حکومتی نا اہلی اور کرپشن کے فو ر منصوبہ 20 برس بعد بھی مکمل نہ ہوسکا!
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
کراچی (رپورٹ /واجد حسین انصاری)تین کروڑ کی آبادی پر مشتمل،ملک کے سب سے بڑے شہر اور اقتصادی مرکز کراچی کے لیے 20سال قبل سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ مرحوم کے دور میں بنایاگیا کے فورپانی کا منصوبہ حکومتی نااہلی اور کرپشن کے باعث آج تک مکمل نہ ہوسکا۔اس منصوبے پر سندھ حکومت
کے ساتھ وفاقی حکومت نے بھی صرف زبانی دعوں پر ہی اکتفا کیا جس کے باعث صورتِ حال مزید گھمبیر ہوچکی ہے جب کہ منصوبے کی قیمت میں اربوں روپے کا اضافہ ہوچکا ہے۔کے فور منصوبے کی عدم تکمیل کے باعث شہر قائد میں پانی کامزید بحران پید ا کرکے ہائیڈرنٹ اور پانی کے کاروبار سے منسلک مافیاز کو فائدہ پہنچایا جارہا ہے،جس کا بہت بڑا حصہ حکومتی اداروں اور انتظامیہ میں موجود کالی بھیڑوں کوباقاعدگی سے پہنچایا جاتا ہے۔ اگرقلتِ آب پر قابو نہ پایا گیا اور اس منصوبے کوجلد مکمل نہیں کیا گیا نہ صرف ا س سے امن و امان کی صورتِ حال خراب ہوسکتی ہے بلکہ پانی پر فسادات بھی ہوسکتے ہیں۔سندھ اسمبلی کے اپوزیشن ارکان کا کہنا ہے کہ منصوبے کی تکمیل کے حوالے سے حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آگمینٹیشن پلان کے لیے اس بجٹ میں کوئی رقم مختص نہیں کی گئی ہے۔ان ارکان نے سندھ حکومت کی جانب سے دسمبر 2025ء میں منصوبے کی تکمیل کے اعلان کو بھی ڈھونگ قرار دے دیا ہے۔تفصیلات کے مطابق تین کروڑ کی آبادی پر مشتمل،ملک کے سب سے بڑے شہر اور اقتصادی مرکز کراچی کی پانی کی ضروریات بڑھتی آبادی کے ساتھ ساتھ پوری کرنے کیلئے وفاقی اور صوبائی حکومت کا مشترکہ گریٹر کراچی واٹر سپلائی اسکیم کے فورپراجیکٹ دو عشرے قبل سابق ناظم کراچی نعمت اللہ خان ایڈوکیٹ کے دور میں بنایا گیا تھا لیکن حکومتی لیت و لعل کے باعث یہ منصوبہ مسلسل تعطل کا شکار چلا آرہا ہے۔ذرائع کے مطابق اس منصوبے کے پہلے مرحلے پر عمل درآمد کے لیے ڈیزائن کا کنٹریکٹ ‘عثمانی اینڈ’ کو نامی کمپنی کو دیا گیا تھا جس کی منظوری کے بعد 2016ء میں سندھ حکومت نے اہم نوعیت کا منصوبہ ہونے کی وجہ سے قواعد میں نرمی کی اور فوج کے انجینئرنگ کے شعبے فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او)کو منصوبے کا ٹھیکہ دیا۔ایف ڈبلیو او نے منصوبے پر 2016ء میں کام بھی شروع کیا تھا اور امید کی گئی تھی کہ اب منصوبے کا پہلا مرحلہ نومبر 2019ء تک مکمل ہوگا البتہ نیشنل انجینئرنگ اینڈ سائنٹیفک کمیشن (نیسکام)نے اس منصوبے کے ڈیزائن میں خامیوں کی نشاندہی کی جس کے بعد اس میں متعدد تبدیلیاں ہوئیں اور پھر اس کے ساتھ لاگت میں اضافے کی وجہ سے منصوبہ نامکمل ہی رہا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ منصوبے میں سندھ حکومت کی جانب سے غیر معمولی تاخیر کی گئی۔منصوبے کے لیے مختص کی گئی زمین جہاں سے اس کا راستہ گزرنا تھا وہی زمینیں انرجی کوریڈور کے تحت ونڈ انرجی پراجیکٹس کے لیے بھی الاٹ کی گئیں جس کی وجہ سے تیزی سے کام میں رکاوٹ ااتی رہی اور اس پر یہ پروپیگنڈ کیا گیا کہ منصوبے کا ڈیزائن تبدیل کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ذرائع نے مزید بتایا کہ منصوبے کا ڈیزائن تبدیل کرنے سے اس کی قیمت بڑھی، منصوبہ میں مزید تاخیر ہوئی اور جن لوگوں کی زمینیں اس منصوبے کی زد میں آئیں، ان سے مال دار اور اثر و رسوخ رکھنے والے لوگوں نے اونے پونے داموں زمینیں خرید لی تاکہ حکومت کو مہنگے داموں فروخت کی جاسکیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی کو اس وقت ایک ارب 10 کروڑ گیلن یومیہ پانی کی ضرورت ہے مگر فی الوقت ضرورت کا محض 45 فیصد پانی شہر کو فراہم کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے شہری زیرِ زمین پانی کا استعمال کرنے پر مجبور ہیں جو کھارا اور نمکین ہے۔کے فور منصوبے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سندھ اسمبلی میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر محمد فاروق فرحان نے کہاکہ 20 سال گزر جانے کے باوجود کراچی کے پانی کا منصوبہ کے فور مکمل نہ ہونے کی ذمے دار وفاقی اور صوبائی حکومت ہے۔ کراچی کے ساتھ ہونے والے ظلم میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم شریک جرم ہیں۔انہوںنے کہا کہ حکومت سندھ کہتی ہے کہ دسمبر 2025ء میں کے فور منصوبہ مکمل ہو جائے گا لیکن ان کے پاس عوام کو ریلیف دینے کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔کے فور کے آگمینٹیشن پلان کے لیے اس بجٹ میں کوئی رقم مختص نہیں کی گئی۔سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر شبیر قریشی نے کراچی کے پانی کے منصوبے K4 کے حوالے سے نمائندہ جسارت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 20 سال پرانا یہ منصوبہ حکومت کی نااہلی اور کرپشن کے باعث تاحال مکمل نہ ہوسکا،آج بھی کراچی کے عوام پانی جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔K4 کی تکمیل کے حوالے سے حکومت کی نیت ٹھیک نہیں، اس کی توجہ عوامی مسائل حل کرنے کے بجائے لوٹ مار میں مصروف ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ حکومت کراچی کے عوام کے ساتھ کھیل رہی ہے اس حکومت مین مال بنانے کی صلاحیت تو موجود ہے لیکن عوام کے مسائل حل کرنے کی اہلیت نہیں۔شبیر قریشی نے کہا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت کا یہ دعویٰ کہ K4 منصوبہ رواں سال دسمبر2025ء تک مکمل ہوجائے گا یہ صرف دعویٰ ہی رہے گا۔ پیپلزپارٹی کے وعدوں اور دعووں پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا ہے یہ صرف عوام کوطفل تسلیاں ہی دیتے رہیں گے،اس حکومت نے ہرسطح پر مایوس کیا ہے۔دوسری جانب شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ ملک کو 65فیصد ریونیو کما کر دینے والے شہر قائد کے باسیوں کو پانی جیسی بنیادی سہولت تک سے محروم کردیا گیا ہے جب کہ عوام اپنے ہی حصے کا پانی منہ مانگے داموں پر خریدنے پر مجبور ہیں۔ان حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے پانی جیسی بنیادی سہولت کی فراہمی کے لیے K-4جیسا اہم منصوبہ متعارف کرایاگیا تھا جس کو 2011ء میں تکمیل پزیر ہونا تھا لیکن حکومتوں کی ذاتی جپقلش اور مافیاز کی جانب سے ایسے اہم اور عظیم منصوبے کو سازش کے تحت تعطل کا شکا ر بنایا گیا ہے۔
 
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کا کہنا ہے کہ کے حوالے سے سندھ حکومت کی جانب سے منصوبے کے منصوبے کی منصوبے کا کہ منصوبے کی وجہ سے کراچی کے حکومت کی تکمیل کے نہیں کی پانی کا کے ساتھ کے باعث کے فور کی گئی کہا کہ نے کہا کے لیے
پڑھیں:
لاہورمیں الیکٹرک ٹرام منصوبہ مؤخر، فنڈز سیلاب متاثرین کو منتقل
لاہور، پنجاب کے وزیرِ ٹرانسپورٹ بلال اکبر نے اعلان کیا ہے کہ کینال روڈ پرالیکٹرک ٹرام منصوبہ آئندہ سال فروری میں شروع نہیں کیا جا سکے گا۔وزیر ٹرانسپورٹ بلال اکبر کے مطابق منصوبے کے لیے مختص 130 ارب روپے کا فنڈ سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے منتقل کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ منصوبے کو مؤخرکرنے کے باوجود محکمہ ٹرانسپورٹ نے تین نئی تجاویز تیار کی ہیں، جو دسمبر میں وزیر اعلیٰ پنجاب کو پیش کی جائیں گی۔انہوں نے بتایا کہ ٹرام منصوبے کے ساتھ لاہور کے ٹرانسپورٹ نیٹ ورک کو ازسرِنوترتیب دیا جا رہا ہے تاکہ مستقبل میں جدید اور پائیدارسفری سہولیات فراہم کی جا سکیں۔
2009 میں لاہور کے لیے چار میٹرولائنز کی ضرورت تھی، تاہم تازہ ترین اسٹڈی کے مطابق اب شہر میں کم از کم چھ میٹرو لائنز درکار ہیں۔چند روزمیں گوجرانوالہ اورفیصل آباد میٹرو منصوبوں کی گراؤنڈ بریکنگ تقریب منعقد کی جائے گی، جس کے بعد کینال روڈ ٹرام منصوبے پر بھی کام شروع کیا جائے گا، ورلڈ بینک کے تعاون سے 25 کروڑ ڈالرز کی لاگت سے لاہور میں 400 نئی الیکٹرک بسیں شامل کی جا رہی ہیں۔حکومت کی کوشش ہے کہ آنے والے برسوں میں لاہور میں ایک سے دو نئی میٹرو لائنز کا اضافہ کر کے شہریوں کے سفر کو مزید آسان اور ماحول دوست بنایا جائے۔