Express News:
2025-11-04@05:13:35 GMT

مسلم لیگ ن کی داخلی سیاست

اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT

پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا ہمیشہ سے یہ المیہ رہا ہے کہ جب بھی وہ اقتدار میں آتی ہیں تو اقتدار کو اہمیت دے کر اپنی ہی سیاسی جماعتوں کو نظر انداز کر دیتی ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اقتدار کی سیاست میں سیاسی جماعتوں کی اہمیت کمزور اور اقتدار مضبوط ہوتا ہے لیکن جب یہ سیاسی جماعتیں اقتدار سے باہر نکلتی ہیں تو انھیں اپنی سیاسی جماعتوں کی کمزوری کا احساس ہوتا ہے۔

مسلم لیگ ن بھی کچھ اسی سطح کی صورتحال سے دوچار ہے۔بڑی سیاسی جماعت کا خود کو ایک صوبے تک محدود کرنااسے مزید سیاسی تنہائی میں مبتلا کر رہا ہے۔ پنجاب کی سیاست کئی دہائیوں تک مسلم لیگ نون کے قبضے میں چلی آ رہی ہے اور اسی بنا پر صوبے میں مسلم لیگ نون کا سیاسی اقتدار ہے۔

لیکن اب یہاں مسلم لیگ نون کے لیے ایک بہت مضبوط اور سخت حریف پی ٹی آئی کی صورت میں موجود ہے۔ پی ٹی آئی نے مسلم لیگ نون کو پنجاب اور کے پی کے میں سخت ٹائم دیا ہے۔لیکن مسلم لیگ نون کی قیادت نے موجودہ حالات میں پی ٹی آئی کا سیاسی مقابلہ کرنے کے بجائے خود کو محض اقتدار تک محدود کرکے سیاسی میدان تنہا چھوڑا ہوا ہے۔مسلم لیگ نون کی سیاست نواز شریف ، شہباز شریف، حمزہ شہباز اور مریم نواز تک محدود ہے۔

پنجاب کی سیاست پر مکمل کنٹرول مریم نواز کا ہے جب کہ شہباز شریف بھی اب پنجاب کے معاملات میں سرگرم نہیں ہے کیونکہ وہ مرکز میں وزیراعظم ہیںجب کہ نواز شریف بھی عملی سیاست میں اس طرح سے سرگرم نہیں جس طرح سے ان کو ہونا چاہیے تھا۔

انھوں نے خود کو سیاسی طور پر تنہا کیا ہوا ہے۔ بہت سے ارکان پنجاب اسمبلی کو اس بات کا گلہ ہے کہ وزیراعلیٰ کی ان سے ملاقات نہیں ہوتی اور نہ ہی پارٹی کے معاملات یا تنظیمی معاملات میں کوئی توجہ دی جارہی ہے۔ ارکان اسمبلی کا تقرریوں، تبادلوں وغیرہ میں کوئی مشورہ نہیں ہے۔

ترقیاتی فنڈ ز کی بھی کڑی جانچ پڑتال ہے۔ بعض وفاقی اور صوبائی وزرا سمیت کئی پارلیمانی سطح کے سیکریٹریز اور مشیرز بھی گلہ کر چکے ہیں کہ انھیں بھی اعتماد میں نہیں لیا جاتا۔ ارکان اسمبلی جب یہ شکایت وزیراعظم تک پہنچاتے ہیں تو وزیراعظم بھی زیادہ توجہ نہیں دیتے۔

پارٹی کے تنظیمی اجلاس نہ ہونے کے برابر ہیں۔پنجاب کو چھوڑیں باقی دیگر صوبوں میں تو تنظیمی معاملات نہ ہونے کے برابر ہیں۔نواز شریف کا متحرک نہ ہونا بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔حمزہ شہباز جو ماضی میں بہت فعال ہوا کرتے تھے، اب خاموش نظر آتے ہیں۔مسلم لیگ ن پی ٹی آئی کے مقابلے میں ایک متبادل بیانیہ کی ناکامی کا شکار ہے۔ایسے لگتا ہے کہ مسلم لیگ ن کا انحصار اپنی جماعت ووٹر اور سپورٹر سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کے اوپر ہے ۔

 رانا ثنا اللہ ،خواجہ آصف، احسن اقبال، رانا تنویر، خرم دستگیر جیسے لوگوں کی موجودگی میں اگر پارٹی تنظیمی ڈھانچہ تیار نہیں کررہی تو اس پر ضرور غور کیا جانا چاہیے۔ سب سے زیادہ دباؤکا شکار تو مسلم لیگ ن کا ورکر ہے کیونکہ اسی کو مقامی علاقوں میں لوگوں کی باتیں سننی پڑتی یا حالات کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔

مسلم لیگ ن کی کوشش ہے کہ وہ ڈیجیٹل میڈیا پر سرگرم ہو کر اس تاثر کو قائم کریں کہ ان کی حکومت شاندار کام کر رہی ہے۔لیکن سچ تو یہ ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا پر چلنے والی حکومت اور زمینی حقائق میں بنیادی نوعیت کا فرق ہوتا ہے۔

مسلم لیگ نون کے بعض وزرا نے بڑے واضح طور پہ کہا ہے کہ اگر شہباز شریف نے موجودہ صورتحال میں کوئی ٹھوس اقدامات پارٹی تناظرکی بنیاد پر نہ اٹھائے تو آنے والے انتخابات میں ان کو سیاسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔جو مسائل اس وقت پنجاب کی سیاست پر غالب ہیں اس کا کوئی ایسا حل تلاش کرنا چاہیے ۔

ان کے بقول جس انداز سے پارٹی کو چلایا جا رہا ہے اس سے پارٹی کے معاملات کی سطح پر کافی خرابیوں نے جنم لیا ہے اور اگر ہم نے اس وقت اس کا ادراک نہ کیا تو اس کا سیاسی نقصان بطور جماعت ہمیں سیاسی میدان میںہی اٹھانا پڑے گا۔ سوال وہی ہے کہ اگر تنظیمی معاملات میں خرابی برقرار رہتی ہے تو یہ حکومتی سطح پر ہونے والے اقدامات کچھ نہیں کر سکیں گے۔ مسلم لیگ کی سیاست کا ایک المیہ یہ رہا ہے کہ اس نے ہمیشہ سے اپنی پارٹی پر انحصار کرنے کے بجائے بیوروکریسی پر بہت زیادہ انحصار کیا ہے اور اس کا سیاسی نقصان بھی اٹھایا ہے ۔

 یہ صورتحال بھی کافی دلچسپ ہے کہ مریم نواز خود کتنا بااختیار رکھتی ہیں کیونکہ اس دفعہ طاقت کا مرکز مسلم لیگ نون کی حکومت کم اورپس پردہ لوگ زیادہ نظر آتے ہیں۔اصل تو مسئلہ نوجوان ووٹروں کو اپنی طرف راغب کرنا ہے، اس معاملے میں مسلم لیگ ن کو کافی مشکلات کا سامنا ہے۔

نوجوانوں کی توجہ کا مرکزتو اس وقت پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی ہیں۔بانی پی ٹی آئی کو نوجوانوں کی سیاست سے کیسے دور رکھا جائے، یہ مسلم لیگ ن کے لیے واقعی ایک بڑا چیلنج ہوگا۔مسلم لیگ نون کے حامی میڈیا کے لوگ جس قسم کا بیانیہ بانی پی ٹی آئی کے خلاف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 

اس کا فائدہ بھی بانی پی ٹی آئی کو زیادہ اور مسلم لیگ نون کو کم ہو رہا ہے۔ سنجیدہ صحافیوں کے مقابلے میں اس وقت مسلم لیگ نون کی توجہ کا مرکز سوشل میڈیا کے لوگ ہیں جن کا بنیادی مقصد بانی پی ٹی آئی کی کردار کشی کے سوا کچھ نہیں نظر آتا اور یہ پالیسی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوگی۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت سر جوڑ کر بیٹھے اوردیکھے کہ سیاسی طور پر وہ کہاں کھڑی ہے ۔مسلم لیگ ن کو سیاسی حکمت عملیاںدرکار ہیں اور یہ ہی محفوظ سیاسی راستہ بھی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مسلم لیگ نون کی مسلم لیگ نون کے بانی پی ٹی ا ئی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن پی ٹی آئی کی سیاست کا سیاسی رہا ہے

پڑھیں:

فوج سیاست میں نہیں الجھنا چاہتی‘غزہ میں امن فوج بھیجنے کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی‘تر جمان پاک فوج

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251104-01-21

 

پشاور(خبرایجنسیاں) پاک فوج کے ترجمان  لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا ہے کہ فوج سیاست میں نہیں الجھنا چاہتی، اسے سیاست سے دور رکھا جائے اور غزہ میں امن فوج بھیجنے کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی۔پشاور میں صحافیوں سے غیررسمی گفتگو کے دوران ان کا کہنا تھاکہ بس بہت ہوگیا افغانستان سرحد پار دہشت گردی ختم کرے، افغان طالبان سے سیکورٹی کی بھیک نہیں مانگیں گے، طاقت کے بل بوتے پر امن قائم کرینگے، افغانستان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے یا ہمارے حوالے کرے جب کہ افغانستان میں نمائندہ حکومت نہیں، ہم افغانستان میں عوامی نمائندہ حکومت کے حامی ہیں۔ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ بھارت اس بار سمندر کے راستے کارروائی کی تیاری کر رہا ہے تاہم مکمل الرٹ اورنظر رکھے ہوئے ہیں اور بھارت کوجو بھی کرنا ہے کرلے، اگر دوبارہ حملہ کیا تو پہلے سے زیادہ شدید جواب ملے گا۔ان کاکہنا تھاکہ افغانستان سے کوئی حملہ ہوا تو جنگ بندی ختم تصور کی جائے گی اور دراندازی کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔پاک فوج کے ترجمان نے پریس کانفرنس میں افغانستان میں ڈرون حملوں کے حوالے سے سوال پر کہا کہ ہمارا امریکا سے ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔انہوں نے امریکی ڈرونز کے پاکستان سے افغان فضائی حدود میں جانے کے الزام کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ڈرون کے حوالے سے طالبان رجیم نے خود اب تک کوئی باضابطہ شکایت بھی نہیں کی ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ افغانستان بین الاقوامی دہشت گردی کا مرکز ہے، افغانستان میں ہرقسم کی دہشت گرد تنظیم موجود ہے اور افغانستان دہشت گردی پیدا کررہا ہے اور پڑوسی ممالک میں پھیلا رہا ہے۔فوجی ترجمان نے کہا کہ افغانستان کی طرف سے رکھی گئی شرائط کی کوئی اہمیت نہیں، اصل مقصد دہشت گردی کا خاتمہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سلامتی کی ضامن پاک فوج ہے، افغانستان نہیں اور یہ بھی واضح کیا کہ اسلام آباد نے کبھی طالبان کی آمد پر جشن نہیں منایا، کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) جیسی تنظیموں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا کہ استنبول میں افغان طالبان کو واضح طور پر کہا گیا کہ وہ دہشت گردی کو کنٹرول کریں، یہ ان کا کام ہے کہ وہ کیسے کریں۔ان کا کہنا تھا کہ انسدادِ دہشت گردی آپریشن کے دوران دہشت گرد افغانستان بھاگ گئے، انہیں ہمارے حوالے کریں، ہم آئین و قانون کے مطابق ان سے نمٹیں گے۔ ترجمان پاک فوج نے بتایا کہ خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کا نارکو اکنامی سے تعلق ہے، جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گرد تنظیموں کے درمیان گٹھ جوڑ موجود ہے، خیبرپختونخوا میں 12 ہزار ایکڑ پر پوست کاشت کی گئی ہے، فی ایکڑ پوست پر منافع 18 لاکھ سے 32 لاکھ روپے بتایا جاتا ہے،مقامی سیاستدان اور لوگ بھی پوست کی کاشت میں ملوث ہیں، افغان طالبان اس لیے ان کو تحفظ دیتے ہیں کہ یہ پوست افغانستان جاتی ہے، افغانستان میں پھر اس پوست سے آئس اور دیگر منشات بنائی جاتی ہیں، تیراہ میں آپریشن کی وجہ سے یہاں افیون کی فصل تباہ کی گئی، وادی میں ڈرونز، اے این ایف اور ایف سی کے ذریعے پوست تلف کی گئی۔ایک سوال کے جواب میں ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ میں پبلک سرونٹ ہوں کسی پر الزام نہیں لگا سکتا، سہیل آفریدی خیبرپختونخوا کے چیف منسٹر ہیں، ان سے ریاستی اور سرکاری تعلق رہے گا، کورکمانڈر پشاور نے بھی ریاستی اور سرکاری تعلق کے تحت ملاقات کی جب کہ خیبر پختونخوا میں گورنر راج کا فیصلہ تصوراتی ہے، یہ فیصلہ ہمیں نہیں وفاقی حکومت کوکرنا ہے۔ترجمان پاک فوج نے بتایا کہ ملک میں 2025ء کے دوران 62 ہزار سے زاید آپریشنز کیے گئے، اس دوران آپریشنز میں 1667 دہشت گرد مارے گئے جب کہ دہشت گرد حملوں میں 206 سیکورٹی اہلکار شہید ہوئے، سیکورٹی فورسز نے جھڑپوں میں 206 افغان طالبان اور 100 سے فتنہ الخوارج کے دہشت گردوں کو ہلاک کیا۔

خبر ایجنسی

متعلقہ مضامین

  • آزاد کشمیر کی سیاست میں غیر یقینی صورتحال برقرار، 72 گھنٹے اہم
  • مختلف سیاسی جماعت کے لوگ فنکشنل لیگ میںشامل
  • فوج سیاست میں نہیں الجھناچاہتی،آئین میں ترمیم حکومت اور پارلیمنٹ کا کام ہے،ڈی جی آئی ایس پی آر
  • فوج سیاست میں نہیں الجھنا چاہتی‘غزہ میں امن فوج بھیجنے کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی‘تر جمان پاک فوج
  • غزہ میں فوج بھیجنے کا فیصلہ حکومت اور پارلیمنٹ کرے گی:ڈی جی آئی ایس پی آر
  • غزہ میں فوج بھیجنے کا فیصلہ حکومت اور پارلیمنٹ کریگی، فوج کو سیاست سے دور رکھا جائے، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • بہار کے انتخابی دنگل میں مسلمان
  • صرف بیانات سے بات نہیں بنتی، سیاست میں بات چیت ہونی چاہیے: عطاء تارڑ
  • پاکستان کو تصادم نہیں، مفاہمت کی سیاست کی ضرورت ہے، محمود مولوی
  • پاکستانی سیاست… چائے کی پیالی میں طوفان