Express News:
2025-07-26@22:57:55 GMT

مسلم لیگ ن کی داخلی سیاست

اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT

پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا ہمیشہ سے یہ المیہ رہا ہے کہ جب بھی وہ اقتدار میں آتی ہیں تو اقتدار کو اہمیت دے کر اپنی ہی سیاسی جماعتوں کو نظر انداز کر دیتی ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اقتدار کی سیاست میں سیاسی جماعتوں کی اہمیت کمزور اور اقتدار مضبوط ہوتا ہے لیکن جب یہ سیاسی جماعتیں اقتدار سے باہر نکلتی ہیں تو انھیں اپنی سیاسی جماعتوں کی کمزوری کا احساس ہوتا ہے۔

مسلم لیگ ن بھی کچھ اسی سطح کی صورتحال سے دوچار ہے۔بڑی سیاسی جماعت کا خود کو ایک صوبے تک محدود کرنااسے مزید سیاسی تنہائی میں مبتلا کر رہا ہے۔ پنجاب کی سیاست کئی دہائیوں تک مسلم لیگ نون کے قبضے میں چلی آ رہی ہے اور اسی بنا پر صوبے میں مسلم لیگ نون کا سیاسی اقتدار ہے۔

لیکن اب یہاں مسلم لیگ نون کے لیے ایک بہت مضبوط اور سخت حریف پی ٹی آئی کی صورت میں موجود ہے۔ پی ٹی آئی نے مسلم لیگ نون کو پنجاب اور کے پی کے میں سخت ٹائم دیا ہے۔لیکن مسلم لیگ نون کی قیادت نے موجودہ حالات میں پی ٹی آئی کا سیاسی مقابلہ کرنے کے بجائے خود کو محض اقتدار تک محدود کرکے سیاسی میدان تنہا چھوڑا ہوا ہے۔مسلم لیگ نون کی سیاست نواز شریف ، شہباز شریف، حمزہ شہباز اور مریم نواز تک محدود ہے۔

پنجاب کی سیاست پر مکمل کنٹرول مریم نواز کا ہے جب کہ شہباز شریف بھی اب پنجاب کے معاملات میں سرگرم نہیں ہے کیونکہ وہ مرکز میں وزیراعظم ہیںجب کہ نواز شریف بھی عملی سیاست میں اس طرح سے سرگرم نہیں جس طرح سے ان کو ہونا چاہیے تھا۔

انھوں نے خود کو سیاسی طور پر تنہا کیا ہوا ہے۔ بہت سے ارکان پنجاب اسمبلی کو اس بات کا گلہ ہے کہ وزیراعلیٰ کی ان سے ملاقات نہیں ہوتی اور نہ ہی پارٹی کے معاملات یا تنظیمی معاملات میں کوئی توجہ دی جارہی ہے۔ ارکان اسمبلی کا تقرریوں، تبادلوں وغیرہ میں کوئی مشورہ نہیں ہے۔

ترقیاتی فنڈ ز کی بھی کڑی جانچ پڑتال ہے۔ بعض وفاقی اور صوبائی وزرا سمیت کئی پارلیمانی سطح کے سیکریٹریز اور مشیرز بھی گلہ کر چکے ہیں کہ انھیں بھی اعتماد میں نہیں لیا جاتا۔ ارکان اسمبلی جب یہ شکایت وزیراعظم تک پہنچاتے ہیں تو وزیراعظم بھی زیادہ توجہ نہیں دیتے۔

پارٹی کے تنظیمی اجلاس نہ ہونے کے برابر ہیں۔پنجاب کو چھوڑیں باقی دیگر صوبوں میں تو تنظیمی معاملات نہ ہونے کے برابر ہیں۔نواز شریف کا متحرک نہ ہونا بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔حمزہ شہباز جو ماضی میں بہت فعال ہوا کرتے تھے، اب خاموش نظر آتے ہیں۔مسلم لیگ ن پی ٹی آئی کے مقابلے میں ایک متبادل بیانیہ کی ناکامی کا شکار ہے۔ایسے لگتا ہے کہ مسلم لیگ ن کا انحصار اپنی جماعت ووٹر اور سپورٹر سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کے اوپر ہے ۔

 رانا ثنا اللہ ،خواجہ آصف، احسن اقبال، رانا تنویر، خرم دستگیر جیسے لوگوں کی موجودگی میں اگر پارٹی تنظیمی ڈھانچہ تیار نہیں کررہی تو اس پر ضرور غور کیا جانا چاہیے۔ سب سے زیادہ دباؤکا شکار تو مسلم لیگ ن کا ورکر ہے کیونکہ اسی کو مقامی علاقوں میں لوگوں کی باتیں سننی پڑتی یا حالات کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔

مسلم لیگ ن کی کوشش ہے کہ وہ ڈیجیٹل میڈیا پر سرگرم ہو کر اس تاثر کو قائم کریں کہ ان کی حکومت شاندار کام کر رہی ہے۔لیکن سچ تو یہ ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا پر چلنے والی حکومت اور زمینی حقائق میں بنیادی نوعیت کا فرق ہوتا ہے۔

مسلم لیگ نون کے بعض وزرا نے بڑے واضح طور پہ کہا ہے کہ اگر شہباز شریف نے موجودہ صورتحال میں کوئی ٹھوس اقدامات پارٹی تناظرکی بنیاد پر نہ اٹھائے تو آنے والے انتخابات میں ان کو سیاسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔جو مسائل اس وقت پنجاب کی سیاست پر غالب ہیں اس کا کوئی ایسا حل تلاش کرنا چاہیے ۔

ان کے بقول جس انداز سے پارٹی کو چلایا جا رہا ہے اس سے پارٹی کے معاملات کی سطح پر کافی خرابیوں نے جنم لیا ہے اور اگر ہم نے اس وقت اس کا ادراک نہ کیا تو اس کا سیاسی نقصان بطور جماعت ہمیں سیاسی میدان میںہی اٹھانا پڑے گا۔ سوال وہی ہے کہ اگر تنظیمی معاملات میں خرابی برقرار رہتی ہے تو یہ حکومتی سطح پر ہونے والے اقدامات کچھ نہیں کر سکیں گے۔ مسلم لیگ کی سیاست کا ایک المیہ یہ رہا ہے کہ اس نے ہمیشہ سے اپنی پارٹی پر انحصار کرنے کے بجائے بیوروکریسی پر بہت زیادہ انحصار کیا ہے اور اس کا سیاسی نقصان بھی اٹھایا ہے ۔

 یہ صورتحال بھی کافی دلچسپ ہے کہ مریم نواز خود کتنا بااختیار رکھتی ہیں کیونکہ اس دفعہ طاقت کا مرکز مسلم لیگ نون کی حکومت کم اورپس پردہ لوگ زیادہ نظر آتے ہیں۔اصل تو مسئلہ نوجوان ووٹروں کو اپنی طرف راغب کرنا ہے، اس معاملے میں مسلم لیگ ن کو کافی مشکلات کا سامنا ہے۔

نوجوانوں کی توجہ کا مرکزتو اس وقت پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی ہیں۔بانی پی ٹی آئی کو نوجوانوں کی سیاست سے کیسے دور رکھا جائے، یہ مسلم لیگ ن کے لیے واقعی ایک بڑا چیلنج ہوگا۔مسلم لیگ نون کے حامی میڈیا کے لوگ جس قسم کا بیانیہ بانی پی ٹی آئی کے خلاف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 

اس کا فائدہ بھی بانی پی ٹی آئی کو زیادہ اور مسلم لیگ نون کو کم ہو رہا ہے۔ سنجیدہ صحافیوں کے مقابلے میں اس وقت مسلم لیگ نون کی توجہ کا مرکز سوشل میڈیا کے لوگ ہیں جن کا بنیادی مقصد بانی پی ٹی آئی کی کردار کشی کے سوا کچھ نہیں نظر آتا اور یہ پالیسی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوگی۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت سر جوڑ کر بیٹھے اوردیکھے کہ سیاسی طور پر وہ کہاں کھڑی ہے ۔مسلم لیگ ن کو سیاسی حکمت عملیاںدرکار ہیں اور یہ ہی محفوظ سیاسی راستہ بھی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مسلم لیگ نون کی مسلم لیگ نون کے بانی پی ٹی ا ئی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن پی ٹی آئی کی سیاست کا سیاسی رہا ہے

پڑھیں:

اس صوبے میں کسی قسم کے اپریشن کی اجازت نہیں دیں گے

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 24 جولائی2025ء) وزیر اعلٰی خیبرپختونخواہ علی امین گنڈاپور کا کہنا ہے کہ اس صوبے میں کسی قسم کے اپریشن کی اجازت نہیں دیں گے، اسحاق ڈار اور  محسن نقوی میرے صوبے کی بات نہیں کرسکتے، محسن نقوی آپ کو بہت پیارا ہوگا لیکن وہ میرے صوبے کو نہ وہ جانتا ہے نہ کچھ کر سکتا ہے۔ تفصیلات کےمطابق جمعرات کے روز پشاورمیں وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی میزبانی میں آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی، صوبائی کابینہ اراکین اور ممبران صوبائی اسمبلی کے علاوہ سیاسی جماعتوں میں جماعت اسلامی،جمعیت علمائے اسلام (س)، پاکستان مسلم لیگ(ن)، پاکستان تحریک انصاف اور قومی وطن پارٹی شامل ہیں۔

شراکاء کو صوبے امن و امان کی موجودہ صورتحال امن و امان کے لئے صوبائی حکومت کی کوششوں اور اقدامات پر بریفنگ دی گئی۔

(جاری ہے)

کانفرنس کے اختتام پر مشرکہ لائحہ عمل پیش کیا گیا۔اعلامیہ کے مطابق صوبے میں دیرپا امن کی بحالی کے لئے جامع اور مربوط اقدامات فوری طور پر کیے جائیں۔ خوارج کے خاتمے کے لیے خفیہ معلومات کی بنیاد پر ہدفی کارروائیاں عمل میں لائی جائیں۔

دیرپا امن کی کاوش اور دہشت گردوں کے خاتمے کے لئے تمام سیاسی جماعتیں ، مشران، عوام ، حکومت خیبر پختونخوا ، انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بلاتفریق بھر پور کاروائی کا اعادہ کرتے ہیں۔ صوبے کو عسکریت پسندی کے چنگل سے نجات دلائی جائے گی اور امن بحال کیا جائے گا، جو علاقے میں خوشحالی اور پائیدار ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہوگا۔تمام سیاسی جماعتیں اور عوامی نمائندے ضلعی سطح پر انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مسلسل اور بھر پور تعاون کا اعادہ کریں۔
                                                                                             

متعلقہ مضامین

  • آئندہ خیبر پختونخوا میں حکومت مسلم لیگ ن کی ہوگی : رانا تنویر کا دعوی
  • صدر زرداری کی 70ویں سالگرہ؛ لاہور میں پروقار تقریب کا انعقاد، 70 پاؤنڈ وزنی کیک کاٹا جائیگا
  • چین کی  امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک کے کچھ سیاست دانوں کی جانب سے چین کے داخلی معاملات کو دانستہ طور پر بدنام کرنے کی سختی سے مخالفت
  • بانی پی ٹی آئی سیاست میں آنے سے پہلے چندے کیلئے میرے پاس آتے تھے: اسحاق ڈار
  • آصف زرداری کے دور میں کوئی سیاسی قیدی نہیں تھا، مفاہمت کی سیاست کی مثال ہیں: شرجیل انعام میمن
  • علاقائی سیاست اور باہمی تعلقات
  • بانی کے بیٹے خوشی سے پاکستان آئیں، برطانوی طریقوں کے مطابق احتجاج بھی کریں: عرفان صدیقی
  • پی ٹی آئی تشدد کی سیاست پر یقین نہیں رکھتی: بیرسٹر گوہر
  • پی ٹی آئی سے کوئی بات نہیں کر رہا، وہ احتجاج نہ کریں تو کیا کریں: اسد
  • اس صوبے میں کسی قسم کے اپریشن کی اجازت نہیں دیں گے