کیا ملک کے مسائل حل ہوگئے؟ جو پارلیمنٹرینز کی تنخواہ بڑھا دی، مفتاح اسماعیل کا سوال
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ پارلیمنٹرینز کی تنخواہ بڑھانے کی ضرورت نہیں تھی، ایم این ایز غربت کے مارے نہیں، تنخواہ بڑھانی تھی تو 10 فیصد بڑھا دیتے، 300 فیصد تک ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہیں بڑھائیں گے تو پھر چرچہ تو ہوگا۔ اسلام ٹائمز۔ سابق وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے سوال کیا ہے کہ کیا ملک کے مسائل حل ہوگئے؟ جو پارلیمنٹرینز کی تنخواہ بڑھا دی، بے حسی کی انتہا ہے۔ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہ 300 فیصد تک بڑھانا بے حسی کی انتہا ہے، جو ایم این اے منتخب ہوکر آتے ہیں وہ صاحب ثروت ہوتے ہیں، 10 کروڑ 50 لاکھ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ملک میں بیماریاں ہیں اور بچے اسکول سے باہرہیں اور ارکان نے تنخواہ بڑھا دی، 600 سے 700 ارب روپے ارکان کے اسکیموں کے لیے رکھے گئے ہیں، اسکیموں کی مد میں بھی ارکان کو پیسے ملتے ہیں، تنخواہ بڑھانے کی ضرورت نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ ایم این ایز غربت کے مارے نہیں، تنخواہ بڑھانی تھی تو 10 فیصد بڑھا دیتے، 300 فیصد تک ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہیں بڑھائیں گے تو پھر چرچہ تو ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس مجموعہ نہیں تو ن لیگ کے پاس بھی عوامی مجموعہ نہیں ہے، فارم 47 کی پیداوار دوسروں کو طعنہ دے رہے ہیں کہ ان کے پاس کراؤڈ نہیں، آئین کی بالادستی کے لیے ہم سب کے ساتھ بیٹھنے کیلیے تیار ہیں۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ہم کسی کیساتھ انتخابی اتحاد نہیں کریں گے نہ کسی کے احتجاج میں شریک ہونگے، ہم کانفرنس کا انعقاد کریں گے اور تمام پارٹیوں کو مدعو کریں گے، عرفان صدیقی کی بات درست ہے کہ ہماری پارٹی ابھی اتنی بڑی نہیں، آئندہ الیکشن میں بتا دیں گے کہ ہماری پارٹی کتنی بڑی اور کتنا مجموعہ ہے، ہم پاکستان کے خاطر پی ٹی آئی اور ن لیگ کے ساتھ بیٹھنے کو تیار ہیں۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ اس وقت ملک میں قانون کی حکمرانی لانا بہت ضروری ہے، وزیراعظم نہ 3 میں ہیں نہ 13 میں ہیں، وہ کیا کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ محسن نقوی مذاکرات کررہے ہوں تو پھر کچھ سمجھ آتا ہے، وزیراعظم تو الیکشن میں اپنی نشست بھی نہیں جیت سکے تھے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کی تنخواہ
پڑھیں:
عمران کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا، جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا: سپریم کورٹ
اسلام آباد(خصوصی رپورٹر +نوائے وقت رپورٹ)سپریم کورٹ نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر حکومت پنجاب کی اپیلیں نمٹا دیں جب کہ دوران سماعت جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے ہیں کہ ملزم کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا اب تو جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سپریم کورٹ نے بانی پی ٹی آئی کے جسمانی ریمانڈ کے لیے دائر حکومت پنجاب کی اپیلوں پر سماعت کے دوران کہا کہ پنجاب حکومت چاہے تو ٹرائل کورٹ سے رجوع کر سکتی ہے، بانی پی ٹی آئی کے وکلا دراخواست دائر ہونے پر مخالفت کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیئے کہ ملزم کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا اب تو جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پراسیکیوٹر زوالفقار نقوی نے کہا کہ ملزم کے فوٹو گرامیٹک، پولی گرافک، وائس میچنگ ٹیسٹ کرانے ہیں۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ درخواست میں استدعا ٹیسٹ کرانے کی نہیں، جسمانی ریمانڈ کی تھی۔ جسٹس صلاح الدین پنور نے کہا کہ کسی عام قتل کیس میں تو ایسے ٹیسٹ کبھی نہیں کرائے گئے، توقع ہے عام آدمی کے مقدمات میں بھی حکومت ایسے ہی ایفیشنسی دکھائے گی۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ڈیڑھ سال بعد جسمانی ریمانڈ کیوں یاد آیا، اسپیشل پراسیکیوٹر زوالفقار نقوی نے مؤقف اپنایا کہ ملزم بانی پی ٹی آئی نے تعاون نہیں کیا۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ جیل میں زیر حراست ملزم سے مزید کیسا تعاون چاہیے، میرا ہی ایک فیصلہ ہے کہ ایک ہزار سے زائد سپلیمنٹری چلان بھی پیش ہو سکتے ہیں، ٹرائل کورٹ سے اجازت لیکر ٹیسٹ کروا لیں۔ جسٹس صلاح الدین پہنور نے کہا کہ استغاثہ قتل کے عام مقدمات میں اتنی متحرک کیوں نہیں ہوتی۔اسپیشل پراسیکیوٹر زوالفقار نقوی نے استدلال کیا کہ 14 جولائی 2024 کو ٹیم بانی پی ٹی آئی سے تفتیش کرنے جیل گئی لیکن ملزم نے انکار کردیا، ریکارڈ میں بانی پی ٹی آئی کے فیس بک، ٹیوٹر اور اسٹاگرام پر ایسے پیغامات ہیں جن میں کیا گیا اگر بانی پی ٹی کی گرفتاری ہوئی تو احتجاج ہوگا۔جسٹس صلاح الدین پنور نے کہا کہ اگر یہ سارے بیانات یو ایس بی میں ہیں تو جاکر فرانزک ٹیسٹ کروائیں، اسپیشل پراسیکیوٹر زوالفقار نقوی نے مؤقف اپنایا کہ ہم صرف یہ چاہتے ہیں ہمارے ساتھ تعاون کیا جائے۔عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ اب پانی سر سے گزر چکا ہے، 26 گواہان کے بیانات قلمبند ہو چکے ہیں۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ اگر ہم نے کوئی آبزرویشن دیدی تو ٹرائل متاثر ہوگا، ہم استغاثہ اور ملزم کے وکیل کی باہمی رضامندی سے حکمنامہ لکھوا دیتے ہیں۔ذوالفقار نقوی نے کہا کہ میں اسپیشل پراسیکیوٹر ہوں، میرے اختیارات محدود ہیں، میں ہدایات لیے بغیر رضامندی کا اظہار نہیں کر سکتا۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ چلیں ہم ایسے ہی آرڈر دے دیتے ہیں، ہم چھوٹے صوبوں سے آئے ہوئے ججز ہیں، ہمارے دل بہت صاف ہوتے ہیں، پانچ دن پہلے ایک فوجداری کیس سنا، نامزد ملزم کی اپیل 2017 میں ابتدائی سماعت کیلئے منظور ہوئی۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ کیس میں نامزد ملزم سات سال تک ڈیتھ سیل میں رہا جسے باعزت بری کیا گیا، تین ماہ کے وقت میں فوجداری کیسز ختم کر دیں گے۔عدالت نے اپنے حکمنامے میں کہا کہ بانی پی ٹی آئی کے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر کی گئی اپیلیں دو بنیادوں پر نمٹائی جاتی ہیں، استغاثہ بانی پی ٹی آئی کے پولی گرافک ٹیسٹ، فوٹو گرافک ٹیسٹ اور وائس میچنگ ٹیسٹ کیلئے ٹرائل کورٹ سے رجوع کرنے میں آزاد ہے۔حکمنامہ کے مطابق بانی پی ٹی کی قانونی ٹیم ٹرائل کورٹ میں ایسی درخواست آنے پر لیگل اور فیکچویل اعتراض اٹھا سکتی ہے۔