متحدہ عرب امارات کی غیر تیل تجارت 3 ٹریلین درہم کی تاریخی حد عبور کر گئی
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
دبئی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 06 فروری2025ء) متحدہ عرب امارات کی غیر تیل تجارت 2024 کے اختتام تک پہلی بار 3 ٹریلین درہم کی تاریخی حد عبور کر گئی۔متحدہ عرب امارات کی نیوز ایجنسی وام کے مطابق متحدہ عرب امارات کے نائب صدر، وزیر اعظم اور دبئی کے حکمران، شیخ محمد بن راشد المکتوم نے کہا ہے کہ ملک کی غیر تیل تجارت 2024 کے اختتام تک پہلی بار 3 ٹریلین درہم (815.
(جاری ہے)
انہوں نے بتایا کہ 2024 میں، متحدہ عرب امارات کی غیر تیل تجارت نے 14.6 فیصد ترقی حاصل کی، جو عالمی اوسط سے سات گنا زیادہ ہے۔جامع اقتصادی شراکت داری کے معاہدے’’سیپا‘‘، نے ہمارے غیر تیل تجارتی حجم میں 135 بلین درہم کا اضافہ کیا، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 42 فیصد زائد ہے۔انہوں نے مزید بتایاکہ2021 میں، ہم نے 2031 تک سالانہ 4 ٹریلین درہم تک غیر تیل تجارت پہنچانے کا ہدف مقرر کیا تھا، لیکن 2024 کے اختتام تک ہم پہلے ہی 75 فیصد ہدف حاصل کر چکے ہیں۔عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) کے مطابق، 2024 میں عالمی تجارتی ترقی میں محدود اضافہ دیکھا گیا، جس میں سامان کی تجارت کی مقدار میں 2.4 فیصد اور قدر میں 1.6 فیصد اضافہ ہوا۔اس کے برعکس، متحدہ عرب امارات کی غیر تیل تجارت میں 14.6 فیصد اضافہ ہوا، جو عالمی رجحانات سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔متحدہ عرب امارات کی غیر تیل اشیاء کی برآمدات میں نمایاں ترقی دیکھنے میں آئی ہے، جس میں 27.6 فیصد اضافہ ہوا اور یہ 561.2 بلین درہم تک پہنچ گئیں۔ غیر تیل تجارت میں برآمدات کا حصہ بھی نمایاں طور پر بڑھا، جو 2023 میں 16.8 فیصد اور 2019 میں 14.1 فیصد کے مقابلے میں 2024 میں 18.7 فیصد تک پہنچ گیا۔ 2024 میں غیر تیل درآمدات میں بھی 14.2 فیصد کی نمو دیکھی گئی، جس کے بعد ان کی مالیت 1.701 ٹریلین درہم تک پہنچ گئی۔2024 میں متحدہ عرب امارات کی اہم برآمدی اشیاء میں سونا، زیورات، سگریٹس، پیٹرولیم مصنوعات، ایلومینیم، کاپر وائر، پرنٹڈ میٹریلز، پرفیوم، اور آئرن مصنوعات شامل تھیں جبکہ اہم درآمدی اشیاء میں سونا، موبائل فون، پیٹرولیم آئل، آٹوموبائل، زیورات، ہیرے اور کمپیوٹرز شامل تھیں۔ \932ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے متحدہ عرب امارات کی غیر تیل تجارت ٹریلین درہم
پڑھیں:
مالی سال 2025 میں وفاقی خسارہ کم ہو کر 7.1 ٹریلین روپے رہا، وزارت خزانہ کا دعویٰ
وزارتِ خزانہ نے کہا ہے کہ حکومت کی قرضہ حکمتِ عملی کا مقصد قومی قرضوں کو معیشت کے حجم کے مطابق رکھنا، قرضوں کی ری فائنانسنگ اور رول اوور کے خطرات کم کرنا اور سود کی ادائیگیوں میں نمایاں بچت یقینی بنانا ہے تاکہ ملکی مالی استحکام کو پائیدار بنایا جا سکے۔
وزارت خزانہ نے اپنے ایک بیان میں واضح کیا ہے کہ صرف قرضوں کی مطلق رقم دیکھ کر ملکی قرضوں کی پائیداری کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا، کیونکہ افراطِ زر کے ساتھ مجموعی رقم کا بڑھنا فطری ہے۔
قرضوں کی پائیداری کا درست پیمانہ یہ ہے کہ انہیں معیشت کے حجم کے تناسب یعنی قرض اور جی ڈی پی کے حوالے سے جانچا جائے، جو عالمی سطح پر بھی معیار مانا جاتا ہے۔
Pakistan’s external debt-to-GDP ratio remained unchanged in FY25 at 25%, marking a 7-year low and slightly below the 10-year average of 26%. This stability reflects that, despite a 5.6% increase in external public debt in US$ terms (7.6% in PKR terms), growth was outpaced by an… pic.twitter.com/6X7YjdWhC0
— Topline Securities Ltd (@toplinesec) September 10, 2025
’اس پیمانے پر پاکستان کی صورتحال بہتر ہوئی ہے اور مالی سال 2022 میں قرضوں کی شرح 74 فیصد تھی جو مالی سال 2025 میں کم ہو کر 70 فیصد رہ گئی۔‘
اس دوران حکومت نے قرضوں کے خطرات کم کیے اور عوام کے اربوں روپے سود کی ادائیگیوں سے بچائے ہیں۔
وزارتِ خزانہ نے بتایا کہ حکومت نے پہلی بار ملکی تاریخ میں 2,600 ارب روپے کے قرضے قبل از وقت واپس کیے، جس سے قرضوں کے خطرات کم ہوئے اور سینکڑوں ارب روپے کی سود کی بچت ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں: ملکی قرضوں میں نمایاں اضافہ، ہر پاکستانی کتنا مقروض؟
مالی نظم و ضبط کے باعث مالی سال 2025 میں وفاقی خسارہ کم ہو کر 7.1 ٹریلین روپے رہا جو گزشتہ سال 7.7 ٹریلین روپے تھا۔
معیشت کے حجم کے حساب سے خسارہ 7.3 فیصد سے گھٹ کر 6.2 فیصد پر آ گیا ہے، جبکہ مسلسل دوسرے سال 1.8 ٹریلین روپے کا تاریخی پرائمری سرپلس بھی حاصل کیا گیا۔
اس دوران مجموعی قرضوں میں سالانہ 13 فیصد اضافہ ہوا جو پچھلے 5 سال کے اوسط 17 فیصد سے کم ہے۔
مزید پڑھیں: موڈیز نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ میں اضافہ کر دیا، آؤٹ لک ‘مستحکم’ قرار
وزارت خزانہ نے مزید بتایا کہ محتاط قرض مینجمنٹ اور شرح سود میں کمی کے نتیجے میں مالی سال 2025 میں سود کی مد میں بجٹ کے مقابلے میں 850 ارب روپے کی بچت ہوئی۔
رواں مالی سال کے بجٹ میں سود کی ادائیگی کے لیے 8.2 ٹریلین روپے رکھے گئے ہیں، جو گزشتہ سال 9.8 ٹریلین روپے تھے۔ قبل از وقت قرضوں کی واپسی سے قرضوں کی میچورٹی مدت بہتر ہوئی ہے، جس سے قرضوں کے خطرات کم ہوئے ہیں۔
’مالی سال 2025 میں پبلک قرضوں کی اوسط میچورٹی 4.0 سال سے بڑھ کر 4.5 سال ہو گئی ہے، جبکہ ملکی قرضوں کی اوسط میچورٹی بھی 2.7 سال سے بڑھ کر 3.8 سال سے زائد ہو گئی ہے۔‘
مزید پڑھیں: امریکا پاکستان تجارتی ڈیل! پاکستان کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟
وزارت خزانہ نے کہا کہ بہتر مالی نظم و ضبط کا اثر بیرونی شعبے پر بھی مثبت پڑا ہے اور مالی سال 2025 میں 14 سال بعد پہلی بار 2 ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ریکارڈ کیا گیا ہے، جس سے بیرونی مالی دباؤ میں کمی آئی ہے۔
’بیرونی قرضوں میں جزوی اضافہ ادائیگیوں کے توازن کے لیے حاصل سہولیات مثلاً آئی ایم ایف کے توسیعی فنڈ پروگرام اور سعودی آئل فنڈ جیسی نان کیش سہولیات کی وجہ سے ہوا، جن کے لیے روپے میں ادائیگی نہیں کرنی پڑتی۔
وزارت خزانہ کے مطابق تقریباً 800 ارب روپے کا اضافہ صرف زرمبادلہ کی قدر میں کمی کی وجہ سے ہوا ہے، نہ کہ نئے قرض لینے سے۔
مزید پڑھیں:امریکا کا پاکستان سے معدنیات اور کانکنی کے شعبے میں تعاون بڑھانے پر زور
وزارتِ خزانہ نے کہا کہ محض اعداد و شمار دیکھ کر قرضوں کی صورتحال کا اندازہ لگانا درست نہیں، حقیقت یہ ہے کہ آج پاکستان کی قرض صورتحال پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ پائیدار ہے۔
’حکومت کا قرض و معیشت کے متوازن تناسب پر توجہ دینا، قبل از وقت قرضوں کی ادائیگیاں، سود کی لاگت میں کمی اور بیرونی کھاتوں کا استحکام، ملکی معیشت کو سنبھالا دینے، خطرات کم کرنے اور ذمہ دارانہ مالی نظم و ضبط کے عزم کی عکاسی کرتے ہیں۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افراط زر بجٹ شرح سود قرض قرض مینجمنٹ مالی استحکام وزارت خزانہ