اسلام آباد ہائیکورٹ کا رواں ہفتے کا نیا ججز ڈیوٹی روسٹر جاری
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
اسلام آباد ہائی کورٹ کا رواں ہفتے کا نیا ججز ڈیوٹی روسٹر جاری کر دیا گیا، دیگر ہائی کورٹس سے ٹرانسفر ہونے والے تین نئے ججز بھی آج سے کیسز کی سماعت کے لیے دستیاب ہوں گے۔
رواں ہفتے اب دس کے بجائے 13 ججز کیسز کی سماعت کریں گے، تیرہ سنگل بینچز کیساتھ چھ ڈویژن بینچز بھی دستیاب ہوں گے، ڈیوٹی روسٹر کے ذریعے ججز کی نئی سنیارٹی لسٹ بھی جاری کر دی گئی ہے۔
ججز روسٹر کے مطابق پہلا ڈویژن بینچ چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس انعام امین منہاس پر مشتمل ہو گا۔
دوسرا ڈویژن بینچ نئے ٹرانسفر ہونے والے دنوں ججز پر مشتمل ہے جس میں جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس خادم حسین سومرو شامل ہیں۔
تیسرا ڈویژن بینچ جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان پر مشتمل ہے۔
چوتھے ڈویژن بینچ میں جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز شامل ہیں۔
پانچویں ڈویژن بینچ میں جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس اعظم خان جبکہ چھٹے ڈویژن بینچ میں جسٹس بابر ستار اور جسٹس ارباب محمد طاہر کو شامل کیا گیا ہے۔
تبادلے کے بعد آنے والے تین ججز کی سنیارٹی کے حساب سے ڈیوٹی روسٹر جاری کیا گیا ہے جس کے مطابق جسٹس سرفراز ڈوگر کو بینچ 2 دیا گیا ہے، اس سے پہلے جسٹس محسن اختر کیانی کے پاس سینئر پیونی جج کا عہدہ اور بینچ ٹو تھا مگر اب ان کو بینچ تھری میں شامل کر لیا گیا ہے۔
سندھ ہائیکورٹ سے آنے والے جسٹس خادم حسین سومرو کا بینچ 9 ہوگا جبکہ بلوچستان ہائیکورٹ سے آنے والے جسٹس محمد آصف کا بینچ 12 مقرر کیا گیا ہے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ڈیوٹی روسٹر ڈویژن بینچ اور جسٹس گیا ہے
پڑھیں:
ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں،سپریم کورٹ
ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا، جج نے غصے میں فیصلہ دیا
اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے ، جسٹس ہاشم کاکڑ
صنم جاوید کی 9 مئی مقدمے سے بریت کے خلاف کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔سپریم کورٹ میں 9 مئی مقدمات میں صنم جاوید کی بریت کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت ہوئی، جس میں حکومتی وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صنم جاوید کے ریمانڈ کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہوئی۔ ریمانڈ کیخلاف درخواست میں لاہور ہائیکورٹ نے ملزمہ کو مقدمے سے بری کردیا۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ان کیسز میں تو عدالت سے ہدایات جاری ہوچکی ہیں کہ 4 ماہ میں فیصلہ کیا جائے ۔ اب آپ یہ مقدمہ کیوں چلانا چاہتے ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر فیصلہ دیا اور ملزمہ کو بری کیا۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ میرا اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں۔ اگر ہائیکورٹ کو کوئی خط بھی ملے کہ ناانصافی ہورہی تو وہ اختیارات استعمال کرسکتی ہے ۔ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں۔وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ہائیکورٹ سوموٹو اختیارات کا استعمال نہیں کرسکتی، جس پر جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دیے کہ کریمنل ریویژن میں ہائی کورٹ کے پاس تو سوموٹو کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔صنم جاوید کے وکیل نے بتایا کہ ہم نے ہائیکورٹ میں ریمانڈ کے ساتھ بریت کی درخواست بھی دائر کی تھی۔جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ آپ کو ایک سال بعد یاد آیا کہ ملزمہ نے جرم کیا ہے ؟ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ شریک ملزم کے اعترافی بیان کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے آپ کو بھی معلوم ہے ۔ اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے ۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس میں کہا کہ ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے غصے میں فیصلہ دیا۔ بعد ازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔