Nai Baat:
2025-04-25@11:37:28 GMT

کھانے کا وقت، میاں محمد شریف اور ڈاکٹر شہریار احمد

اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT

کھانے کا وقت، میاں محمد شریف اور ڈاکٹر شہریار احمد

اگلے روز ڈاکٹر جناب پروفیسر شہریار احمد شیخ جن کو میں دل کے ڈاکٹر کی بجائے ’’دل دا جانی‘‘ اس حوالے سے کہتا ہوں کہ دلوں کے مرض اور دل کے مریضوں کے لئے مسیحا کا درجہ رکھتے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ ڈاکٹر صاحبان آتے ہیں، زیادہ سے زیادہ کسی ڈاکٹر کا شہرہ دس سال رہتا ہے پھر نئے لوگ آ جاتے ہیں اور ان کے نام کا چرچا ہوتا ہے۔ میں نام نہیں لیتا لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ کون کون ڈاکٹر آئے اور دس پندرہ سال بعد ڈاکٹر تو رہے مگر نمبر ون پر قائم نہ رہ پائے۔ پروفیسر ڈاکٹر جناب شہریار احمد شیخ جنہوں نے میاں نوازشریف کے وزرات اعلیٰ کے دور میں پی آئی سی لاہور کو ایک ایسا معیار دیا جو ان کے بعد قائم رکھنا مشکل ہو گیا البتہ ڈاکٹر محمد اظہر کمال درجے کے ڈاکٹر آئے پھر وہ ایک سازش کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ان کے بعد ڈاکٹر پروفیسر احمد نعمان آئے ہیں اسی طرح اسلام آباد راولپنڈی میں ڈاکٹر بریگیڈیئر قیصر خان ہیں۔ پروفیسر جناب ڈاکٹر شہریار احمد شیخ کے علاوہ اینجیو پلاسٹی اور دیگر شعبوں میں مہارت رکھتے ہیں جبکہ ڈاکٹر صاحب کے نام اور کام سے واقف ہیں البتہ پاکستان بھر میں دل کے ڈاکٹروں کی بھرمار ہے مگر نام اور کام کے حوالے سے چند ایک اور نام ہوں گے مگر ڈاکٹر پروفیسر شہریار احمد شیخ دل کے ڈاکٹروں فزیشن میں صف اول میں نمبر ون پر ہیں۔

اب آتے ہیں موضوع کی طرف اگلے روز ڈاکٹر صاحب سے ان کے کلینک پر ملاقات ہوئی۔ انہوں نے گپ شپ میں بتایا کہ میاں محمد شریف صاحب رات 9بج کر 3منٹ پر سونے چلا جایا کرتے تھے۔ 9بجے خبروں کی ہیڈ لائنز ضرور سنتے تھے۔ یہ سب کو علم ہے کہ میاں صاحب ایک تہجد گزار اور پچھلی رات اٹھنے والے انسان تھے۔ ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ میاں محمد شریف صاحب نے بطور ڈاکٹر جناب پروفیسر شہریار احمد شیخ سے کہا کہ کیا کریں جس سے دل کے مریض میں نمایاں کمی واقع ہو۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ دوپہر کا کھانا لوگوں کو بند کر دینا چاہئے بلکہ ایسی مہم رواج پکڑ جائے کہ ایک وقت چولہا نہ چلے۔ رات کے وقت لوگ شام شام میں کھانا کھا لیا کریں۔ انرجی بحران بھی قابو پائے اور لوگوں کی صحت بھی بہتر رہے گی۔ باتوں سے بات نکلتے نکلتے حکیم سعید احمد شہید تک پہنچ گئی تو سب کو علم ہے کہ حکیم سعید دوپہر کا کھانا نہ کھانے کی تلقین کرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ حکیم سعید صاحب سے ان کی بات ہوئی اور کہا کہ اس کی باقاعدہ مہم چلائی جائے کہ لوگ دوپہر کا کھانا بند کر دیں۔ بس سلاد وغیرہ کھا لیا کریں، ابھی یہ پروگرام بن رہے تھے کہ حکیم صاحب شہید کر دیئے گئے۔

میاں نوازشریف نے بطور وزیراعظم ڈاکٹر پروفیسر جناب شہریار شیخ کے مشورے پر شادیوں، باراتوں کے کھانے کے وقت کی پابندی عائد کی تھی۔ ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ جو زندگی بچانے کا انجکشن دل کے مریضوں کو دل کا دورہ آنے پر لگایا جاتا ہے۔ جرمنی کے ڈاکٹر جو مصری شہری تھے سے ڈاکٹر صاحب نے پوچھا کہ اس کی کیا قیمت مقرر کریں گے۔ انہوں نے کہا ڈاکٹر شیخ مختلف ممالک میں اس کی مختلف قیمت ہوگی۔ ڈاکٹر صاحب نے پوچھا اسے کس طرح مقرر کرتے ہیں۔ مصری نژاد جرمن ڈاکٹر کہنے لگے کہ ہم جس ملک بھی جائیں سب سے پہلے اس کے باتھ روم جاتے ہیں اس کے بعد اس کی سڑکوں پر اس ملک کے عوام کی حالت دیکھتے ہیں پھر قیمت مقرر کرتے ہیں۔ دوپہر کا کھانا بند، سیر لازم، ڈیپ فرائیڈ بند، فاسٹ فوڈ بند، سبزی سلاد، شام حضرات اور عشاء کے درمیان کھانا، جلدی سونا، جلدی اٹھنا، بھوک رکھ کر کھانا کہ ان تمام ڈاکٹر صاحبان کا مشورہ ہے جن کا ذکر کیا گیا۔ ڈاکٹر احمد نعمان ڈیپ فرائیڈ پر پابندی لگاتے ہیں اور ڈاکٹر محمد اظہر تو اگر ہوا کا بھی لقمہ کی صورت ہوتی تو بند کر دیتے۔ المختصر یہ کہ ان مسیحائوں کا کہنا ہے کہ انسان واک کو معمول بنائے، کم کھائے تو کم از کم دل کی بیماریاں بہت دور رہتی ہیں۔ امریکہ میں قیام کے دوران مجھے چھ مہینے فارمیسی پر نوکری کرنا پڑی۔ فارماسسٹ ہیرالڈ تھا۔ دبلا، پتلا اور چاق و چوبند، ایک دم فٹ انسان۔ وہ صبح دس بجے آتا 45سینٹ کی کالی کافی پیتا۔ ایک گھنٹے کے بعد ایک سیب، ایک گھنٹے بعد کھیرا، ایک گھنٹے بعد گاجر پھر ایک چھوٹا سا برگر یوں چار بجے تک وہ ایک گھنٹے بعد یہ چیزیں اپنے بیگ سے نکالتا جو ایک فوائل میں چھلا ہوا ہوتا یا برگر جو بھی اس کے بیگ میں ہوتا ہر گھنٹے کے بعد نکال کر کھاتا۔ ایک دو مرتبہ کافی بھی پیتا اور ہر گھنٹے بعد ایک سگریٹ۔ میں نے کہا کہ تم یہ کیا گھنٹے گھنٹے بعد کھانے لگتے ہو۔ اس نے جواب دیا تم 2بجے چاول اور مچھلی لاتے ہوئے پیٹ بھر کر کھاتے ہو اور تمہیں نیند آنے لگتی ہے۔ میں سارے دن میں یہ چیزیں کھاتا ہوں ہر قسم کے وٹامن، فوڈ اور ہر ضرورت کی چیز لیتا ہوں۔ شام چار بجے جب دوسری جاب پر جاتا ہوں تو میں بالکل ایسے ہی ہوتا ہوں جیسے صبح 9/10بجے آتا ہوں اور تم تھک چکے ہوتے ہو۔ ایک دن امریکہ میں میرے روم میٹ نے کہا کہ آج سیچر ڈے نائٹ ہے صبح سنڈے ہے۔ مجھے (اسے) بخار ہے تو میں اس کے ساتھ جاکر ایک رات جاب کرلوں۔ اس کے ڈالر اس کے سو یا پچاس ڈالر تم (میں) لے لینا۔ میں نے کہا نہیں پیسے تمہیں دونگا بہرحال میں رات 8بجے اپنے فلیٹ سے نکلا۔ نیویارک کی دکانیں بند تھیں یعنی 6سے 8بجے تک دکانیں بند ہو جایا کرتی تھیں۔ اگر 7بجے والی ٹرین پر جاتا ہوں تو لگتا جیسے اپنے علاقے کے لوگوں کے ساتھ ہو اور اگر 5منٹ کی تاخیر پورا منظرنامہ بدل دیتی گویا وقت کی پابندی وہاں کی معاشرت میں ایک معمول تھا جبکہ دیگر ترقی یافتہ ممالک میں تو معاملات اس سے بھی زیادہ پابندی کے ساتھ دیکھنے میں آئے۔ اگر اسلامی طرز زندگی اپنائیں۔ ایک مکمل صحت مند معاشرت تشکیل پائے یوں ڈاکٹروں، دوائیوں سے چھٹکارا ممکن ہے۔ دنیا میں جو آیا ہے اس کو واپس جانا ہے گھر زندگی قدرت کے اصولوں پر گزاریں تو کئی گنا بہتر گزر سکتی ہے۔ ہم لوگ جوتا خریدیں یا کپڑا یا لباس اس کا برانڈ اس کا معیار سب دیکھتے ہیں حالانکہ اس کا موسم کے علاوہ زندگی نے کوئی تعلق نہیں مگر جب بازار سے کچھ لے کر پیٹ میں ڈالتے ہیں تو کچھ فکر نہیں کرتے کہ یہ کیسے بنا اور اس کے اجزاء کیا ہیں۔ ڈاکٹر صاحبان کی اجازت کے بغیر ان کی رائے آپ سے شیئر کی کہ آپ یہ تحریری ہی پڑھ لیں اور ان کے پاس جانے کی نوبت ہی نہ آئے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: شہریار احمد شیخ دوپہر کا کھانا ڈاکٹر صاحب ایک گھنٹے گھنٹے بعد کے ڈاکٹر نے کہا کہا کہ ہیں کہ کے بعد

پڑھیں:

اور پھر بیاں اپنا (دوسرا اور آخری حصہ)

(1)۔ مولوی عبدالسلام صاحب سے خواجہ حسن نظامی نے اصرار کرکے تصوف پر ایک ضخیم کتاب لکھوائی، اجرت جس کی دس ہزار روپے طے پائی اور مولوی صاحب نے سات برس کی محنت اور دماغ کا تیل نکال کر روغن بادام کشید کرنے کی جگہ، جو ان کا اصل کام تھا، اس کتاب کا مسودہ تیار کیا اور خواجہ حسن نظامی نے حسب وعدہ روپوں کی ڈھیری (اس وقت چاندی کے روپے چلتے تھے) مولوی عبدالسلام صاحب کے سامنے چن دی۔ تو صرف اتنی سی بات پرکہ کہیں خواجہ حسن نظامی نے ایک جگہ انگلی رکھ کر پوچھا ’’کہ کیا یہ عام مسلمان برداشت کر لیں گے؟‘‘ مولوی عبدالسلام کا ناریل چٹخ گیا، وہیں مسودہ چاک کردیا اور تیوری پہ بل ڈالے بغیر گویا ہوئے۔ خدا خوش رکھے، چائے پلوائیے، ایسا نہ ہو کہ ہماری آپ کی دوستی میں فرق آجائے۔ ہمیں کتاب لکھتے وقت خیال ہی نہ رہا، اسے آپ جیسے صوفی بھی پڑھیں گے۔ ‘‘

(2)۔ ’’ایک جیب کترے تھے جن کا انگوٹھا قینچی کے پھل کی طرح دھاری دار تھا، کلمے کی انگلی پتھر پرگھس کر شیشے کی مانند سخت کر لی تھی۔ بس جہاں ان کی چٹکی لگ جاتی، قینچی کو پیچھے بٹھاتی تھی۔ ایک صاحب کوئی باہر کے خواجہ حسن نظامی کے ہاں آئے اور ان سے شکایت کی کہ دلی کے جیب کتروں کی بڑی دھوم تھی۔ آج ہمیں چار دن دلّی کے بھرے بازاروں میں پھرتے ہوئے ہو گئے، جوک اور یاوڑی بھی ہو آئے، لیکن کسی کی مجال نہ ہوئی کہ ہماری جیب کی طرف نظر اٹھا کر بھی دیکھتا۔

خواجہ صاحب نے ان چٹکی باز کو بلوایا اور ان صاحب سے اس چٹکی باز کا آمنا سامنا کرا دیا۔ اس ہنرمند نے مسکرا کر کہا ’’میرے شاگردوں نے ان کا حلیہ بتایا تھا، چار دن سے یہ اپنے انگرکھے میں اندر کی جیب میں پیتل کی آٹھ اشرفیاں ڈالے گھوم رہے ہیں۔ اب بتائیے جعلی سکوں پر کون اپنی نیت خراب کرے۔‘‘ چٹکی باز کا بیان سن کر وہ بزرگ ششدر رہ گئے۔

(3)۔ پھر علم و فضل کا یہ حال تھا کہ لارڈ کرزن جب ہندوستان میں وائسرائے بن کر آئے تو آزمانے کے لیے ایک عربی زبان کا نول چیلوں کے کوچے کی دھوم سن کر اس محلے میں بھجوا دیا (چیلوں کا کوچہ دراصل ’’کوچۂ چہل امیراں‘‘ کا بگڑا ہوا نام ہے۔ جہاں دلّی شہر کے چالیس امیروں کے نہایت خوبصورت مکانات تھے اور یہ علاقہ گویا ’’بستے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے‘‘ کے مصداق تھا، بڑی شہرت تھی اس علاقے کی) کہ کوئی اس ناول پہ اعراب لگا دے، یعنی معرب کر دے، تو پتا چلے کہ کوئی عربی داں بھی اس میں ہے یا نہیں۔ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کا جہاں چھاپہ خانہ تھا اسی کے برابر کیکر والی مسجد کے مولوی صاحب جو بچوں کو عربی، فارسی، علم الحدیث پڑھاتے تھے۔

شدہ شدہ یہ ناول ان کے پاس پہنچا، تو وقت عشا کی نماز کے بعد کا تھا، مولوی صاحب نے صبح کی نماز سے پہلے اس ناول پر اعراب لگا دیے۔ اتنی دیر میں اس عرصے میں یہ ناول پڑھا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ لارڈ کرزن نے اپنا سیکریٹری ان مولوی صاحب کے پاس بھیجا اور پچھوایا کہ کیا مولوی صاحب اس کے صلے میں شمس العلما کا خطاب قبول فرمائیں گے؟‘‘

مولوی صاحب نے جواب دیا ’’سخن فہمی عالم بالا معلوم باشد، سبحان اللہ شبلی کو بھی وہی خطاب اور ہمیں بھی وہی خطاب۔‘‘

چنانچہ ساری زندگی مسجد کے ٹکڑوں پر گزار دی اور گمنامی کی زندگی کو خطاب یافتہ ہونے پر ترجیح دی۔ ایسے تھے دلی والے۔ نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ۔ کیسے مستغنی لوگ تھے۔

حکیم عبدالسلام دہلوی جنھوں نے بعد میں اپنے نام کے ساتھ نیازی لگانا شروع کر دیا تھا جن کے نام کا جزو ’’ نیازی‘‘ تھا کے بارے میں بے شمار واقعات ایسے ہیں جنھیں سن کر عقل دنگ رہ جاتی ہے، وہ کسی سے نہ ڈرتے تھے، بہت بڑے عالم، عربی، فارسی، حدیث اور فلسفے کے (ایک واقعہ عزیز میاں قوال کا میں اپنے کسی کالم میں لکھ چکی ہوں کہ کس طرح عزیز میاں دلی گئے، مولانا سے ملے اور پھر ان پر کیا حیرت انگیز واقعات رونما ہوئے) بے مثال استاد تھے۔ غصہ انھیں بہت آتا تھا لیکن غلط بات پر۔ ان کے ایک سے زیادہ روپ تھے۔ زیادہ تر لوگ جو انھیں قریب سے جانتے تھے ان کا خیال ہے کہ مولانا نے انسان کا روپ بدلا ہے۔ ورنہ وہ ہیں کچھ اور۔ وہ بے بدل عالم اور بے سقم استاد تھے۔

(4)۔ ایک دفعہ مولوی صاحب کے گھر سانپ نکل آیا اور آتے ہی اس نے مولوی صاحب کو ڈس لیا، کالا ناگ تھا جیسے خزانے کا سانپ۔ اوپر سے بھی سیاہ اور نیچے سے بھی سیاہ، جس کے دیکھنے سے روح فنا ہو۔ کسی کو یقین نہ تھا کہ مولوی صاحب اب کسی سے پانی بھی نہ مانگ سکیں گے۔ لیکن مولوی صاحب نے یہ کہا کہ جتنے ان کے شاگرد اس وقت وہاں موجود تھے ان سب کو حکم دیا کہ سب فوراً نیچے اتر جاؤ اور کسی کو اوپر نہ آنے دو، جب تک وہ خود اندر سے دروازہ نہ کھولیں اور کہا کہ چوبیس گھنٹے تک اس حادثے کی کسی کو اطلاع نہ دی جائے۔ چوبیس گھنٹے بعد آ کر دیکھیے گا کہ زہر انسان میں زیادہ ہوتا ہے یا سانپ میں اورکس کا زہر کس پر غالب آتا ہے۔

خدا خوش رکھے، چوبیس گھنٹے بعد جب دروازہ کھلا تو دیکھا کہ سانپ مولوی صاحب کے سامنے مرا پڑا ہے اور مولوی صاحب حسب معمول چاق و چوبند، ہشاش بشاش بیٹھے ہیں۔ فرمایا دیکھ لیجیے انسان کا زہر غالب آیا اور یاد کیجیے کہ مارگزیدہ بچ سکتا ہے، البتہ مردم گزیدہ کا بچنا مشکل ہے۔ دونوں مثالیں اس وقت یکجا ہیں۔ کیا بات کی مولوی صاحب نے کہ مردم گزیدہ یعنی انسان کا کاٹا نہیں بچ سکتا۔ ایسے میں غالب کا یہ شعر یاد آتا ہے:

پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسدؔ

ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں

(5)۔1947 کے فسادات میں جب بازار سیتارام کے مسلمانوں کا صفایا ہو گیا تو اس کا اثر ترکمان دروازے تک پہنچا تو سب سمجھ گئے کہ مولوی صاحب بھی گئے۔ لیکن جب تھوڑی سی امید جمی ہوئی اور لوگ گھروں سے نکلے تو دیکھا مولوی صاحب برف سے سفید کپڑے پہنے بقعہ نور بنے چار ابرو کا صفایا کیے موسم کا عطر لگائے کندھے پر رومال ڈالے تانگے پر معمول کے مطابق آگے کی طرف بیٹھے تنہا خواجہ نظام الدین اولیا کے مزار کی طرف چلے جاتے ہیں۔

جب معتقدین نے پوچھا کہ حضرت آپ کہاں تھے؟ تو فرمایا ’’وہیں اپنے مقام پر۔‘‘ کچھ عرصہ کے بعد سنا کہ جو سکھ مولوی صاحب کو ختم کرنے کے لیے ان کے کوٹھے پر چڑھے تھے ان سے مولوی صاحب نے اپنی گرجدار آواز میں کیا کہا کہ سب نے اپنی کرپانیں ان کے قدموں میں ڈھیر کرکے ان کے مرید ہوگئے، اور جب تک فسادات زوروں پر رہے ان کے جان و مال کی حفاظت کرتے رہے۔ یہ بھی سننے میں آیا کہ دلّی کے ہفتہ وار اخبار ریاست کے مدیر دیوان سنگھ مفتون ہنگامے شروع ہوتے ہی مولوی صاحب کے گھر پہنچے کہ کہیں اس قتل و غارت گری میں کوئی ناعاقبت اندیش مولوی صاحب پر ہاتھ نہ صاف کر دے۔

(6)۔ ایک مرتبہ دہلی میں شاہد احمد دہلوی کے گھر موسیقی کی محفل تھی، اس محفل میں استاد بندوخاں سارنگی نواز سارنگی بجا رہے تھے، کسی نے کہا استاد کیا یہ بات درست ہے کہ دیپک راگ گانے سے آگ لگ جاتی ہے، انھوں نے کہا سنا تو ہے، پھر سارنگی پر گز مار کر بولے ، لیجیے سنیے! اور یہ کہہ کر سارنگی پر دیپک راگ چھیڑ دیا۔ تھوڑی دیر بعد جب استاد گرم ہوئے تو چھت کی کڑیوں میں سے گرم گرم مٹی گرنی شروع ہوگئی اور جس پر گری اسے یوں محسوس ہوا جیسے جلتے ہوئے کوئلوں کی راکھ۔ بھائی شاہد نے استاد بندو خاں کی سارنگی پہ ہاتھ رکھا اور کہا۔ بس استاد! اب کیا چھت کی کڑیاں جلا دیں گے؟

(7)۔ ایک بار ساون کا مہینہ تھا اور بارش نہیں ہو رہی تھی، ملکۂ موسیقی روشن آرا بیگم نے ریڈیو پر گانا تھا، انھوں نے راگ چھیڑا ’’میگھ ملہار‘‘ جسے بارش سے منسوب کیا جاتا ہے، چنانچہ جب روشن آرا بیگم راگ ملہار گاتی رہیں، اسی وقت بارش ہونے لگی اور جل تھل ہوگئے۔

(’’پھر باتیں ایسی نہ سنیے گا‘‘ سے اقتباس)

متعلقہ مضامین

  • ملیریا کے عالمی دن پر وزیراعظم محمد شہباز شریف کا پیغام
  • پہلگام حملہ جھوٹ کا پلندہ، مودی حکومت کی چال ہے: عبدالخبیر آزاد  
  • اور پھر بیاں اپنا (دوسرا اور آخری حصہ)
  • ووٹ کی طاقت ہی جمہوریت کو مضبوط بناتی ہے: ملک محمد احمد خان
  • نواز شریف پاکستان آنے کیلئے ایون فیلڈ سے روانہ
  • نواز شریف طبی معائنے کے بعد لندن سے پاکستان کے لیے روانہ
  • نوازشریف کا فوری پاکستان واپس آنے کا فیصلہ
  • قانون سازی اسمبلیوں کا اختیار، کمیٹیوں میں عوام کے مسائل حل ہوتے ہیں، محمد احمد خان
  • متحدہ علماء محاذ کا 26 اپریل ملک گیر شٹر ڈاؤن ہڑتال کی حمایت کا اعلان
  • متحدہ علماء محاذ کا 26 اپریل ملک گیر شٹر ڈائون ہڑتال کی حمایت کا اعلان