مفتاح اسماعیل نے اراکین اسمبلی، وزراء کی تنخواہوں میں 300 فیصد اضافہ خزانے پر حملہ قرار دے دیا
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 05 فروری2025ء) مفتاح اسماعیل نے اراکین اسمبلی، وزراء کی تنخواہوں میں 300 فیصد اضافہ خزانے پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے خود کی تنخواہوں میں 300 فیصد اضافہ کر لیا جبکہ تنخواہ داروں پر 40 فیصد ٹیکس لگا دیا۔ تفصیلات کے مطابق سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی جانب سے پنجاب اور قومی اسمبلی کے اراکین کی تنخواہوں میں ہونے والے ہوشربا اضافے پر ردعمل دیا گیا ہے۔
مفتاح اسماعیل کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ایک طرف تو حکومت کہتی ہے کہ معیشت نازک موڑ پہ ہے اور ہمیں پاکستانیوں کو کمر کسنی ہوگی اور قربانیاں دینی ہوں گی۔ اسی لیے تنخواہ دار طبقے کی آمدن پر حکومت نے تقریباً 40 فیصد ٹیکس رکھا ہوا ہے، اور دوسری جانب حکومت خود کی تنخواہوں میں 300 فیصد اضافہ کر رہی ہے۔(جاری ہے)
خزانے پہ اس حملے میں تمام 47 نمبر والے اور 45 نمبر والے ایم این اے شامل ہیں۔
کیا آپ میں سے کسی کی آمدن اس سال 300 فیصد بڑی ہے؟۔ اپنے ایک اور بیان میں مفتاح اسماعیل نے حکومت کے مہنگائی کم ہونے کے دعووں کو بھی غلط قرار دے دیا۔ سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان میں اس سال میں مہنگائی تھوڑی کم ہوئی ہے۔ پچھلے سال زیادہ تھی، مہنگائی کی وجہ سے غریب زیادہ غریب ہوتا ہیں اور امیر اپنی جگہ پر کھڑا رہتا ہے۔ قیمتوں میں اضافے کی رفتار کم ضرور ہے مگر مسلسل بڑھ رہی ہے، اشیا پہلے کے مقابل مزید مہنگی ہو رہی ہیں۔ حکومتی وزرا کہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی کم نہیں ہوئی ہے بلکہ مہنگائی بڑھنے کی رفتار کم ہوگئی ہے۔ ٹیکس کی شرح اور مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے پاکستانیوں کی دستاویزی آمدنی پر دباو پڑ رہا ہے۔ پنجاب میں انہوں نے ساڑھے 400 فیصد تنخواہ بڑھائی ہیں۔ وفاق میں 350 فیصد تنخواہ بڑھائی ہیں۔ وفاق نے 22 فیصد جاری اخراجات بڑھائے ہیں۔ ٹیکس پالیسی کے دو اہم اصول ہیں۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے مفتاح اسماعیل
پڑھیں:
محصولات کا ہدف پورا کرنے کیلیے نئے ٹیکس کا ارادہ نہیں،حکومت
اسلام آباد:وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ محصولات کے ہدف میں ایک کھرب 56 ارب روپے کی کمی کو پورا کرنے کے لیے اس کا کوئی نیا ٹیکس لگانے کا ارادہ نہیں ہے۔
یہ بات گزشتہ روز ایک عوامی سماعت کے دوران کہی گئی، سماعت کے دوران پاور ڈویژن افسران کی جانب سے بتایا گیا کہ سرکاری بجلی کی ترسیل کرنے والے اداروں کے ساتھ ٹیرف پر نظر ثانی کے بعد صارفین کو ایک کھرب 50 ارب روپے تک کی بچت ہوگی جس کے معنیٰ یہ ہیں کہ وفاقی حکومت کو محصولات میں اتنی ہی کمی واقع ہوگی اور اس کمی کو پورا کرنے کے لیے حکومت کا کوئی نیا ٹیکس نافذ کرنے کا ارادہ نہیں ہے۔
تاہم افسران نے عندیہ دیا کہ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے بجلی صارفین کو بلوں میں حکومت کی جانب سے دی جانے والی زر اعانت (سبسڈی) میں کمی کی جاسکتی ہے۔
مزید پڑھیں: ٹیکس وصولیوں کا ہدف پورا کرنے کیلیے ایف بی آر نے ہفتے کی چھٹی ختم کردی
سماعت کے دوران حاضرین نے حکومتی کاوشوں کو سراہا جس کے تحت پاور پلانٹس سے دوبارہ معاہدے کیے گئے تاکہ استعدادی صلاحیت کی مد میں ادائیگیوں میں کمی لائی جاسکے، واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے حال ہی میں پاور پلانٹس سے دوبارہ معاہدے کیے ہیں جن کے تحت اب وفاقی حکومت ان پلانٹس کو اتنی ہی ادائیگی کرے گی جتنی بجلی وہ ان پلانٹس سے اپنی ضرورت کی بنیاد پر خریدے گی۔
اس کے علاوہ استعدادی پیداواری صلاحیت کی مد میں ایک مخصوص رقم ادا کی جائے گی، سماعت میں شریک افراد کا کہنا تھا کہ حکومت نے سوئی سدرن گیس سے 220 ایم ایم سی ایف ڈی جبکہ سوئی ناردن سے 150 ایم ایم سی ایف ڈی گیس کٹوتی کی ہے جبکہ حکومت کو چاہئے کہ وہ ان پاور پلانٹس کو مائع قدرتی گیس کے ساتھ ملا کر فراہم کرے گی بجلی کے نرخوں میں مزید کمی لائی جاسکے۔
سماعت کے دوران حاضرین کو بتایا گیا کہ سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی نے جن سرکاری پاور پلانٹس کے ساتھ دوبارہ معاہدے کیے ہیں تاکہ صارفین پر بجلی کے بلوں کے بوجھ میں کمی لائی جاسکے ان میں نیشنل پاور پارکس منیجمنٹ کمپنی بلوکی، نیشنل پاور پارکس منیجمنٹ کمپنی حویلی بہادر شاہ، سینٹرل پاور جنریشن کمپنی لمیٹڈ گدو اور نیشنل پاور جنریشن کمپنی لمیٹڈ نندی پاور شامل ہیں۔