ججز کا خط اور عدلیہ کی آزادی
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
پاکستان میں اسوقت عدلیہ کی آزادی اور عدلیہ کے معاملات میں ایگزیکٹو کے عمل دخل پر بحث جاری ہے۔ یہ بحث عوام، میڈیا اور سوشل میڈیا سے ہوتی ہوئی اب ججز کے خطوط اور فیصلوں تک جا پہنچی ہے۔ سپریم کورٹ کے سینیئر پیونی جج (senior puisne) جسٹس منصور علی شاہ ہوں یا اسلام آباد ہائیکورٹ کے آدھے درجن کے قریب ججز سب کھل کر عدلیہ کی آزادی اور خودمختاری کے علاوہ آئین کی سربلندی کی یاددہانی کراتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان کو مختلف خطوط لکھ چکے اور چھبیسویں آئینی ترمیم اور ججز کی تعیناتی کے حوالے سے بھی اپنے خدشات اور تحفظات کا اظہار کھلے عام کر چکے ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کو اس بات پر اعتراض ہے کہ دوسرے ہائیکورٹس سے جج لاکر ان میں سے کسی ایک کو اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیف جسٹس تعینات نہ کیا جائے کیونکہ یہ آئین کیساتھ فراڈ ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کسی ایک ہائیکورٹ کے جج کو کسی دوسرے ہائیکورٹ میں چیف جسٹس تعینات کیا گیا ہو؟ یا براہ راست کسی کو جج بنا کر اسے سیدھا چیف جسٹس تعینات کیا گیا ہو؟ ہمارے ملک میں ایسا انہونا واقعہ بھی ہوا ہے کہ ایک وزیر خارجہ کو استعفیٰ دلوا کر براہ راست ہائیکورٹ کا چیف جسٹس لگایا گیا۔
سابق ملٹری ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کے دور میں منظور قادر بطور وزیر خارجہ کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ جنرل ایوب خان نے وزارت خارجہ سے انکو استعفیٰ دلوا کر چیف جسٹس ویسٹ پاکستان ہائیکورٹ (لاہور ہائیکورٹ) تعینات کردیا۔ منظور قادر صاحب عدلیہ اور وکلا برادری میں انتہائی احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ اس لیے جب ان کو براہ راست چیف جسٹس تعینات کیا گیا تو ویسٹ پاکستان ہائیکورٹ کے کسی بھی جج نے ان پر اعتراض نہ کیا۔ ویسے بھی ہماری تاریخ ایسی ہے کہ عدلیہ نے ہمیشہ ڈکٹیٹرز کو نظریہ ضرورت کے تحت آئینی کور دیا۔
جیسا کہ عرض کیا ہے کہ ہماری عدلیہ میں بے شمار انہونے واقعات ہوئے ہیں۔ ہائیکورٹس میں براہ راست چیف جسٹس لگانا تو ایک طرف یہاں تو سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج کو ایک ہائیکورٹ کا چیف جسٹس لگا دیا گیا اور وہ بیک وقت دو عہدوں پر فائز رہے۔ لیکن مملکت خداد میں ہمیشہ سہاگن وہی جو پیا من بھائے۔ خود سے آئین کو موم کی ناک کی طرح جس طرف چاہے موڑ دیا جائے لیکن پارلیمنٹ اگر کوئی قانون سازی کرے تو وہ قابل قبول نہیں۔
بہر حال پچھلے دنوں جسٹس ارشاد حسن خان کا میڈیا پر خوب تذکرہ رہا اور آجکل اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی طرف سے ججوں کے تبادلے اور کسی دوسرے ہائیکورٹ کے جج کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس لگائے جانے کے خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے تو موقع کی مناسبت سے مجھے ایک واقعہ یاد آگیا اور اس کے ساتھ ساتھ الجہاد ٹرسٹ کیس کا فیصلہ بھی جس میں اس واقعے سے جڑے کچھ حقائق بھی۔
ہوا کچھ یوں کہ لاہور ہائیکورٹ میں چیف جسٹس کا عہدہ خالی ہوا تو ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس عہدے پر روٹین کیمطابق چیف جسٹس کی تعیناتی کی جاتی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ایک فل ٹائم چیف جسٹس کے بجائے نگران (ایکٹنگ) چیف جسٹس لگادیا گیا۔ اس سے بھی ستم ظریفی یہ کہ سپریم کورٹ کے ایک حاضر سروس جج کو نگران چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ تعینات کیا گیا۔ جسٹس ارشاد حسن خان جو اس وقت سپریم کورٹ میں بطور جج فرائض سرانجام دے رہے تھے ان کو 1995 میں لاہور ہائیکورٹ کے نگران چیف جسٹس کا اضافی چارج بھی دے دیا گیا اور 1996 میں اس عہدے پر ایک ریگولر چیف جسٹس تعینات کیا گیا۔
یہ تو بھلا ہو الجہاد ٹرسٹ کیس کا جس کے بعد کچھ رولز سیٹ کردیے گئے کہ اگر اعلیٰ عدلیہ میں جج کی آسامی خالی ہو تو 30 دن کے اندر پُر کیا جانا لازمی ہے اور اگر کسی جج کی دوران سروس وفات ہو جائے یا کوئی مستعفی ہو جائے تو پھر اس آسامی پر 90 دنوں پر تعیناتی کرنا لازمی ہے۔ اگر یہ فیصلہ نہ آتا تو نہ جانے کب تک نگران چیف جسٹسز کا سلسلہ برقرار رہتا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے جو متفقہ طور پر خط چیف جسٹس سپریم کورٹ، سندھ اور لاہور ہائیکورٹس اور صدر مملکت کو لکھا ہے قانونی طور پر جو شخص بھی سروس آف پاکستان میں ہے مشترکہ نمائندگی کر ہی نہیں سکتا۔ گورنمنٹ سروسز کنڈکٹ رولز آف 1964 کیمطابق کوئی بھی شخص جو سروس آف پاکستان میں ہے ایک سے زیادہ لوگوں کیساتھ مل کر کسی معاملے پر اپنے تحفظات، خدشات کا اظہار نہیں کرسکتا۔ البتہ اکیلے اکیلے ان کے اظہار پر کوئی پابندی نہیں۔
سوال یہ بھی ہے کیا ہماری عدلیہ خود کو سروس آف پاکستان کے ماتحت مانتی ہے کہ نہیں؟ ابھی تک اس سوال کے جواب کا بھی تعین نہیں ہوسکا۔ یہ ایک لمبی بحث ہے۔ بہرحال اب تو ججز کے ان خطوط کا جواب بھی دے دیا گیا اور صدر مملکت نے لاہور، سندھ اور بلوچستان ہائیکورٹ سے ایک ایک جج کا تبادلہ کرکے ان کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں تعینات کردیا ہے اور ججز کا خط غیر مؤثر ہوچکا ہے۔ اب تو جو ہونا تھا ہوچکا ہے لیکن ہمیں بھی اپنی اداؤں پر کچھ غور کرنا چاہیے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسلام ا باد ہائیکورٹ چیف جسٹس تعینات کیا گیا اسلام آباد ہائیکورٹ کے لاہور ہائیکورٹ ہائیکورٹ کے جج سپریم کورٹ آف پاکستان براہ راست کورٹ میں گیا اور دیا گیا
پڑھیں:
پٹوار سرکلز میں غیر قانونی عمل، اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈپٹی کمشنر کو طلب کر لیا
پٹوار سرکلز میں غیر قانونی عمل، اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈپٹی کمشنر کو طلب کر لیا WhatsAppFacebookTwitter 0 17 September, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز) اسلام آباد ہائیکورٹ میں وفاقی دارالحکومت کے پٹوار سرکلز میں پرائیویٹ افراد کے ذریعے سرکاری امور انجام دیے جانے کے خلاف دائر درخواست پر سماعت ہوئی۔
سماعت جسٹس محسن اختر کیانی نے کی۔عدالت نے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔
دورانِ سماعت جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد کے پٹوار خانوں میں 45 سیٹوں پر صرف 9 پٹواری کام کر رہے ہیں جبکہ پٹواریوں نے اپنے طور پر منشی رکھے ہوئے ہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اسلام آباد کی پوسٹیں کسی اور صوبے کی نہیں ہیں، یہ لوکل پوسٹیں ہیں، فیڈرل کیڈر کی نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا جائے تو یہ 9 پٹواری جیل چلے جائیں گے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ چیف کمشنر کو تو فائدہ ہے کہ 9 افراد سے 45 افراد کا کام لیا جا رہا ہے، پورا نظام ہی ایمان داری کے بجائے بدنظمی پر چل رہا ہے۔بعد ازاں عدالت نے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو آئندہ سماعت پر طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرسعودی ولی عہد کی دعوت پر وزیر اعظم شہباز شریف سرکاری دورے پر ریاض روانہ سعودی ولی عہد کی دعوت پر وزیر اعظم شہباز شریف سرکاری دورے پر ریاض روانہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا جسٹس طارق جہانگیری کو کام سے روکنے کا تحریری حکم نامہ جاری جسٹس طارق جہانگیری کی سماعت کی آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ حصول کی درخواست دائر سی پیک کے تحت چلنے والے پراجیکٹ ایس ۔کے ۔ ہائیدروپاور اسٹیشن کے کمرشل آپریشن کا ایک سال بنوں اور کرک میں دہشت گردوں کے تھانوں پر حملے ناکام، 3 دہشت گرد ہلاک، 4 زخمی ہمارے منجمد اثاثوں کو یوکرین کی جنگی امداد کیلئے استعمال کرنے پر سخت کارروائی کریں گے، روسCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم