پیکا ایکٹ، پرانی شراب نئی بوتل
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
یہ دنیا جب سے بنی ہے سچ اور جھوٹ کی لڑائی ہے، اور یہ بھی سب جانتے ہیں کہ جھوٹ سچ بن کر سامنے آتا ہے اور سچ کو جھوٹا بناتا ہے۔ گزشتہ دنوں اچانک شور اٹھا کہ پارلیمنٹ پیکا ایکٹ کی منظوری دینے جارہی ہے، لیکن یہ اچانک تو نہیں ہے، تھوڑا سا ذہن پر زور ڈالیں تو یاد آجائے گا کہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی تقریروں کے بارے میں بھی پریس ایڈوائس دی گئی تھی، اس وقت کا پیکا ایکٹ یہ پریس ایڈوانس تھی، آگے بڑھیں تو زیادہ دن نہیں گزرے، 1958 آگیا، پھر جس نے سچ لکھا وہ پکڑا گیا جیل گیا، جھوٹا قرار دیا گیا، ملک دشمن قرار دیا گیا۔ ہر ایک کے خلاف سازش کیس بنایا گیا، یہ ایوب خان ہی کے دورکا لطیفہ ہے کہ ایک سیاسی لیڈر پر مقدمہ بنایا گیا کہ تم نے سرکار کو چور کہا ہے، ثبوت کے طور پر ایک اخباری تراشا پیش کیا گیا، اس میں اس رہنما کے نام سے خبر کی سرخی تھی جب سرکار ہی چور ہو تو عوام کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں، اس پر اس زمانے کی عدالت کے جج نے (زیادہ تر جج ہر زمانے میں ایسے ہی ہوتے ہیں) کہا کہ اس کے بعد کیا کہتے ہو سیاستدان نے ہوشیاری سے کہا کہ اس میں کہاں لکھا ہے کہ ہمارے ملک کی سرکار چور ہے، تو جج نے کہا! خاموش، کیا ہمیں نہیں پتا کہ کون سی سرکار چور ہے، اس کے بعد اسے ملک کے استحکام میں رخنہ ڈالنے اور ملک دشمنی کے الزام میں سزا ہوگئی، یہی لطیفہ بھارت کے بارے میں بھی استعمال ہوتا رہا ہے اور فلموں بھی آگیا۔
اب پاکستان میں یہی فلم مسلسل چل رہی ہے کبھی اس کا نام پریس ایڈوائس تھا، کبھی اسے پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈیننس کہا گیا، اتفاق سے جنرل ایوب ہی کے زمانے میں ایبڈو بھی مسلط کیا گیا، پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈیننس تو براہ راست آزادیٔ اظہار پر پابندی کا قانون تھا لیکن ایبڈو کے تحت نااہل قرار پانے والے سیاستدانوں کے حق میں آواز اٹھانے پر یہ کالا قانون حرکت میں آجاتا تھا، ایوب خان نے چونکہ ایک حیلے سے سیاسی قبا اوڑھ لی تھی، اس لیے وہ پارلیمنٹ کے ذریعہ قوانین بنالیتے تھے، یہ حقیقت بھی محل نظر رہے کہ پارلیمنٹ میں نمائندگی کی شرح بھی ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے کنٹرول میں رہی ہے، جیسی جمہوریت آج ہے اسی طرح کی اس وقت تھی آج فارم سینتالیس ہے اس وقت، چیف الیکشن کمشنر کا جھرلو تھا، حتیٰ کہ ڈیڈی کے منہ بولے بیٹے بھٹو نے اپنے مخالفین اغوا کرائے اور جیت گئے وہ اکیلے نہیں ایک طویل فہرست ہے سیاسی مخالفین کو کچلنے کی۔ ایوب آمریت کے بعد جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز نے بھی سیاسی قبائیں اوڑھ لیں۔ اور اسی طرح کے کالے قوانین مسلط کیے، گویا یہ کہانی بھی پرانی ہے، بس اب سوشل اور الیکٹرونک میڈیا ہے اس لیے پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈیننس کا نام الیکٹرونک کرائم ایکٹ رکھ دیا گیا، کون سی بات بدلی ہے، سب کچھ وہی ہے، وہی رویے ہیں وہی ہتھکنڈے ہیں، ورنہ تو ’’دن بدلے ہیں فقط وزیروں کے‘‘۔
اسی کو کہتے ہیں کہ پرانی شراب نئی بوتل میں بند کرکے نیا نام دے کر مارکیٹ میں لائی گئی ہے، پارلیمنٹ میں تو پورا انتظام ہے کہ عوام کا کوئی حقیقی نمائندہ نہ پہنچ جائے، پہلے ایبڈو سے روکا اب فارم سینتالیس سے، اس لیے سب نے مل کر اس کو منظور کرلیا، اب اس کیخلاف آواز اُٹھانے والے پارلیمنٹ کے باہر والے ہیں، گویا وہ کروڑوں عوام کے ’’ووٹوں‘‘ سے پارلیمنٹ میں پہنچنے والوں کی توہین کررہے ہیں۔ ان پر بھی پیکا ایکٹ لاگو ہوسکتا ہے۔
ویسے تو یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ پیکا کیا ہے لیکن مزید واضح کرنے کے لیے یکجا کرلیا جائے تو مضائقہ نہیں، قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظوری کے بعد بدھ 29 جنوری کو صدر مملکت آصف زرداری نے بھی الیکٹرونک جرائم کی روک تھام کے ایکٹ (پیکا) ترمیمی بل 2025 کی توثیق کر دی، یہ اور بات ہے کہ انہوں نے دستخط نہ کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا لیکن موصوف کی ڈکشنری میں وعدے کی جو اہمیت ہے اس کی وہ خود وضاحت کرچکے ہیں کہ وعدہ ہی تو تھا قرآن و حدیث تو نہیں۔ یہ اور بات ہے کہ وہ قرآن و حدیث پر کتنا عمل کرتے ہیں۔ بہر کیف ان کے دستخط کے بعد یہ قانون بن گیا اب سوال ہوتا ہے کہ آخر اس قانون میں ایسا کیا ہے جو اس کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے اور صحافتی تنظیمیں اس بل کو ’صحافیوں کی آواز دبانے والا کالا قانون قرار دیتے ہوئے ملک بھر کے مختلف شہروں میں سراپا احتجاج ہیں۔ اور ان کے ساتھ اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں سول سوسائٹی اور وکلا ہیں، دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اس ایکٹ کی منظوری میں حکومت کی اہم حلیف پیپلز پارٹی بھی شریک ہے اور اس کے رہنما سابق چیئر مین سینیٹ میاں رضا ربانی صحافیوں کے ساتھ بھی ہیں، اور مذمت بھی کررہے ہیں، اور یہ پارٹی ایسا ہی کرتی ہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ ہے اس کے وفاقی وزیر ِ اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ’یہ بِل پروفیشنل صحافیوں کے خلاف نہیں بلکہ فیک نیوز پھیلانے والوں کے خلاف ہے‘۔ ان کا اصرار تھا کہ ڈیجیٹل میڈیا پر کوئی کچھ بھی کہہ دیتا ہے اور اس پر صحافت کے نام پر الزام تراشی کی جاتی ہے۔ بقول عطا تارڑ پیکا ترمیمی بل ڈیجیٹل میڈیا کے لیے ہے، ڈیجیٹل میڈیا پر جھوٹ اور پروپیگنڈے کی کوئی جواب دہی نہیں ہے۔
انہوں نے ایسی بحث چھیڑ دی ہے کہ وہ خود اور تمام حکومتیں زد میں آتی ہیں، مین اسٹریم یعنی سرکاری اور غیر سرکاری مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ پر دن رات جھوٹ بولا اور پروپیگنڈا کیا جاتا ہے اور اس کی کوئی جوابدہی نہیں ہوتی، ان سرکاری روایتی الیکٹرونک اور ڈیجیٹل ذرائع ابلاغ پر پاکستان کو کئی مرتبہ ترقی کرتا دکھایا جاتا ہے، یہی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ایک دوسرے کو چور ڈاکو ملک دشمن قرار دے چکے، یہی عمران خان ایم کیو ایم کے خلاف ثبوتوں کے سوٹ کیسز بھرے بیٹھے تھے، اور یہی عمران خان اسی مین اسٹریم اور سوشل میڈیا پر فوج کے سب سے بڑے حامی ہم نوا اور بھونپو تھے لیکن ان سب نے یو ٹرن لیا یا جھوٹ بولا تینوں نے ملک دشمنوں اور بھتا خوروں اور اپنے دعوے کے مطابق چوروں سے اتحاد کرلیا عمران خان فوج کے دشمن ہوگئے ایم کیو ایم کو نفیس لوگ قرار دیدیا، ان سب کی کوئی ایک بات توغلط ہے پہلے والی یا اب والی، پھر اس جھوٹے پروپیگنڈے پر سب سے پہلے ان تینوں پر پیکا ایکٹ نافذ ہونا چاہیے۔ لیکن یہ ڈیجیٹل میڈیا کے نام پر ’’کہیں پہ نشانہ کہیں پہ نگاہیں کے مصداق ہے، اس میں اتنا جھول ہے کہ جب جس پر چاہیں ہاتھ ڈال دیں‘‘۔(جاری ہے)
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ڈیجیٹل میڈیا کے خلاف ہے کہ ا کے بعد ہے اور اور اس
پڑھیں:
یہ ظلم کب تک ؟
ثناء یوسف اب نہیں رہی، وہ ایک نوجوان ٹک ٹاکر تھی۔ خوبصورت، زندہ دل خوابوں سے بھری ہوئی آنکھیں لیے سوشل میڈیا کی چکا چوند دنیا میں اپنی شناخت بنانے کی تگ و دو میں مصروف۔ مگر اب وہ صرف ایک خبر ہے، ایک لاش، ایک شمار میں اضافہ جو روز بڑھتا ہے، وہ خواتین جو مار دی جاتی ہیں۔ بعض اوقات عزت کے نام پر، بعض اوقات نہیں کہنے پر،کبھی انکار پر،کبھی شک پر اور اکثر تو صرف اس لیے کہ وہ عورت تھیں۔
ثناء کی کہانی وہ کہانی ہے جو اس سرزمین کی ہزاروں لڑکیوں کی کہانی ہے۔ مگر ہر بار ہم سنتے ہیں دل تھوڑا دکھتا ہے ،کچھ دن اخبارات میں شور اٹھتا ہے اور پھر خاموشی سناٹا اور قاتلوں کا اعتماد بڑھتا جاتا ہے۔ ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں مردوں کی انا عورتوں کے لہو سے سیراب ہوتی ہے۔ جہاں نہ صرف ایک لفظ نہیں بلکہ ایک گناہ ہے، ایک سزا ہے جس کی قیمت جان سے چکانی پڑتی ہے۔
ثناء کا جرم کیا تھا؟ کہ اس نے ایک رشتے، ایک مرد ، ایک رویے کو نہ کہا؟ یا یہ کہ وہ خود کو اپنی شرائط پر جینے کی کوشش کر رہی تھی؟ جو بھی تھا اس کا فیصلہ گولی سے ہوا۔ اس کی زندگی جو شاید کسی کے لیے بے معنی تھی لیکن اس کی ماں بہن دوست یا اس کے خود کے خوابوں کے لیے قیمتی ترین بیدردی سے چھین لی گئی۔
ثناء یوسف، قندیل بلوچ کی یاد دلاتی ہے۔ قندیل جو مذہبی منافقتوں، سماجی دوغلے پن اور مردانہ اقدارکی دیواروں پر ناخوشگوار مگر سچائی سے بھرے آئینے لٹکا رہی تھی۔ اسے بھی مار دیا گیا، عزت کے نام پر اس کا بھائی جو خاندان کی عزت بچانے آیا تھا، دراصل اپنی مردانگی کے زخم چاٹ رہا تھا جو قندیل کی بیباکی اور خود اختیاری سے خوفزدہ تھا۔
قندیل ہو یا ثناء سب عورتیں ایک ہی جرم کی سزا وار ٹھہرتی ہیں، خود کو انسان سمجھنے کا جرم خود کو اپنی مرضی سے جینے کا حق مانگنے کا جرم۔ یہی جرم خدیجہ صدیقی کا بھی تھا جسے لاہورکی ایک سڑک پر چاقو سے 23 دفعہ وار کیا گیا اس لیے کہ اس نے جنسی طور پر ہراساں کرنے والے ایک بااثر شخص کے خلاف آواز بلند کی۔ وہ زندہ رہی مگر اس کی روح پرکتنے زخم ثبت ہوئے کون جانتا ہے۔
اسی طرح نور مقدم جس کا قصہ کوئی پرانی کہانی نہیں بلکہ جدید پاکستان کے طاقتور اشرافیہ کے چہرے پر طمانچہ ہے۔ نور کا سر قلم کر دیا گیا اور قاتل کی آنکھوں میں شرمندگی نہیں بلکہ تکبر تھا۔ جیسے کہ کہہ رہا ہو میں کچھ بھی کر سکتا ہوں مجھے کچھ نہیں ہوگا اور واقعی یہ ملک ایک ایسی پناہ گاہ بن چکا ہے جہاں طاقتور مرد عورت کو قتل کرنے کے بعد بھی فخر سے سر بلند رکھتے ہیں، جہاں قانون انصاف سے پہلے رشتے داری، دولت اور اثر و رسوخ کو پہچانتا ہے۔
اگر ہم تھوڑا اور پیچھے جائیں تو ہمارے حافظے میں مختاراں مائی کا دکھ اب تک تازہ ہے جو گاؤں کے مردوں کی اجتماعی ہوس کا نشانہ بنی اور پھر بھی کھڑی رہی۔ اس نے اپنی آواز نہ صرف بلند کی بلکہ ریاست کے ایوانوں تک پہنچائی۔ مگر اس کی جنگ آسان نہ تھی، اسے خاموش کرانے کی ہر ممکن کوشش ہوئی اس پر انگلیاں اٹھیں مگر وہ ٹوٹی نہیں۔
اور پھر ایک اور نام آتا ہے سبین محمود جو کراچی میں روشن خیالی مکالمے اور سوچ کی آزادی کی علامت تھی۔ اسے بھی مار دیا گیا، اس لیے کہ وہ بولتی تھی اور عورت جب بولتی ہے، سوال اٹھاتی ہے تو خطرہ بن جاتی ہے۔ یہ سب کہانیاں اس معاشرے کے بدنما چہرے پر سوالیہ نشان ہیں۔ ہم عورتوں کو عزت کے مقام پر بٹھانے کی بات کرتے ہیں مگر جب وہ جینے کا سانس لینے کا محبت کرنے کا انکارکرنے کا یا صرف نہیں کہنے کا حق مانگتی ہیں تو انھیں دفن کر دیا جاتا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ یہ ایک سرمایہ دارانہ پدرشاہی نظام کی گٹھ جوڑ ہے۔ یہاں عورت صرف تب تک قابل قبول ہے جب وہ اطاعت گزار ہو خاموش ہو سجی سنوری ہو مرد کے لیے باعث زینت ہو۔ جیسے ہی وہ سوال کرتی ہے مزاحمت کرتی ہے اپنی حدود خود طے کرتی ہے وہ خطرہ بن جاتی ہے۔سوشل میڈیا پر کچھ مرد روتے ہیں کہ اب مردوں کا جینا دوبھر ہوگیا ہے کہ عورتیں حد سے بڑھ رہی ہیں۔ وہ نہیں دیکھتے کہ روز نئی ثناء نئی قندیل، نئی نور، نئی زینب قتل کی جا رہی ہے۔ زینب کو کون بھولا ہے؟ وہ معصوم بچی جو قصور کی گلیوں سے اغوا ہوئی، ریپ کا نشانہ بنی اور اس کی لاش ایک کوڑے کے ڈھیر سے ملی۔
ریپ اور قتل کے یہ واقعات صرف جرم نہیں یہ ہمارے سماج کی شکست ہے۔ یہ ہمارے تعلیمی نظام کی ناکامی ہے اور ہمارے عدالتی نظام کی کمزوری کا آئینہ ہے۔اگر ہم سنجیدہ ہیں تو ہمیں اس نظام کو جڑ سے اکھاڑنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں لڑکیوں کو یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ وہ صرف بیوی، بیٹی، بہن نہیں، انسان بھی ہیں اور لڑکوں کو یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ عورت ان کی ملکیت نہیں بلکہ برابری کی حقدار ہے۔
ہمیں ریاست سے انصاف مانگنا ہے مگر ساتھ ساتھ ہمیں اپنے اندرکا سماج بھی بدلنا ہو گا۔ جب تک ہم اپنے گھروں میں بیٹی کو کم اور بیٹے کو برتر سمجھتے رہیں گے جب تک ہم عورت کی عزت گھر کی چار دیواری میں جیسے جھوٹے نظریات کو سینے سے لگائے رکھیں گے، تب تک ثناء یوسف، نور مقدم، قندیل بلوچ، زینب، خدیجہ، مختاراں، سبین سب کی قبریں ہمارے ضمیر پر سوال اٹھاتی رہیں گی۔
ثناء کی ماں کو انصاف چاہیے، مگر انصاف صرف اس کے قاتل کو پھانسی دینے سے نہیں ہوگا، انصاف تب ہوگا جب ہر لڑکی نہیں کہنے کا حق لے سکے اور وہ حق اس کی موت نہ بنے۔
ہمیں ثناء کے لیے آواز بلند کرنی ہے کیونکہ وہ خاموش کردی گئی۔ ہمیں اس کے لیے چیخنا ہوگا کیونکہ اس کا گلا گھونٹا گیا۔ ہمیں لکھنا ہوگا، بولنا ہو گا، سڑکوں پر نکلنا ہوگا، کیونکہ عورت کی جان عزت رائے خواب اور انکار سب کچھ قیمتی ہے۔ثناء صرف ایک نام نہیں وہ ہر وہ لڑکی ہے جو اپنے لیے جینا چاہتی ہے جو نہیں کہنے کا حوصلہ رکھتی ہے اور جو جانتی ہے کہ وہ صرف ایک جسم نہیں ایک مکمل انسان ہے۔لیکن سوال یہ ہے کیا ہم یہ ماننے کے لیے تیار ہیں؟ یا ہم ایک اور ثناء کے مرنے کا انتظارکریں گے؟