور ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل سینیٹ سے بھی منظور کردیے گئے ہیں۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے پیکا ایکٹ ترمیمی بل اور ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل سینیٹ میں پیش کیا جنہیں منظور کیا گیا تاہم اپوزیشن اراکین نے ان بلوں کی سخت مخالفت کی۔دونوں بلوں کی منظوری کے دوران اپوزیشن اراکین کی جانب سے ہنگامہ آرائی اور شور شرابہ کیا گیا جنہوں نے مطالبہ کیا کہ انہیں بل پر بات کرنے کی اجازت دی جائے۔ سینیٹر علی ظفر نے اعتراض اٹھایا کہ آپ اپوزیشن کو اہمیت نہیں دیتے اور بل پر ہمیں بات کرنے نہیں دی۔
ادھر متنازع پیکا قانون کے خلاف صحافی برادری نے ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کرتے ہوئے قانون واپس لینے کا مطالبہ کیا ہیوفاقی دارالحکومت اسلام آباد، لاہور، کراچی سمیت دیگر شہروں میں صحافیوں نے احتجاج کیا، اور پریس کلبوں پر سیاہ پرچم لہرائے گئے۔ صحافیوں نے اپنے بازوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر فرائض انجام دیے۔پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر افضل بٹ نے اسلام آباد میں احتجاج کرنے والے صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم کسی صورت آزادی صحافت پر سمجھوتا نہیں کریں گے۔
لاہور پریس کلب کے صدر ارشد انصاری نے کہاکہ کالے قانون کے خلاف احتجاج کیا جائیگا، اور ہم سرکاری تقریبات کا بائیکاٹ کریں گے۔واضح رہے کہ صدر مملکت آصف زرداری کے دستخط کے بعد پیکا ایکٹ قانون بن گیا ہے، آصف زرداری نے صحافیوں سے گزارشات سننے کا وعدہ کیا تھا لیکن اس سے قبل ہی دستخط کردیے۔ دوسری جانب مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما عرفان صدیقی نے کہا تھا کہ پیکا ایکٹ میں مزید ترامیم بھی ہو جائیں گی، یہ کوئی صحیفہ نہیں، صحافی اپنی ٹھوس تجاویز لے کر آئیں۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: صحافیوں کو اعتماد میں عرفان صدیقی نے کہا کہ پیکا ایکٹ میں متنازع پیکا قانون کے کے خلاف
پڑھیں:
کم عمری کی شادی کے خلاف بل اور علماء کے ماتھے کے بل
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 جون 2025ء) کم عمری کی شادی کے خلاف یہ بل ابھی صرف شہر اقتدار میں ہی قانون بن کر لاگو ہو گا لیکن کم از کم بچیوں کے حقوق کے تحفظ کی شروعات تو ہوئیں۔ اس بل کے تحت اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کی شادی نہ صرف غیر قانونی بلکہ قابلِ سزا جرم قرار دی گئی ہے۔
نکاح خواں پر بھی فردِ جرم عائد ہو گی اور اگر بچی کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جا کر شادی کی گئی تو اسے اسمگلنگ کے زمرے میں لایا جائے گا۔
اس کے ساتھ ساتھ شادی سے قبل تھیلیسیمیا جیسے موروثی امراض کے خون کے ٹیسٹ بھی لازمی قرار دیے گئے ہیں۔ ان تمام اقدامات کا مقصد صرف یہ ہے کہ بچیوں کو بہتر زندگی، صحت مند جسم اور تعلیم کے مساوی مواقع دیے جائیں۔ یہ بل صدر پاکستان کے دستخط کے بعد اب قانون کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔(جاری ہے)
لیکن مقام حیرت سمجھیے یا افسوس کہ اس سادہ سی بات پر بھی پاکستان میں ایک بھاری بحث کھڑی ہوئی۔
ایک طرف وہ لوگ ہیں جو اس قانون کو انسانیت اور بچوں کے تحفظ کے حق میں ایک تاریخی قدم سمجھتے ہیں اور دوسری طرف مذہبی جماعتیں اور کچھ علماء، جو اس کی شدید مخالفت کر رہے ہیں۔مولانا فضل الرحمان جیسے بڑے مذہبی رہنما نے نہ صرف اس قانون کو شریعت کے منافی قرار دیا بلکہ یہاں تک کہا کہ اسلام آباد میں 18 سال سے کم عمر بچوں کی شادی کے خلاف بل منظور نہیں کرنا چاہیے تھا۔
ان کا موقف ہے کہ بلوغت کے بعد نکاح کی اجازت شریعت میں موجود ہے، اس لیے ریاست کو عمر کی حد مقرر کرنے کا اختیار نہیں۔ ان کے بقول اس طرح کی قانون سازی قومی یکجہتی کو نقصان پہنچاتی ہے، گویا بچوں کے تحفظ کا قانون کوئی سازشی ایجنڈا ہو۔اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی اپنے اجلاس میں اس بل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ کونسل نے نا صرف بل کی مختلف دفعات کو غیر اسلامی قرار دیا بلکہ اسے مکمل طور پر مسترد کر دیا۔
اس رویے سے یہ تاثر گہرا ہوتا جا رہا ہے کہ مذہبی ادارے کسی بھی ایسی قانونی تبدیلی کو جو بچیوں کے حق میں ہو، شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کی ترجیحات میں بچوں کا تحفظ نہیں، بلکہ صدیوں پرانی روایات کی غیر لچکدار تشریحات کو قائم رکھنا ہے۔پاکستان سے پہلے کئی مسلم ممالک جیسے تیونس، مصر اور مراکش نے شادی کی کم از کم عمر اٹھارہ سال مقرر کر رکھی ہے۔
ان ممالک نے یہ قدم اس لیے اٹھایا کیونکہ بچپن کی شادیوں کے سنگین جسمانی، ذہنی اور سماجی نقصانات عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہیں۔ پاکستان میں بھی اس حوالے سے قانونی بنیاد موجود ہے۔ 2023 میں وفاقی شرعی عدالت نے سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 2013 کے تحت دائر درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے واضح کیا تھا کہ شادی کی کم از کم عمر طے کرنا ریاست کی صوابدید ہے۔2023 کی یونیسف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریبا 18فیصد لڑکیاں 18 برس سے کم عمر میں بیاہ دی جاتی ہیں، جبکہ 4 فیصد لڑکیوں کی شادی 15 برس سے بھی کم عمر میں کر دی جاتی ہے۔ اگرچہ گزشتہ برسوں میں اس شرح میں معمولی کمی ہوئی ہے تاہم یہ مسئلہ اب بھی لاکھوں بچوں کو متاثر کر رہا ہے۔ یونیسف کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں تقریباً 12 ملین لڑکیوں کی شادی 18 برس سے پہلے کر دی جاتی ہے۔
اس قانون کی مخالفت کے خلاف انسانی حقوق کی تنظیمیں کھل کر سامنے آئی ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے مطابق مطابق بچپن کی شادی کے خلاف بل بچوں کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہے اور پارلیمنٹ سے منظور شدہ بل کو مذہب سے متصادم قرار دینا بچوں کے حقوق کی نفی ہے۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ اس قانون پر فوری عملدرآمد ضروری ہے تاکہ بچیوں کے استحصال کی روک تھام ہو سکے، اور ریاست اپنی آئینی و بین الاقوامی ذمہ داریاں پوری کرے۔
ایچ آر سی پی نے اسلامی نظریاتی کونسل کی بل میں رکاوٹ ڈالنے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یکطرفہ مذہبی تشریحات قانون سازی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننی چاہییں۔یہ بات افسوسناک ہے کہ جن لوگوں کو معاشرے میں روشنی پھیلانی چاہیے وہی اندھیرے پھیلانے میں مصروف ہیں۔ ان سے سوال ہے کہ کیا انہوں نے کبھی خواتین پر تشدد، تعلیم کی کمی، یا آبادی میں بے تحاشہ اضافے جیسے مسائل پر آواز بلند کی؟ کیا وہ کبھی سڑکوں پر نکلے کہ ایک بچی کو تعلیم اور زندگی جینے کا حق دیا جائے؟ نہیں، کیونکہ ان کے نزدیک صرف وہ قانون قابلِ اعتراض ہے جو عورت کو تحفظ دیتا ہے، اسے انسان سمجھتا ہے اور اس کے بچپن کو اس کے حال اور مستقبل سے جوڑتا ہے۔
یہ بل صرف ایک قانونی دستاویز نہیں، بلکہ پاکستان کی اجتماعی سوچ میں تبدیلی کی ایک بھی امید ہے۔ یہ پیغام ہے کہ ہم اپنے بچوں کو صرف سانس لینے کے لیے نہیں، جینے کے لیے پیدا کرتے ہیں۔ انہیں کم عمری میں شادی کے بندھن میں جکڑنا صرف ان کے جسم پر نہیں بلکہ ان کی روح پر بھی ظلم ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔