Express News:
2025-07-26@09:17:06 GMT

مذاکرات ایک ڈھکوسلا

اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT

حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذکرات تعطل کا شکار ہیں۔ ماضی میں ایسے سیاسی مذاکرات کی مثالیں موجود ہیں جب 1977 کے انتخابات میں ذوالفقارعلی بھٹو دو تہائی اکثریت سے جیتے تھے، مذاکرات کی ٹیبل پر آئے،دوبارہ انتخابات پر بھی رضامند ہوئے۔

1977 کے انتخابات میں دھاندلی کا بیانیہ مان بھی لیا جائے ، تب بھی پی این اے کے لوگ یہ مانتے تھے کہ پھر بھی پیپلزپارٹی کی سادہ اکثریت بنتی تھی۔ذوالفقار علی بھٹو امریکا کی آنکھ میں کنکر کی طرح چبھ رہے تھے کیونکہ انھوں نے اس ملک کو ایٹمی پروگرام دیا اور بھٹو صاحب کو یہ غلط فہمی ہو گئی تھی کہ وہ ایک مقبول لیڈر بن چکے ہیں اور یہ حقیقت اب امریکا کو ماننا پڑے گی۔

ان کی حکمت ِ عملی یہ تھی کہ وہ آہستہ و بتدریج غیر وابستہ ممالک کی صف میں کھڑے ہو جائیں۔ چین کے ساتھ قربتوں کی بنیادذوالفقارعلی بھٹو نے ڈالی۔بھٹو صاحب کے جو مذاکرات حزبِ اختلاف یعنی قومی اتحاد کے ساتھ چل رہے تھے، وہ ایک ڈھکوسلا تھا،وہ زمانہ سرد جنگ کا زمانہ تھا۔خود بھٹو صاحب ان تضادات کی پہچان رکھتے تھے۔1971 میں جن حالات کے پیش نظر وہ اقتدار میں آئے، وہ ایک الگ ماجرہ تھا لیکن آگے جاکر انھوں نے سب باتیں بھلادیں۔ وہ اس قدر پر اعتماد تھے کہ اقتدار کے آخری زمانوں میں بطور وزیر اعظم قومی اسمبلی کی ایک تقریر میں امریکا کو للکارا۔

ایسی ہی ایک تقریر راجا بازار ، راول پنڈی میں کی۔بلآخر پانچ جولائی کوذوالفقارعلی بھٹو کے اقتدار کا تختہ الٹنے کے لیے شب خون مارا گیا۔اس شب خون کے پیچھے اور کوئی نہیں امریکا ہی تھا۔
اب نہ ہی سرد جنگ کا زمانہ ہے نہ وہ حالات ہیں، نہ وہ زمانے ہیںجب امریکا کو ہماری اشدضرورت تھی۔اس وقت پاکستان تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان مذاکرات !عین انھیں زمانوں میں بانی پی ٹی آئی اپنی سیاسی جدوجہد کو زوروں پر لاتے ہیں، جب ہم چین سے روابط بہتر بناتے ہیں۔ خان صاحب کے بڑے بڑے جلسے شروع ہو جاتے ہیں، ڈی چوک پر دھرنا دیا جاتا ہے، جسٹس ثاقب نثار جوڈیشل ایکٹوزم کی تمام حدوں کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں، غرض یہ کہ بین الاقوامی تناظر میں ،چین سے روابط کی ہمیں وہ سزائیںدی گئیں کہ پاکستان کے وجود اور سالمیت کو خطرے میں ڈال دیا گیا۔

اس بحران سے نکلنا پاکستان کے لیے ایک معجزہ تھا بلکہ ریاست کے اندر ایک اور ریاست تھی۔نو مئی کے واقعے میں پس پردہ کون تھا، بہ ظاہر کون تھا؟ان حالات کا جائزہ لیتے لیتے26  نومبر 2024کا واقعہ پیش آیا جس میں ناکامی کے بعد مذاکرات کا سلسلہ چل پڑا، اس امید پر کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے صدر بننے والے ہیں اور ان کا ایک ہی ٹویٹ پاکستان پر بھاری پڑ جائے گا۔

مگر رچرڈ گرینل جو امریکا سے ٹرمپ حکومت کی نمایندگی کرتے ہوئے پاکستانی حکومت کے خلاف ٹویٹ پر ٹویٹ جاری کر رہے تھے، انھوں نے ایک تردیدی بیان جاری کردیا کہ پاکستانی حکومت کے خلاف انھوں نے جو بھی ٹویٹ کیے وہ پی ٹی آئی کے نمایندوں نے غلط بیانی کی بنیاد پر کروائے ہیں اور وہ پاکستان کے عدالتی نظام پر بھروسہ رکھتے ہیں، لہٰذا اب مذاکرات کی ٹیبل پر حکومت سنجیدہ نہ بھی ہو مگر پی ٹی آئی ضرور سنجیدہ نظر آئے گی۔

پروفیسر غفور یہ لکھتے ہیں جب بھٹو صاحب کے مذاکرات حزبِ اختلاف یعنی قومی اتحاد کے ساتھ کامیاب ہو چکے تھے تو شب خون مارنے کی کو ئی وجوہات نہ تھیں مگر شب خون مارا گیا،وہ مذاکرات دراصل ایک ڈھکوسلا تھے۔

جو شواہد اب بنے ہیں کہ قومی اتحاد کی تحریک کے پیچھے سی آئی اے تھی، بلکہ سی آئی اے کیوں اس کے پیچھے تو خود بھٹو تھے۔1971 کے سانحے کے بعد جو جمہوریت اس ملک کو ملی تھی اور جو آئین بھٹو صاحب نے دیا تھا ، ان اقدامات کے بعد تو ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا تھا اور بھٹو صاحب کا اتنا پر اعتماد ہونااس ملک کو مہنگا پڑ گیا۔

ہندوستان سے دشمنی ہماری نفسیات پر حاوی رہی اور ہم امریکا کی فرنٹ لائن اسٹیٹ بن گئے۔1971 کے سانحے کے پیچھے بھی امریکا کی حکمت عملی تھی کہ مشرقی پاکستان اتنا اہم نہیں اور یہ کہ شیخ مجیب سے بھٹو بہتر ہیں۔جب بھٹو صاحب ان کی دسترس سے باہر ہو ئے تو وہ اپنے مفاد کی خاطر ضیاء الحق کو لے کر آئے۔

شہنشاہ ایران اور اردن کے شاہ حسین امریکا کے اتحادی تھے، انھوں نے ایک انتہائی جونیئر جنرل ضیاء الحق کی سفارش کر کے ان کو بھٹو کے قریب کردیا۔بڑی مشکلات کے بعد جمہوریت اس ملک میں بحال ہوئی تھی۔بھٹو صاحب اگر نرگسیت پرست نہ ہوتے تو امریکا سے ٹکر لینے کی بات نہ کرتے اور یہاں جمہوریت مضبوط رہتی جو آج تک ہو نہ سکی۔

اس دفعہ ہم انٹرنیشنل گیم کا شکار ہوتے ہوتے بچ گئے،جو کام ہمارے بس کے نہیںان کے دعوے ہم کر نہیں سکتے۔یہ خود اعتمادی ہمارے پاس تب آئی جب امریکا نے سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں اپنے قدم جمانے کے لیے پاکستان کی سرزمین کا استعمال کیا۔یہ دور جنرل ضیا ء الحق کا دور تھا۔سوویت یونین کے اچانک ٹوٹنے کے بعد ان کی چھوڑی ہوئی طاقت ہمیں ایسے ہی کام آئی جیسا کہ اب افغانستان سے امریکا کے اخراج کے بعد ان کا چھوڑا ہوا اسلحہ طالبان پاکستان خلاف استعمال کر رہا ہے۔

1988میں جنرل ضیاء الحق کا انتقال C-130 کے حادثے میں ہوا۔صدر اسحاق خان نے نوے دن کے اندر انتخابات کرانے کا اعلان کیا مگر پورے دس سال تک 58(2)(b)کی تلوار ہم پر لٹکتی رہی۔بھٹو صاحب کو امریکا سے ٹکر نہیں لینی تھی۔یہ حالات اسی طرح زیادہ بگڑے،کیونکہ یہاں امریکا صرف سویلین سے بات کرے نہ کہ کسی اور سے۔ اور جب امریکا کیری لوگر بل لے کر آیا تو یہاں پر ہمارے دوستوں نے جمہوریت کے اندر جمہوریت پیدا کردی یعنی ہائبرڈ جمہوریت تاکہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔


مذاکرات اب کسی ڈھنگ سے کیے جائیں گے اور مذاکرات میں فریقین کے پاس ایک دوسرے کو دینے کے لیے کچھ نہیں۔پاکستان تحریکَ انصاف اب جارحانہ سیاست نہیں کرے گی اور جب یہ جماعت ایسا کر نہیں پائے تو ان کے کارکن جو ان سرگرمیوں کے عادی ہیںوہ ان کے گلے پڑیں گے۔اب چوکوں اور چھکوں کی سیاست نہیں چلے گی۔

اس بات کے ٹھوس حقائق تو نہیں مگر ٹرمپ کے زمانے میں امریکا اور پاکستان مخاصمانہ طرز نہیں اپنائیں گے۔پاکستان جس تیزی سے طالبان کے سامنے کھڑے ہونے کی جرات کررہا ہے اس رویے میں پاکستان کو امریکی انتظامیہ کے اندرکئی دوست و حامی ملیں گے۔امریکا اور چین کے درمیان تضادات کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔

یہ جنگ ٹریڈ وار کی شکل اختیار کرنے جا رہی ہے۔چین ٹیکنالوجی میں امریکا سے آگے نکل رہا ہے۔چین کے ان کارناموں سے امریکا بھی حیران ہے۔ان تضادات کا تدارک یہ ہے کہ ہمیں امریکا اور چین کے درمیان توازن قائم کرنا ہوگا۔ہمارا حدف اسوقت ہماری مضبوط معیشت ہے اوراس میں رکاوٹ ہے ہماری پسماندہ سوچ کی، سیاست جس میں بگاڑ پیدا کیا جنرل ضیا ء الحق نے۔اس بگاڑ کا خمیازہ ہم آج بھی بھگت رہے ہیں۔ اب اس سوچ اور اس سیاست سے ہمیں آزادی حاصل کرنا ہوگی۔ 
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: میں امریکا کے درمیان امریکا کی پی ٹی ا ئی امریکا سے بھٹو صاحب انھوں نے کے پیچھے ہیں اور کے بعد کے لیے چین کے اس ملک

پڑھیں:

الہیٰ خزانہ۔۔۔ ظلم کے تقدّس کے خلاف معاصر عہد کا ایک وصیّت نامہ(1)

اسلام ٹائمز: چوہان صاحب نے اپنے وصیت نامے میں یہ چبھتا ہوا سوال بھی اٹھا دیا ہے کہ کیا رسولِ خداﷺ کو قلم و کاغذ دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔؟ رسولِ خداﷺ کو قلم و کاغذ نہ دینے والے لوگوں کے ہجوم سے گریزاں کچھ ایسے بھی ہیں، جو تاریخ کے موڑ پر حضرت ابوذرؓ، حضرت میثم تمارؓ، حضرت عمار یاسرؓ، اور حضرت حجر بن عدیؓ کی مانند تنِ تنہاء کھڑے ہیں۔ انکا دین، انکا مسلک اور انکا راستہ، عام مسلمانوں سے جدا ہے۔ ایسے لوگ نہ عوام کے خوف سے ڈرے، نہ خواص کی سازش سے گھبرائے، نہ جبر کے سامنے جھکے اور نہ زر کے آگے بکے۔ یہی تو وہ چراغ ہیں، جو ظلمت میں روشن رہے، وہ پہاڑ تھے، جو طوفانوں میں قائم رہے اور وہ اذانیں تھے، جو خاموشیوں میں گونجتی رہیں۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر نذر حافی

ظالم اور جابر کی پرستش بھی کچھ لوگوں کا مذہب ہے۔ کچھ کے بقول منصبِ اقتدار پر زبردستی قابض ہونے والا غاصب حکمران بھی ظلِّ الٰہی بن جاتا ہے۔ اس کی تعظیم واجب اور اس کی اطاعت ثواب کا درجہ جبکہ اس کی مخالفت معصیت و گناہ کا درجہ حاصل کر لیتی ہے۔ ایک طرف بہت سارے لوگ ظالموں کو مقدس ثابت کرنے کیلئے تقاریر اور کتابوں کے انبار لگا رہے ہیں اور دوسری طرف ہر دور میں ظالموں کے تقدس کی نفی کرنے والے بھی ہر زمانے میں موجود رہے ہیں۔ انسان ہوں یا الفاظ، جو بھی ظالموں کی اندھی پرستش کے بجائے عقل، عدل، منطق اور شعور کی خاطر کام آیا، وہ ہمیشہ کیلئے امر ہوگیا۔ عظیم اہداف کیلئے استعمال ہونے والی تحریریں بھی عظیم انسانوں کی طرح زندہ رہتی ہیں۔ خورشید احمد چوہان ایڈووکیٹ صاحب کی وصیّت بعنوان "الہیٰ خزانہ" بھی ایسی ہی ایک نادر تحریر ہے۔ وہ 1944ء میں پیدا ہوئے اور 2006ء میں انہوں نے یہ وصیت نامہ مرتب کیا۔ ان کی یہ وصیّت ایک نہایت اہم خزانے کے متعلق ہے اور اسی لئے اس کتاب کا نام بھی انہوں نے "الہیٰ خزانہ" رکھا ہے۔ باالفاظ دیگر یہ وصیّت نامہ ان کی زندگی کے سماجی مشاہدات اور فکری تجربات کی قلمی صورت ہے۔

محترم  وصیّت نگار نے غوروفکر اور تدبّر کے ساتھ اپنے قلب و ضمیر کا عرق نچوڑ کر ان 541 صفحات میں پیش کر دیا ہے۔ ان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے، جن کے نزدیک  غور و فکر کے بغیر نہ تو کوئی خزانہ حاصل کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کی حفاظت ممکن ہے۔ میں چند دنوں سے اس کتاب کے سحر میں مبتلا ہوں، یہ کتاب جہاں اپنی زبان و بیان کے لحاظ سے اردو ادب میں ایک خوب صورت اضافہ ہے، وہیں محققانہ مزاج اور منصفانہ رویّہ رکھنے والوں کے لیے بھی ایک انمول تحقیقی خزانہ ہے۔ چوہان صاحب کا اندازِ نگارش ہمارے ہاں کی وصیّت ناموں کی مروّجہ روایت سے بالکل ہٹ کر ہے۔ عموماً وصیتیں جن کے لیے ہوتی ہیں، انہی کے کام کی ہوتی ہیں اور وہی انہیں محفوظ رکھتے ہیں، لیکن یہ وصیت ان سب سے مختلف ہے۔

مجھے اس وصیت نامے پر ابھی بہت کچھ لکھنا ہے، لیکن فی الحال یہ عرض کافی ہے کہ میں کتاب کی تزئین و آرائش یا اس کی سلیس و دلکش زبان پر تبصرہ نہیں کر رہا، نہ ہی مصنف کی ذات، دینداری، یا مسلک سے کوئی غرض رکھتا ہوں۔ میں تو بین السطور جھانکنے کا عادی ہوں۔ بین السطور محتویٰ کے مطابق مصنّف کو  ظالم لوگ سخت ناپسند ہیں اور شاید یہ خامی ہر انسان کے بچپن میں پائی جاتی ہو۔ کتابوں کی دنیا میں مجھے عہدِ کہن سے لے کر آج تک، کوئی ایسا شخص نہیں ملا، جو ظلم و ظالم کو برا کہے بغیر کسی عظیم منصب پر فائز ہوا ہو۔ گویا ظلم سے نفرت اور ظالم کے تقدس کا انکار، انسانی عقل کی معراج کا پہلا زینہ ہے۔ شریعت کی ابتدا بھی "لا الہ" سے ہوتی ہے اور عرفان و سلوک میں سالک کی یہی پہلی منزل ہے۔ "لا" کہنا آسان نہیں؛ اس ایک حرف میں ہزاروں خداؤں اور ظالموں سے انکار پوشیدہ ہوتا ہے۔

اس وصیّت نامے نے مجھے میرا بچپن لوٹا دیا ہے۔ مجھے بچپن میں خدا اس لیے پسند آیا تھا کہ وہ ظالموں سے نفرت کرتا تھا۔ آسمان پر اُڑتے سفید بادلوں کو دیکھ کر مجھے یوں لگتا تھا، جیسے حق و باطل کے لشکر ایک دوسرے پر حملہ آور ہوں۔ آج بھی میرے نزدیک وہ بچپن کا سادہ اور شفاف تصورِ خدا، تمام فلسفوں پر بھاری ہے۔ ہر دور میں اس  طرح کے کئی لوگ اپنے اسی بے داغ بچپن کے ساتھ بڑے ہو جاتے ہیں اور پوری عمر اپنے تصور، وہم و گمان اور خواب و خیال میں ظالموں سے لڑتے رہتے ہیں۔ چوہان صاحب کا یہ وصیت نامہ سالکینِ راہِ خدا کے اسی شفاف مسلک کی نشان دہی کرتا ہے۔ جیسا کہ صفحہ 50 پر انہوں نے لکھا ہے کہ “بچے کی فطرت میں یہ بات موجود ہے کہ وہ ظلم سے نفرت کرتا ہے اور مظلوم سے پیار کرتا ہے۔

خداوند متعال نے مجھ میں یہ خصلت کچھ زیادہ عطا فرمائی تھی کہ میں جب بھی کسی پر ظلم ہوتا دیکھتا (خواہ اپنا و یا بیگانہ ہو، اس کے مقابلہ میں ظالم خواہ کس قدر طاقتور اونچے نصیب والا معزز (Elite) اور خوبصورت گورا چٹا ہی کیوں نہ ہو اور اپنا ہی قریبی رشتہ دار کیوں نہ ہو) میرا خون کھولنا شروع ہو جاتا۔ رنگ متغیر ہو جاتا اور میں بالکل پکا کا میٹر (Meter) ہو جاتا اور فور ظالم سے مکمل طور پر مظلوم کے حق میں ٹکرا جاتا۔ مجھے کوئی بلکہ قطعاً خوف نہ ہوتا کہ ظالم مجھے بھی مظلوم کے ساتھ پیس کر رکھ دے گا، میں پرائی آگ میں کود پڑتا۔” چوہان صاحب کا یہ احساس دراصل انسانی تاریخ کا مجموعی شعور ہے۔ یہ وہ آواز ہے، جو ہر انسان کے ضمیر اور فطرت کی گہرائی سے ابھرتی ہے کہ اگر مظلوم کے مقابلے میں خدا بھی کھڑا ہو تو اس کا بھی انکار کر دو، باقی شخصیات اور بزرگ تو دور کی بات ہیں۔

ایسے مزاج کے لوگوں کے نزدیک ظلم کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا انسانیت کی گمشدہ میراث ہے اور یہی حقیقی سیروسلوک کا پہلا قدم۔ ظلم کے تقدس کا تصور فرعونی تہذیب سے بھی پہلے کا ہے اور آج بھی امتِ مسلمہ کے ایک بڑے حصے میں زندہ ہے۔ نہ سوچنے والی اکثریت آج قرآن مجید کو حفظ کرنے، چھاپنے اور رٹنے کے ساتھ ساتھ  ظالموں کے سامنے سجدہ ریز بھی ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ  وہ الہیٰ خزانہ کہاں گیا، جو قرآن کے ذریعے انسانوں کو بیدار کرنے کے لیے نازل ہوا تھا۔؟ کیا صاحبِ قرآنﷺ نے اس خزانے کے بارے میں کوئی وصیت نہیں کی تھی۔؟

چوہان صاحب نے اپنے وصیت نامے میں یہ چبھتا ہوا سوال بھی اٹھا دیا ہے کہ کیا رسولِ خداﷺ کو قلم و کاغذ دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔؟ رسولِ خداﷺ کو قلم و کاغذ نہ دینے والے لوگوں کے ہجوم سے گریزاں کچھ ایسے بھی ہیں، جو تاریخ کے موڑ پر حضرت ابوذرؓ، حضرت میثم تمارؓ، حضرت عمار یاسرؓ، اور حضرت حجر بن عدیؓ کی مانند تنِ تنہاء کھڑے ہیں۔ ان کا دین، ان کا مسلک اور ان کا راستہ، عام مسلمانوں سے جدا ہے۔ ایسے لوگ نہ عوام کے خوف سے ڈرے، نہ خواص کی سازش سے گھبرائے، نہ جبر کے سامنے جھکے اور نہ زر کے آگے بکے۔ یہی تو وہ چراغ ہیں، جو ظلمت میں روشن رہے، وہ پہاڑ تھے، جو طوفانوں میں قائم رہے اور وہ اذانیں تھے، جو خاموشیوں میں گونجتی رہیں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • امریکا کی ایران سے متعلق مذاکرات میں پاکستان کے تعمیری کردار کی تعریف
  • اگست میں اسلام آباد میں پاک امریکا انسدادِ دہشتگردی مذاکرات ہوں گے، امریکی محکمہ خارجہ
  • رائے عامہ
  • الہیٰ خزانہ۔۔۔ ظلم کے تقدّس کے خلاف معاصر عہد کا ایک وصیّت نامہ(1)
  • ’’ہیپی برتھ ڈے صدر زرداری‘‘،70 ویں سالگرہ پر بلاول،بختاور،آصفہ، فریال اور جیالوں کی مبارکباد
  • استنبول: ایران اور یورپی ممالک کے درمیان جوہری مذاکرات دوبارہ شروع
  • غزہ جنگ بندی مذاکرات، امریکا اور اسرائیل نے اپنے وفود واپس بُلالیے
  • امریکا اور اسرائیل کا غزہ جنگ بندی مذاکرات سے اچانک انخلا، حماس پر نیک نیتی کی کمی کا الزام
  • امریکا اور اسرائیل نے جنگ بندی مذاکرات سے ٹیمیں واپس بلائیں، حماس نے مؤقف کو ناقابل فہم قرار دیا
  • غزہ جنگ بندی مذاکرات، امریکا اور اسرائیل نے اپنے وفود واپس بلالیے