اراکین پارلیمنٹ کی عیاشیاں اور عوام کی بدحالی
اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT
اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافہ ایک متنازع فیصلہ ہے، جس پر ملک بھر میں شدید ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ عوام پہلے ہی مہنگائی، بے روزگاری اور معاشی بدحالی کے ہاتھوں پریشان ہیں، اور ایسے میں حکومتی نمائندوں کےلیے مراعات میں اضافہ کرنا عوام کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہے۔
قومی اسمبلی کے ذرائع کے مطابق، اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافے کی منظوری دی ہے۔ اس فیصلے کے تحت، اب ایک رکن قومی اسمبلی یا سینیٹر کی ماہانہ تنخواہ و مراعات 5 لاکھ 19 ہزار روپے ہوگی۔
یہ اضافہ اس اصول کے تحت کیا گیا ہے کہ اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہیں اور مراعات وفاقی سیکریٹری کے برابر ہونی چاہئیں۔ پارلیمانی ذرائع کے مطابق، اسپیکر ایاز صادق کی سربراہی میں قومی اسمبلی کی فنانس کمیٹی نے اس فیصلے کی متفقہ منظوری دی، جس میں یہ طے کیا گیا کہ تمام کٹوتیوں کے بعد وفاقی سیکریٹری کی تنخواہ اور الاؤنسز کے مساوی رقم ہی اراکین پارلیمنٹ کو دی جائے گی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ خود اراکین پارلیمنٹ نے 10 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ کا مطالبہ کیا تھا، تاہم اسپیکر ایاز صادق نے اسے مسترد کرتے ہوئے 5 لاکھ 19 ہزار کی حد مقرر کی۔ اگرچہ اسپیکر نے مطالبہ پورا نہیں کیا، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس وقت اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہ میں اضافہ واقعی ضروری تھا؟
پاکستان میں موجودہ وقت میں مہنگائی کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ پٹرول، بجلی، گیس اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں روزانہ اضافے کے باعث عوام پہلے ہی شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ دوسری طرف حکومت عوام کو کفایت شعاری کا درس دیتی ہے اور سرکاری اخراجات میں کمی کے دعوے کرتی ہے۔
پاکستان میں غربت کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ایک عام شہری جو پہلے 30 سے 40 ہزار روپے میں گھر کا خرچ چلا لیتا تھا، آج وہی شخص دو وقت کی روٹی کےلیے پریشان ہے۔ ایسے میں پارلیمنٹ کے اراکین کےلیے 5 لاکھ سے زائد کی تنخواہ اور دیگر مراعات کا جواز کیا ہوسکتا ہے؟
اس وقت پاکستان پر مجموعی طور پر 130 ارب ڈالر سے زائد کا بیرونی قرضہ ہے۔ ملک کی معیشت بیرونی امداد اور قرضوں پر چل رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں حکومت نے آئی ایم ایف سے مزید قرض حاصل کیا تاکہ ملک دیوالیہ نہ ہو۔ ایسے میں عوام کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ملک میں بنیادی سہولتوں پر خرچ کرنے کےلیے پیسے نہیں، تو پارلیمنٹیرینز کی تنخواہیں بڑھانے کےلیے بجٹ کہاں سے آگیا؟
ایک عام دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اراکین پارلیمنٹ کا معیار زندگی بلند ہونا چاہیے تاکہ وہ کرپشن سے دور رہیں اور ملک و قوم کےلیے بہتر پالیسیاں تشکیل دے سکیں۔ یہ دلیل کسی حد تک درست ہوسکتی ہے، لیکن اگر ہم پاکستان کے زمینی حقائق پر نظر ڈالیں تو ہمیں ایک مختلف تصویر نظر آتی ہے۔
پاکستان میں اراکین پارلیمنٹ کی مراعات پہلے ہی کئی ترقی یافتہ ممالک سے زیادہ ہیں۔ انہیں سرکاری گاڑیاں، رہائش، مفت سفری سہولتیں، ہیلتھ کیئر اور دیگر کئی مراعات حاصل ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ، ترقیاتی فنڈز کی شکل میں بھی انہیں خطیر رقم دی جاتی ہے، جس کے استعمال پر اکثر سوالات اٹھتے ہیں۔
دوسری طرف، اگر ہم دنیا کے دیگر ممالک سے موازنہ کریں تو امریکا، برطانیہ، اور دیگر مغربی ممالک میں اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہیں عوامی معیار زندگی اور ملک کی معیشت کے مطابق طے کی جاتی ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں عام شہری 32 ہزار روپے ماہانہ کم از کم اجرت پر بمشکل گزارا کر رہا ہے، وہاں پارلیمنٹ کے اراکین کےلیے لاکھوں روپے کی تنخواہ اور مراعات ایک غیر منطقی اقدام معلوم ہوتا ہے۔
حکومت کو سب سے پہلے عوام کی بنیادی ضروریات پر توجہ دینی چاہیے۔ اگر واقعی قومی خزانے میں اتنی گنجائش ہے کہ اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہیں بڑھائی جاسکتی ہیں، تو پھر یہی رقم تعلیم، صحت، اور دیگر عوامی سہولیات پر کیوں نہیں لگائی جاسکتی؟
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں حکومتوں کا بنیادی مقصد عوام کو سہولتیں فراہم کرنا ہوتا ہے۔ وہاں عوام کو سستی ٹرانسپورٹ، معیاری صحت کی سہولتیں، اور بہترین تعلیمی مواقع دیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں اس کے برعکس، حکومتی اخراجات میں اضافے کی صورت میں بوجھ صرف عام آدمی پر ڈالا جاتا ہے۔
اگر موجودہ حکومت واقعی ملک کے معاشی مسائل حل کرنا چاہتی ہے تو اسے سب سے پہلے اپنی ترجیحات پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ غیر ضروری اخراجات کو کم کرنا ہوگا اور اراکین پارلیمنٹ کو یہ باور کرانا ہوگا کہ وہ عوام کے نمائندے ہیں، حکمران نہیں۔
اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ یہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے افسران کےلیے بھی نئی گاڑیاں منگوانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب حکومت بار بار کفایت شعاری اور معاشی بحران کی دہائی دے رہی ہے، تو پھر بیوروکریسی اور پارلیمنٹ کےلیے غیر ضروری مراعات کی فراہمی کیوں کی جارہی ہے؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ انہی فنڈز کو عام شہریوں کی بہبود کےلیے مختص کیا جائے؟
اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافہ اور ایف بی آر افسران کے لیے نئی گاڑیوں کی خریداری جیسے اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ حکومتی ترجیحات عوامی مشکلات سے کہیں زیادہ اشرافیہ کی سہولتوں پر مرکوز ہیں۔ اگر عوام کو ریلیف نہیں دیا جاسکتا، تو کم از کم ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے سے تو گریز کیا جائے!
ملک معاشی بدحالی کا شکار ہو یا عوام مسائل کے انبار میں گھرے ہوں، سیاسی شعبدہ بازوں کو تو غرض اپنے آپ سے ہے اور ان کا نیرو چین کی بانسری ہی بجائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہ پاکستان میں کی تنخواہیں قومی اسمبلی میں اضافہ اور دیگر ایسے میں عوام کو ہوتا ہے
پڑھیں:
فوج سیاست میں نہیں الجھناچاہتی،آئین میں ترمیم حکومت اور پارلیمنٹ کا کام ہے،ڈی جی آئی ایس پی آر
دہشتگردوں سے کبھی بات نہیں ہوگی،طالبان سے مذاکرات کی بات کرنے والے افغانستان چلے جائیں تو بہتر ہے، غزہ فوج بھیجنے کا فیصلہ حکومت اور پارلیمنٹ کریں گے، جنرل احمد شریف چوہدری
 افغانستان میں ڈرون حملے پاکستان سے نہیں ہوتے نہ امریکا سے ایسا کوئی معاہدہ ہے،،بھارت کو زمین، سمندر اور فضا میں جو کچھ کرنا ہے کرلے اس بار جواب زیادہ شدید ہوگا،سینئر صحافیوں کو بریفنگ
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ دہشتگردوں سے کبھی بات نہیں ہوگی۔پاکستان اپنی سرحدوں، عوام کی حفاظت کیلئے تیار ہے۔سینئر صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے انہوںنے کہا کہ فوج سیاست میں نہیں الجھناچاہتی، فوج کو سیاست سے دور رکھا جائے ۔27 ویں آ ئینی ترمیم کے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ آئین میں ترمیم حکومت اور پارلیمنٹ کا کام ہے۔27 ویں آ ئینی ترمیم پر تجاویز مانگیں تو اپنی سفارشات دیں گے ۔انہوں نے کہا کہ غزہ میں امن فوج کا حصہ بننے کا فیصلہ حکومت اور پارلیمنٹ کرے گی۔۔انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان میں تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف ہم سب کو متحد ہو کر کام کرنا ہے، 2014 میں 38 ہزار مدارس تھے اب ایک لاکھ کے قریب مدارس بن چکے، ایسا کیوں ہو رہا ہے؟۔مدارس کی رجسٹریشن اب بھی ایک سوال ہے۔سہیل آفریدی خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ ہیں۔منتخب سیاستدان ریاست بناتے ہیں اور اداروں کا کام ریاست کے ساتھ کام کرنا ہوتا ہے۔ وزیراعلی خیبرپختونخوا سے ریاستی اور سرکاری تعلق رہے گا، کورکمانڈر پشاور نے بھی ریاستی اور سرکاری تعلق کے تحت ملاقات کی، جبکہ خیبر پختونخوا میں گورنر راج کا فیصلہ تصوراتی ہے، یہ فیصلہ ہم نے نہیں حکومت نے کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تیراہ میں پوست کی فصل کو تلف کر رہے ہیں۔تیراہ اور کے پی میں خفیہ آپریشنز کامیابی سے جاری ہیں۔دہشتگردی کے خاتمے کیلئے اس سال6200 انٹیلی جنس آپریشنز کئے گئے ۔آپریشنز کے دوران1667 دہشتگرد مارے گئے۔ جب کہ دہشت گرد حملوں میں 206 سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے، سیکیورٹی فورسز نے جھڑپوں میں 206افغان طالبان اور 100 سے دہشتگردوں کو ہلاک کیا۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں آپریشنز زیادہ ہورہے ہیں اور کے پی میں دہشت گرد زیادہ مارے جارہے ہیں، یہ لوگ فوج کے خلاف کام کرتے ہیں اور عشر کے نام پر ٹیکس لیتے ہیں، یہ لوگ جسے عشر کہتے ہیں یہ بھتہ ہے، یہ بارڈر اوپن چاہتے ہیں تاکہ وہاں سے حشیش لائی جاسکے، اس کا حصہ طالبان کو بھی جاتا ہے اور وارلارڈز کو بھی ملتا ہے، یہ آئس ہماری یونیورسٹیوں تک جارہی ہے ہماری نوجوان نسل کو خراب کررہی ہے۔انہوں نے کہا کہ سیاسی عمائدین، دہشت گرد، جرائم پیشہ لوگ مل کر قانون کے خلاف کام کر رہے ہیں، کئی بار فوج نے علاقہ کلیٔر کیا مگر سول انتظامیہ اور پولیس سیاسی دبا وکے سبب کام نہیں کرپا رہی، اسمگلرز دہشت گردوں سے مل کر کام کر رہے ہیں،ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ افغان عبوری حکومت کو عوام اور سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل نہیں، افغانستان سے جڑے معاملات کا حل صرف وہ حکومت ہے جو عوام کی نمائندہ ہو، افغانستان کی شرائط معنی نہیں رکھتی، دہشتگردی کا خاتمہ اہم ہے۔انہوں نے کہاکہ بس بہت ہوگیا افغانستان سرحد پار دہشت گردی ختم کرے، افغان طالبان سے سیکیورٹی کی بھیک نہیں مانگیں گے۔دوحہ، استنبول مذاکرات کا ایجنڈا افغانستان سے سرحد پار دہشتگردی کا خاتمہ تھا۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پالیسی بنانے میں خودمختار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں منشیات اسمگلرز کی افغان سیاست میں مداخلت ہے اور وہاں سے بڑے پیمانے پر منشیات پاکستان اسمگل کی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ افغان طالبان کو پاکستان کا رسپانس فوری اور موثر تھا، پاکستان کے رسپانس کے وہی نتائج نکلے جو ہم چاہتے تھے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ افغانستان بین الاقوامی دہشت گردی کا مرکز ہے، افغانستان میں ہرقسم کی دہشت گرد تنظیم موجود ہے اور افغانستان دہشت گردی پیدا کررہا ہے اور پڑوسی ممالک میں پھیلا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے کبھی طالبان کی آمد پر جشن نہیں منایا، ہماری طالبان گروپوں کے ساتھ لڑائی ہے، ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور دیگر تنظیموں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، پاکستان کی سیکیورٹی کے ضامن مسلح افواج ہیں یہ ضمانت کابل کو نہیں دینی۔ڈرون کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہمارا امریکا سے کوئی معاہدہ نہیں، ڈرون کے حوالے سے طالبان رجیم کی جانب سے کوئی باضابطہ شکایت موصول نہیں ہوئی، امریکا کے کوئی ڈرون پاکستان سے نہیں جاتے، وزارت اطلاعات نے اس کی کئی بار وضاحت بھی کی ہے، ہمارا کسی قسم کا کوئی معاہدہ نہیں ہے کہ ڈرون پاکستان سے افغانستان جائیں گے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ افغانستان کی سرحد 26 سو کلومیٹر طویل ہے جس میں پہاڑ اور دریا بھی شامل ہیں، ہر 25 سے 40کلومیٹر پر ایک چوکی بنتی ہے ہر جگہ نہیں بن سکتی، دنیا بھر میں سرحدی گارڈز دونوں طرف ہوتے ہیں یہاں ہمیں صرف یہ اکیلے کرنا پڑتاہے،ان کے گارڈز دہشت گردوں کو سرحد پار کرانے کے لئے ہماری فوج پر فائرنگ کرتے ہیں، ہم تو ان کا جواب دیتے ہیں۔ترجمان پاک فوج نے کہا کہ معرکہ حق میں حکومت پاکستان، کابینہ، فوج اور سیاسی جماعتوں نے مل کر فیصلے کیے، کے پی کے حکومت اگر دہشت گردوں سے بات چیت کا کہتی ہے تو ایسا نہیں ہوسکتا اس سے کفیوژن پھیلتی ہے، طالبان ہمارے سیکیورٹی اہلکاروں کے سروں کے فٹ بال بناکر کھیلتے ہیں ان سے مذاکرات کیسے ہوسکتے ہیں؟ ترجمان پاک فوج نے کہا کہ ہمارے ہاں علما، میڈیا اور سیاست دانوں کو یک زبان ہونا ہوگا تب فیصلے کرسکیں گے۔افغان طالبان رجیم تبدیل کرنے کے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم افغان معاملات میں مداخلت نہیں کرتے۔ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ بھارت سمندر میں اور فالز فلیگ آپریشن کی تیاری کر رہا ہے، تاہم ہم نظر رکھے ہوئے ہیں اور بھارت نے جو بھی کرنا ہے کرلے، اگر دوبارہ حملہ کیا تو پہلے سے زیادہ شدید جواب ملے گا،میزائل تجربے کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہر ملک میں ڈویلپمنٹ ہوتی رہتی ہے۔