افغانستان کے اثاثوں پر امریکہ کا دعویٰ قابلِ قبول نہیں ہے: طالبان
اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT
اسلام آباد —کابل میں برسرِ اقتدار طالبان نے امریکہ کی جانب سے افغانستان کے مرکزی بینک کے منجمد اثاثوں کو دوبارہ تحویل میں لینے کے دعوؤں کی مذمت کی ہے اور خبردار کیا ہے کہ ایسا کوئی اقدام ناقابلِ قبول ہوگا۔
افغانستان میں قائم طالبان کی عبوری حکومت کی معاشی امور کی وزارت نے جمعے کو امریکی کانگریس کو جاری ہونے والی ایک سہ ماہی رپورٹ پر ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ افغانستان میں قائم حکومت کو تسلیم نہیں کرتا اور اس پر پابندیاں بھی عائد کر چکا ہے۔
اگست 2021 میں جب طالبان جنگجوؤں نے امریکہ اور اتحادیوں کے انخلا کے دوران کابل کا کنٹرول حاصل کیا تھا تو اس وقت کے صدر جو بائیڈن نے امریکہ میں افغان سینٹرل بینک کے سات ارب ڈالر کے اثاثے منجمد کر دیے تھے۔ یورپی ممالک نے بھی افغانستان کے دو ارب ڈالر منجمد کیے تھے۔
بعد ازاں امریکہ نے منجمد کی گئی اس رقم میں سے نصف ساڑھے تین ارب ڈالر سوئٹزر لینڈ میں قائم ہونے والے افغان فنڈ میں منتقل کر دیے تھے۔
یہ فنڈ اس لیے بنایا گیا تھا کہ افغانستان میں امدادی سرگرمیاں بھی جاری رہیں۔ لیکن ان کے لیے فراہم کیے جانے والے فنڈز طالبان کی رسائی سے دور رہیں۔ تاہم اس فنڈ سے تاحال ادائیگیاں شروع نہیں ہوئیں۔
بقایا ساڑھے تین ارب ڈالر ابھی بھی امریکہ کے پاس ہیں جو ممکنہ طور پر طالبان کے خلاف نائن الیون کے متاثرین کے مقدمات میں زرِ تلافی کے طور پر ادا کیے جا سکتے ہیں۔
جمعے کو اسپیشل انسپکٹر جنرل فور افغانستان ری کنسٹرکشن(سیگار) کی کانگریس میں جمع کی گئی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں افغانستان کے رکھے گئے یہ فنڈ سود کے بعد چار ارب ڈالر ہو گئے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی حکومت اور کانگریس ان فنڈز کو دوبارہ امریکہ کے کنٹرول اور تحویل میں واپس لانے کا جائزہ لے سکتی ہے۔
کانگریس میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان یہ فنڈز حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن امریکہ نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ ان کا نام عالمی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل ہے جب کہ امریکہ اور اقوامِ متحدہ نے ان پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اس لیے وہ ان فنڈز کے قانونی دعوے دار نہیں بن سکتے۔
سیگار نے صدر ٹرمپ کی جانب سے حلف برداری کے بعد جاری کردہ اس حکم کا بھی حوالہ دیا ہے جس میں انہوں نے تین ماہ تک کے لیے کم و بیش تمام غیر ملکی امداد معطل کر دی۔ ٹرمپ حکومت اس بات کا جائزہ لے گی کہ کونسے امدادی پروگرام اس کی ’امریکہ فرسٹ پالیسی‘ سے ہم آہنگ ہیں۔
طالبان حکومت کی وزارتِ معاشی امور نے اپنے بیان میں ان اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ مرکزی بینک کے اثاثے منجمد کرنے سے افغانستان کی معیشت کو نقصان پہنچا ہے۔
وزارت نے ایک بار پھر بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان کے نو ارب ڈالر سے زائد رقم اسے واپس کی جائے کیوں کہ یہ رقم افغان قوم کی ہے اور ملک میں معاشی استحکام لانے کے لیے اہم ثابت ہو سکتی ہے۔
طالبان نے اپنے بیان میں خبردار کیا ہے کہ افغانستان کے مرکزی بینک کے ذخائر کو خرچ یا منتقل کرنے کے لیے کیا گیا کوئی بھی اقدام قابلِ قبول نہیں ہوگا۔
سیگار کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ انخلا کے بعد سے اب تک افغانستان میں تین ارب 70 کروڑ ڈالر خرچ کرچکا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس میں سےزیادہ تر رقم اقوامِ متحدہ اور دیگر اداروں کے ذریعے افغانستان میں امدادی سرگرمیوں میں خرچ کی گئی ہے جب کہ مزید امدادی کاموں کے لیے ایک ارب 20 کروڑ ڈالر پائپ لائن میں ہیں۔
تاہم طالبان ان دعوؤں سے اختلاف کرتے ہیں اور ان کا اصرار ہے کہ امریکہ کی خرچ کی گئی رقم سے افغان معیشت پر کوئی غیر معمولی اثر نہیں ہوا ہے۔
سیگار کا کہنا ہے کہ اقوامِ متحدہ کے اندازوں کے مطابق امریکہ تاحال افغانستان کا سب سے بڑا ڈونر ہے جہاں لاکھوں افراد کو امداد کی ضرورت ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی امداد سے معاشی تباہی کے شکار ملک میں قحط کو تو روکا جاسکتا ہے۔ لیکن ابھی تک یہ امداد طالبان کو امریکی شہریوں کو یرغمال بنانے، خواتین اور لڑکیوں کے حقوق سلب کرنے، میڈیا پر قدغنیں عائد کرنے، ملک کو دہشت گردی کی محفوظ پناہ گاہ بنانے اور سابق افغان حکومت کے عہدے داروں کو نشانہ بنانے کی روش تبدیل کرانے سے روکنے کے لیے کارگر ثابت نہیں ہوئی۔
افغانستان میں طالبان نے اپنے ساڑھے تین سالہ دورِ اقتدار میں لڑکیوں کی چھٹی جماعت سے آگے اور خواتین کی یونیورسٹی میں تعلیم پر پابندیاں عائد کی ہیں۔
طالبان نے خواتین کی نقل و حرکت اور لباس سے متعلق بھی پابندیوں کا اطلاق کیا ہے۔
طالبان اپنی ان پالیسیوں کو شریعت اور افغان ثقافت کے مطابق اور بین الاقوامی تنقید کو اپنے داخلی امور میں مداخلت قرار دیتے ہیں۔
.ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان کھیل افغانستان میں کہ افغانستان افغانستان کے کہ امریکہ طالبان نے کے مطابق ارب ڈالر بینک کے کے لیے کی گئی کیا ہے
پڑھیں:
سرکاری اراضی پر قبضہ کسی صورت قبول نہیں، خسارے والے اداروں کی نجکاری، خود نگرانی کرونگا: وزیراعظم
اسلام آباد (خبر نگار خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ) وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ خسارے میں چلنے والے قومی اداروں کی نجکاری ملکی معیشت کی بہتری اور ترقی کے لئے ناگزیر ہے۔ نجکاری کے عمل کو موثر، جامع اور مستعدی سے مکمل کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ منتخب اداروں کی نجکاری میں تمام قانونی مراحل اور شفافیت کے تقاضے پورے کئے جائیں۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار بدھ کو یہاں سرکاری ملکیتی اداروں کی نجکاری کی پیشرفت سے متعلق جائزہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ قومی اداروں کی بیش قیمت اراضی پر ناجائز قبضہ کسی صورت قابل قبول نہیں۔ نجکاری کے مراحل میں قومی اداروں کی ملکیت میں بیش قیمت اراضی کے تصفیہ میں ہر ممکن احتیاط ملحوظ خاطر رکھی جائے۔ مذکورہ اداروں کی مرحلہ وار نجکاری کے اہداف مارکیٹ کے معاشی ماحول کے مطابق مقرر کئے جائیں تاکہ قومی خزانے کو ممکنہ نقصان سے ہر صورت بچایا جا سکے۔ نجکاری کے مراحل میں سرخ فیتے اور غیر ضروری عناصر کا خاتمہ کرنے کے لئے نجکاری کمشن کو قانون کے مطابق مکمل خود مختاری دی جائے گی۔ تمام فیصلوں پر مکمل اور موثر انداز میں عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔ نجکاری کمشن میں جاری کام کی پیشرفت کی باقاعدگی سے خود نگرانی کروں گا۔ نجکاری کے مراحل اور اداروں کی تشکیل نو میں پیشہ ور ماہرین کی مشاورت اور بین الاقوامی معیار کو برقرار رکھا جائے۔ وزیراعظم کو 2024 میں نجکاری لسٹ میں شامل کئے گئے اداروں کی نجکاری پر پیشرفت پر بریفنگ دی گئی۔ وزیراعظم کو بتایا گیا کہ نجکاری کمشن منتخب اداروں کی مرحلہ وار نجکاری میں قانونی، مالیاتی اور شعبہ جاتی تقاضوں کو مد نظر رکھ رہا ہے۔ منتخب اداروں کی مرحلہ وار نجکاری کو کابینہ سے منظور شدہ پروگرام کے تحت مقررہ وقت میں مکمل کیا جائے گا۔ پی آئی اے، بجلی کی ترسیل کار کمپنیز (ڈسکوز) سمیت نجکاری کی لسٹ میں شامل تمام اداروں کی نجکاری کو مقررہ معاشی، ادارہ جاتی اور انتظامی اہداف کے مطابق مکمل کیا جائے گا۔ وزیرِاعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ایف بی آر کی اصلاحات سے ٹیکس نظام کی بہتری خوش آئند ہے۔ عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نظام کی تشکیل کیلئے معینہ مدت میں اقدامات یقینی بنائے جائیں۔ اہداف کا حصول مثبت ہے مگر مزید محنت کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم آفس سے جاری بیان کے مطابق شہباز شریف کی زیر صدارت فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جاری اصلاحات پر جائزہ اجلاس ہوا۔ اجلاس کے دوران وزیرِ اعظم نے ایف بی آر حکام اور اصلاحات کے عمل میں شامل افسران و اہلکاروں کی کوششوں کی تعریف کی اور آئندہ ہفتے تجاویز کے حوالے سے قابل عمل اہداف اور مدت کا تعین کرکے پیش کرنے کی ہدایت کی۔ انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کی ڈیجیٹائزیشن سے اہداف کے حصول میں معاونت ملی۔ اسے مستقل بنیادوں پر پائیدار نظام بنانے کیلئے اقدامات یقینی بنائے جائیں۔ غیر رسمی معیشت کے سد باب کیلئے انفورسمنٹ کے حوالے سے مزید اقدامات کئے جائیں۔ ایف بی آر کے ڈیجیٹل ونگ کی ازسر نو تشکیل کیلئے جامع لائحہ عمل تشکیل دے کر اہداف کے حصول کے وقت کا تعین کیا جائے۔ اصلاحاتی عمل میں تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت اور ان کی تجاویز کی شمولیت یقینی بنائی جائے۔ ایف بی آر کی اصلاحات کے اطلاق میں کاروباری حضرات، تاجر برادری، اور ٹیکس دہندگان کی سہولت کو مد نظر رکھا جائے۔ ٹیکس نظام کی بہتری سے ملکی آمدن میں اضافہ اور عام آدمی پر ٹیکس کا بوجھ کم کرنا اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ دریں اثناء وزیراعظم محمد شہبازشریف سے برطانوی ہائی کمشنر جین میریٹ نے ملاقات کی اور پاک برطانیہ تعلقات پر تبادلہ خیال کیا۔ ملاقات کے دوران وزیراعظم نے کنگ چارلس سوئم اور وزیر اعظم کیئر سٹارمر کے لیے اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ اس سال کے اواخر میں برطانیہ کی قیادت کے ساتھ اپنی ملاقات کے منتظر ہیں۔ انہوں نے برطانوی حکومت کی جانب سے پی آئی اے کی پروازوں کی بحالی کے حالیہ فیصلے کا خیرمقدم کیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اس مثبت پیش رفت سے برطانوی پاکستانی کمیونٹی کو درپیش مشکلات کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے درمیان تبادلے کو بڑھانے میں بھی مدد ملے گی۔ انہوں نے اس سلسلے میں ہائی کمشنر کے مثبت کردار کو خاص طور پر سراہا۔ وزیراعظم نے پاکستان اور برطانیہ کے درمیان دوطرفہ تعاون کی مثبت رفتار پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان حال ہی میں ہونے والے تجارتی مذاکرات دونوں فریقین کے لیے باہمی طور پر فائدہ مند ثابت ہوں گے۔ وزیراعظم نے پاکستان بھارت کشیدگی میں کمی کے لیے برطانیہ کے کردار کو سراہتے ہوئے اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تمام تصفیہ طلب مسائل پر بامعنی مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ برطانوی ہائی کمشنر نے وزیراعظم کو اپنے حالیہ دورہ لندن کے بارے میں بتایا جہاں انہوں نے پاکستان اور برطانیہ کے درمیان تعلقات کو بڑھانے کے حوالے سے وسیع مشاورت کی۔ برطانوی ہائی کمشنر نے وزیر اعظم کے وژن اور قیادت میں گزشتہ ڈیڑھ سال میں حکومت کی معاشی کارکردگی کو سراہا جس سے تمام اہم میکرو اکنامک اشاریوں میں نمایاں بہتری آئی۔ وزیراعظم شہباز کی جانب سے تمام وفاقی سیکرٹریز کو مراسلہ ارسال کیا گیا ہے جس میں ہدایت کی گئی ہے کہ تمام بورڈز ایس او ای ایکٹ کے تحت ایک ماہ کے اندر مکمل کئے جائیں۔ وزیراعظم نے ہدایت کی ہے کہ بورڈز کے ممبران کی نامزدگی 10 دن کے اندر کابینہ کو بھیجی جائے۔ مراسلے میں کہا گیا ہے کہ بورڈز مکمل نہ ہونے کی وجہ سے سرکاری شعبے کے اداروں اور کمپنیوں کی کارکردگی متاثر ہو رہی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت سرکاری اداروں کے بیشتر بورڈز کو ایڈہاک پر چلایا جا رہا ہے۔علاوہ ازیں وزیراعظم محمد شہباز شریف نے ملک بھر میں بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ریسکیو آپریشنز کو مزید بڑھانے اور تیز تر کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو مسافر شاہراہیں بند ہونے کی وجہ سے پھنسے ہوئے ہیں۔ انہیں رہائش، خوراک سمیت ہرممکن سہولیات فراہم کی جائیں۔