Nai Baat:
2025-09-17@23:46:58 GMT

بہادرکشمیری خواتین کی جدو جہد آزادی

اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT

بہادرکشمیری خواتین کی جدو جہد آزادی

ریاست جموں وکشمیر کی مقبوضہ وادی بھارتی فوج کے مظالم کے خلاف سراپا احتجاج ہے ۔ جدوجہدآزادی میںکشمیری مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین نے بھی بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔کشمیری مائیں،بہنیں،بیٹیاں وادی سے بھارتی فوج کے انخلا،کشمیر کی آزادی اوروہاں اسلامی نظام کے قیام کے لئے جدوجہد ،قربانیوں ، جرأت اور بہادری کی لا زوال اور بے مثال داستانیں رقم کر کے اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ ان کے شوہر،والد اور بیٹے شہید ہو رہے ہیں، کشمیری ماؤں نے اس جدوجہد میں اپنے جگر کے ٹکڑوں کو نہ صرف قربان کیا بلکہ شوق شہادت کا جذبہ نسل در نسل منتقل بھی کیا ہے۔بھارتی فوج کے مظالم اور تشدد کے خلاف وہ گرفتار بھی ہوئیں اور شہادت کا رتبہ بھی حاصل کیا۔خواتین اور طالبات قابض فوج پر پتھر برسا کر ان کے ظلم کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کرتی ہیں۔عصمت دری کے لرزہ خیز واقعات کے باوجود نہ صرف وہ اپنے خاندان کی کفالت بلکہ تحریک ِ آزادی کو بھی تقویت پہنچا رہی ہیں۔

مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کی خواتین کشمیر کی تحریک آزادی میں پیش پیش ہیں۔کشمیر یونیورسٹی میںزیر تعلیم کشمیری طالبہ سیدہ آسیہ اندرابی نے کشمیری قوم پر بھارتی مظالم کے خلاف ،کشمیر کی بھارت سے آزادی اور نظام مصطفیٰؐ کے نفاذ کے لئے ایک تنظیم کے پلیٹ فارم سے متحدہ جدو جہد کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے اس عظیم مقصد کے لئے کشمیر یونیورسٹی سے گریجوئیشن کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کی بجائے 1987ء میں دختران ملت کی بنیاد رکھی۔ بھارتی مظالم سے تنگ آ کر جب خواتین گھروں سے باہر نکلنے پر مجبور ہوئیں تو پھر باقاعدگی سے اس تحریک حریت کا حصہ بننے لگیں۔یہ مقبوضہ کشمیر میں خواتین کی سب سے بڑی اور اہم جماعت ہے ۔ دخترانِ ملت کشمیر کی مسلمان خواتین کا ایک منظم اور مضبوط پلیٹ فارم ہے جو اسلام کے دائرے اورحدود میں رہ کر مردوںکے شانہ بشانہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر آواز اٹھانے ،کشمیریوں پر بھارتی افواج کے مظالم کے خلاف مسلمانوں میں شعور بیدا کرنے ، اسلامی نظام کے نفاذ اورکشمیر کی آزادی کے لئے دن رات کوشاں ہے۔ دختران ِ ملت اپنے بچوں اورگھر کے مردوں کی اسلامی کردار سازی کو اولیت دیتی ہیں اوران کے کاموں میں ان کے ساتھ ہیں۔ اسکولوں اور کالجوں ،گھرگھر، گلی گلی ، قریہ قریہ اور گائوں گائوں جاکر لوگو ںمیں شعور بیدارکرنے اور شہدا کے گھروں میں جاکر ان کی بیوائوں اوربچوں کی خبرگیری کرنے کا اہم فریضہ بھی ادا کر رہی ہیں۔ بھارتی حکومت نے 2023ء میںدختران ملت پر پابندی لگا دی تھی لیکن سیل رواں کی طرح ان کی سرگرمیاں جاری ہیں۔

دختران ملت کی بانی سیدہ آسیہ اندرابی کی دست راست اور شوریٰ کی سابق فعال رکن نورجہاں نے اپنی زندگی کے روز و شب دختران ملت کے لئے وقف کر دیئے۔وہ پاکستان میں رہائش پذیر ہیں۔ان کا دل اب بھی کشمیری خواتین کے ساتھ دھڑکتا ہے ۔ نور جہاں مقبوضہ جموں وکشمیر کے علاقے خؤانیار سری نگر میں پیدا ہوئیں اوروہیں تعلیم حاصل کی ۔آپ نے کم عمری میں ہی دختران ملت میں شامل ہو کربھارتی فوج کے مظالم کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا۔بھارتی فوج نے انہیں کئی بار گرفتار بھی کیا ۔ راقم الحروف سے ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا تھا کہبھارت کے آٹھ لاکھ فوجی وہاں لوگوں پرمسلط ہیں جو کشمیریوں کی آبادی سے بھی زیادہ ہیں۔ وہ خواتین کوہراساں اورمختلف طریقوں سے تنگ کرتے ہیں۔دختران ملت سکولوں ،کالجوں ، گھرگھر ، گائوں گائوں ،قریہ قریہ اوربستی بستی جاکر لڑکیوں اورخواتین میں دین کاشعور بیدار کرتی ہیں ۔ خواتین کوبتاتی ہیں کہ مرد اپنے گھر کے نان نفقے کی ذمہ داری ادا کرنے کے لئے گھر سے باہر رہتا ہے لیکن ایک عورت پورا خاندان چلاتی اوربچوں کی کردار سازی کی ذمہ دار ہوتی ہے ۔وہ اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرکے پورے عالم کا نقشہ بدل سکتی ہے۔انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہہم پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے ہیں۔ہم پاکستان کے ساتھ مل کر ایک مضبوط طاقت بنیں گے۔ جب تک ہماری رگوں میں خون اورجسم میں جان ہے ا س وقت تک ہم بھارت کے ساتھ لڑتے رہیں گے ،کشمیر کی آزادی تک انشا اللہ ہماری جدوجہد جاری رہے گی ۔

مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر انسانی ظلم و جبر کی بدترین مثال ہے ۔بالخصوص وہاں عورتوں اور بچوں کے حقوق کی صورتِ حال انتہائی دگرگوں ہے۔ قابض بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں نے کشمیر میں بچوں اور خواتین پر انسانیت سوز مظالم کی ہر حد پار کر دی ہے۔خواتین کی عصمت دری اوربے حرمتی کے افسوسناک واقعات بڑھ رہے ہیں۔ اس صورتحال میں کشمیری خواتین مسلسل خوف اور اذیت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔بھارت عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہا ہے۔یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے منظور کردہ خواتین کے حقوق کے عالمی بل (CEDAW) کے تحت خواتین کو معاشرتی،سیاسی و زندگی کے ہر شعبہ میں بنیادی حقوق اور آزادی حاصل ہے لیکن کشمیر میں خواتین کے ساتھ اس کے بالکل بر عکس ہو رہا ہے۔کشمیری خواتین اور بچوں کے حقوق کی بد ترین پامالی کی جا رہی ہے۔ بچوں پر ظلم کی انتہا تو یہ ہے کہ دنیا کی تاریخ میں پہلی بار بچوں پر پیلٹ گنز کے استعمال کر کے سینکڑوں بچوں اور نوجوانوں کو زخمی اور بصارت سے محروم کر دیا گیا۔ ان کے سامنے ان کے والدین کو شہید کیا گیا۔ کشمیری بچے ایسے ہی دردناک مناظر دیکھ کر بڑے ہوتے ہیں جس سے انہیں شدید نفسیاتی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔بچوں کو خوراک، صحت اور تعلیم کے شدید مسائل کا سامنا ہے ۔ وہ عام بچوں کی طرح کنڈرگارٹن نہیں جاتے،نرسری کی نظمیں نہیں سیکھتے، کھلونوں سے نہیں کھیلتے نہ ہی وہ آزاد ماحول میں اپنے والدین کی محبت،شفقت اور نگہداشت میں پرورش پا رہے ہیں۔یتیموں کو صحت اور تعلیم کی سہولیات میسر نہیں ۔

مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کی خواتین 1947ء سے اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ ہزاروں کشمیری طالبات بھارتی فوجیوں کی طرف سے فائرنگ اورپیلٹ گنزکے استعمال سے زخمی ہو چکی ہیں ۔ ان کی جانیں اور عزتیں محفوظ نہیں۔ ہزاروں خواتین کے شوہر اور گھر کے دوسرے مرد لا پتہ ہیں۔بچے تعلیم اور صحت کی سہولیات سے محروم ہیں۔عصمت دری اور جنسی ہراسمنٹ کے لرزہ خیز واقعات کے باوجود نہ صرف وہ اپنے خاندان کی کفالت بلکہ تحریک ِ آزادی کو بھی تقویت پہنچا رہی ہیں۔بھارت کے ناجائز تسلط سے آزادی، پاکستان کے ساتھ الحاق،اپنے وطن میں امن اور بنیادی حقوق کے حصول کے لئے قربانیاں دے رہی ہیں۔ ظلم و ستم، کریک ڈاؤن، جعلی مقابلوں، گمشدگیوں، بہیما نہ تشدد اورقتل و غارت کے باوجود وہ پختہ عزم کے ساتھ کھڑی ہیں۔خواتین رہنماؤں کی گرفتاری ،بھارتی فوج کے مظالم اور رکاوٹوں کے باوجوددخترانِ ملت کشمیریوں پر بھارتی افواج کے مظالم کے خلاف مسلمانوں میں شعور بیدا کرنے ، بچوں اور اپنی کردار سازی پر خصوصی توجہ اورگھرگھر، گلی گلی ، قریہ قریہ اور گائوں گائوں جاکر لوگوںمیں شعور بیدارکررہی ہیں۔

خواتین کے حقوق کے لئے عالمی اور ملکی سطح پر کام کرنے والے اداروں کا اولین فرض ہے کہ وہ ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف بھر پور صدائے احتجاج بلند کریں۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بھارت اقوام متحدہ کی منظور کردہ قراردادوں کے مطابق ریاست جموں و کشمیر میںاستصواب کروا کر مسئلہ کشمیر کے حل سے پہلو تہی کر رہا ہے۔ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وہ کشمیروں پر بد ترین مظالم ڈھا رہا ہے لیکن ظلم کی یہ رات انشاء اللہ جلد ختم ہو گی، کشمیریوں کی قربانیاں اور جدو جہد رنگ لائے گی ۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: بھارتی فوج کے مظالم ریاست جموں و کشمیر کے مظالم کے خلاف کشمیری خواتین دختران ملت ان کے ساتھ خواتین کے بچوں اور کشمیر کی کے حقوق بچوں کی رہی ہیں رہا ہے کے لئے

پڑھیں:

گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250918-03-7
محسن باقری
۲۰۲۵ کا یوم آزادی بہت منفرد انداز میں آیا، ۱۴ اگست کی شب اسلام آباد سمیت ہر چھوٹا بڑا شہر سبز قمقموں سے مینارہ نور بنا رہا، سبز لباس سے مزین بچے بڑے ہوں، موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں پر ہوا کی دوش پر اُڑنے والے پرچموں کی بہار ہو یا چوکوں چوراہوں اور عمارتوں پر سبز ہلالی پرچموں کی سجاوٹ سے بے تابانہ ساحرانہ مناظر، اس جشن میں سب ہی کا جذبہ دیدنی تھا، بھلا ان جذبوں کو کون شکست دے سکتا ہے۔ یوم آزادی پاکستان اور معرکہ حق و بنیان مرصوص کے پس منظر میں بالخصوص مرکزی تقریب بشمول سربراہان افوج پاکستان اسلام آباد ہو یا گورنر ہاؤس سندھ، فتح کا جشن مناتے ہوئے ہم ’’ٹریک‘‘ سے اترتے ہی رہے۔ بقول علامہ اقبال ’’خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی‘‘ ذرا فتح مکہ کے موقع پر نبی کریمؐ کا انداز دیکھیے کہ ربّ کا شکر ادا کرنے کے لیے اونٹنی کے کجاوے پر آپؐ جھکے جارہے تھے، نبی کریمؐ نے فتح کے جشن کا طریقہ ہمیں اللہ سے دعا کرنے اور بذریعہ نماز (شکرانہ) بتایا، لیکن افسوس کہ ہماری یہ تقاریب ملی نغموں اور ثقافتی رنگوں کی آڑ میں مرد وخواتین کے بے حجابانہ رقص و موسیقی سے بچی نہ رہ سکیں، اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کو ہم نے ہزیمت والی شکست سے دو چار ضرور کیا لیکن انجانے میں ہم دشمن ہی کی ناچ اور گانے کی ہندو ثقافت کو زندہ کرنے کے امین بھی بنے۔ تقریبات میں ’’فائر ورکس‘‘ کے نام پر کروڑوں روپے پھونک دیے گئے، گلی محلوں میں بے ہنگم باجے، ملی نغموں کی آڑ میں کان پھاڑتی موسیقی، آتش بازی، دھماکے اور ہوائی فائرنگ علٰیحدہ۔ کہیں کہیں باوقار تقاریب کا بھی اہتمام ہوا لیکن کیا کوئی کہہ سکتا ہے، بَھلا یہ اْس قوم کے جشن کا انداز ہے کہ جہاں ہر بچہ مقروض پیدا ہوتا ہے، کوئی کہہ سکتا ہے کہ اِس قوم کے ڈھائی کروڑ سے زاید بچے اسکول جانے سے معذور ہیں، غور کریں کہ جس قوم کا بال بال قرض میں جکڑا ہوا ہو، قرض دینے والے دی ہوئی رقم کا تقریباً نصف حصہ قرض کی ادائیگی کی مد میں ہی وصول لیتے ہوں، پہلی نظر میں تو ایسی صورتحال میں اسے فضول خرچی سے ہی تعبیر کیا جائے گا جب کہ کئی اور پہلو بھی قابل غور ہیں۔

بلا شک وشبہ معرکہ حق کی دھاک ایک زمانے پر بیٹھ گئی، دنیا اب ہمارے بارے میں ایک اور زاویہ سے سوچنے پر مجبور ہوئی، لیکن کیا اب ہمارا سفر ختم ہوگیا، ۱۴ اگست تو دراصل تجدید عہد کا دن ہے، پاکستان کو نہ صرف ترقی کی راہ پر گامزن کرنے بلکہ اقوام عالم میں ہر شعبہ زندگی میں سبقت حاصل کرنے کا ایک عزم ہونا چاہیے، ۱۴ اگست کو اگر ہمارے جذبے جنوں بنے ہیں تو ان جذبوں کو ہمیں سلامت بھی رکھنا ہے اور ترقی کی شاہراہ پر دوڑنا بھی ہے، لیکن ایک لمحے ٹھیر کر دیکھیں کیا ہمیں وہ ساز و سامان میسر ہے کہ جس کے بل پر ہمیں ترقی یافتہ اقوام کا صرف مسابقہ ہی نہیں کرنا ہے بلکہ اپنا کھویا ہوا علمی اور سماجی مقام بھی واپس لینا ہے۔ آج ہم اس تعلیم سے محروم ہو گئے ہیں جو کردار بناتی ہے، ہماری اخلاقی حالت ایسی ہے کہ کئی مرتبہ حکمران رہنے والی سیاسی جماعت کے مرکزی رہنما ایک سوال کے جواب میں کہہ چکے ہیں کہ ’’وعدے قرآن و حدیث تو نہیں ہوتے‘‘۔ اسی پیرائے میں ملک کے مقبول ترین سیاسی رہنماؤں کی باتوں اور وعدوں کو بے لاگ صداقت کی کسوٹی پر جانچ لیجیے، اسی کا پرتو ہمیں عوامی سطح پر نظر آتا ہے، ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں اسی طرح تول میں ہمارے دینے کے پیمانے اور ہیں اور لینے کے اور۔

یہی معیار دیانت ہے تو کل کا تاجر
برف کے بانٹ لیے دھوپ میں بیٹھا ہوگا

گرین پاسپورٹ کے حوالے سے ہی اقوام عالم میں اپنی ساکھ کا اندازہ کر لیں جو ’کمزور ترین‘ پاسپورٹوں میں شامل ہے، صرف 32 ممالک میں ویزا فری داخلے کی سہولت حاصل ہے۔ معاصر جریدہ ڈان کی رپورٹ کے مطابق ہینلے پاسپورٹ انڈیکس 2025 کے مطابق پاکستان اس وقت صرف جنگ زدہ ممالک صومالیہ، یمن، عراق، شام اور افغانستان سے بہتر پوزیشن پر فہرست میں 96 ویں نمبر پر ہے۔

کرپشن کا معاملہ بھلا کس کی نظروں سے پوشیدہ ہو سکتا ہے، چند دن پیش تر ہی وزیر دفاع خواجہ آصف کا یہ بیان کس طرح میڈیا میں چرچے کا باعث رہا جب انہوں بیوروکریٹس پر پرتگال میں جائدادیں بنانے کا انکشاف کیا، اس پر ایک بڑا رد عمل سامنے آیا اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ اب ان بیوروکریٹس کی نشاندہی بھی کی جائے گی۔ اس ملک پر تین بار نواز شریف حکمران رہے اور اب شہباز شریف کا دور حکمرانی ہے، خواجہ آصف کا یہ بیان کیا اچھنبے کی بات نہیں، کیا وہ یہ بتانا پسند کریں گے کہ گئے عشروں اور حالیہ دور حکمرانی میں کرپشن کے خلاف (ن) لیگ کی حکومت کی کیا کار کردگی رہی، کیا وزیروں کا کام عوامی سطح پر کرپشن کا اعتراف اور اعلان ہی رہ گیا ہے، کیبنٹ میٹنگ، پارٹی کی حکومت کیا صرف اپنوں کو نوازنے کا نام ہے جس کی جھلک ہم نے ۱۴ اگست کے قومی اعزازات کی بندر بانٹ میں دیکھی۔ تعلیمی لحاظ سے عالمی درجہ بندی میں ہماری یونیورسٹیاں کتنی اور کس درجہ بندی میں آتی ہیں؟، یہ تو چند پیرائے ہیں، اگر ان کو ہی تھوڑا سا وسیع کر کے دیکھ لیں تو ہمیں از خود ہی معلوم ہو جائے گا کہ اقوام عالم کی صف میں ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس (HDI) جو کسی ملک کے لوگوں کی فلاح و بہبود کی پیمائش کرنے کے لیے بنایا گیا ہے جس میں صحت، تعلیم اور معیار زندگی شامل ہیں، پاکستان درجہ بندی کی آخری درجے ’’لو ہیومن ڈیولپمنٹ‘‘ میں 193 ممالک میں سے 168 ویں نمبر پر فائز ہے۔

داخلی محاذ پر ہماری سیاسی چپقلش ذاتی دشمنیوں میں ڈھل چکی ہے، ہم آپس میں باہم دست و گریبان ہیں اور باہمی عناد پھوٹ پھوٹ کر ہمارے داخلی انتشار کی گواہیاں دے رہا ہے، ایک فریق اگر مشق ستم ہے تو دوسرا فریق اِن کی گرفتاریوں اور سزاؤں پر شاداں اور فرحاں ہے، کہیں کھل کر دلی بغض کا اظہار ہو رہا ہے تو کہیں قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف کھلا اور چھپا عِناد جس کی زد میں کوئی آئے یا نہ آئے لیکن نادانی میں اغیار کے ہاتھوں کھیل رہے ہیں نتیجہ میں قومی اتحاد پارہ پارہ ہے۔ دوسری جانب ایسے لگتا ہے کہ اسی طرح اس نظام کو ان ہی گھسے پٹے بکاؤ عناصر کے ساتھ دھکا لگایا جاتا رہے گا جو کبھی ایک سیاسی پارٹی کبھی دوسری سیاسی پارٹی کے ساتھ، کبھی دبکا دیے جائیں تو چپ کر کے بیٹھ جاتے ہیں، کبھی چمکارے جائیں تو تھوڑا سا حوصلہ پکڑ لیتے ہیں اور ایک دوسرے کو ’’بْوٹ‘‘ کا طعنہ بھی دیتے ہیں، ایسے بے ضمیر سیاسی عناصر کے ساتھ ایک نا ختم ہونے والے مقتدر دورانیے کو منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں ملک کو ترقی کی سمت گامزن کرنا تو بہت دور کی بات ہے دور رس نتائج کی حامل ترقی کی منصوبہ بندی بھی نہیں کی جا سکے گی۔ ہم تعلیم اور تحقیق میں کسی گنتی میں نہیں، کچھ کردار کے حوالے سے کچھ ہماری کرپشن کا اگر شْہرہ ہے تو کچھ زبردستی کا ہم پر دہشت گردی کا ٹھپا ہے، بد ترین معاشی صورتحال ایسی کہ ہم آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر چل رہے ہیں، وہ باقاعدگی سے ہمیں ٹیکس اور دیگر معاملات میں ہدایات جاری کرتے ہیں اور ہم باقاعدہ مِن و عَن اْن کی ہدایات پر عمل پیرا ہوتے ہیں یا صفائیاں پیش کرتے اور اْن کے کہے کی مہلت عمل لیتے ہیں۔

جہاں گزشتہ مہینوں ملک کے طول و عرض بشمول راولپنڈی اور کراچی میں زلزلے کے متعدد جھٹکے آئے، کے پی اور پنجاب میں بارش اور سیلاب سے بڑی جاں لیوا ہولناک بربادی آئی، سندھ میں بارشوں سے تباہی ہوئی، سوچنے کا مقام ہے کہ کہیں یہ ربّ کائنات کی ناراضی کا مظہر تو نہیں اور ہمیں جھنجھوڑا جا رہا ہو، بہرحال کسی کو مورد الزام ٹھیرائے بغیر مقاصد قیامِ پاکستان سے تجدید عہد، انفرادی و اجتماعی توبہ، اپنے کیے پر پشیمانی، مہلت عمل اور ربّ کی رضا کے حصول کی تمنا اور توفیق کے ساتھ ضرورت ہے کہ ہم اپنی زندگیوں سے منافقت اور تناقص کو خارج کریں۔

اگر مسلمان ہیں تو مخلص مسلمان اور پاکستانی بنیں، اسلام کے رنگ میں رنگ کر ظاہراً نہیں حقیقتاً یک رنگ ہو جائیں۔

اپنی مِلت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
اْن کی جمعیت کا ہے ملک و نسَب پر اِنحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
دامنِ دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رخصت تو مِلت بھی گئی

متعلقہ مضامین

  • گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
  • غزہ میں خواتین سڑکوں پر بچوں کو جنم دینے پر مجبور، اقوام متحدہ کا انکشاف
  • زندگی بھر بھارتی مظالم کے خلاف برسرپیکار رہنے والے عبدالغنی بھٹ کون تھے؟
  • کشمیری حریت رہنما عبدالغنی بٹ آزادی کا خواب آنکھوں میں لیے چل بسے
  • امیر مقام کا پروفیسر عبد الغنی بٹ کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار
  • ارض کشمیر جنت نظیر کے عظم فرزند غنی بھٹ قضائے الٰہی سے وفات پا گئے
  • مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جبر کی انتہا: تشدد کے بعد کشمیری کی لاش دریائے جہلم سے برآمد
  • ڈی جی آئی ایس پی آر کی آزاد کشمیر کے تعلیمی اداروں کے طلبہ اور اساتذہ کیساتھ خصوصی نشست
  • مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالی، غیر قانونی گرفتاریاں اور ماورائے عدالت ہلاکتیں معمول بن گئیں
  • کراچی: بچے بچیوں کے ساتھ بدفعلی کرنے والے ملزم کے بارے میں علاقہ مکین کیا کہتے ہیں؟