حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذکرات تعطل کا شکار ہیں۔ ماضی میں ایسے سیاسی مذاکرات کی مثالیں موجود ہیں جب 1977 کے انتخابات میں ذوالفقارعلی بھٹو دو تہائی اکثریت سے جیتے تھے، مذاکرات کی ٹیبل پر آئے،دوبارہ انتخابات پر بھی رضامند ہوئے۔
1977 کے انتخابات میں دھاندلی کا بیانیہ مان بھی لیا جائے ، تب بھی پی این اے کے لوگ یہ مانتے تھے کہ پھر بھی پیپلزپارٹی کی سادہ اکثریت بنتی تھی۔ذوالفقار علی بھٹو امریکا کی آنکھ میں کنکر کی طرح چبھ رہے تھے کیونکہ انھوں نے اس ملک کو ایٹمی پروگرام دیا اور بھٹو صاحب کو یہ غلط فہمی ہو گئی تھی کہ وہ ایک مقبول لیڈر بن چکے ہیں اور یہ حقیقت اب امریکا کو ماننا پڑے گی۔
ان کی حکمت ِ عملی یہ تھی کہ وہ آہستہ و بتدریج غیر وابستہ ممالک کی صف میں کھڑے ہو جائیں۔ چین کے ساتھ قربتوں کی بنیادذوالفقارعلی بھٹو نے ڈالی۔بھٹو صاحب کے جو مذاکرات حزبِ اختلاف یعنی قومی اتحاد کے ساتھ چل رہے تھے، وہ ایک ڈھکوسلا تھا،وہ زمانہ سرد جنگ کا زمانہ تھا۔خود بھٹو صاحب ان تضادات کی پہچان رکھتے تھے۔1971 میں جن حالات کے پیش نظر وہ اقتدار میں آئے، وہ ایک الگ ماجرہ تھا لیکن آگے جاکر انھوں نے سب باتیں بھلادیں۔ وہ اس قدر پر اعتماد تھے کہ اقتدار کے آخری زمانوں میں بطور وزیر اعظم قومی اسمبلی کی ایک تقریر میں امریکا کو للکارا۔
ایسی ہی ایک تقریر راجا بازار ، راول پنڈی میں کی۔بلآخر پانچ جولائی کوذوالفقارعلی بھٹو کے اقتدار کا تختہ الٹنے کے لیے شب خون مارا گیا۔اس شب خون کے پیچھے اور کوئی نہیں امریکا ہی تھا۔
اب نہ ہی سرد جنگ کا زمانہ ہے نہ وہ حالات ہیں، نہ وہ زمانے ہیںجب امریکا کو ہماری اشدضرورت تھی۔اس وقت پاکستان تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان مذاکرات !عین انھیں زمانوں میں بانی پی ٹی آئی اپنی سیاسی جدوجہد کو زوروں پر لاتے ہیں، جب ہم چین سے روابط بہتر بناتے ہیں۔ خان صاحب کے بڑے بڑے جلسے شروع ہو جاتے ہیں، ڈی چوک پر دھرنا دیا جاتا ہے، جسٹس ثاقب نثار جوڈیشل ایکٹوزم کی تمام حدوں کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں، غرض یہ کہ بین الاقوامی تناظر میں ،چین سے روابط کی ہمیں وہ سزائیںدی گئیں کہ پاکستان کے وجود اور سالمیت کو خطرے میں ڈال دیا گیا۔
اس بحران سے نکلنا پاکستان کے لیے ایک معجزہ تھا بلکہ ریاست کے اندر ایک اور ریاست تھی۔نو مئی کے واقعے میں پس پردہ کون تھا، بہ ظاہر کون تھا؟ان حالات کا جائزہ لیتے لیتے26 نومبر 2024کا واقعہ پیش آیا جس میں ناکامی کے بعد مذاکرات کا سلسلہ چل پڑا، اس امید پر کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے صدر بننے والے ہیں اور ان کا ایک ہی ٹویٹ پاکستان پر بھاری پڑ جائے گا۔
مگر رچرڈ گرینل جو امریکا سے ٹرمپ حکومت کی نمایندگی کرتے ہوئے پاکستانی حکومت کے خلاف ٹویٹ پر ٹویٹ جاری کر رہے تھے، انھوں نے ایک تردیدی بیان جاری کردیا کہ پاکستانی حکومت کے خلاف انھوں نے جو بھی ٹویٹ کیے وہ پی ٹی آئی کے نمایندوں نے غلط بیانی کی بنیاد پر کروائے ہیں اور وہ پاکستان کے عدالتی نظام پر بھروسہ رکھتے ہیں، لہٰذا اب مذاکرات کی ٹیبل پر حکومت سنجیدہ نہ بھی ہو مگر پی ٹی آئی ضرور سنجیدہ نظر آئے گی۔
پروفیسر غفور یہ لکھتے ہیں جب بھٹو صاحب کے مذاکرات حزبِ اختلاف یعنی قومی اتحاد کے ساتھ کامیاب ہو چکے تھے تو شب خون مارنے کی کو ئی وجوہات نہ تھیں مگر شب خون مارا گیا،وہ مذاکرات دراصل ایک ڈھکوسلا تھے۔
جو شواہد اب بنے ہیں کہ قومی اتحاد کی تحریک کے پیچھے سی آئی اے تھی، بلکہ سی آئی اے کیوں اس کے پیچھے تو خود بھٹو تھے۔1971 کے سانحے کے بعد جو جمہوریت اس ملک کو ملی تھی اور جو آئین بھٹو صاحب نے دیا تھا ، ان اقدامات کے بعد تو ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا تھا اور بھٹو صاحب کا اتنا پر اعتماد ہونااس ملک کو مہنگا پڑ گیا۔
ہندوستان سے دشمنی ہماری نفسیات پر حاوی رہی اور ہم امریکا کی فرنٹ لائن اسٹیٹ بن گئے۔1971 کے سانحے کے پیچھے بھی امریکا کی حکمت عملی تھی کہ مشرقی پاکستان اتنا اہم نہیں اور یہ کہ شیخ مجیب سے بھٹو بہتر ہیں۔جب بھٹو صاحب ان کی دسترس سے باہر ہو ئے تو وہ اپنے مفاد کی خاطر ضیاء الحق کو لے کر آئے۔
شہنشاہ ایران اور اردن کے شاہ حسین امریکا کے اتحادی تھے، انھوں نے ایک انتہائی جونیئر جنرل ضیاء الحق کی سفارش کر کے ان کو بھٹو کے قریب کردیا۔بڑی مشکلات کے بعد جمہوریت اس ملک میں بحال ہوئی تھی۔بھٹو صاحب اگر نرگسیت پرست نہ ہوتے تو امریکا سے ٹکر لینے کی بات نہ کرتے اور یہاں جمہوریت مضبوط رہتی جو آج تک ہو نہ سکی۔
اس دفعہ ہم انٹرنیشنل گیم کا شکار ہوتے ہوتے بچ گئے،جو کام ہمارے بس کے نہیںان کے دعوے ہم کر نہیں سکتے۔یہ خود اعتمادی ہمارے پاس تب آئی جب امریکا نے سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں اپنے قدم جمانے کے لیے پاکستان کی سرزمین کا استعمال کیا۔یہ دور جنرل ضیا ء الحق کا دور تھا۔سوویت یونین کے اچانک ٹوٹنے کے بعد ان کی چھوڑی ہوئی طاقت ہمیں ایسے ہی کام آئی جیسا کہ اب افغانستان سے امریکا کے اخراج کے بعد ان کا چھوڑا ہوا اسلحہ طالبان پاکستان خلاف استعمال کر رہا ہے۔
1988میں جنرل ضیاء الحق کا انتقال C-130 کے حادثے میں ہوا۔صدر اسحاق خان نے نوے دن کے اندر انتخابات کرانے کا اعلان کیا مگر پورے دس سال تک 58(2)(b)کی تلوار ہم پر لٹکتی رہی۔بھٹو صاحب کو امریکا سے ٹکر نہیں لینی تھی۔یہ حالات اسی طرح زیادہ بگڑے،کیونکہ یہاں امریکا صرف سویلین سے بات کرے نہ کہ کسی اور سے۔ اور جب امریکا کیری لوگر بل لے کر آیا تو یہاں پر ہمارے دوستوں نے جمہوریت کے اندر جمہوریت پیدا کردی یعنی ہائبرڈ جمہوریت تاکہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔
مذاکرات اب کسی ڈھنگ سے کیے جائیں گے اور مذاکرات میں فریقین کے پاس ایک دوسرے کو دینے کے لیے کچھ نہیں۔پاکستان تحریکَ انصاف اب جارحانہ سیاست نہیں کرے گی اور جب یہ جماعت ایسا کر نہیں پائے تو ان کے کارکن جو ان سرگرمیوں کے عادی ہیںوہ ان کے گلے پڑیں گے۔اب چوکوں اور چھکوں کی سیاست نہیں چلے گی۔
اس بات کے ٹھوس حقائق تو نہیں مگر ٹرمپ کے زمانے میں امریکا اور پاکستان مخاصمانہ طرز نہیں اپنائیں گے۔پاکستان جس تیزی سے طالبان کے سامنے کھڑے ہونے کی جرات کررہا ہے اس رویے میں پاکستان کو امریکی انتظامیہ کے اندرکئی دوست و حامی ملیں گے۔امریکا اور چین کے درمیان تضادات کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔
یہ جنگ ٹریڈ وار کی شکل اختیار کرنے جا رہی ہے۔چین ٹیکنالوجی میں امریکا سے آگے نکل رہا ہے۔چین کے ان کارناموں سے امریکا بھی حیران ہے۔ان تضادات کا تدارک یہ ہے کہ ہمیں امریکا اور چین کے درمیان توازن قائم کرنا ہوگا۔ہمارا حدف اسوقت ہماری مضبوط معیشت ہے اوراس میں رکاوٹ ہے ہماری پسماندہ سوچ کی، سیاست جس میں بگاڑ پیدا کیا جنرل ضیا ء الحق نے۔اس بگاڑ کا خمیازہ ہم آج بھی بھگت رہے ہیں۔ اب اس سوچ اور اس سیاست سے ہمیں آزادی حاصل کرنا ہوگی۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: میں امریکا کے درمیان امریکا کی پی ٹی ا ئی امریکا سے بھٹو صاحب انھوں نے کے پیچھے ہیں اور کے بعد کے لیے چین کے اس ملک
پڑھیں:
ٹرمپ مودی بھائی بھائی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نریندر مودی نے شنگھائی کانفرنس میں شرکت اور چینی صدر شی جن پنگ اور روسی صدر ولادیمر پیوٹن کے ساتھ سر جوڑ کر کانا پھونسی کرکے وہ مقاصد حاصل کر لیے جو پہلے ہی طے کر لیے گئے تھے۔ شنگھائی کانفرنس کے چند ہی دن بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے لب ولہجے پر ایک سو ڈگری کی تبدیلی کرکے بھارت اور نریندر مودی کے لیے شیریں بیانی شروع کر دی۔ ایکس پر اپنے پیغام میں صدر ٹرمپ نے ڈرانے دھمکانے کی زبان ترک کرکے بھارت کو امریکا کا دوست قرار دیتے ہوئے کہا وہ مودی سے بات چیت کے لیے تیار ہیں اور وہ دونوں ملکوں کے درمیان مجوزہ تجارتی معاہدے کو پایۂ تکمیل تک پہنچائیں گے۔ جس کے جواب میں نریندر مودی نے بھی ایکس پر لکھا کہ بھارت اور امریکا فطری حلیف ہیں مجھے یقین ہے کہ ہماری تجارتی بات چیت ہند امریکا شراکت کے لامحدود امکانات سے استفادے کی راہ ہموار کرے گی۔ اس کے ساتھ ہی بھارت کے معاشی مشیر وی انتھانا گیشورن نے صاف لفظوں میں بتادیا کہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں متبادل کرنسی بنانے میں بھارت کے ملوث ہونے کی قیاس آرائیاں بے بنیاد ہیں۔ بھارت ایسے کسی منصوبے پر غور نہیں کر رہا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے نریندر مودی پر مختلف اوقات میں جو فردِ جرم عائد کی تھیں ان میں ایک نکتہ یہ بھی تھا کہ بھارت ڈالر کے متبادل نظام قائم کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ یہ امریکی معاشی بالادستی کو چیلنج کرنے کے مترادف تھا۔ اب بھارت نے ایسی کسی منصوبے کا حصہ ہونے کی تردید کر دی۔ بھارت اور امریکا کے درمیان ٹیرف کے معاملے پر مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے اور کسی بھی وقت دونوں کے درمیان بریک تھرو کا امکان موجود ہے۔ اس طرح امریکا اور بھارت کے تعلقات کے درمیان عارضی اور وقتی بحران اب حل ہونے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جس پر یہی کہا جا سکتا ہے
تھی خبر گرم کہ غالب کے اُڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا
امریکا اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بحرانی کیفیت پاکستان کے لیے مغرب کی سمت امکانات کی کھلنے والی واحد کھڑکی تھی جو اب ایک بار پھر بند ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ جس طرح پاکستان کے حکمران طبقات امریکا کی طرف سے بھارت کی کلائی مروڑے جانے پر جشن منارہے تھے اس کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں تھی سوائے اس کے امریکا ایک بار پھر کچھ عرصہ کے لیے پاکستان پر معاشی اور سیاسی طور پر مہربان رہے۔ معاشی طور پر اس طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دھول اْڑتی رہے اور اس میں قاتل مقتول جارح ومجروح کے چہرے پہچاننا اور نشاندہی ہونا ناممکن رہے۔ امریکا کے زیر اثر برادر وغیر برادر ملک پاکستان کی معاشی ضرورتوں کو قرض کی صورت میں دیکھتے رہیں۔ سیاسی ضرورت یہ ہے کہ مغربی ممالک اور جمہوری نظام کے لیے واچ ڈاگ کا کردار ادا کرنے والے مغربی ادارے پاکستان کے سیاسی نظام اور یہاں تنگ ہوتی ہوئی آزادیوں سے اسی طرح غافل رہیں جیسے کہ وہ بھارت کے ان معاملات سے قطعی لاتعلق ہیں۔ مصر میں تو ہم نے مغربی جمہوریت کے دعوؤں کا برہنہ اور بے گورو کفن لاش کو دیکھا تھا۔ جہاں تاریخ کے پہلے انتخابات میں پہلا منتخب نظام قائم ہوا مگر خطے میں اسرائیل کی سلامتی کے لیے قائم نظام کے لیے مستقبل بعید میں اْبھرنے والے خطرے کے خوف میں اس جمہوری نظام کا گلہ گھوٹ دیا گیا۔ ایک غیر منتخب نظام قائم ہوا اور نہ جمہوریت کے فروح کے قائم عالمی اداروں نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا نہ ہی اس پر کوئی اختلافی آواز بلند کی۔ یوں مغربی نظام میں مرسی کا تختہ اْلٹنے کی مہم کے سیاسی پوسٹر بوائے محمد البرادی کی بھی پلٹ کر خبر نہ لی۔ محمد البرادی وہی ذات شریف ہیں جو عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے نمائندے کے طور پر عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کی تلاش کے نام پر روز بغداد میں دندناتے پھرتے تھے اور کبھی دوٹوک انداز میں یہ نہ کہہ سکے کہ عراق ایٹمی اور کیمیائی ہتھیار نہیں بنا رہا۔
بہرحال بھارت اور امریکا کے درمیان عارضی شنکر رنجی ختم ہونے کا امکان پیدا ہونے لگا ہے۔ اب بھارت کی بہت سی کج ادائیاں ماضی کی طرح ایک بار پھر ادائے دلبرانہ بن جائیں گی۔ لازمی بات ہے کہ پاکستان اس خانے میں ایک مخصوص مقام سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ صدر ٹرمپ نے بھارت کو اپنا فطری حلیف قرار دے کر نئی بات نہیں کی۔ دنیا میں اسرائیل اور بھارت دو ایسے ممالک ہیں جنہیں امریکا نے نائن الیون کے بعد اپنا اسٹرٹیجک پارٹنر قرار دے رکھا ہے۔ ایک اسٹرٹیجک پارٹنر اسرائیل کے لیے امریکا جس حد تک جا سکتا ہے اس کا مظاہرہ آج کل مشرق وسطیٰ میں ہو رہا ہے۔ اسی طرح چین کے ساتھ امریکا کی مخاصمت میں کمی کا کوئی امکان نہیں۔ آبادی اور رقبے کے لحاظ سے کم یا زیادہ بھارت ہی امریکا کی ضرورت پورا کر سکتا ہے۔ بھارت کا یہ پوٹینشل اسے امریکا کا فطری حلیف بنائے ہوئے ہے۔ بھارت امریکا کے لیے بروئے کار آنے کے لیے تیار ہے مگر وہ چین کے خلاف بے رحمی سے استعمال ہونے اور روس کے ساتھ امریکی ہدایات پر مبنی تعلقات کے قیام سے انکاری ہے۔ ان دونوں معاملات کا تعلق بھارت کے طویل المیعاد مقاصد سے ہے۔ اس عارضی ماحول میں پاکستان کے لیے مغرب میں جو وقتی گنجائش پیدا ہورہی تھی اب یہ سلسلہ رک سکتا ہے۔ پاکستان کے لیے کسی نئے انداز سے ڈومور کی گھنٹیاں بج سکتی ہیں۔ یہ ڈومور قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی بحالی کے نام پر بھی ہو سکتا ہے اور دہشت گردی کے خلاف آپریشن تیز کرنے کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے۔