سوشل میڈیائی پولیسنگ… فرض شناسی جرم ٹھہرا!
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
ہم میڈیا کے ’’بریکنگ نیوز‘‘ کلچر کو رو رہے تھے یہاں سرکاری ادارے بھی اسی بھیڑ چال کا حصہ بن گئے۔ احساس ذمہ داری اگر میڈیا سے کم ہوا تو سرکار بھی پیچھے نہیں رہی۔ گزشتہ دنوں ایک بار پھر ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے محکمہ پولیس کی انویسٹی گیشن، حساسیت اور احساس ذمہ داری پر سوال اٹھا دئیے ہیں۔ گزشتہ کالم میں سی پی او ملتان کی تعریف کی تھی کہ وزیراعلیٰ کی جانب سے پنجاب پولیس کی پرفارمنس انڈیکیٹر رپورٹ میں ملتان پہلے پانچ اضلاع میں شامل تھا۔ بدقسمتی سے اس ہفتہ ملتان پولیس پر ہی سوال اٹھانا پڑ رہا ہے۔ اگلے روز سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک بزرگ شہری کرکٹ ٹیم کے سکیورٹی پروٹوکول کے درمیان آ گیا۔ ایک طرف سکیورٹی کی گاڑیاں جا رہی تھیں۔ پولیس نے راستہ بند کیا ہوا تھا، اسی دوران موٹرسائیکل سوار بزرگ وہاں آ گیا جسے ڈیوٹی پر تعینات تھانہ نیو ملتان کے ایس ایچ او شفیق احمد نے روکنے کی کوشش کی جس پر بزرگ شہری نے ایس ایچ او کو دھکا دیا لیکن جوابی کارروائی میں ایس ایچ او اسے روکنے میں کامیاب ہو گیا۔ اسی ہاتھا پائی میں شہری اور موٹر سائیکل گر گئے۔ یہ ویڈیو وائرل ہوئی اور سوشل میڈیا پر پولیس پر تنقید شروع ہو گئی۔ المیہ دیکھیں کہ پولیس افسران اس تنقید پر اتنے حواس باختہ ہو گئے کہ کسی قسم کی تحقیقات کیے بنا فوراً اس ایس ایچ او کو معطل کر دیا گیا۔ اس کے خلاف مقدمہ درج کر کے گرفتاری ڈال دی۔ اسے حوالات میں بند کر کے باقاعدہ سلاخوں کے پیچھے کی تصویر بنا کر وائرل کی گئی۔ اس کی تشہیر پنجاب پولیس یعنی آئی جی پنجاب کے سوشل میڈیا پیجز پر بھی کی گئی جسے سی پی او ملتان صادق علی ڈوگر کی فوری کارروائی کے طور پر ظاہر کیا گیا۔ اس کے بعد آر پی او ملتان کیپٹن (ر) محمد سہیل چودھری نے اس سے بھی ’’احسن کام‘‘ یہ کیا کہ اس شہری غلام اکبر کو اپنے دفتر بلا کر چائے بسکٹ پیش کیے، اس کی مالی مدد کی اور اس سے باقاعدہ معذرت کی اور اس سارے عمل کی ویڈیو بنا کر پنجاب پولیس کے آفیشل پیجز پر اپ لوڈ کی گئی۔ یہاں تک سب اچھا لگتا ہے۔ پولیس فورس کا کوئی بھی افسر یا اہلکار کسی شہری سے زیادتی کرے یا اختیارات سے تجاوز کرے تو اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے لیکن اس کہانی میں ایک ٹوسٹ ہے۔ اگلے روز اس واقعہ کی مکمل سی سی ٹی وی فوٹیج منظر عام پر آ گئی جس میں واضح ہوا کہ اس بزرگ شہری کو پہلے ایک پولیس اہلکار نے روکا تھا لیکن وہ اہلکار کو دھکا دے کر اپنی بائیک نکالنے میں کامیاب ہوا تو آگے کھڑے ایس ایچ او نے روکنے کی کوشش کی جس پر شہری نے اسے بھی دھکا دے کر نکلنے کی کوشش کی۔ یاد رہے شہری پولیس اہلکاروں کے روکنے کے باوجود انہیں مکا مارتے یا دھکا دیتے ہوئے اس روٹ کی طرف جا رہا تھا جو کرکٹ ٹیم کا سکیورٹی روٹ ہے۔ وہ کوئی خودکش حملہ آور بھی ہو سکتا تھا اور اگر خدانخوستہ ایسا ہوتا تو شاید آج ہم اس ایس ایچ او کی تعریف کر رہے ہوتے کہ اس نے اپنی جان قربان کر کے خودکش حملہ آور کو ٹیم تک پہنچنے سے روکا۔ اس سے قبل کرکٹ ٹیم پر حملے کی وجہ سے پاکستان ایک عرصہ تک انٹرنیشنل کرکٹ میچز کے لیے بین رہا اور ابھی تک بہت سے ممالک کے کھلاڑیوں کے پاکستان میں کھیلنے کے حوالے سے تحفظات پائے جاتے ہیں۔ ان حالات میں ایک شخص سکیورٹی بیریئر توڑتا اور اہلکاروں کو پیچھے ہٹاتے ہوئے روٹ کی طرف جانے کی کوشش کر رہا ہو تو وہاں موجود ڈیوٹی آفیسر کیا کرتا؟ المیہ یہ ہوا کہ اس ایس ایچ او کو شاباش دینے کی بجائے مقدمہ درج کر کے حوالات میں قید کر دیا گیا اور باقاعدہ تصویر بھی وائرل کی گئی جبکہ ملزم اس وقت آر پی او کے کمرے میں بیٹھا چائے پی رہا تھا اور اس سے معافی مانگی جا رہی تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ حوالات میں بند کرنے تک کسی آفیسر نے مظلوم ماتحت ایس ایچ او کو سننا بھی گوارا نہیں کیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اپنے ایک ایس ایچ او کو سزا دینے سے پہلے ڈی پی او یا آر پی او نے اس کی بات تک نہیں سنی؟ کسی قسم کی تحقیق نہیں کی؟ وہاں موجود سی سی ٹی وی کیمروں کو چیک نہیں کیا؟ یہ عمومی رویہ ہے۔ پولیس میں پی ایس پی کلاس اور رینکرز کے درمیان بڑھتے فاصلے اس قسم کے رویوں کا شاخسانہ ہیں۔ ہمارے پولیس نظام نے اپنے ہی ذمہ دار آفیسر کو حوالات میں ڈال دیا اور ملزم کو اعلیٰ آفیسر کے کمرے میں چائے پر بلا لیا۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان رویوں کے ساتھ پولیس دفاتر میں عام شہری کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے۔ میں ہمیشہ سے سرکاری ملازم کی تذلیل کے خلاف رہا ہوں خصوصاً محکمہ پولیس میں افسران کی جانب سے ماتحت اہلکاروں کو ہتھکڑی لگا کر یا حوالات میں بند کر کے تصاویر یا ویڈیو جاری کرنے والی حرکت انتہائی حد تک نااہل کمانڈ کی علامت ہے۔ ان اہلکاروں کی فیملی خصوصاً بیوی بچے، بہن بیٹیاں ہیں۔ ان بچیوں کے رشتے تک ایسی حرکت کی زد میں آ جاتے ہیں۔ اخلاقیات تو یہ ہے کہ ملزم کی بھی شناخت ایسے سوشل میڈیا پر جاری نہ ہو لیکن یہاں فرض شناسی بھی جرم ٹھہری۔ محکمانہ سزائیں ضرور ہونی چاہئیں۔ انٹرنل اکاؤنٹبیلٹی کا نظام بھی بہت سخت ہونا چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ احساس ذمہ داری بھی لازم ہے۔ اگر پولیس افسران ہی کسی قسم کی تحقیق کے بغیر سوشل میڈیا کی بھیڑ چال میں اپنے ماتحت ملازمین کی تذلیل کرنے لگیں گے تو کونسا ماتحت کام کرے گا۔ اعلیٰ پولیس افسران محض ایک ویڈیو یا پوسٹ کے دباؤ میں معاملے کی انویسٹی گیشن تک نہ کریں، ملزم کو ہیرو بنا دیں اور ہیرو کو اتنا ذلیل کر دیں کہ اس کی ساری عمر کی نیک نامی تباہ ہو جائے تو پھر کس کے سامنے رونا روئیں؟ سوچتا ہوں کہ ایک ایس ایچ او کی فرض شناسی کو سنگین جرم بنا کر سوشل میڈیا پر پوسٹ لگانے اور مقدمہ درج کرنے پر کیا پولیس کے اعلیٰ افسران پر بھی پیکا ایکٹ لگے گا یا یہ صرف صحافیوں اور عام شہریوں کے لیے ہی ہے۔ آر پی او ملتان اور آئی جی پنجاب سے گزارش ہے کہ اس ایس ایچ او کی تالیف قلب آپ پر فرض ہے۔ جس طرح قانون شکن شہری کو بلا کر چائے پلائی گئی اب اس ایس ایچ او اور اس کی فیملی کو بھی دفتر بلا کر چائے پلانی چاہیے، اسے اچھی کارکردگی پر کیش انعام اور سرٹیفیکٹ دینا چاہیے تاکہ فرض شناس اور قانون شکنوں میں فرق واضح ہو۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: سوشل میڈیا پر اس ایس ایچ او ایس ایچ او کو پی او ملتان حوالات میں آر پی او کی کوشش اور اس کی گئی
پڑھیں:
گھر کا بھیدی ہی چور نکلا؛ شہری سے 40 لاکھ کے زیورات چھیننے کا ڈراپ سین
لاہور:گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے کا محاورہ عملی صورت میں نظر آگیا، صوبائی دارالحکومت میں شہری سے 40 لاکھ کے زیورات چھیننے کا ڈراپ سین ہوگیا، جس میں مدعی کا ملازم ہی چور نکلا۔
پولیس کے مطابق لاہور کے علاقے لٹن روڈ میں شہری سے 40 لاکھ مالیت کے طلائی زیورات چھیننے کی واردات میں مدعی مقدمہ کا نجی ملازم ہی مرکزی ملزم نکلا۔
ڈی آئی جی انویسٹی گیشن سید ذیشان رضا نے واردات کا نوٹس لیتے ہوئے انویسٹی گیشن پولیس کو ملزمان کو تلاش کرکے طلائی زیورات برآمد کرنے کا ٹاسک دیا تھا، جس پر پولیس ٹیم نے کارروائی کرتے ہوئے مرکزی ملزم عرفان علی اور اس کے ساتھی فیصل کو گرفتار کر لیا۔
ملزمان سے 40لاکھ مالیت کے طلائی زیورات اور ناجائز اسلحہ بھی برآمد کیا گیا ہے۔ ملزم عرفان علی مدعی مقدمہ کا نجی ملازم تھا اور مدعی مقدمہ نے ملزم عرفان کو جیولر سے 13تولےکے طلائی زیورات لینےکے لیے بھیجا تھا، جس پر ملزم نے اپنے ساتھی ملزمان کے ساتھ مل کر واردات کرنے کا پلان بنایا۔
پولیس کے مطابق ملزم عرفان علی جب طلائی زیورات لے کر ایل او ایس نالے پر پہنچا تو پلان کے مطابق ساتھی ملزمان گن پوائنٹ پر زیورات چھین کر فرار ہو گئے۔ ملزمان کو جدید ٹیکنالوجی اور ہیومن انٹیلیجنس کی مدد سے گرفتار کیا گیا۔
حکام کے مطابق پولیس پراسیکیوشن پارٹنر شپ کی مدد سے گرفتار ملزمان کو قرار واقعی سزا دلوائی جائےگی۔ عوام کے جان و مال کے تحفظ کےلیے انویسٹی گیشن پولیس ہمہ وقت کوشاں ہے۔ جرائم پیشہ عناصر سے آہنی ہاتھوں کےساتھ نمٹاجائےگا ۔