پنجاب کابینہ نے کم عمر میں شادی کے تدارک کے بل کو ڈیفر کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
سٹی42: پنجاب کی صوبائی کابینہ نے کم عمری کی شادیوں کی روک تھام کے لیے پیش کیے گئے بل کو مؤخر کر دیا۔ کم عمری کی شادیوں کے تدارک کے لیے یہ بل اپریل میں ٹیبل کیا گیا تھا لیکن 10 ماہ بعد بھی یہ قانون نہ بن سکا۔
رکن پنجاب اسمبلی سارہ احمد نے پرائیویٹ ممبر کی حیثیت سے یہ بل پیش کیا تھا جسے پنجاب حکومت نے اڈاپٹ کر لیا۔ سارہ احمد جو کہ چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی چیئرپرسن بھی ہیں اُنہوں نے چائلڈ میرج ایکٹ کا بل پیش کیا اور بتایا کہ اس پر 9 سے 10 میٹنگز ہو چکیں، جس میں انہوں نے ذاتی طور پر بریفنگ دی۔
آج کے گوشت اور انڈوں کے ریٹس - منگل 04 فروری, 2024
ان کا کہنا تھا کہ برٹش ہائی کمیشن اور مختلف این جی اوز نے اس بل کی تیاری میں بھرپور تعاون کیا ہے اور حکومت نے بھی مکمل سپورٹ فراہم کی ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب بھی اس معاملے پر سنجیدہ ہیں۔
چائلڈ میرج ایکٹ کا مقصد بچوں کے حقوق کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ اس بل کے مطابق 18 سال سے کم عمر میں شادی کرنے پر 3 سال قید اور 2 لاکھ روپے تک جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ نکاح خواہ کو شناختی کارڈ دیکھنے کی پابندی بھی ہوگی، اور خلاف ورزی کرنے پر والدین، سرپرست اور نکاح خواہ کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
پاکستان میں شرح پیدائش میں نمایاں کمی،اقوام متحدہ نے خبردار کردیا
سارہ احمد نے مزید بتایا کہ علمائے کرام کی رائے ابھی تک موصول نہیں ہوئی جس کی وجہ سے بل کو ڈیفر کیا گیا۔ اس بل کے لیے خصوصی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی تھی، جس میں ہوم ڈیپارٹمنٹ، لاء ڈیپارٹمنٹ اور چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے ارکان شامل تھے۔
کابینہ کی منظوری کے بعد اس بل کو پنجاب اسمبلی سے منظور کرانے کا عمل جاری تھا لیکن سپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان کی زیر صدارت اجلاس میں ارکان اسمبلی کی رائے کے بعد اہم فیصلے کیے گئے ہیں۔
پھلوں اور سبزیوں کی آج کی ریٹ لسٹ-منگل 04 فروری ، 2024
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: سٹی42
پڑھیں:
امیر ممالک ماحولیاتی تبدیلی کے خطرے کا تدارک کریں، عالمی عدالت انصاف
دی ہیگ:عالمی عدالت انصاف نے کہا ہے کہ دنیا کے امیر صنعتی ممالک کو گیسز کے اخراج میں کمی لا کر ماحولیاتی تبدیلی کے فوری خطرے کا تدارک کرنا ہوگا۔
اپنی اس ذمہ داری کی ادائیگی میں ناکامی پر ان ممالک کو بعض مخصوص کیسز میں ماحولیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کی طرف سے قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
قانونی ماہرین اور ماحولیاتی گروپس نے عالمی عدالت کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ چھوٹے جزیروں اور سمندر کے قریب واقع ریاستوں کی جیت ہے جنہوں نے عالمی عدالت سے ریاستی ذمہ داریوں کی وضاحت مانگی تھی۔
عالمی عدالت کے جج یوجی ایواساوا نے کہا کہ متعلقہ ممالک ان سخت ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے پابند ہیں جو ماحولیاتی معاہدوں کی وجہ سے ان پر عائد ہیں اور اس میں ناکامی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔
گیسز کے اخراج میں واضح کمی لانے کیلئے ان ممالک تعاون کرنا ہوگا۔ 2015 کے پیرس معاہدکے تحت گلوبل وارمنگ کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے نیچے لانا رکھنا ضروری ہے۔
بین الاقومی قانون کے تحت صاف، صحت مند اور پائیدار ماحول کا انسانی حق دیگر انسانی حقوق سے مستفید ہونے کیلئے لازمی ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج انسانی سرگرمیوں کا نتیجہ ہے جو کسی علاقے تک محدود نہیں۔
تاریخی اعتبار سے امیر صنعتی ممالک زیادہ اخراج کے ذمہ دار ہیں۔ ان امیر ممالک کو مسئلے کے حل کیلئے قائدانہ کردار ادا کرنا چاہئے۔
گرین پیس کے قانونی ماہر ڈینیلو گیریڈوکے مطابق عالمی عدالت انصاف کے پندرہ ججز کا جاری یہ فیصلہ اگرچہ سب کیلئے ماننا لازمی نہیں تاہم مستقبل میں ماحولیاتی کیسز میں اس کا قانونی اور سیاسی وزن ضرور محسوس ہوگا اور اسے نظرانداز کرنا ممکن نہیں ہوگا۔
یہ عالمی سطح پر ماحولیاتی احتساب کے نئے دور کا آغاز ہے۔ سینٹر فار انٹرنیشنل انوائرمینٹل لا کے سیبسٹیئن ڈیوک نے کہا کہ اس فیصلے کے بعد گیسز کے اخراج میں ملوث بڑے ممالک کیخلاف مقدمات دائر ہو سکتے ہیں۔
لندن کے گرانتھم ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آن کلائمیٹ چینج کے مطابق ماحولیات سے متعلق مقدمہ بازی میں تیزی آئی ہے اور صرف ماہ جون میں ساٹھ ممالک میں تین ہزار کیسز دائر کئے گئے ہیں۔