Express News:
2025-09-17@23:30:02 GMT

مسلم لیگ ن کی داخلی سیاست

اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT

پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا ہمیشہ سے یہ المیہ رہا ہے کہ جب بھی وہ اقتدار میں آتی ہیں تو اقتدار کو اہمیت دے کر اپنی ہی سیاسی جماعتوں کو نظر انداز کر دیتی ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اقتدار کی سیاست میں سیاسی جماعتوں کی اہمیت کمزور اور اقتدار مضبوط ہوتا ہے لیکن جب یہ سیاسی جماعتیں اقتدار سے باہر نکلتی ہیں تو انھیں اپنی سیاسی جماعتوں کی کمزوری کا احساس ہوتا ہے۔

مسلم لیگ ن بھی کچھ اسی سطح کی صورتحال سے دوچار ہے۔بڑی سیاسی جماعت کا خود کو ایک صوبے تک محدود کرنااسے مزید سیاسی تنہائی میں مبتلا کر رہا ہے۔ پنجاب کی سیاست کئی دہائیوں تک مسلم لیگ نون کے قبضے میں چلی آ رہی ہے اور اسی بنا پر صوبے میں مسلم لیگ نون کا سیاسی اقتدار ہے۔

لیکن اب یہاں مسلم لیگ نون کے لیے ایک بہت مضبوط اور سخت حریف پی ٹی آئی کی صورت میں موجود ہے۔ پی ٹی آئی نے مسلم لیگ نون کو پنجاب اور کے پی کے میں سخت ٹائم دیا ہے۔لیکن مسلم لیگ نون کی قیادت نے موجودہ حالات میں پی ٹی آئی کا سیاسی مقابلہ کرنے کے بجائے خود کو محض اقتدار تک محدود کرکے سیاسی میدان تنہا چھوڑا ہوا ہے۔مسلم لیگ نون کی سیاست نواز شریف ، شہباز شریف، حمزہ شہباز اور مریم نواز تک محدود ہے۔

پنجاب کی سیاست پر مکمل کنٹرول مریم نواز کا ہے جب کہ شہباز شریف بھی اب پنجاب کے معاملات میں سرگرم نہیں ہے کیونکہ وہ مرکز میں وزیراعظم ہیںجب کہ نواز شریف بھی عملی سیاست میں اس طرح سے سرگرم نہیں جس طرح سے ان کو ہونا چاہیے تھا۔

انھوں نے خود کو سیاسی طور پر تنہا کیا ہوا ہے۔ بہت سے ارکان پنجاب اسمبلی کو اس بات کا گلہ ہے کہ وزیراعلیٰ کی ان سے ملاقات نہیں ہوتی اور نہ ہی پارٹی کے معاملات یا تنظیمی معاملات میں کوئی توجہ دی جارہی ہے۔ ارکان اسمبلی کا تقرریوں، تبادلوں وغیرہ میں کوئی مشورہ نہیں ہے۔

ترقیاتی فنڈ ز کی بھی کڑی جانچ پڑتال ہے۔ بعض وفاقی اور صوبائی وزرا سمیت کئی پارلیمانی سطح کے سیکریٹریز اور مشیرز بھی گلہ کر چکے ہیں کہ انھیں بھی اعتماد میں نہیں لیا جاتا۔ ارکان اسمبلی جب یہ شکایت وزیراعظم تک پہنچاتے ہیں تو وزیراعظم بھی زیادہ توجہ نہیں دیتے۔

پارٹی کے تنظیمی اجلاس نہ ہونے کے برابر ہیں۔پنجاب کو چھوڑیں باقی دیگر صوبوں میں تو تنظیمی معاملات نہ ہونے کے برابر ہیں۔نواز شریف کا متحرک نہ ہونا بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔حمزہ شہباز جو ماضی میں بہت فعال ہوا کرتے تھے، اب خاموش نظر آتے ہیں۔مسلم لیگ ن پی ٹی آئی کے مقابلے میں ایک متبادل بیانیہ کی ناکامی کا شکار ہے۔ایسے لگتا ہے کہ مسلم لیگ ن کا انحصار اپنی جماعت ووٹر اور سپورٹر سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کے اوپر ہے ۔

 رانا ثنا اللہ ،خواجہ آصف، احسن اقبال، رانا تنویر، خرم دستگیر جیسے لوگوں کی موجودگی میں اگر پارٹی تنظیمی ڈھانچہ تیار نہیں کررہی تو اس پر ضرور غور کیا جانا چاہیے۔ سب سے زیادہ دباؤکا شکار تو مسلم لیگ ن کا ورکر ہے کیونکہ اسی کو مقامی علاقوں میں لوگوں کی باتیں سننی پڑتی یا حالات کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔

مسلم لیگ ن کی کوشش ہے کہ وہ ڈیجیٹل میڈیا پر سرگرم ہو کر اس تاثر کو قائم کریں کہ ان کی حکومت شاندار کام کر رہی ہے۔لیکن سچ تو یہ ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا پر چلنے والی حکومت اور زمینی حقائق میں بنیادی نوعیت کا فرق ہوتا ہے۔

مسلم لیگ نون کے بعض وزرا نے بڑے واضح طور پہ کہا ہے کہ اگر شہباز شریف نے موجودہ صورتحال میں کوئی ٹھوس اقدامات پارٹی تناظرکی بنیاد پر نہ اٹھائے تو آنے والے انتخابات میں ان کو سیاسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔جو مسائل اس وقت پنجاب کی سیاست پر غالب ہیں اس کا کوئی ایسا حل تلاش کرنا چاہیے ۔

ان کے بقول جس انداز سے پارٹی کو چلایا جا رہا ہے اس سے پارٹی کے معاملات کی سطح پر کافی خرابیوں نے جنم لیا ہے اور اگر ہم نے اس وقت اس کا ادراک نہ کیا تو اس کا سیاسی نقصان بطور جماعت ہمیں سیاسی میدان میںہی اٹھانا پڑے گا۔ سوال وہی ہے کہ اگر تنظیمی معاملات میں خرابی برقرار رہتی ہے تو یہ حکومتی سطح پر ہونے والے اقدامات کچھ نہیں کر سکیں گے۔ مسلم لیگ کی سیاست کا ایک المیہ یہ رہا ہے کہ اس نے ہمیشہ سے اپنی پارٹی پر انحصار کرنے کے بجائے بیوروکریسی پر بہت زیادہ انحصار کیا ہے اور اس کا سیاسی نقصان بھی اٹھایا ہے ۔

 یہ صورتحال بھی کافی دلچسپ ہے کہ مریم نواز خود کتنا بااختیار رکھتی ہیں کیونکہ اس دفعہ طاقت کا مرکز مسلم لیگ نون کی حکومت کم اورپس پردہ لوگ زیادہ نظر آتے ہیں۔اصل تو مسئلہ نوجوان ووٹروں کو اپنی طرف راغب کرنا ہے، اس معاملے میں مسلم لیگ ن کو کافی مشکلات کا سامنا ہے۔

نوجوانوں کی توجہ کا مرکزتو اس وقت پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی ہیں۔بانی پی ٹی آئی کو نوجوانوں کی سیاست سے کیسے دور رکھا جائے، یہ مسلم لیگ ن کے لیے واقعی ایک بڑا چیلنج ہوگا۔مسلم لیگ نون کے حامی میڈیا کے لوگ جس قسم کا بیانیہ بانی پی ٹی آئی کے خلاف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 

اس کا فائدہ بھی بانی پی ٹی آئی کو زیادہ اور مسلم لیگ نون کو کم ہو رہا ہے۔ سنجیدہ صحافیوں کے مقابلے میں اس وقت مسلم لیگ نون کی توجہ کا مرکز سوشل میڈیا کے لوگ ہیں جن کا بنیادی مقصد بانی پی ٹی آئی کی کردار کشی کے سوا کچھ نہیں نظر آتا اور یہ پالیسی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوگی۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت سر جوڑ کر بیٹھے اوردیکھے کہ سیاسی طور پر وہ کہاں کھڑی ہے ۔مسلم لیگ ن کو سیاسی حکمت عملیاںدرکار ہیں اور یہ ہی محفوظ سیاسی راستہ بھی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مسلم لیگ نون کی مسلم لیگ نون کے بانی پی ٹی ا ئی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن پی ٹی آئی کی سیاست کا سیاسی رہا ہے

پڑھیں:

جمہوریت کو درپیش چیلنجز

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پاکستان میں سیاست، جمہوریت اور نظام کو مختلف نوعیت کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ آج پاکستان کے داخلی اور خارجی محاذ پر بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ 15 ستمبر کو پوری دنیا میں عالمی یوم جمہوریت کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد یہ ہے کہ جمہوری ریاستیں اپنے اپنے ملک میں پہلے سے موجود جمہوریت کو نہ صرف اور زیادہ مضبوط کریں بلکہ اس نظام کو عوام کے مفادات کے تابع کر کے اس کی ساکھ کو بہتر بنائیں۔ اگرچہ دنیا کے نظاموں میں جمہوریت کوئی آئیڈیل نظام نہیں ہے۔ لیکن آج کی جدید ریاستوں میں جو بھی نظام ریاست کو چلارہے ہیں ان میں جمہوری نظام ہی کو اہمیت دی جاتی ہے۔ جمہوریت کے مقابلے میں بادشاہت اور آمریت کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ یہ لوگوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت نہیں دیتے بالخصوص سیاسی اور جمہوری آزادیوں کو کسی بھی سطح پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اب جب دنیا بھر میں عالمی یوم جمہوریت منایا گیا ہے ایسے میں پاکستان میں حقیقی جمہوریت ہم سے کافی دور کھڑی نظر آتی ہے۔ بنیادی طور پر یہ نظام جمہوری کم اور ایک ہائبرڈ یا مرکزیت پر کھڑا نظام ہے جہاں غیر جمہوری حکمرانی کا رواج ہے۔ پس پردہ طاقتوں کو فوقیت حاصل ہے اور عملی طور پر نظام بڑی طاقتوں کے تابع نظر آتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارا جمہوری نظام طاقتوروں خوشنودی دی اور سیاسی مفادات کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔ اس نظام میں عام آدمی کی حیثیت محض ایک نماشائی کی ہے۔ جمہوری نظام کی بنیادی خصوصیت شفاف انتخابات کا عمل ہے جہاں لوگ اپنی قیادت کا انتخاب کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں شفاف انتخابات محض ایک خواب لگتا ہے۔ یہاں انتخابات کے نام پر سلیکشن ہوتی ہے اور اشرافیہ اپنی مرضی اور مفادات کے تابع حکمرانوں کا چناؤ کرتی ہے۔ اسی لیے ہمارا انتخابی نظام عوامی تائید و حمایت سے محروم نظر آتا ہے۔ عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور جمہوری عمل کا تسلسل جمہوریت کو زیادہ مستحکم کرنے کا سبب بنتا ہے۔ لیکن پاکستان کی کہانی مختلف ہے، یہاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جمہوریت اپنی افادیت کھوتی جا رہی ہے۔ اس وقت پاکستان میں ایک ہائبرڈ طرز کا جمہوری نظام ہے جہاں غیر جمہوری قوتیں اصل اختیارات کی مالک ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ عملاً اس ملک میں جمہوری نظام سکڑ رہا ہے اور جمہوریت کو پاکستان میں شدید خطرات لاحق ہیں۔ جمہوری طرز حکمرانی میں آزاد عدلیہ، میڈیا کی آزادی، اظہار رائے کی آزادی، مضبوط سیاسی جماعتیں، آئین اور قانون کے تابع انتظامی ڈھانچہ اور سول سوسائٹی کی موجودگی اہمیت رکھتی ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تمام سیاسی اور جمہوری ادارے یا آئینی ادارے کمزور ہو رہے ہیں یا ان کو جان بوجھ کر کمزور اور مفلوج بنایا جا رہا ہے۔ اسی طرح جمہوری نظام میں اچھی حکمرانی کا نظام عام آدمی کے مفادات کے تابع ہوتا ہے اور لوگ اس نظام کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ لیکن آج اس جدید دور میں ہمارا ایک بڑا بحران تسلسل کے ساتھ گورننس کی ناکامی کا ہے۔ جس نے ہمیں قانون کی حکمرانی سے بھی بہت دور کر دیا ہے۔ انسانی حقوق کے تقدس کا خیال کرنے کے بجائے طاقت کے زور پر انسانی حقوق کی پامالی کی جا رہی ہے اور متبادل آوازوں کو دبانے کے لیے طاقت کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ طاقت کے استعمال کی حکمت عملی نے لوگوں کو ریاست اور حکومت کے خلاف کر دیا ہے۔ لوگ کو لگتا ہے کہ یہ نام نہاد جمہوری نظام ہمارے مسائل حل کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ جمہوریت میں متبادل آوازوں کو سنا جاتا ہے اور ان کو اہمیت دی جاتی ہے لیکن یہاں متبادل آوازوں کو دشمنی کے طور پر دیکھا اور سمجھا جاتا ہے۔ جو لوگ ریاست اور حکمرانی کے نظام کو چیلنج کرتے ہیں ان کودشمن سمجھا جاتا ہے۔ یہ سوچ اور فکر لوگوں کو جمہوریت کے قریب لانے کے بجائے ان کو اس نظام سے دور کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ مسئلہ محض ریاست اور حکمرانی کے نظام کا ہی نہیں بلکہ ہماری سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادتوں کی ناکامی کا بھی ہے۔ سیاسی جماعتوں اور پس پردہ طاقتوں کے باہمی گٹھ جوڑ نے بھی جمہوری نظام کو داخلی محاذ پر بہت زیادہ کمزور کر دیا ہے۔ اس وقت بھی ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں جن میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نمایاں ہیں۔ وہ غیر سیاسی طاقتوں کی سہولت کاری کی بنیاد پر حکومت میں ہیں۔ سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ عوام کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ اصل حیثیت پس پردہ طاقتوں کی ہے اور انہی کی مدد اور مہربانی سے وہ اقتدار کا حصہ بن سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں عوام میں اپنی جڑیں مضبوط بنانے کے بجائے پس پردہ طاقتوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے پر توجہ دیتی ہیں۔ اس وقت بھی حکومت میں شامل بہت سے وزرا پس پردہ طاقتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہائبرڈ نظام کی حمایت کر رہے ہیں اور ان کے بقول پاکستان کی سیاسی بقا اسی ہائبرڈ نظام کے ساتھ وابستہ ہے اور اسی کے تحت ہمیں جمہوری نظام کو آگے بڑھانا ہوگا۔ ملک میں سیاسی انتہا پسندی یا مذہبی انتہا پسندی کا غلبہ ہے اس کی وجہ بھی جمہوری نظام سے دوری ہے۔ کیونکہ آپ جب طاقت کی بنیاد پر نظام چلائیں گے تو اس سے انتہا پسندی اور پرتشدد رجحانات کو تقویت ملتی ہے۔ اس ملک میں مارشل لا ہو یا جمہوریت یا ہائبرڈ طرزِ حکمرانی یہ ماڈل ہمیں ترقی کی طرف نہیں لے جا سکے گا۔ ماضی میں یہ تمام تجربات ناکام ہوئے ہیں اور ہمیں اپنی سابقہ اور موجودہ ناکامیوں سے ضرور سبق سیکھنا چاہیے۔ اس ملک مسائل کا واحد حل آئین اور قانون اور جمہوری طرز عمل کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ پس پردہ قوتوں کو بھی یہ بات سمجھنی ہوگی ہم تضادات کی بنیاد پر اس ملک کو نہیں چلا سکیں گے۔ اس لیے ابھی وقت ہے کہ ہم اپنی سیاسی ترجیحات کا ازسر نو تعین کریں اور جمہوری نظام کی بنیاد پر آگے بڑھنے کی کوشش کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنائیں۔ جمہوری نظام بنیادی طور پر کمزور افراد کی آواز ہوتا ہے اور کمزور افراد اس نظام کو اپنی سیاسی طاقت سمجھتے ہیں۔ لیکن اگر ہمیں جمہوریت کے نام پر عام آدمی کا استحصال کرنا ہے یا اسے کمزور رکھنا ہے تو اسے کوئی بھی جمہوری نظام ماننے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ پاکستان میں جمہوری نظام کی ناکامی میں سب سے غلطیاں ہوئی ہیں اور سب کو اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف بھی کرنا چاہیے۔ ایک دوسرے پر الزام لگانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ اور زیادہ بگاڑ پیدا ہوں گے۔ اس لیے اس کے موقع پر ہمیں اس عزم کا اظہار کرنا چاہیے کہ ہم اپنی اپنی سطح پر جمہوریت کے حق میں آواز اٹھائیں گے اور طاقتوروں پر زور دیں گے ریاست اور حکمرانی کے نظام کو چلانے کے لیے جمہوریت ہی کو اپنی طاقت بنایا جائے۔ پاکستان میں جمہوریت اسی صورت میں مضبوط ہوگی جب سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت جمہوری بنیادوں پر نہ صرف خود آگے بڑھنے کی کوشش کرے گی بلکہ دوسروں کو بھی جمہوری خطوط پر استوار کریں گی۔ یہ عمل مسلسل جدوجہد کا نام ہے اور یہ کام سیاسی اور قانونی دائرۂ کار میں رہتے ہوئے ایک بڑی مزاحمت کے بغیر ممکن نہیں ہوگا۔ یہ بات سمجھنی ہوگی کہ آج دنیا بھر میں جب جمہوریت اور جمہوری نظام کی درجہ بندی کی جاتی ہے تو ہم دنیا کی فہرست میں بہت پیچھے کھڑے نظر آتے ہیں اور ہماری اجتماعی ناکامی کا حصہ ہے۔

متعلقہ مضامین

  • جمہوریت کو درپیش چیلنجز
  • کالا باغ ڈیم پر سیاست نہیں ہونی چاہیے، ڈیم اور بیراج بننے چاہئیں، سعد رفیق
  • سیلاب ،بارش اور سیاست
  • وقت نہ ہونے پر بھی سیلابی سیاست
  • موجودہ حالات میں جلوس نکالنا سیاست نہیں، بے حسی ہے‘سکھد یوہمنانی
  • بھارتی کرکٹ ٹیم یا بی جے پی کا اشتہاری بورڈ
  • اب جنازوں پر سیاست ہو رہی ہے: علی امین گنڈاپور
  • اسلام آباد ریڈ زون کے داخلی راستوں پر ڈائیورشنز، شہری کونسا متبادل راستہ استعمال کرسکتے ہیں؟
  • ٹرمپ عمر رسیدہ ، صدارت کے اہل نہیں؟ امریکی سیاست میں نئی بحث چھڑ گئی
  • بھارتی جنرل یا سیاسی ترجمان؟ عسکری وقار مودی سرکار کی سیاست کی نذر