اب کی بار۔۔۔۔۔۔بلڈوزر کا وار!!!
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
اب کی بار۔۔۔۔۔۔بلڈوزر کا وار!!! WhatsAppFacebookTwitter 0 4 February, 2025 سب نیوز
ہنڈی کے خلاف مہم میں انڈیکس
ایکسچینج ہمیشہ کی طرح پیش پیش
انڈیکس ایکسچینج کا ’’شان رمضان‘‘ سیزن چار میں قانونی ذریعہ سے اپنے وطن عزیز زرمبادلہ بجھوانے والوں کیلئے انعامات کی بارش
قانونی طریقے سے اپنے پیاروں کو رقوم بھجوانے پر جیتیں ،،،،
گھر، سونا، کیش اور کار
انڈیکس ایکسچینج نے ایک منفرد آگاہی مہم لانچ کردی
دبئی :ہمیشہ منفرد انداز میں قانونی ذریعہ سے رقوم کی منتقلی کی آگاہی مہم چلانے والے انڈیکس ایکسچینج نے ایک بار پھر منفرد انداز اپناتے ہوئے ایک نئے سلوگن کے ساتھ ہنڈی اور حوالہ کے خلاف مہم کےلئے ایک بلڈوزر کو میدان میں اتارا ہے۔اب کی بار ہنڈی پر وار کی کامیابی کے بعد اب کی بار بلڈورز کاوار کے نام سے مہم کا آغاز کیا گیا بلڈورزدنیا بھر میں یہ تعمیراتی کاموں کے لئےاستعمال کیا جاتا ہے جن میں گھر، سرکاری عمارتیں، سڑکیں اور بنیادی ڈھانچہ شامل ہے۔ نئی تعمیر ہو یا پرانی تعمیر کو گرانا،،راستہ ہموار کرنا ہو یا نیا راستہ بنانا یہ سب کمال بلڈوزر کا ہے اور اس سے بڑا کردار اس بلڈورز کو چلانے والے کا ہے جو سخت گرمی اور سردی سمیت ہر موسم میں اپنے بلند حوصلے ،سخت جان اور جس جان فشانی سے کام کرتا ہے وہ قابل فخر ہے۔ اسی حوصلے اور جذبے کو بنیاد بنا کر انڈیکس ایکسچینج نےہنڈی اور غیر قانونی ذریعہ رقوم منتقلی کے خلاف نئے عزم کے ساتھ آگے بڑھنے کے لئے اب کی بار بلڈوزر کا وار کے نام سے آگاہی مہم کا آغاز کیا اس سلسلہ میں دبئ کے مقامی ہوٹل میں شان رمضان سیزن چار کی پروقار لانچنگ تقریب کا اہتمام کیا گیاتقریب کے مہمان خصوصی عزت ماب حمد جاسم آل درویش چئیرمین انڈیکس ایکسچینج تھے جبکہ بنک الفلاح کے انٹرنیشنل بزنس اینڈ ہوم ریمیٹنس بنکنگ کے ہیڈ فیصل راشد ،یوبی ایل بنک کے گروپ ہیڈ گلوبل ہوم ریمیٹنس اینڈ این آر پی بنکنگ رضوان حیدر ،ڈائریکٹر پروڈکٹ سیلز ماسٹر کارڈ یو اے ای کپل اروڑہ ،پاکستان بزنس اینڈ پروفیشنل کونسل ابوظہبی کے صدر ڈاکٹر قیصر انیس ،یو بی ایل بنک کے ہوم ریمیٹس یو اےای یونٹ ہیڈ محمد آصف جام ،بنک الفلاح کے ریجنل ہیڈ جی سی سی ہوم ریمٹنس عدیل جنجوعہ ،بنک الحبیب کے کنٹری مینجر کاشف شفیق ،فیصل بنک کے کنٹری مینجر ہوم ریمیٹنس مبارک خاں نیشنل بنک کے ریلیشن شپ مینجر راشد السلام سمیت دیگر مہمانوں کی بڑی تعدادنے شرکت کی،
انڈیکس ایکسچینج کے چیف آپریٹنگ آفیسر سید عبدالسلام نے استقبالیہ کلمات میں تمام مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور شان رمضان سیزن چارکی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ انڈیکس ایکسچینج سخت گرمی اور موسم کی سختیوں کو جھیلتےان محنت کشوں کے حوصلے اور ہمت کو ایک نئی جان دینے کے لیے اسی بلڈورز کے نشان کو نشان منزل قرار دیتے ہوئے
کہاکہ “شان رمضان سیزن چار میں لیکر آرہا ہے ایک نیا پیغام
توڑ دیں اپنی مشکلوں کی دیوار
اور کردیں اپنی راہیں ہموار۔
جبکہ انڈیکس ایکسچینج کے چیف بزنس آفیسر میر کے رسول نے اپنے خطاب میں کہا کہ
انڈیکس ایکسچینج
“شانِ رمضان”
سیزن چار
لے کر آیا ہے
اب کی بار
بلڈوزر کا وار!
انڈیکس ایکسچینج کی کسی بھی برانچ سے اپنے وطن عزیز قانونی ذریعہ سے پیسے بجھوائیں اور ،
اپنی ہمت کے بلڈوزر کا لیور گھمائیں!
اور ہر دس دن میں جیتنے کا موقع پائیں!
– گھر گولڈ کیش یا پھر
چار چار SUV کار !!!
اب کی بار … بلڈوزر کا وار!
یہ آگاہی مہم29 مارچ 2025 تک جاری رہے گی۔بہترین کرنسی ریٹس اور قانونی ذریعہ سے رقوم منتقلی کاپیغام گھر گھر پہنچانےکےلیے آگاہی مہم چلانے میں
انڈیکس ایکسچینج 49 سال سے اپنا نمایاں کردار ادا کررہا ہے
ہر گھر جیتوگھرگھر جیتو
اب کی بار آپکی سرکار
اب کی بار ہنڈی پہ وار
کی شاندار کامیابی کے بعد شان رمضان سیزن چار میں
اب کی بار۔۔۔۔بلڈوزرکاوار
ایک ایسی آگاہی مہم ہے جوکہ صارفین کو نہ صرف ایک نیا ولولہ اور حوصلہ دے گی بلکہ ہنڈی اور حوالہ جیسے غیر قانونی دھندے کو بلڈوز کرکے نئے راستے بھی ہموار کرے گی۔
تقریب سے چئیرمین انڈیکس ایکسچینج عزت ماب حمد جاسم آل درویش نے اس عزم کا اظہار کیاکہ انڈیکس ایکسچینج اپنے اعلی معیار کی بدولت ایکسچینج انڈسڑی میں ٹرینڈسیٹر کی حثیت رکھتا ہے اور ہمیشہ اپنے کرم فرماؤں کےلئے کچھ نیا کرتا ہے تقریب میں انڈیکس ایکسچیج کےتمام کوریڈور کے درمیاں کلچرل پرفارمنس کا شاندار مقابلہ بھی ہوا جیسے خوب سراہا گیا۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: شان رمضان سیزن چار انڈیکس ایکسچینج ا گاہی مہم اب کی بار بنک کے
پڑھیں:
ڈپریشن یا کچھ اور
ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ ڈپریشن ایک ایسی بیماری ہے جوکسی کو بھی ہو سکتی ہے۔ اس سے مراد ہے کہ اگر آپ کا روزمرہ کے کاموں میں دل نہیں لگتا، آپ بہت اداس، مایوس اور بے زار رہتے ہیں یا گھبراہٹ، بے بسی، بے چینی آپ پر سوار ہے تو آپ ڈپریشن کا شکار ہیں۔
ڈپریشن ایک ایسا مرض ہے جس کا تعلق ہمارے مسائل سے لے کر ہماری صحت سے جڑا ہے۔ اس کے مریض معمولی سے مسائل کو بھی بڑے اورخوفناک تصور کرتے ہیں یا انھیں ایسا مایوس ہوتا ہے کہ جیسے ایک عام سا مسئلہ اس قدر عظیم اور مشکل ہے جو ان کے لیے مشکلات کھڑی کر رہا ہے اور اسی وجہ سے وہ بے چین، مضطرب، مایوس اور بے زار رہتے ہیں۔
ان کے ہاتھ پیر سرد ہو جاتے ہیں، ٹھنڈے پسینے آتے ہیں،گھٹن کا احساس ہوتا ہے، چہرہ اتر جاتا ہے اور یہی کیفیات مختصر اور طویل دورانیے کے بعد حقیقتاً انھیں بڑی بیماریوں میں مبتلا کر دیتی ہیں جیسے دل کے امراض، شوگر، بلڈ پریشر وغیرہ وغیرہ۔ڈاکٹروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بہت سی ادویات جو بلڈ پریشر اور دیگر بیماریوں کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔
ڈپریشن میں اضافے کا باعث بنتی ہیں لیکن اس کی بڑی اور اہم وجہ افسردگی و دکھ کو قرار دیا جاتا ہے، اگرکوئی شخص کسی صدمے میں مبتلا ہو اور اس کا صدمہ جو جذباتی، جنسی یا جسمانی زیادتی کے باعث دماغ پر نقصان دہ اثرات مرتب کرگیا تو یہ صدمہ ’’ ٹراما‘‘ کہلاتا ہے، یہ ٹراما بہت مہلک بھی ثابت ہوتا ہے کہ مریض ایک مدت تک اپنے دکھ غم میں مگن رہتا ہے، وہ باہر کی دنیا سے بے خبر ہو جاتا ہے اور یہ ڈپریشن اس کی صحت کے لیے مہلک اثرات مرتب کرتا ہے۔
اسی سے جڑے ایسے ٹراما ابھرکر آتے ہیں جو انسان کی زندگی کے ان واقعات سے منسوب ہوتے ہیں جو ان کی زندگی میں اچانک ہوتے ہیں جیسے کسی عزیزکی موت، نوکری کا چلے جانا، انتہائی بے عزتی اورگھر یا اس سے جڑے حالات و واقعات وغیرہ۔ ایسے ڈپریشن انتہائی نوعیت کے بھی ثابت ہو سکتے ہیں جس میں انسان اپنے اضطراب، بے زاری، لاچاری اور کسی ردعمل کو انجام نہ دینے کی صورت میں اپنی جان دے کر اس ردعمل کو شو کرنا چاہتا ہے۔
دراصل وہ اس کے ڈپریشن اور مایوسی کی انتہا ہوتی ہے۔یہ ایک ایسا موضوع ہے کہ اس پر جتنا بھی لکھا اورکہا گیا ہے، سب آگے پیچھے ایک جیسی ہی باتیں، نشانیاں اور علاج سے منسلک ہوتے ہیں لیکن اس سے بہت سے لوگ فائدہ اٹھا کر اپنے مقاصد حاصل کرنے، راستے کا پتھر ہٹانے جیسے کاموں کو انجام دینے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں اور آخر میں یہ کہہ کر ’’ جی ڈپریشن کے باعث اپنی جان لے لی‘‘ اور قصہ ختم۔
انسانی زندگی ایسے حالات اور واقعات سے بھری ہوئی ہے جن کو نشیب و فراز کا نام دے کر اسے جھیلنا ہی دراصل اس کی نشانی ہے۔
ورنہ کیا ایسا ہی ہے کہ دنیا میں آئے والدین جن کی زندگی میں کوئی مسئلہ یا ڈپریشن نہیں؟ پالا پوسا اور کامیابی سے تعلیمی اور دیگر مراحل عبورکرتے عملی زندگی میں داخل ہوئے اور کامیابیوں کی سیڑھیاں پھلانگتے گئے۔
کہا جاتا ہے کہ وقت کندن بنا دیتا ہے جب کندن بننا ہی نہیں تو ڈپریشن کیسا اور اگر کندن بننا ہے تو ڈپریشن سے لڑنا تو پڑے گا، ہر کامیاب انسان اپنی زندگی میں ڈپریشن میں ضرورگھرتا ہے چاہے وہ قلیل مدتی ہو یا طویل مدتی، جسے زندگی کا نشیب بھی کہا جا سکتا ہے۔
پھر بھی اگر یہ مرض انسان کے ہاتھ سے نکلتا خودکشی جیسے اختتام کی جانب بڑھتا دکھائی دے رہا ہو، تو آج کل خودکشی سے متعلق آگاہی اور روک تھام کے لیے ترقی یافتہ ممالک میں خاص کر زیرو سوسائیڈ الائنس مفت آن لائن تربیت فراہم کرتا ہے۔
یہ ان لوگوں کے لیے ہے جو اپنے پیاروں کے لیے فکر مند ہیں اور ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔مغربی ممالک میں ہمارے مشرقی اقدار کے برخلاف تنہائی سب سے بڑا عذاب ہے جو بچوں سے لے کر بوڑھوں تک میں ڈپریشن کی آخری حد تک شکار کرتا ہے لیکن اب ہمارے یہاں بھی یہ مرض تنہائی سے بڑھ کر ہجوم میں رہنے والوں کے لیے بھی عجیب پراسرار سے مسائل لے کر ابھر رہا ہے، جسے ’’ ڈپریشن‘‘ ہی کہا جا رہا ہے۔
حال ہی میں اسلام آباد کے ایک انتہائی قابل نوجوان پولیس کے افسر عدیل اکبر کے حادثے نے بھی ڈپریشن کے مسئلے پر سرخ نشان لگایا ہے۔ یہ افسر جو برائٹ اسکالر شپ پر امریکا جانے والا تھا، آخرکس قسم کے ڈپریشن کا شکار تھا، جو اس نے زیرو پوائنٹ پر جا کر اپنی زندگی ختم کر ڈالی؟
دوسروں پر پستول تاننا اور اپنے اوپر حملہ کرنا، بہت اذیت ناک ہے لیکن لمحہ بھر میں زندگی کی آخر وہ کون سی جھنجھٹیں تھیں جن سے چھٹکارے کے لیے عدیل اکبر نے نجات پا لی۔ کیا واقعی ان کی موت سے وہ سارے مسائل، دشواریاں ختم ہوگئیں، جو اس جوان کے زندہ رہنے پر آکاس بیل بن کر اس کے وجود سے چمٹتی کہیں اور کیا رخ کرتیں۔
سول ملازمین کے لیے ان کی ڈیوٹیاں، اختیارات جہاں قابل احترام بظاہر بڑے ٹھسے کے لگتے ہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ بہت سے نرم خو اور رحم دل لوگوں کے لیے مسائل پیدا کر رہے ہوں؟ بیوروکریسی ایک خواب ناک سفر ہے پر اس کی راہ میں کیا کچھ ہے، یہ ہم جیسے عام لوگ کیا جانیں، ہمیں تو فیصلے کرنے والے نظر آتے ہیں، کیا ان کے اعصاب بھی ایسے ہی لوہے کی مانند ہوتے ہیں جیسے کہ وہ نظر آنا چاہتے ہیں، پر حقیقت کی دنیا اس سے بہت مختلف ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگوں کے لیے نفسیاتی طور پر فٹ رہنا ان کی کونسلنگ کرنا اور دیگر جسے ہم پاگلوں کا ڈاکٹرکہہ کر مزاحا ٹیگ لگا دیتے ہیں، لیکن حقیقت میں انسانی جسم کا سردار اس کا دماغ جسے اعصاب کو کنٹرول کرنے کا عہدہ حاصل ہے، اس کی نگرانی، صحت و نگہداشت کس قدر اہم ہے بہت توجہ دی جاتی ہے۔
اعلیٰ عہدوں پر لوگ دماغی طور پر اس قدر مضبوط بنا دیے جاتے ہیں کہ وہ بڑے حادثات اور مواقعے پر اپنے جذبات کو کنٹرول کرتے کمیونٹی کے لیے فیصلے لیں۔عدیل اکبر سے پہلے بھی سول سروس کے کئی اور افسران بھی اسی طرح ڈپریشن میں اپنی جان گنوا چکے ہیں، زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب کنٹونمنٹ بورڈ کے بلال پاشا بھی اپنے آپ کو گولی مار چکے ہیں، اس سے پہلے لاہور میں ریونیو کے عمران رضا عباسی، ایس پی ابرار حسین کے علاوہ اور بھی افسران اس فہرست میں نظر آ رہے ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنے معزز مقام پر پہنچ کر ایسی بے بسی اور مایوسی بھری موت کوئی اپنے لیے چنتا ہے توکیوں؟ وہ کیا حقائق ہیں جن کی بنیاد پر ہمارے ملک کے قیمتی لوگوں نے اپنے لیے ایسی موت منتخب کی جس کو حرام قرار دیا گیا ہے۔
ہم فلمیں شوق سے دیکھتے ہیں، دانت کھول کر، آنکھیں پھاڑکر پرتجسس اور خوفناک اب کیا ہوگا،کوئی غیر ملکی یا غیر مرئی ہاتھ ایک کے بعد ایک کس طرح لوگوں کو اپنی عفریت کا نشانہ بناتا ہے، آخر ایسا کیا ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟
آنکھیں اختتام تک حیرت سے کھلی رہتی ہیں،کبھی کبھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ زندگی کی اس پرجوش اور تلخ فلم میں پبلک کو ایسا ہی دیکھنے کو مل رہا ہے،کیا واقعی۔۔۔۔ یا نہیں؟ سوالات تو سر اٹھاتے ہیں۔