Nai Baat:
2025-11-04@00:53:27 GMT

سوشل میڈیائی پولیسنگ… فرض شناسی جرم ٹھہرا!

اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT

سوشل میڈیائی پولیسنگ… فرض شناسی جرم ٹھہرا!

ہم میڈیا کے ’’بریکنگ نیوز‘‘ کلچر کو رو رہے تھے یہاں سرکاری ادارے بھی اسی بھیڑ چال کا حصہ بن گئے۔ احساس ذمہ داری اگر میڈیا سے کم ہوا تو سرکار بھی پیچھے نہیں رہی۔ گزشتہ دنوں ایک بار پھر ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے محکمہ پولیس کی انویسٹی گیشن، حساسیت اور احساس ذمہ داری پر سوال اٹھا دئیے ہیں۔ گزشتہ کالم میں سی پی او ملتان کی تعریف کی تھی کہ وزیراعلیٰ کی جانب سے پنجاب پولیس کی پرفارمنس انڈیکیٹر رپورٹ میں ملتان پہلے پانچ اضلاع میں شامل تھا۔ بدقسمتی سے اس ہفتہ ملتان پولیس پر ہی سوال اٹھانا پڑ رہا ہے۔ اگلے روز سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک بزرگ شہری کرکٹ ٹیم کے سکیورٹی پروٹوکول کے درمیان آ گیا۔ ایک طرف سکیورٹی کی گاڑیاں جا رہی تھیں۔ پولیس نے راستہ بند کیا ہوا تھا، اسی دوران موٹرسائیکل سوار بزرگ وہاں آ گیا جسے ڈیوٹی پر تعینات تھانہ نیو ملتان کے ایس ایچ او شفیق احمد نے روکنے کی کوشش کی جس پر بزرگ شہری نے ایس ایچ او کو دھکا دیا لیکن جوابی کارروائی میں ایس ایچ او اسے روکنے میں کامیاب ہو گیا۔ اسی ہاتھا پائی میں شہری اور موٹر سائیکل گر گئے۔ یہ ویڈیو وائرل ہوئی اور سوشل میڈیا پر پولیس پر تنقید شروع ہو گئی۔ المیہ دیکھیں کہ پولیس افسران اس تنقید پر اتنے حواس باختہ ہو گئے کہ کسی قسم کی تحقیقات کیے بنا فوراً اس ایس ایچ او کو معطل کر دیا گیا۔ اس کے خلاف مقدمہ درج کر کے گرفتاری ڈال دی۔ اسے حوالات میں بند کر کے باقاعدہ سلاخوں کے پیچھے کی تصویر بنا کر وائرل کی گئی۔ اس کی تشہیر پنجاب پولیس یعنی آئی جی پنجاب کے سوشل میڈیا پیجز پر بھی کی گئی جسے سی پی او ملتان صادق علی ڈوگر کی فوری کارروائی کے طور پر ظاہر کیا گیا۔ اس کے بعد آر پی او ملتان کیپٹن (ر) محمد سہیل چودھری نے اس سے بھی ’’احسن کام‘‘ یہ کیا کہ اس شہری غلام اکبر کو اپنے دفتر بلا کر چائے بسکٹ پیش کیے، اس کی مالی مدد کی اور اس سے باقاعدہ معذرت کی اور اس سارے عمل کی ویڈیو بنا کر پنجاب پولیس کے آفیشل پیجز پر اپ لوڈ کی گئی۔ یہاں تک سب اچھا لگتا ہے۔ پولیس فورس کا کوئی بھی افسر یا اہلکار کسی شہری سے زیادتی کرے یا اختیارات سے تجاوز کرے تو اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے لیکن اس کہانی میں ایک ٹوسٹ ہے۔ اگلے روز اس واقعہ کی مکمل سی سی ٹی وی فوٹیج منظر عام پر آ گئی جس میں واضح ہوا کہ اس بزرگ شہری کو پہلے ایک پولیس اہلکار نے روکا تھا لیکن وہ اہلکار کو دھکا دے کر اپنی بائیک نکالنے میں کامیاب ہوا تو آگے کھڑے ایس ایچ او نے روکنے کی کوشش کی جس پر شہری نے اسے بھی دھکا دے کر نکلنے کی کوشش کی۔ یاد رہے شہری پولیس اہلکاروں کے روکنے کے باوجود انہیں مکا مارتے یا دھکا دیتے ہوئے اس روٹ کی طرف جا رہا تھا جو کرکٹ ٹیم کا سکیورٹی روٹ ہے۔ وہ کوئی خودکش حملہ آور بھی ہو سکتا تھا اور اگر خدانخوستہ ایسا ہوتا تو شاید آج ہم اس ایس ایچ او کی تعریف کر رہے ہوتے کہ اس نے اپنی جان قربان کر کے خودکش حملہ آور کو ٹیم تک پہنچنے سے روکا۔ اس سے قبل کرکٹ ٹیم پر حملے کی وجہ سے پاکستان ایک عرصہ تک انٹرنیشنل کرکٹ میچز کے لیے بین رہا اور ابھی تک بہت سے ممالک کے کھلاڑیوں کے پاکستان میں کھیلنے کے حوالے سے تحفظات پائے جاتے ہیں۔ ان حالات میں ایک شخص سکیورٹی بیریئر توڑتا اور اہلکاروں کو پیچھے ہٹاتے ہوئے روٹ کی طرف جانے کی کوشش کر رہا ہو تو وہاں موجود ڈیوٹی آفیسر کیا کرتا؟ المیہ یہ ہوا کہ اس ایس ایچ او کو شاباش دینے کی بجائے مقدمہ درج کر کے حوالات میں قید کر دیا گیا اور باقاعدہ تصویر بھی وائرل کی گئی جبکہ ملزم اس وقت آر پی او کے کمرے میں بیٹھا چائے پی رہا تھا اور اس سے معافی مانگی جا رہی تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ حوالات میں بند کرنے تک کسی آفیسر نے مظلوم ماتحت ایس ایچ او کو سننا بھی گوارا نہیں کیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اپنے ایک ایس ایچ او کو سزا دینے سے پہلے ڈی پی او یا آر پی او نے اس کی بات تک نہیں سنی؟ کسی قسم کی تحقیق نہیں کی؟ وہاں موجود سی سی ٹی وی کیمروں کو چیک نہیں کیا؟ یہ عمومی رویہ ہے۔ پولیس میں پی ایس پی کلاس اور رینکرز کے درمیان بڑھتے فاصلے اس قسم کے رویوں کا شاخسانہ ہیں۔ ہمارے پولیس نظام نے اپنے ہی ذمہ دار آفیسر کو حوالات میں ڈال دیا اور ملزم کو اعلیٰ آفیسر کے کمرے میں چائے پر بلا لیا۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان رویوں کے ساتھ پولیس دفاتر میں عام شہری کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے۔ میں ہمیشہ سے سرکاری ملازم کی تذلیل کے خلاف رہا ہوں خصوصاً محکمہ پولیس میں افسران کی جانب سے ماتحت اہلکاروں کو ہتھکڑی لگا کر یا حوالات میں بند کر کے تصاویر یا ویڈیو جاری کرنے والی حرکت انتہائی حد تک نااہل کمانڈ کی علامت ہے۔ ان اہلکاروں کی فیملی خصوصاً بیوی بچے، بہن بیٹیاں ہیں۔ ان بچیوں کے رشتے تک ایسی حرکت کی زد میں آ جاتے ہیں۔ اخلاقیات تو یہ ہے کہ ملزم کی بھی شناخت ایسے سوشل میڈیا پر جاری نہ ہو لیکن یہاں فرض شناسی بھی جرم ٹھہری۔ محکمانہ سزائیں ضرور ہونی چاہئیں۔ انٹرنل اکاؤنٹبیلٹی کا نظام بھی بہت سخت ہونا چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ احساس ذمہ داری بھی لازم ہے۔ اگر پولیس افسران ہی کسی قسم کی تحقیق کے بغیر سوشل میڈیا کی بھیڑ چال میں اپنے ماتحت ملازمین کی تذلیل کرنے لگیں گے تو کونسا ماتحت کام کرے گا۔ اعلیٰ پولیس افسران محض ایک ویڈیو یا پوسٹ کے دباؤ میں معاملے کی انویسٹی گیشن تک نہ کریں، ملزم کو ہیرو بنا دیں اور ہیرو کو اتنا ذلیل کر دیں کہ اس کی ساری عمر کی نیک نامی تباہ ہو جائے تو پھر کس کے سامنے رونا روئیں؟ سوچتا ہوں کہ ایک ایس ایچ او کی فرض شناسی کو سنگین جرم بنا کر سوشل میڈیا پر پوسٹ لگانے اور مقدمہ درج کرنے پر کیا پولیس کے اعلیٰ افسران پر بھی پیکا ایکٹ لگے گا یا یہ صرف صحافیوں اور عام شہریوں کے لیے ہی ہے۔ آر پی او ملتان اور آئی جی پنجاب سے گزارش ہے کہ اس ایس ایچ او کی تالیف قلب آپ پر فرض ہے۔ جس طرح قانون شکن شہری کو بلا کر چائے پلائی گئی اب اس ایس ایچ او اور اس کی فیملی کو بھی دفتر بلا کر چائے پلانی چاہیے، اسے اچھی کارکردگی پر کیش انعام اور سرٹیفیکٹ دینا چاہیے تاکہ فرض شناس اور قانون شکنوں میں فرق واضح ہو۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: سوشل میڈیا پر اس ایس ایچ او ایس ایچ او کو پی او ملتان حوالات میں آر پی او کی کوشش اور اس کی گئی

پڑھیں:

’اداکار کریں تو فن، ہم کریں تو جہنمی‘، زاہد احمد کے بیان پر کانٹینٹ کریئٹرز کا شدید ردِعمل

اداکار زاہد احمد کے سوشل میڈیا اور کانٹینٹ کریئیٹرز سے متعلق سخت ریمارکس نے نیا تنازع کھڑا کر دیا ہے، جس پر معروف ٹک ٹاکرز اور انفلوئنسرز نے شدید ردعمل دیا ہے۔

حال ہی میں اداکار زاہد احمد نے ایک پوڈکاسٹ میں سوشل میڈیا اور کانٹینٹ کریئیٹرز پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ سوشل میڈیا کو نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

ان کے بقول یہ انسانوں کی سب سے خطرناک اور شیطانی ایجاد ہے اور جو لوگ اس پر مواد تخلیق کر رہے ہیں وہ جہنم میں جائیں گے، سوشل میڈیا انسانیت کی حقیقی فطرت کے بالکل برعکس ہے اور خاص طور پر مسلمانوں کے طرزِ زندگی کے منافی ہے۔

ان کے سوشل میڈیا اور مواد تخلیق کرنے والوں کے حوالے سے دیے گئے یہ بیانات سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہے ہیں اور ان پر کنٹینٹ کریئیٹرز کی جانب سے شدید برہمی کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔

ٹک ٹاکر علشبہ انجم نے زاہد احمد کے بیان پر ردِعمل دیتے ہوئے اداکار کی کچھ اداکاراؤں کے ساتھ تصاویر شیئر کیں اور لکھا کہ اسلام کی بات کسی اور کی بیوی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کی جا رہی ہے، اسٹیج پر رقص اور انٹرویو میں دین۔

ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ کانٹینٹ کریئیٹرز کو جہنمی کہہ رہے ہیں وہ خود اداکاراؤں کے ساتھ گلے مل رہے ہیں، اسٹیج پر رقص کر رہے ہیں اور اپنی نئی ناک کی سرجری کا فخر کر رہے ہیں۔

سوشل میڈیا انفلوئنسر عدنان ظفر المعروف ’کین ڈول‘ نے بھی زاہد احمد کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اداکار اپنے گنج پن کو چھپانے کے لیے مصنوعی بال لگائیں تو وہ خوبصورتی میں اضافہ کہلاتا ہے، جب کہ جب انفلوئنسرز یا مواد تخلیق کرنے والے ایسا کریں تو وہ جعلی کہلاتے ہیں، اداکار اپنی ناک کی سرجری کروالیں تو وہ بہتری ہے مگر جب ہم کرواتے ہیں تو وہ پلاسٹک کہلاتی ہے، اداکار اگر اسٹیج پر کسی بھی قسم کا رقص کریں تو وہ کارکردگی اور فن کہلاتی ہے، لیکن اگر وہی ہم کریں تو ہمیں توہین آمیز القاب دیے جاتے ہیں۔

 

View this post on Instagram

 

A post shared by Pakistani.Celebrities ???????? (@pakistani.celebrities)

ان کے مطابق اداکار غیر محرم لڑکیوں کے ساتھ ڈرامے کریں، مختلف کردار ادا کریں اور حتیٰ کہ عورت کا روپ بھی اختیار کریں تو وہ فن ہے، جب کہ جب مواد تخلیق کرنے والے ایسا کریں تو انہیں دوزخی کہا جاتا ہے۔

کین ڈول نے استفسار کیا کہ آیا انڈسٹری کے اندر کوئی نیا مذہب دریافت ہو گیا ہے یا کچھ نیا آ گیا ہے۔

کاننٹینٹ کریئیٹر زرناب فاطمہ نے بھی اس بیان پر انسٹاگرام اسٹوری میں لکھا کہ وہ عام طور پر کسی کی ذاتی رائے پر بات کرنے کے حق میں نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ جو کچھ اداکار کر رہے ہیں کیا وہ اسلام کے مطابق ہے؟ کیا وہ لوگوں کو دین کی صحیح تعلیم دے رہے ہیں؟

ان کے مطابق خود کو دوسروں سے بہتر سمجھنا ایک بیماری ہے اور یہی اوصاف انہیں لاحق ہیں، انسان کو خود پر اتنا قابو ہونا چاہیے کہ اسے معلوم ہو کہ وہ دوسروں کے بارے میں کیا کہہ رہا ہے۔

ٹک ٹاکر کنول آفتاب نے بھی انسٹاگرام اسٹوری پر زاہد احمد کے پوڈکاسٹ کا کلپ شیئر کرتے ہوئے ایسے لوگوں پر تنقید کی جو خود اپنے اعمال پر نظر نہیں ڈالتے اور دوسروں پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔

اداکار اور کنٹینٹ کریئیٹر خاقان شاہنواز نے بھی زاہد احمد کے بيان پر ردعمل دیتے ہوئے انسٹاگرام پر ویڈیو شیئر کی، جس میں انہوں نے کہا کہ زاہد احمد نے کچھ حد تک ٹھیک کہا ہے کہ خدا انہیں پسند نہیں کرتا جو بہت زیادہ نمائش کرتے ہیں، یعنی وہ لوگ جو خود کو حد سے زیادہ ظاہر کرتے ہیں۔

 

View this post on Instagram

 

A post shared by Khaqan Shahnawaz (@khaqanshahnawaz)

تاہم ان کا مؤقف تھا کہ خدا کے فیصلے کے بغیر یہ طے کرنا کہ کون جہنم میں جائے گا اور کون جنت میں درست نہیں، کیونکہ اس کا فیصلہ صرف خدا ہی کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ بہتر یہ ہوتا کہ زاہد احمد اپنی بات کی مکمل وضاحت کرتے، یعنی یہ بتاتے کہ خدا خودنمائی یا نمائش کو کیوں پسند نہیں کرتا اور اس کے کیا نقصانات ہیں، نہ کہ عمومی الزام لگا دیا جائے کہ سارے کنٹینٹ کریئیٹرز جہنمی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ’’سوشل میڈیا کے شور میں کھویا ہوا انسان‘‘
  • کراچی:ٹریفک پولیس اہلکار کا ای چالان سے بچنے کیلئے انوکھا کام، شہری نے ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کردی۔
  • ’اداکار کریں تو فن، ہم کریں تو جہنمی‘، زاہد احمد کے بیان پر کانٹینٹ کریئٹرز کا شدید ردِعمل
  • کراچی: ٹریفک پولیس اہلکار کا ’ای چالان‘ سے بچنے کیلئے جوگاڑ سوشل میڈیا پر وائرل
  • پی ٹی آئی سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ خولہ چوہدری جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل
  • اداکار زاہد احمد نے سوشل میڈیا کو شیطان کا کام قرار دے دیا
  • پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کی رکن کو بیرون ملک جانے سے روک دیا گیا
  • زاہد احمد نے سوشل میڈیا کو شیطان کا کام قرار دے دیا
  • ہانیہ عامر کی عاصم اظہر کی سالگرہ میں شرکت
  • سوشل میڈیا پر وائرل سعودی اسکائی اسٹیڈیم کا راز کھل گیا