پی ٹی آئی حکومت میں آ کر کب کی جا بھی چکی، بانی جیل میں زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں لیکن اصل پراجیکٹ اب بھی آگے بڑھ رہا ہے۔ عام تاثر ہے کہ بانی پی ٹی آئی کا سب سے بڑا گناہ گالی کلچر کو عام کرنا ہے لیکن عمران خان کا سب سے بڑا قصور یہ نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کا آلہ کار بن کر غیر سیاسی قوتوں کو حکومتی امور میں انتہائی نچلی سطح پر ایسی رسائی دینا ہے جس کی واپسی اب ناممکن نظر آتی ہے۔ پراجیکٹ نیا پاکستان کے تحت سب سے پہلے میڈیا میں گند گھولا گیا۔ ٹائوٹوں کو بھاری تنخواہوں پر ماؤتھ پیس بنا کر چینلوں میں اینکروں سمیت اہم پوزیشنوں پر بٹھایا گیا۔ خبر کا تصور ختم کر کے سارا رخ جھوٹے پراپیگنڈے کی جانب موڑ دیا گیا۔ اس دور میں آزادی صحافت کی آڑ لے کر نوے فیصد میڈیا ہاؤسز اتنے سر پھرے ہو گئے کہ جرنیلوں کے سوا ہر کسی پر بے ہودہ الزامات لگا کر تمسخر اڑانے لگے۔ ان کی ڈوریاں طاقت کے اصل مراکز سے ہلتی تھیں اس لیے سول حکمرانوں سمیت سب بے بس تھے۔ صحافت اور صحافیوں کے حوالے سے یہ بہت تکلیف دہ دور تھا۔ اس کے ساتھ ہی ریاستی سرپرستی میں قومی خزانے سے ٹریننگ پانے والے سوشل میڈیا بریگیڈ نے وہ غلاظت بکھیری جس کی مثال نہیں ملتی۔ آج ان میں سے اکثر اپنے ہی تخلیق کاروں کے گلے پڑے ہوئے ہیں تو پیکا جیسے قوانین لا کر ڈیجیٹل دہشت گردی کرنے والوں کے ساتھ پروفیشنل صحافت کرنے والوں کو بھی دھمکایا جا رہا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے حکومتی ترجمان عمران خان دور کے وزیر اطلاعات فواد چودھری نے تحمکانہ انداز میں کہا تھا کہ اخبارات بند کریں گے، چینلوں کو صرف انٹر ٹینمنٹ (ناچ، گانے، ڈراموں، فلموں) تک محدود کردیا جائے گا۔ فواد چودھری نے والدین کو نصیحت کی کہ وہ اپنے بچوں کو صحافت کی تعلیم لینے سے روک دیں۔ فواد چودھری حکومت سے نکل گئے، بے عزت بھی ہوئے، پھینٹی بھی کھائی لیکن ذرا آنکھیں کھول کر دیکھیں میڈیا انڈسٹری کا کیا حال ہے؟ سب کچھ بند کرنے کا سفر رُکا نہیں، دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اخبارات اور ٹی وی ختم ہو رہے ہیں جب کہ دنیا میں آج بھی ہر بڑی خبر واشنگٹن پوسٹ، گارڈین، فنانشنل ٹائمز، نیویارک ٹائمز، چائنا ڈیلی، گلف نیوز اور دیگر اخبارات ہی شائع کرتے ہیں۔ ہر ملک میں چینلوں کی لمبی قطاریں ہیں، پاکستان میں اب بھی کہا جا رہا ہے کہ سب کو سوشل میڈیا کی طرف جانا ہو گا جہاں چاہت فتح علی خان، رجب بٹ، مفتی قوی، جنت مرزا وغیرہ جیسے نمونے سپر سٹار ہیں جو اخلاقی اور معاشرتی اقدار کا جنازہ نکال رہے ہیں، ڈیجیٹل دہشت گردی کی کمانڈ معید پیرزادوں اور عمران ریاضوں وغیرہ نے سنبھالی ہوئی ہے۔ اگر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا متبادل یہی ہے تو پھر صحافت تو ختم ہو گئی۔ پراجیکٹ پاکستان کے لیے عدلیہ کو بھی لگام ڈالنا تھی جو ثاقب نثار جیسے ججوں کی وجہ سے بڑی حد تک کامیابی سے ہمکنار ہو گئی تھی۔ پھر عمران خان کی حکومت کے تحریک عدم اعتماد سے فراغت کا لمحہ آیا تو فیض نیٹ ورک کے ججوں نے اپنے سرپرستوں کی آشیر باد سے بغاوت کر دی۔ معاملہ اس حد تک بگڑا کہ نو مئی جیسے سنگین ترین واقعہ کو بھی مذاق بنا دیا گیا۔ چیف جسٹس بندیال نے عمران خان کو گڈ ٹو سی کہہ کر پورا ماحول بدل ڈالا۔ اسلام آباد اور لاہور ہائی کورٹوں سے ججوں کے ایسے ایسے ریمارکس سامنے آئے کہ الٹا متاثرہ فریق تماشا بن گیا۔ اہل دانش اور سنجیدہ حلقوں نے بہت کوشش کی کہ عدلیہ کا ایک حصہ اپنی حدود میں رہے تاکہ ملکی نظام اور اداروں کی ساکھ زیادہ متاثر نہ ہو لیکن عمرانی محبت اور نادیدہ قوتوں کی تھپکیوں کے سبب بپھرے ہوئے ججوں نے کان نہیں دھرے۔ پہلے پولیس اور انتظامی افسروں کے خلاف آرڈر پاس کیے پھر فوج اور آئی ایس آئی کے متعلق بھی منفی ریمارکس دینا شروع ہو گئے۔ خرابی اتنا بڑھ چکی تھی کہ فیض حمید کی گرفتاری کے بعد بھی سلسلہ جاری رہا آخر کار 26 ویں آئینی ترمیم لانا ضروری ہو گئی۔ پہلے جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس آف پاکستان بننے کی ریس سے نکل گئے، پھر جسٹس محسن کیانی اسلام آباد ہائی کورٹ کی سربراہی سے محروم کر دئیے گئے۔ اس عرصے کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جو قانون کی کتاب کے مطابق فیصلے کرنے کی شہرت رکھتے ہیں ڈٹے رہے لیکن سسٹم کو دبنگ اور صاف ستھرا جج گوارا نہیں تھا اس لیے انہیں عمر کی حد کے قانون کا فائدہ دینے سے پہلے ہی رخصت کر دیا گیا۔ اب جب کہ میڈیا اور عدلیہ دونوں کے قلعے سر ہو چکے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کو اپنی پالیسی کا پھر سے جائزہ لینا چاہیے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو معمول کے مطابق چلنے دیں، جھوٹی خبروں کے حوالے سے پہلے ہی جامع قوانین موجود ہیں۔ ان پر مؤثر عمل درآمد کرا کے حقیقی صحافت کو فروغ دیں۔ سوشل میڈیا کی غلاظت پر زیادہ شدت سے ایکشن لینے کے لیے الگ سے نئے قوانین بنانے میں کوئی ہرج نہیں۔ عدلیہ سے نکمے، کرپٹ اور سیاسی جج نکال کر فیصلے آئین و قانون کے مطابق میرٹ پر کرنے دیں، اب جب کہ ایک بار پھر ثابت ہو چکا کہ پاکستان کے معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار کم نہیں کیا جا سکتا۔ اگر میڈیا اپنی صحافتی اور عدلیہ اپنی آئینی و قانونی حدود میں رہ کر کام کرتے رہیں تو اس سے مقتدرہ کی طاقت کم نہیں ہو گی۔ ملکی نظام زیادہ بہتر انداز میں چلے گا، پاکستان کی ساکھ بہتر ہو گی۔
.ذریعہ: Nai Baat
پڑھیں:
عمران خان کی ہٹ دھرمی، اسٹیبلشمنٹ کا عدم اعتماد، پی ٹی آئی کا راستہ بند
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)حکومت کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کشیدگی میں کمی کیلئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کچھ رہنماؤں اور سابق رہنماؤں کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کے باوجود پارٹی کی تصادم کی راہ پر چلنے کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس میں رکاوٹ خود عمران خان بنے ہوئے ہیں جن کے سمجھوتہ نہ کرنے کے موقف کی وجہ سے مصالحت کے جانب بڑھنے میں رکاوٹیں پیش آ رہی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی میں (جیل کے اندر اور باہر موجود) سینئر شخصیات خاموشی کے ساتھ سیاسی مذاکرات کیلئے کوششیں کر رہے ہیں، دلیل دے رہے ہیں کہ تصادم کی پالیسی نے صرف پارٹی کو تنہا کیا ہے اور اس کیلئے امکانات کو معدوم کیا ہے۔ تاہم، ان کی کوششوں کو کوئی کامیابی نہیں مل رہی کیونکہ عمران خان حکمران سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کے حوالے سے دوٹوک موقف رکھتے ہیں۔ کوٹ لکھپت جیل میں قید پی ٹی آئی کے سینئر رہنماؤں کی جانب سے کھل کر حکمران سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کرنے کے چند روز بعد ہی عمران خان نے اڈیالہ جیل سے سخت الفاظ پر مشتمل ایک پیغام جاری کرتے ہوئے اس تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔ 8؍ جولائی کے بیان میں عمران خان نے واضح طور پر کہا کہ ’’مذاکرات کا وقت ختم ہو چکا ہے‘‘ اور ساتھ ہی رواں سال اگست میں ملک بھر احتجاجی مہم کا اعلان کیا۔ عمران خان کے پیغام نے موثر انداز سے ان کی اپنی ہی پارٹی کے سینئر رہنماؤں (بشمول شاہ محمود قریشی اور دیگر) مصالحتی سوچ کو مسترد کردیا ہے۔ یہ لوگ حالات کو معمول پر لانے کیلئے منطقی سوچ اختیار کرنے پر زور دے رہے تھے۔ سیاسی مبصرین کی رائے ہے کہ جب تک عمران خان اپنے تصادم پر مبنی لب و لجہے (خصوصاً فوجی اسٹیبلشمنٹ کیخلاف) پر قائم رہیں گے اس وقت تک پی ٹی آئی کیلئے سیاسی میدان میں واپس آنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ پی ٹی آئی کے اپنے لوگ بھی نجی محفلوں میں اعتراف کرتے ہیں کہ پارٹی کے بانی چیئرمین اور پارٹی کا سوشل میڈیا جب تک فوج کو ہدف بنانا بند نہیں کرے گا تب تک بامعنی مذاکرات شروع نہیں ہو سکتے۔ تاہم، اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر پی ٹی آئی اپنا لہجہ نرم بھی کر لے تو فوجی اسٹیبلشمنٹ کا عمران خان پر عدم اعتماد بہت گہرا ہے۔ گزشتہ تین برسوں میں فوج کی قیادت پر ان کی مسلسل تنقید نے نہ صرف موجودہ کمان بلکہ ادارے کی اعلیٰ قیادت کے بڑے حصے کو بھی ناراض کر دیا ہے۔ اگرچہ عمران خان پی ٹی آئی کی سب سے زیادہ مقبول اور مرکزی شخصیت ہیں، لیکن ذاتی حیثیت میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کی ساکھ خراب ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی سیاسی بحالی کا انحصار بالآخر متبادل قیادت پر ہو سکتا ہے مثلاً شاہ محمود قریشی یا چوہدری پرویز الٰہی جیسے افراد، جو مقتدر حلقوں کیلئے قابلِ قبول ہو سکتے ہیں۔ تاہم، موجودہ حالات میں پی ٹی آئی کی سیاست عمران خان کے ہاتھوں یرغمال ہے، مذاکرات پر غور سے ان کے انکار کی وجہ سے سیاسی حالات نارمل کرنے کیلئے گنجائش بہت کم ہے، اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مصالحت کے معاملے میں تو اس سے بھی کم گنجائش ہے۔ عمران خان کے آگے چوائس بہت واضح ہے: تصادم اور تنہائی کی سیاست جاری رکھیں، یا ایک عملی تبدیلی کی اجازت دیں جو پی ٹی آئی کی سیاسی جگہ بحال کر سکے۔ اس وقت، فواد چوہدری اور عمران اسماعیل کی تازہ ترین کوششوں کے باوجود، تمام اشارے اول الذکر چوائس کی طرف نظر آ رہے ہیں۔
انصار عباسی