امریکی سینیٹر کی صدر ٹرمپ کے غزہ پر قبضے سے متعلق بیان پر تنقید
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
امریکی سینیٹر کرس مرفی نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پر قبضے سے متعلق بیان پر تنقید کردی۔
ڈیموکریٹک سینیٹر کرس مرفی نے کہا ہے کہ ہم غزہ پر قبضہ نہیں کر رہے ہیں، غزہ پر حملہ ہزاروں امریکی فوجیوں کے قتل کا باعث بنے گا۔
سینیٹر کرس مرفی نے کہا ہے کہ غزہ پر حملہ مشرق وسطیٰ میں کئی دہائیوں کی جنگ کا باعث بنے گا، ٹرمپ کے بیان کا مقصد میڈیا اور لوگوں کی توجہ حقیقی کہانی سے ہٹانا ہے۔
امریکی سینیٹر نے یہ بھی کہا کہ اصل کہانی یہ ہے کہ ارب پتی افراد نے عوام سے لوٹ مار کے لیے حکومت پر قبضہ کر لیا ہے۔
سعودی عرب کا دو ٹوک مؤقف
دوسری جانب سعودی عرب فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل سے تعلقات قائم نہیں کرے گا۔
ایک اہم بیان میں سعودی عرب نے دو ٹوک انداز میں کہا ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام سے متعلق مؤقف مضبوط اور غیر متزلزل ہے۔
سعودی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سلطنت کے مؤقف کی کھلے اور دوٹوک انداز سے تصدیق کرتے ہیں، اس مؤقف کی کسی بھی حالات میں کسی تشریح کی اجازت نہیں۔
سعودی عرب تصدیق کرتا ہے کہ فسلسطینیوں سے متعلق اس کے مؤقف پر گفت و شنید کی ہی نہیں جا سکتی۔
علاوہ ازیں آسٹریلیا کے وزیرِ اعظم انتھونی البانیز نے کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پر کنٹرول کے اعلان پر دھچکا لگا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق انتھونی البانیز نے کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں دو ریاستی حل کی حمایت کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کی پٹی پر طویل عرصے تک قبضہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ غزہ میں طویل المدتی ملکیت کی پوزیشن دیکھتا ہوں۔
وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے ساتھ پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہم غزہ کو ترقی دیں گے، علاقے کے لوگوں کے لیے ملازمتیں دیں گے، شہریوں کو بسائیں گے، فلسطینیوں کے لیے منصوبے کے تحت اردن اور مصر کے رہنما جگہ فراہم کریں گے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: نے کہا ہے کہ ٹرمپ کے
پڑھیں:
سابق اسرائیلی وزیرِاعظم کی نیتن یاہو پر شدید تنقید، ٹرمپ سے سمجھانے کی اپیل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
غزہ میں جاری اسرائیلی فوجی جارحیت کے نتیجے میں بڑھتے ہوئے انسانی بحران اور عالمی سطح پر اسرائیل کو درپیش تنہائی کے پیش نظر صہیونی ریاست کے سابق وزیراعظم ایہود اولمرٹ نے موجودہ وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو اور ان کی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ایہود اولمرٹ نے عالمی برادری کو درپیش سنگین مسئلے کے حل کے لیے دو ریاستی حل پر زور دیا اور غزہ میں جنگ کو جاری رکھنے کو ایک ’جرم‘ قرار دیا۔ ان کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب نیتن یاہو کی حکومت اندرونی و بیرونی سطح پر شدید دباؤ کا شکار ہے۔
عالمی خبر رساں اداروں کے مطابق ایہود اولمرٹ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے براہ راست اپیل کی کہ وہ نیتن یاہو کو اپنے آفس بلائیں اور میڈیا کے سامنے انہیں واضح الفاظ میں کہیں کہ اب بہت ہو چکا ہے، ختم کرو یہ سب۔
یہ مطالبہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اسرائیل کے اندر بھی جنگ کے جاری رہنے پر گہری تشویش پائی جاتی ہے۔اولمرٹ کا یہ بیان جو ایک سابق سربراہ حکومت کی حیثیت سے سامنے آیا ہے، نیتن یاہو کے لیے ایک بڑا سیاسی دھچکا سمجھا جا رہا ہے۔
سابق وزیراعظم ایہود اولمرٹ نے نیتن یاہو کو 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کو روکنے میں ناکامی کا ذمے دار ٹھہرایا۔ انہوں نے زور دیا کہ ایک وزیرِاعظم کی حیثیت سے نیتن یاہو کی بنیادی ذمہ داری اپنے شہریوں کا تحفظ یقینی بنانا تھی، جس میں وہ ناکام رہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس حملے کے بعد عالمی برادری نے ابتدا میں اسرائیل کے حقِ دفاع کو تسلیم کیا اور اس کی حمایت کی، لیکن صورتحال اس وقت پلٹ گئی جب نیتن یاہو نے جنگ بندی ختم کر کے فوجی کارروائیوں میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔ اس اقدام کے نتیجے میں غزہ میں بڑے پیمانے پر تباہی اور انسانی جانوں کا ضیاع ہوا، جس سے عالمی رائے عامہ اسرائیل کے خلاف ہو گئی اور اب دنیا کے بیشتر ممالک اسرائیل کے اس اقدام پر تنقید کر رہے ہیں۔
اولمرٹ کے مطابق نیتن یاہو نے اپنی ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دی، جس کا خمیازہ اسرائیل کو دنیا میں تنہا ہو کر بھگتنا پڑ رہا ہے۔ یہ ایک سنگین الزام ہے جو نیتن یاہو کے سیاسی مستقبل پر مزید سوالات کھڑے کرتا ہے۔ نیتن یاہو پر یہ بھی الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں کے دباؤ میں ہیں اور انہیں خدشہ ہے کہ اگر جنگ روک دی گئی تو ان کے اتحادی حکومت سے نکل جائیں گے، جس کے نتیجے میں دوبارہ الیکشن کرانا پڑیں گے۔
سابق وزیراعظم نے پیش گوئی کی کہ ایسے کسی بھی الیکشن میں نیتن یاہو کی شکست واضح ہو گی۔ یہ سیاسی تجزیہ اسرائیل کی موجودہ حکومت کے اندرونی ڈھانچے اور نیتن یاہو کی قیادت کو درپیش چیلنجز کو واضح کرتا ہے۔